زادالسفر مماحضر

نام کتاب:زادالسفر مماحضر
مصنف :خواجہ قیام اصدق چشتی
صفحات :۱۶۰قیمت:۲۰۰روپے
ناشر:دارالاشاعت ،خانقاہ عالیہ اصدقیہ ،چشتی چمن ،پیربیگھہ شریف ،نالندہ (بہار)
مبصر:نورین علی حق

انیسویں صدی کے مجدد سلسلہ عالیہ چشتیہ، شیخ لافانی ،امام العصر حضرت خواجہ قیام اصدق صادقی فخری چشتی ؒ آخری ادوار کے ان مشائخ میں ہیں۔جوعلوم ظاہری وباطنی ہر دوسطح پر مالامال ہیں۔خواجہ موصوف نے نہ صرف یہ کہ عملی طور پر درجنوں سالکین راہ طریقت کو کندن بنادیا بلکہ ایسی ایسی بیش بہا اورشاہکار تصانیف وچھوڑیں کہ آج چارنسلوں کے بعد بھی نورین علی حق ان تصانیف وواعظ سے اپنی تالیف قلب کررہاہے۔درجنوں سے مراد صرف وہ حضرات صوفیہ ہیں ،جن کے یہاں کسی نہ کسی طرح بیعت وارشاداورتصوف واحسان کا سلسلہ جاری ہے۔ورنہ تو یہ تعداد ہزاروں میں جائے گی۔اوراگر دیکھا جائے تو وہ حضرات جن کے خانوادوں میں آج بھی بیعت وارادت کا سلسلہ جاری ہے اوران کی وجہ سے اگر ایک بھی گم تشتہ راہ صراط مستقیم کو پالیتا ہے تو بالواسطہ یہ کارنامہ حضرت خواجہ قیام اصدق صادقی فخری کا ہے۔اوراپنی تو یہ صورت ہے کہ اگر انیس کے اس مصرعہ میں کہ:
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں
کو ذرا بدل کر کچھ یوں پڑھ لوں تو شاید بے جانہ ہوگا کہ :
پانچویں پشت ہے اصدق کی مداحی میں
مزے کی بات یہ بھی ہے کہ میں ننہالی ودادی ہالی دونوں اعتبار سے پانچویں پشت کا غلام ہوں۔

خیرمیرے پیش نظر اس وقت حضرت خواجہ کی مشہورزمانہ معرکۂ آرا تصنیف’ زادالسفر مماحضر ،ہے جس کی دوسری اشاعت شیخ طریقت حضرت سید شاہ مشاہد اصدق چشتی کی نگرانی میں ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ حضرت خواجہ شاہ قیام اصدق صادقی جس زمانہ میں تھے اس وقت دقیق علمی بحث عام طور پر فارسی میں ہواکرتی تھی۔لہذا یہ کتاب بھی حضرت نے فارسی میں ہی تحریر کی تھی ۔جس کا اردو ترجمہ بعد کو بقول ڈاکٹر عین تابش،ریڈر شعبہ انگریزی مرزاغالب کالج ،گیا آپ کے حلقہ بگوش حضرت میر منور علی نے کیا۔اس کتاب میں متن اورترجمہ دونوں موجود ہے،جن سے قارئین استفادہ کرسکتے ہیں۔

یہ کتاب سالکین راہ تصوف کے لیے دستور حیات ہے۔ایک سالک کے شب وروزکس طرح گزرنے چاہئیں،سب کچھ کتاب میں موجود ہے۔کتاب کے مطالعہ کے دوران قاری یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتاکہ خواجہ موصوف اپنے مریدین ومتوسلین عقیدت مندوں اور بعد کی نسلوں کے لیے فکر مند ہیں۔یہ کتاب قاری کو کشاکش حیات سے نکال کر پرسکون ابدی زندگی کی طرف مائل کرتی ہے۔غالباً یہی وہ متصوفانہ افکار ونظریات ہیں، جو اپنے پلو میں اس صارنی زمانہ میں بھی عوام وخواص کوباندھے ہوئے ہیں۔زادالسفر یقینی طور پر زادالسفر ہے،جونہ صرف اعمال صالحہ پر ابھارتی ہے بلکہ بصیرت کے گنج ہائے گراں مایہ سے بھی نوازتی ہے ،خواجہ موصوف فرماتے ہیں:
’’ہرمرید ماراازیں ضروریست تاسرور نماید وغرورباید وظہور فرماید ومسافر شود تاسفر از وجود ووطن درشہود بود بہ زادالسفر مماحضرمسمی گشت سبب نام خواہندہ راومسببی فیض حق کفایت است ورنہ شکایت ازوبد بود ۔‘‘(ص ۱۴)
ترجمہ: میرے ہر مرید کے لیے اس کتاب کا پڑھنا ضروری ہے تاکہ وہ فرصت پائے اوردھوکا نہ کھائے اورحق اس پر ظاہر ہوجائے اورایسا مسافر بن جائے۔جو اپنی ہستی سے سفر کرنے والا ہواور جس کے ظن (گمان) میں سارا شہود سماجائے اوراسی وجہ سے اس کتاب کا نام زاد السفر مماحضررکھا گیاہے۔پڑھنے والے کے لیے کتاب کی وجہ تسمیہ اور اللہ تبارک وتعالی کا فیض مسبب ہوناکافی ہوگا۔اوراگر کافی نہ ہوتو اس کو اپنا شکوہ خود سے کرنا چاہئے۔اس لیے کہ خامی پڑھنے والے کی ہے نہ کہ کتاب کی یافیض حق کی۔

