نا اہلوں کا راج ا ور رحمٰن ملکی سوچ

ملک پاکستان آج جن شدید ترین مشکل حالات سے دوچار ہے کم از کم مجھے نہیں یاد پڑتا کہ اس طرح کے حالات کا سامنا کبھی اس سے قبل اس ملک اور اس کے رہنے والوں کو ہوا ہو یا شاید آئندہ کبھی ہو کہ آج ملک کے کسی بھی گھر سے نکلے شخص کو بخیریت واپس آنے کا یقین تو کیا شائبہ بھی کم ہی ہوتا ہے کہ نجانے کب اور کہاں اسے کس طرح کے ھالات سے دو چار ہونا پڑ جائے،شرپسند اور دہشت گرد عناصر دنیا کے ہر ملک و ہر خطے میں پائے جاتے ہیں لیکن وہاں ان کو یوں کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملتا جس طر ح کی موج اپنے ہاں انہیں میسر ہے،کیوں کہ دنیا کے ان ملکوں کے قانون اورضابطے اتنے منظم اور مربوط ہوتے ہیں کہ اول تو اس قسم کا کوئی واقعہ خال ہی وقوع پذیر ہوتا ہے اور اگر ہو جائے تو وہ لوگ زمین کی تہہ سے بھی ذمہ داروں کو نکال لیتے ہیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ماضی قریب پہ ہی اگر ہم نظر دوڑائیں تو دس بارہ برس قبل امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا اس میں جو بھی شامل تھا، کس نے کیا وہ ایک الگ بحث ہے وہ اس وقت میرا موضوع نہیں ،مگر اس واقع کے بعد آج تک نہ صرف اس طرح کا دوسرا واقعہ وقوع پذیر نہیں بلکہ نائن الیون کے تمام کردار جن کو امریکہ نے اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں،اسی طرح پانچ سال قبل برطانیہ میں سیون سیون ہو،افی الفور تمام کے تمام مجرم نہ صرف گرفتار ہوئے مقدمہ درج ہوا تیز ترین تفتیش ہوئی جس سے نہ صرف میڈیا بلکہ اپنے عوام کو بھی اس سے آگاہ رکھا گیا اور عدالتوں کے فیصلوں کا مذاق اڑانے کے بجائے تمام لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ نمٹا دیا گیا،اور تو اور انڈیا ہمارا ہمسایہ جس کے دلی پہ یا ر لوگوں نے اپنا جھنڈا لہرانے کا عزم کر رکھا ہے ذرا سکو اور اس انڈیا کی کارکردگی تودیکھیئے کہ چند برس بیشتر منی نائن الیون ٹائپ حملوں میں جس میں چند دہشت گردوں نے ممبئی کے ہوٹلوں پر حملہ کیا حملہ آور تعداد میںنو تھے آٹھ کے ساتھ موقع پر ہی انصاف کر دیا گیا جبکہ ایک کو زندہ گرفتار کیا اور اس کو بھی گذشتہ روز پونا جیل میں اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا،یہ ہے معزز دنیا اور ان کا قانون،اب ذرا اپنے ہاں نظر ڈالیے،ایک سے ایک بڑھ کر بڑی کاروائی کی جا رہی ہے اور یہ دہشت گرد جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں بے گناہ افراد کو نشانہ بناتے ہیں، دنیا دہشت گردوں کو پکڑتی ہے پکڑ کے عدالت میں پیش کرتی ہے مظبوط اور مربوط چالان مرتب کر کے عدالت کے سامنے رکھتی ہے عدالت فیصلہ صادر کرتی ہے اور حکومت فی الفور اس پر عمل درآمد کر دیتی ہے حالانکہ دنیا کے پاس کوئی ً رحمٰن ملک ً بھی نہیں کہ جو حملوں سے پہلے بتا دے کہ اتنے دہشت گرد فلاں مقام سے چل پڑے ہیں اور اتنے فلاں شہر میں داخل ہو چکے ہیں اس کے باوجود کسی بھی ملک میں اگر کوئی ایک آدھ ایسا واقع ہو جائے تو اس سے سبق سیکھ کر آئندہ کے لیے ایسی منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ کسی دوبارہ جرات نہ ہو، اپنے ہاں اول تو کوئی پکڑائی دیتا ہی نہیں اگر کوئی پکڑا جائے تو فوراً نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے اور پھر کسی کو نہیں پتہ چلتا کہ وہ کون تھا اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا،ہر واردات کے بعد اپنے وزیر داخلہ قوم کو کوئی نہ کوئی نئی خوشخبری سنا دیتے ہیں کبھی موٹر سا ئیکل پر پابندی کی نوید تو کبھی موبائل فون کی بندش کا آرڈر،قوم یہ سب خوشی سے برداشت کر لیتی اگر اس سے ان کے جان و مال کو تحفظ ملتا ،بلکہ اگر یوں کہا جائے تو با لکل بے جا نہ ہو گا کہ اس سے عام افراد کی تکالیف میں مزید اضافہ ہی ہو تا ہے،امریکہ برطانیہ اور انڈیا کے علاوہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے اس طرح کے اوٹ پٹانگ فیصلے اور اقدامات کسی بھی حکومت نے نہ لیے جس سے اس کے شہری مصیبت واذیت میں مبتلا ہو جائیں مگر پھر کہنا پڑ رہا ہے کہ شاید ان کے پاس کوئی رحمٰن ملک نہیں،اپنے باکمال وزیر داخلہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کے بعد موٹر سائیکل پر ہی پابندی کے درپے ہو گئے اور ساتھ فرمان جاری کیا کہ موٹر سائیکل پر حکومت اتنے دن کے لیے پابندی لگا رہی ہے تمام لوگوں سے گذارش ہے کہ قانون کی پابندی اور احترام کریں سبحان اللہ یعنی دہشت گرد ہمارے قانون کے پابند ہیں،وہ تو ہیں ہی اس ملک و قوم کے دشمن جو قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیںوہ آپ کے قانون کے پابند تھوڑے ہیںجو آپ کی ان پابندیوں کو خاطر میں لائیں گے،اس قسم کے ڈنگ ٹپاﺅ اقدامات سے ان سماج دشمن عناصر کے حوصلے اور بلند ہو جاتے ہیں اورا ن کو اپنے مقاصد پو رے ہوتے نظر آتے ہیں کہ چلو یوں نہ سہی یوں سہی مقصد خلق خدا کو ذلیل کرنا ہے ،اب اسی طرح کے روایتی اقدامات محرم کے دوران میں بھی لیے جا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اب یہ رحمٰن ملکی سوچ بیورو کریسی اور انتظامیہ مین بھی سرایت کرتی جارہی ہے بلکہ کر چکی ہے کہ پورا علاقہ ہی سیل کر دو،نہ کوئی آئے نہ جائے ،،سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے،، گذشتہ رو ز ایک جلوس کو ملاحظہ کرنے کا موقع ملا ، منتوں ترلو ں کے بعد چھ ناکے کراس کر کے مقررہ مقام تک پہنچے اور وہ بھی بھلا ہو اصحافت کا کہ زندگی میں پہلی بار اپنے صحافی ہونے پہ فخر ہوا ورنہ ہمارے جیسے سینکڑوں لوگ جو دور دراز علاقوں سے سفر کر کے چکوال جلوس اور مجلس میں شرکت کے لیے آئے تھے کو ہر گلی اور سڑک پر لگائے گئے ناکے پر ذلیل و خوار ہوتے رہے،ان ناکوں پر پولیس کے ساتھ مقامی تنظیموں کے رضا کار بھی ہر جگہ مو جود تھے مگر مناسب تربیت اور ضروری ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمام رضا کار بھی اپنے ایک دن کے رحمٰن ملکی اختیارات کا بھر پور فائدہ اٹھاتے نظر آئے، جہاں ان ناکوں پر موجود پولیس اہلکاروں کا سارا زور عام افراد کو بے عزت کرنے پر تھا وہیں ان ر ضاکاروں کی ڈیوٹی شاید صحافیوں سے الجھنے اور ان سے بدتمیزی ہی کو انھوں نے اپنا فرض سمجھ رکھا تھا،آرا بازار کے ساتھ لگے ناکے پر متعدد افراد جو دور دراز علاقوں سے مجلس سننے آئے تھے کو پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں پٹتے بھی دیکھا او ایک فوجی جوان جو چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ وہ میر پور آزاد کشمیر سے باقاعدہ چھٹی لے کر اس جلوس میں شرکت کے لیے آیا ہے مگر اس کے چھوٹے بھائی سمیت نہ صرف اس کی لوگوں کے سامنے ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کی گئی بلکہ پولیس کے شیر جوان اسے پکڑ کر تھانہ سٹی کے آہنی پنجرے میں بند کروا آئے وہ علیحدہ بات کہ یہ بند کروانے والے بعد میں تھانے سے نکلے اور یہ نوجوان اور اس کا بھائی پہلے۔