برادرِ اعلیٰ حضرت استاذزمن
علامہ حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تخییلی وتحقیقی دامنِ حیات میں اب
تک زیادہ ترعوام اہل سنت یہی سمجھتی تھی کہ بس ذوقِ نعت اور آئینہ قیامت ہی
ہے ۔ ہاں! بعض کو ثمر فصاحت [دیوانِ غزلیات] کے بارے میں بھی علم ہے؛ لیکن
ایسے حضرات کی تعداد کم ہے ۔ جب کہ علامہ حسن رضا بریلوی ایک قادرالکلام
شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ مایہ نازادیب ، بلند پایہ محقق، احقاق حق اور ابطال
باطل میں جری اور سیرت و تذکرہ نگاری میںبھی اپنی مثال آپ تھے۔ مختصر یہ کہ
علامہ حسن رضا بریلوی نظم و نثر دونوں ہی میدانوں کے در شہوارتھے۔ آپ کی
تصانیف میں نظم و نثرکی تعداد کوئی17تک پہنچتی ہے ۔جس کی تفصیل کچھ اس طرح
ہے :
(1)ذوق نعت ، (2) وسائل بخشش (3) صمصمام حسن بردابرفتن(4)قند پارسی (5)ثمر
فصاحت (6)قطعات و اشعار حسن (7) دین حسن (8) نگارستان لطافت (9) آئینہ
قیامت (10) تزک مرتضوی (11) بے موقع فریادکے مہذب جوابات (12) سوالات حقائق
نما بر رؤس ندوۃ العلماء (13) فتاوی القدوۃ الکشف دفین الندوۃ(14) ندوہ کا
تیجہ رُوداد سوم کا نتیجہ(15) اظہار روداد(16) کوائف اخراجات (17) باقیات
حسن ۔
علامہ حسن رضا بریلوی کی ان گراں مایہ تصانیف کے نام ہی سے اہل نقدونظر
اندازہ کرسکتے ہیں کہ علامہ کا قلم صرف میدان شاعری ہی کاشہسوا ر نہ
تھابلکہ آپ کا اشہب قلم تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی سر پٹ دوڑتا تھا؛
لیکن اسے ہماری غفلت اور تساہلی ہی کہناچاہیے کہ اب تک ہم ایسے گراں قدر
جواہر پاروںکو منظر عام پر نہ لاسکے۔ آخر ہم اپنے علما کی تصانیف کو منصہ
شہود پر لانے کے تعلق سے کب بیدار ہوں گے ؟ علامہ حسن رضا بریلوی کی ان
تصانیف کی عدم اشاعت کودیکھ کر موصوف کو جماعت اہل سنت کی ایک مظلوم شخصیت
کہنامجھے بے جانہیں معلوم ہوتا۔
اللہ کا شکر ہے کہ لاہور سے محترم محمدثاقب رضا قادری نے ایک دلنواز اور
خوش کن خبر یہ سنائی کہ ہم علامہ حسن رضا بریلوی کے جملہ نثریہ و نظمیہ شہ
پاروں کو یکجاکرکے جلد ہی شائع کررہے ہیں۔ ثاقب صاحب نے اس ضمن میں مزید
بتایا کہ حضرت مولانا محمدافروز قادری چریاکوٹی بھی اس اہم ترین کام میں ان
کے شانہ بشانہ ہیں۔ یہ خوش خبری سن کر بے اختیار نہاں خانۂ دل سے اپنی
جماعت کے ان دو نوںجیالے ، فعال اور متحرک نوجوانوں کے لیے دعاے خیر نکلی ۔
ثاقب صاحب نے مزید کرم یہ فرمایا کہ برقی ڈاک کے ذریعہ کلیات حسن اور دیگر
جواہر پارے ناچیز کو اِرسال کیے۔ اور کلیات حسن اور رسائل حسن کے مجوزہ
سرورق کے بارے میں بھی اس ناچیز سے مشورہ طلب کیا، یہ ان کی خوش فہمی ہے؛
ورنہ من آنم کہ من دانم ۔
اس وقت میرے پیش نظربرادر اعلیٰ حضرت‘ شاگرد داغؔ استاذ زمن علامہ حسن رضا
بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی نعتیہ و بہاریہ شعری کائنات پر مشتمل’’ کلیاتِ
حسن ‘‘ہے۔ جس میں چھ منظوم جواہر پارے: ذوق نعت ، وسائل بخشش ، صمصمام حسن
