مکرمی! تصوف ومعرفت پر آج جب کہ
چاروں طرف سے تہمتوںاور بے بنیاد الزامات کی یلغار جاری ہے ۔ تصوف کے
مخالفین اتنے جری اور بہادر ہوگئے ہیں کہ ان کے نزدیک تصوف ایک ایسی قبیح
اور مذموم چیز تصور کی جارہی ہے جس سے شہادت ساقط اور عدالت زائل ہوجاتی ہے
۔ ثقاہت مجروح اور خبر نامقبول ہوجاتی ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اس
سوال کا جواب جب ہم تلاش کرتے ہیں تو ہمارے سامنے جو منظر نامہ آتاہے وہ
یہ ہے کہ فی زمانہ تصوف ومعرفت کی اصل اور اس کے حقائق و معارف سے یک سر
ناآشنا جاہل اور نام نہاد صوفیہ نے تصوف کو بازیچۂ اطفال بنا کررکھ دیا
ہے ۔ جس کی وجہ سے معاندینِ تصوف ، تصوف ہی کو مسلسل مشق ستم بنارہے ہیں ۔
ایسے پُرآشوب دور میں علم و فضل کی دھرتی الٰہ آباد سے ـ’’الاحسان ‘‘
جیسے تصوف و معرفت کے حقائق و معارف پر مبنی علمی ، تحقیقی و دعوتی مجلے کا
اجرا ایک مہتم بالشان کارنامے سے کم نہیں ۔ محب گرامی مولانا مظہر حسین
علیمی صاحب کے توسط سے ’’الاحسان ‘‘ کا تیسرا شمارہ نظر نوازہوا۔ پہلا
شمارہ دیکھنے کو ملا تھا ، لیکن دوسرے شمارے سے ناچیز محروم رہا ۔ خیر !
’’نقاشِ نقشِ ثانی بہتر کشد زاول‘‘ کے مصداق اس رسالے کی آب و تاب اور دل
کشی میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا وہ ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔موضوع
و مواد کے اعتبار سے یہ رسالہ جامعیت کا آئینہ دار ہے۔
’’الاحسان ‘ ‘ کے وسیلے سے مادہ پرستی کے اس دور میں روحانیت و تصوف کا
علمی و تحقیقی اور دعوتی نہج پرجو پاکیزہ کام آپ حضرات نے شروع کیا ہے وہ
یقینا قابل تقلید بھی ہے اور تحسین بھی۔ اور کیوں نہ ہوکہ اس رسالے کو
قیادت حاصل ہے مخلص و مدبر حضرت شیخ ابو سعید احسان اللہ محمدی صفوی دام
ظلہ کی ، … جن کے مخلصانہ اور محبت آمیز رویے کے بارے میں کئی دوستوں سے
سنا ہے ۔سبحان اللہ ! دعا ہے کہ حضرت قبلہ کی قیادت میں ’’الاحسان ‘‘ کا یہ
روحانی و عرفانی کاررواں اکناف عالم میں تصوف و روحانیت کی شمعیںاسی طرح
روشن کرتارہے۔(آمین)
’’الاحسان ‘‘ کی بزم محبت میں اپنے گراں قدر مضامین و مقالات کے ساتھ جو
حضرات شرکت کررہے ہیں ، ان کے نام آج علمی و ادبی دنیا کے افق پر محتاج
تعارف نہیں ہیں۔ ایسی شخصیات کے رشحاتِ خامہ کا کسی رسالے کی زینت بننا ہی
اُس رسالے کے بلند معیار کا پتا دیتا ہے۔ جملہ مشمولات اپنے موضوع کاحق ادا
کرتے ہیں ۔ بادۂ کہنہ کا انتخاب کافی عمدہ ہے۔ تذکیر میں مصلح امت حضرت
مولانا محمد عبدالمبین نعمانی صاحب کا مضمون کافی پسند آیا ۔ حضرت نعمانی
صاحب قبلہ کی تحریریں اصلاحِ معاشرہ کے زیور سے آراستہ ہوتی ہیں اور وقت
کے تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ، … تحقیق و تنقید میں تمام مضامین بہتر
ہیں ۔ ان اہل قلم نے جس طرح تحقیق کے موتی چن کر خوان قرطاس پر سجایا ہے اس
کی حوصلہ افزائی نہ کرنا غیر مناسب ہی ہوگا ۔ مولانا ضیاء الرحمن علیمی
صاحب نے حسب سابق ایک ایسے موضوع پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی جس پرقلم
اٹھانا ضروری بھی تھا، تاکہ فی زمانہ تصوف کے مخالفین اس بات کو سمجھ سکیں
کہ تصوف کی اصل سے ان کے پیشوابھی منکرنہیں تھے۔
پیر طریقت محقق عصر حضرت علامہ مفتی محمد عبیدالرحمن رشیدی صاحب قبلہ دام
ظلہ العالی اور خانقاہ رشیدیہ سے ناچیز ذاتی طورپر متاثر ہے ۔ حضرت کا انٹر
ویو اور خانقاہ کا تعارف پیش کرکے ’’الاحسان‘‘ کے عملے نے ایک بڑا کام
انجام دیا ہے ۔ یقین ہے کہ تزکیۂ نفس اور طہارت قلبی کے ایسے دوسرے روحانی
مراکز کے سجادگان اور خانقاہوں کا تعارف آیندہ شماروں کی زینت بنتا رہے گا
تاکہ تصوف پسند طبقہ ان خانقاہوں اور ان کی زریں خدمات سے واقف ہوتا رہے۔
’’الاحسان ‘‘ کا یہ تیسرا شمارہ چوں کہ ہند میں سرمایۂ ملت کے نگہبان حضور
مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مقدس نام سے منسوب ہے ۔ اس لیے
حضرت مجد د رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی گوشہ بھی ’’زاویہ‘‘ کے تحت پیش نظر
رسالے میں جگمگا رہا ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے
حوالے سے یہ مختصر ترین گوشہ حضرت کے کارناموں کا اجمالی منظرنامہ سہی لیکن
وقیع اور معلومات بخش ہے ۔
مبارک باد کے مستحق ہیں محترم حسن سعید صفوی صاحب اور ان کے جملہ اعوان و
انصار جنھوں نے مادہ پرستی کے عروج واقبال کے اس دور میں روحانیت و تصوف کا
چراغ روشن کیا ہے ۔ ان شآء اللہ اس چراغ کی روشنی رفتہ رفتہ اکنافِ عالم
میں پھیل کر بے چینیوں کے شکارطمانیتِ قلب کے متلاشیان کے دلوں کو تصوف و
معرفت کی روحانی کرنوں سے منور مجلا کرنے میں یقیناکامیاب و کامران ہوگی ۔
۱۹؍ ذی الحجہ ۱۴۳۳ھ /۵؍ نومبر ۲۰۱۲ء بروز پیر |