نجانے یہ عزاداروں کی کون سی خدمت تھی کہ ان کو جلوس اور مجلس میں شریک ہونے سے ہی روک دیا جائے،ناکہ کس لیے لگایا جاتا ہے صرف اس لیے کہ ہر گذرنے والے کی شنا خت کی جائے اور معقول جامہ تلاشی کے بعد اس کو جانے دیا جائے اگر ناکے کا مقصد سڑک اور گلی کی مکمل بندش ہے تو وہاں دس اہلکار اور پانچ چھ رضا کار کھڑے کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کے لیے تو خاردار تاروں کا بنڈل ڈال کے دو سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی جائے تو کافی ہے،یہ عجیب سیکورٹی ہے کہ کوئی بھی شخص جو باہر سے آیا ہے اند ر نہیں جا سکتا اور جو کسی نہ کسی طریقے سے اندر چلا گیا ہے وہ باہر نہیں جا سکتا،میںنے ایک دو جگہ جب ذمہ دار پولیس اہلکاروں سے سے اس سلسے میں بات کی تو جواب ملا جناب اوپر سے آرڈر ہیں اور جب مقامی رضاکاروں کے ایک گروپ لیڈر سے بات کی تو یو ں گویا ہوئے کہ جس نے جلوس میں آنا ہے وہ صبح آٹھ بجے سے پہلے امام بارگا ہ پہنچ جائے،حالانکہ جس شخص نے چکوال کے گرد و نواح سے آنا ہے اس کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ پہ آٹھ بجے سے قبل چکوال پہنچنا ممکن ہی نہی مگر کیا کیا جائے کہ اپنے ہاں کے معاملات ایسے ہی ہیں کہ سر کے بل کھڑا ہو کر دیکھا جائے تو سب کچھ سیدھا نظر آتا ہے،یہ تو بالکل اسی طرح ہے کہ کل کلاں نماز جمعہ کے لیے چونکہ ایک بڑ ی تعداد مسجدوں کا رخ کرتی ہے لہٰذا صبح دس بجے کے بعد مسجد کو تالا لگا دیا جائے کہ حالات خراب ہیں جس نے جمعہ پڑھنا ہے صبح نو بجے سے پہلے پہلے مسجد پہنچ جائے یا رائے ونڈ اجتماع شروع ہونے کے دوسرے اور تیسرے دن بھی بلکہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد صرف آخری روز دعا میں شرکت کرتی ہے کل کلاں اس پہ بھی پابندی لگ سکتی ے کہ جنھوں نے اجتماع میں شرکت کرنی ہے تین دن قبل پنڈال میں پہنچ جائیں،اس طرح نہ دہشت گردی کنٹرول کی جا سکتی ہے نہ ملک و قوم کی جان اس عفریت سے چھڑائی جا سکتی ہے اس سے نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف یہی ہے کہ اس کی بیخ کنی کے لیے ہر ادارہ اور ایجنسی اپنی اصل ذمہ داری کی طرف رجوع کرے یہ اکیلے کسی رحمٰن ملک کے بس کی بات ہے نہ ڈنگ ٹپاﺅ رحمٰن ملکی سوچ ہی اس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل پیدا کر سکتی ہے،،،اس کے لیے ایک مربطوط مکمل اور منظم بندوبست کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیاجائے اور جو بھی اس دہشت و بربریت کے ذمے دار ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے ورنہ خلق خدا اسی طرح کٹتی مرتی رہے گی اور اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو اس کے نتائج کتنے تباہ کن ہو سکتے ہیں اس کا تصور ہی بڑا ہولناک ہے،،،،،،،،،،