بردابرفتن ، قند پارسی ، ثمر فصاحت ،اورقطعات و اشعار حسن شامل ہیں
۔مؤخرالذکر علامہ حسن رضا بریلوی کی کوئی مستقل تصنیف نہیں بلکہ علامہ کے
منتشر و متفرق قصائد وقطعات کا مجموعہ ہے جسے فاضل مرتبین نے قارئین کی
سہولت کے لیے ایک الگ رسالے کی شکل دے دی ہے۔
792 صفحات پر مشتمل اس وقیع کلیاتِ حسن کا انتساب مرتبین نے فصیح الملک ،
بلبل ہندوستان جناب نواب مرزاخان داغ دہلوی کے نام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’جن کی نگہ دل نوازسے مولانا حسن رضا بریلوی کی بہاریہ شاعری رشک باغ و
بہار ہوئی‘ ۔ اس میں کوئی شک نہیں خود داغ دہلوی بھی اپنے اس شاگرد رشید کو
بہت محبوب رکھتے تھے، اور علامہ حسن رضا کے دل میں بھی استاد داغ کے لیے
بڑا ادب و احترام تھا ، لکھتے ہیں ؎
حضرت استاد کے دیکھیں قدم چل کر حسنؔ
گر خدا پہنچادے ہم کو مصطفی آباد میں
اور علامہ کی غزلیہ و بہاریہ شاعری کے جوبن میں جو نکھار اور لذتِ سوز جگر
تھی اس کا اظہار کرتے ہوئے استاد داغ کو آپ نے اس طرح یاد کیا ہے ؎
کیوں نہ ہو میرے سخن میں لذتِ سوز وگداز
اے حسنؔ شاگرد ہوں میں داغؔ سے استاد کا
اس طرح سے کلیاتِ حسن کاانتساب حضرت داغ کی طرف کرکے مرتبین نے علامہ کے
اُستاد کی خدمت میں بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے، جو یقینا لائق ستایش اور
خلوص و للہیت کا آئینہ دار ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ کی وسیع تر شعری کائنات کا کماحقہ تعارف اَدا کرنے
کے لیے بڑی دیدہ وری اور علم و فہم کی ضرورت ہے ۔’کلیاتِ حسن‘ میں علامہ
حسن رضا بریلوی کے کل چھ منظوم شہ پارے شامل ہیں ۔ پیش نظر مختصر تبصراتی
مضمون میں آئیے کلیات میں شامل رسائل کا مختصر تعارف نشانِ خاطر فرمائیں :
ذوقِ نعت :
یہ علامہ حسن رضا بریلوی کی نعتوں کا دل کش مجموعہ ہے ۔ اس کی ترتیب میں
حروفِ تہجی کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ ردیفیں بڑی خوب صورت اور زمینیں مترنم ہیں
۔ ذوق نعت کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں
اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ۔علامہ حسن رضا بریلوی
کا نعتیہ کلام فن شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور
تمام تر فنی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع، فکر کی ہمہ
گیری، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات
جابجا ملتے ہیں۔آپ کے کلام میں اندازِبیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل
کی بلندی بھی، معنی آفرینی بھی ہے، تصوفانہ آہنگ بھی، استعارہ سازی بھی
ہے، پیکر تراشی بھی، طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی، کلاسیکیت
کا عنصر بھی ہے، رنگِ تغزل کی آمیزش بھی ، ایجاز و اختصاراور ترکیب سازی
بھی ہے، عربی اور فارسی کا گہرا رچاو بھی ۔علاوہ ازیں بعض زمینیں اتنی مشکل
اور سنگلاخ ہیں کہ جس میں طبع آزمائی کرنا نعت کے تنگناے میں بڑی
