چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق
پرویز کیانی کا یہ بیان کہ کراچی میں فوجی آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں ، اس
لحاظ سے بروقت اور اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے مختلف حلقوں میں پائی جانے
والی چہ مگوئیوں، خدشات اور قیاس آرائیوں کا فوری خاتمہ ہوگیا ہے۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ کراچی اس وقت دہشت گردوں، بھتہ خوروں، جرائم پیشہ افراد کا
تختہ مشق بنا ہوا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے معمول بن چکے ہیں۔گلی کوچوں
میں گولیوں کی آوازیں ،سڑکوں پر ایمولینسوں کے سائرن اور میڈیا پر لہو میں
نہائے افراد کی تصاویر نے یہاں کے باسیوں کے اعصاب شل کرکے رکھ دیئے ہیں۔لا
قانونیت کی اس فضا میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ شہر میں قتل و غارت کے ذمہ دار غیرملکی عناصر ہیں جو
پاکستان کو عدم تحفظ کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن یہ الزام لگاتی ہے کہ
حکومت اور اس کے ادارے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسے بیانات کا
سہارالیتے ہیں۔ مگر حقائق پر گہری نظر رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ
کراچی میں امن وامان کا مسئلہ دراصل سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی کا نتیجہ ہے
۔ بعض تو یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ کراچی میں پائی جانے والی تمام
بیماریاں جن میں ٹارگٹ کلنگ اور دھماکے کے علاوہ بھتہ خوری اور لوٹ مار
شامل ہیں، کے ڈانڈے وہاں سرگرم سیاسی جماعتوں کی قیادت تک جا پہنچتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کراچی کے مسئلے کا حل طاقت سے زیادہ سیاسی
اورحکومت کی نیک نیتی پر ہے۔ اگر حکومت اپنے مفادات سے بالا ترہوکر پولیس
اور رینجرز کو بلاامتیاز کارروائی کا حکم دے تو چند دنوں میں تمام مسائل حل
ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا جنرل کیانی کا کراچی میں فوجی آپریشن کے حوالے سے موقف
موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی صائب معلوم ہوتا ہے۔
کراچی میں تعینات پولیس اور سول انٹیلی جنس اداروں کی جدید خطوط پر تربیت
کے ساتھ ساتھ ان کے عزت نفس ، وقار اور مراعات کا خیال رکھا جائے تو کوئی
وجہ نہیں کہ وہ لاقانونیت کے جن کو بوتل میں بند نہ کرسکیں۔ رینجرز کی
تربیت تو پہلے ہی پاک فوج کی نگرانی میں جدید خطوط پر ہورہی ہے۔ اس کا نظم
و ضبط اور کارکردگی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اس کے دستوں کی قیادت چونکہ
پاک فوج کے افسروں کے سپرد ہوتی ہے لہٰذاپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے لحاظ سے
بھی یہ کسی سے کم نہیں۔ رینجرز پہلے ہی سے کراچی میں امن وامان قائم کرنے
میں سول انتظامیہ کی مدد کررہی ہے۔ ان کی موجودگی میں پاک فوج کی وہاں
قطعاََ ضرورت نہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ کہنا کہ محرم الحرام میں
دہشت گردی پرقابو پانے کے لئے پاک فوج کے دستے تیار ہیں اور حکومت ہمیں
جہاں کہے گی فوج وہاں تعینات کردی جائے گی اور یہ کہ ہم خود سے کنٹرول نہیں
سنبھال سکتے کیونکہ آئین کے تحت سول حکومتیں فوجی دستوں کی تعیناتی کا
مطالبہ کرتی ہیں ان کے اس عزم کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاک فوج حکومت کے
زیر اثر اور آئین کے تحت ہی اپنے فرائض انجام دینا چاہتی ہے ۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان سے ان لوگوں کی ضرور حوصلہ شکنی ہوئی ہو
گی جو کراچی کے معاملے میں فوج کو گھسیٹنے کے متمنی تھے ۔ جنرل کیانی
انتہائی دور اندیش شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ پوری طرح آگاہ ہیں کہ فوج کو ایسے
معاملات سے دور ہی رہنا چاہئے کیونکہ ماضی میں جب بھی فوج کو ایسے مقاصد کے
لئے استعمال کیا گیا تو بعض عناصر کو اسے بدنام کرنے کا خوب موقع ملا۔ اس
طرح بہت سے نام نہاد داغ پاک فوج کے سر تھوپے گئے اور سیاسی قیادت انہیں
اپنے سر لینے سے یکسر مکر گئی۔ اس وقت پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ
دہشت گردی کے عفریت سے نمٹ رہی ہے اس تناظر میں کسی اور معاملے میں اسے
الجھاناملکی مفادات کے خلاف ہی تصور کیا جائے گا۔ جہاں تک کراچی میں امن
وامان کے مسئلے کا تعلق ہے تو جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے اس کا واحد حل
حکومت کی نیک نیتی میں مضمر ہے۔ اگر حکومت خلوص دل سے پولیس اور قانون نافذ
کرنے والے اداروں کو بلاامتیاز تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے
احکامات دے اور کسی بھی سیاسی ”سفارش“ کو خاطر میں نہ لائے توکراچی میں امن
وامان کی بحالی میں دیر نہیں لگے گی۔ |