پوری کتاب میں اس طرح کے جواہر پارے ،بزرگوں کے احوال اورقارئین کی دل چسپی کے لیے حضرت نے رومی کے اشعار کو بھی نقل کیاہے۔حال،سماع وغیرہ پر بھی بھرپور اوربصیرت آمیز گفتگو کی ہے۔سماع پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔یہاں صرف ترجمہ نقل کررہاہوں :
’’اورحال میں جو کچھ بدنپرسے گرجائے جیسے چادر وغیرہ تو قوال کو دے دے۔خود نہ رکھے ،کیوں کہ ایسا کرنے سے وجد میں ترقی ہوتی ہے اورگری پڑی چیزسوائے بخیل کے کوئی دوسرا اٹھاتا بھی نہیں ہے۔اس لیے اس کو خدا پر توکل بھی نہیں ہوتاہے اورجو ایک کپڑے سے ہاتھ نہیں اٹھاسکتا دنیاوی تعلقات کو کیسے خیرباد کہہ سکتا ہے۔‘‘

ہر اس مرحلہ پر جہاں انسان بھٹکتا ہے وہاں اس کے لیے حضرت کی تحریر مینارۂ نور بن سکتی ہے۔آج مفروضہ مذہبی دنیا میں مسلک کے نام پر ’فساد فی الارض‘ کسی کو زبردستی اس کے مسلک سے نکال دینا ،اوصاف الو سے متصف بھر منہ پان کھا کر رات رات بھر دیگر مذاہب ومسالک کے پیروکاروں کو گالی گلوج کرنا مقبول عام فیشن ہے۔حضرت کی توجیہی گفگتو ملاحظہ کریں۔

’’میخانہ ہماں محبت است کہ سرور افزاید وغرور باید مرید راباید کہ ہیچ فرقہ رااز حق دور نہ پنداروہمہ را از معبود خدسرے است کہ بکارے دیگر داشتہ۔‘‘(ص۱۱۴)
یہ میخانہ وہی محبت الہی ہے،جو سرور کوبڑھاتا ہے اورغیر کو دور کرتاہے۔اورمرید کو چاہئے کہ مسلمانوں کے کسی فرقے کو حق سے الگ نہ سمجھے ۔ہرقوم کا اپنا معبود ہے اور وہ اللہ تعالی کا بھید ہے کہ ان کو دوسرے کام میں لگارکھا ہے۔(ص۱۱۵)

یہ چند مثالیں ہیں ورنہ پوری کتاب اس طرح کے اقتباسات سے بھری پڑی ہے۔جہاں بوالہوس کا گزرنہیں ہے۔عام طورپر کتاب کے مترجم سماع کا ترجمہ قوالی کرتے ہیں۔جب کہ آج قوالی اورسماع دومختلف المفہوم الفاظ ہیں۔خاص طور پر اس زمانہ میں تو سماع کا ترجمہ قوالی ہوہی نہیں سکتاکہ سماع سراپا روح کی غذا اورقوالی سراپا ہوس کی غذا ہے۔کتاب میں موجودہ سجادہ نشین مرکزی خانقاہ عالیہ اصدقیہ حضرت شاہ مشاہد اصدق چشتی اور معروف ادیب وشاعر ڈاکٹر عین تابش کی تحریریںبھی شامل ہیں۔ڈاکٹر عین تابش نے بھرپور وجدانی کیفیتوں سے سرشار ہوکر تصوف کے بارے میں بڑی اہم گفتگو کی ہے ۔ میں حضرت شاہ مشاہد اصدق چشتی کو مبارک باد پیش کرتاہوں کہ انہوں نے اتنی اہم اور بیش قیمت کتاب سے استفادہ کی راہ ہموار کی ۔ورنہ آج نئی نسل کے پیران طریقت کے اعمال اور ان کے غیر ذمہ دارانہ رویوں سے ایک عام آدمی تصوف سے بد ظن ہوسکتا ہے ۔آج بیشتر خانقاہوں میں نہ علم ہے ،نہ سوز دروں اور نہ اخلاص وللہیت کا کوئی شائبہ ۔ایسے میںتمام خانقاہوں بالخصوص خانقاہ اصدقیہ سے ارتباط کا دعوی کرنے والے مولوی نما حضرات کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور غیر متصوفانہ افکار کو بالاے طاق رکھ کرحضرت خواجہ کی بارگاہ علم وروحانیت میں جاروب کشی کرنی چاہئے ۔کمپوزنگ ،ٹائٹل اورصفحات اعلی معیار کے ہیں البتہ پروف ریڈنگ اورایڈیٹنگ کی بے شمار خامیاں کتاب میں نظر آتی ہیں۔
noorain ali haque
About the Author: noorain ali haque Read More Articles by noorain ali haque: 6 Articles with 8777 views apne andar ki talkhian bikherna aur kaghaz siyah karne ka shaoq hai.. View More