قادرالکلامی کی متقاضی ہے ، لیکن ذوق نعت کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ ایسے
مواقع پر کامیابی و کامرانی نے علامہ کے قلم کو بوسے دیے ہیں ۔
ذوقِ نعت میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے
۔حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضی ، حضرت
امام حسین وشہداے کربلارضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم،حضرت خواجہ غریب
نواز،حضرت شاہ اچھے میاںو شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس
میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسن رضا
بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔
اسی طرح واقعہ معراج کی دل کش منظر کشی بھی کی ہے اور شہادت ِ امام حسین
رضی اللہ عنہ کا بیان بھی کیا ہے۔ ذوقِ نعت میںشامل ایک نظم بہ عنوان کشف
ِرازِ نجدیت لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے،اسی طرح اس دیوان
میں مسدس منظومات، نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔ذوقِ نعت
کو کلیات کے صفحہ14سے صفحہ 247 تک جگمگ جگمگ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔
وسائل بخشش :
علامہ حسن رضا بریلوی مارہرہ کے قادری پیر خانے سے بیعت تھے اور اپنی نسبت
قادریت پر نازاں بھی۔ وسائل بخشش حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی
المولیٰ تعالی عنہ کی شان میں علامہ حسن رضا بریلوی کی پیش کردہ منقبتوں کا
حسین گل دستہ ہے۔ اس میں شامل مناقب میں علامہ کی بارگاہِ غوثیت سے والہانہ
مگر محتاط وارفتگی کا دل آویز نظارہ کیا جاسکتاہے ۔ افراط و تفریط سے دور
آپ نے نظمیہ فارم کا استعما ل کرتے ہوئے معتبر اور مستند حوالوں سے حضور
سیدناغوث اعظم جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ کے حالاتِ زندگی کو بیان کیا ہے۔
اور ان سے ظہور پذیر ہونے والی کرامات کا بڑے ہی دل نشین اور حسین طرزاسلوب
میں شعری اظہار کیاہے۔ جن میں شعریت بھی ہے، نغمگی بھی ہے اور عقیدت و محبت
کاگہرا رچاؤ بھی۔ زبان بڑی ہی پر لطف اور فصاحت و بلاغت کے جوہر بکھیرتے
نظر آتی ہے ۔ ان منظومات میں علامہ حسن رضا بریلوی نے اللہ عزوجل کے پیارے
بندے محبوب سبحانی غوث صمدانی سے اپنے قلبی احساسات کا جو اظہاریہ پیش کیا
ہے وہ استدعائی رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہے جو آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہے۔
اخیر میں دوتاریخی قصیدے: ’نغمہ روح‘ اور’نظم معطر1309ھ‘ بھی شامل ہیں ۔
وسائل بخشش ، کلیات حسن کے صفحہ 248 سے 3 23 تک محیط ہے۔
صمصامِ حسن بردابرفتن :
علامہ حسن رضا بریلوی اردو نظم ونثر کے ساتھ ساتھ فارسی نظم و نثرپربھی
ملکہ رکھتے تھے۔ یہ علامہ کی ایک فارسی مثنوی ہے ۔ جس میں آپ نے بدمذہبوں
بالخصوص ندوہ کا رد کیا ہے۔اس کا آغاز حسبِ روایتِ مثنوی حمد و نعت سے ہوتا
ہے۔اس کے بعد آپ نے بد مذہبوں کے باطل نظریات کی دھجیاں بکھیری ہیں اور ان
کے پیشواؤں کے خوف ناک چہروں سے ظاہری خوب صورت نقابوں کو کھینچا ہے۔
رافضیوں کے گھناؤنے عقائد کاذکر کرکے اس کا رد کیا ہے ۔ نیچریوں کے غیر
اسلامی تصورات کو بیان کرکے ان کی قلعی کھولی ہے۔اس کے بعد آپ نے اپنا دردِ
دل بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بڑے ہی والہانہ انداز میں
پیش کیا ہے ۔ یہاں موصوف کا اِستدعائی رنگ کربیہ آہنگ سے ہم رشتہ ہوجاتا ہے
جو قاری و سامع کے دل پر براہِ راست اَثر کرتادکھا ئی دیتا ہے ۔
اس کے بعد علامہ نے بڑی تفصیل سے ندوہ اور اہل ندوہ کی ضلالت و گمراہی کو
واشگاف کیا ہے اور انھیں حق و صداقت کے راستے پر آنے کی پرخلوس دعوت دی ہے
۔مثنوی کا اختتام بڑے ہی مؤثر اور دل نشین انداز میں کیا ہے ۔ ردِ ندوہ کے
لیے قائم کی گئی ’مجلس علما ے اہل سنت‘کی شان میں مدحیہ اشعار اس منظوم
اظہاریے میں چار چاند لگادیتے ہیں ۔ علامہ نے بڑے خلوص سے اپنے ان تمام
احباب کی خدمت میں ہدیۂ تہنیت پیش کیا ہے جنھوں نے تحریک ندوہ کی تردید
میں کسی بھی طرح سے حصہ لیا ۔ ردِ بدمذہباں پر مشتمل یہ دل چسپ مثنو ی
کلیاتِ حسن کے صفحہ 324 سے 348 تک خاطر نشین کی جاسکتی ہے۔
قند پارسی :
صمصام حسن کی طرح یہ بھی علامہ کی فارسی دانی کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ جس
میں آپ کی فارسی غزلیات کے علاوہ متفرق اشعار ، قطعات اور رباعیات و تواریخ
شامل ہیں۔ قند پارسی میں حضرت شاہ بدیع الدین مدار قدس سرہ العزیز کی شان
میں ایک مختصر مگر جامع منقبت بھی جگمگارہی ہے۔ جس میں علامہ حسن رضا
بریلوی نے آپ سے روحانی اکتسابِ فیض کے حصول کے لیے استغاثہ پیش کیا ہے۔ جس
سے علامہ حسن رضا کی بزرگانِ دین کے تئیں خوش اعتقادی کا اظہار ہوتا ہے۔
اس منقبت کے بعد چند متفرق اشعار ہیں جن میںشعریت او ررمزیت پنہاں ہے ۔ پھر
طوطیِ ہندوستان امیر خسروعلیہ الرحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف ہشت بہشت پر
منظوم تقریظ ہے۔اس نظم میں آپ نے پہلے مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات، اور
استغاثہ دربارگاہِ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کے بعد شبِ معراج
کا خوب صورت بیان کیا ہے جس میں تصویریت کا حسن اور منظر کشی کاجو حسین و
جمیل انداز ہے وہ متاثر کن ہے۔ اخیر میں آپ نے اکابر اہل سنت اوردیگر
احبابِ اہل سنت شان میں قطعاتِ تواریخ قلم بند کیے ہیں جن سے علامہ حسن رضا
کی تاریخ گوئی اور برجستہ گوئی ظاہر ہوتی ہے۔قند پارسی ، کلیاتِ حسن کے
صفحہ 350 سے 377 تک آپ کے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لیے سجی ہوئی ہے۔
ثمر فصاحت :
یہ علامہ کی بہاریہ غزلوں کا خوب صورت اور دل آویز مجموعہ ہے ۔ علامہ غزل
گوئی میں بھی اپناایک خصوصی مقام رکھتے تھے۔ آپ کے اس دیوان کا دریچہ سخن
حمدباریِ تعالی سے وا ہوتا ہے اور اس کے بعد بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ
علیہ وسلم میں نذرانۂ عقیدت ہے۔ ذوق نعت کی طرح اس میں بھی مکمل حروف تہجی
کی ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے ۔ اور زیادہ تر غزلیں مجازی رنگ و آہنگ سے
آراستہ ہیں۔ثمر فصاحت میں غزلوں کے علاوہ دو ایک سہرے ، رجبی شریف اوررقعہ
تسمیہ خوانی بھی موجود ہیں ۔ آخر میں قند پارسی کی طرح قطعاتِ تواریخ ،
قطعاتِ مساجد اور تواریخِ کتب کی لہلہاتی فصل بھی علامہ کے زرنگار قلم نے
کھلائی ہے ۔
فاضل مرتبین محترم محمدثاقب رضا قادری ضیائی اور مولانا محمد افروز قادری
چریا کوٹی کے مطابق: ’خیر! ثمر فصاحت میں کیا کچھ پنہاں ہے ، وہ تو آپ کو
پڑھنے کے بعد معلوم ہوگا ۔ تاہم اس سے پہلے ہم ایک اہم گزارش کردینا ضروری
سمجھتے ہیں ، اور وہ یہ کہ اس دیوانِ فصیح البیان کو پڑھنے سے پہلے سید
تجمل چشتی فخری جلال پوری ، اور مولانا کے شاگرد مولاناحکیم نظامی کے یہ
اشعار ضرور ذہن نشین رکھیے گا ؎
پردۂ الفاط میں ہے شاہدِ معنی نہاں
ہے مجازی میں عیاں رنگ حقیقت دیکھنا
مجازی رنگ میں رنگ حقیقت
کمالِ ظاہری و باطنی ہے
وہ دیکھیں شاہد معنی کا جلوہ
جنھیں چشم بصیرت حق نے دی ہے
ہیں ظاہر میں تو شعرِ عاشقانہ
مگر باطن میں مطلب اور ہی ہے
(ثمرفصاحت صفحہ 5/6)
علامہ حسن رضا کے خامہ پر بہار سے نکلی ہوئی یہ سحر طراز غزلوں کا مجموعہ
کلیات حسن کے صفحہ 378 سے 722 تک پھیلا ہوا ہے ۔
قطعات و اشعارِ حسن :
فاضل مرتبین کے مطابق :’یہ علامہ حسن رضا بریلوی کی کوئی مستقل تصنیف نہیں‘
بلکہ یہ اِن حضرات نے بڑی عرق ریزی سے مختلف کتابوں سے علامہ کے بکھرے ہوئے
قطعات تواریخ ،رقعات ، رباعیات، اور متفرق اشعار کو یکجا کرکے ایک خوش نما
اور دل کش گل دستے کی شکل میں پیش کردیا ہے ۔ قطعات و اشعارِ حسن کے ذریعے
اہل ذوق یقینا لطف حاصل کریں گے ۔ جو کلیات کے صفحہ 724 سے 788 تک پھیلا
ہوا ہے۔
کلیات حسن پر اس تبصراتی مضمون میں راقم نے علامہ کی شعر گوئی اور فنی درو
بست پر جو دعوے کیے ہیں ان کی دلیل کے طور پر اشعار کی مثالیںپیش کرنے سے
محسوس طور پر گریز کیاہے؛ تاکہ قارئین خود براہ راست کلیات کا مطالعہ کریں
اور اس شعری و ادبی اورفکری و فنی گلہاے رنگارنگ سے مکمل طور پر سیراب ہوں
۔
ناچیز کے خیال میں کلیات حسن اور رسائل حسن کی اشاعت سے علامہ حسن رضا
بریلوی کی بارگاہ میں خراج عقیدت کا ایک طرح سے حق اداہورہا ہے ۔کتاب کی
کمپوزنگ، سیٹنگ اور پروف ریڈنگ کی طرف سے غفلت نہیں برتی گئی ہے۔ اس ضمن
میں محترم محمدثاقب قادری اور مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی نے جس
تندہی ، جاں فشانی اور عرق ریزی کا مظاہرہ کیا ہے، ان کو وہی بہ خوبی جان
سکتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی سراہنانہ کرنا انصاف و دیانت کے سراسرمنافی ہے
۔ میں ان دونوں حضرات کی خدمت میں گلہاے تشکر اور ہدیہ دعا پیش کرتا ہوں
۔ساتھ ہی ساتھ کلیات کی ترتیب و تدوین نے جن جن حضرات نے کسی بھی طرح سے
تعاون پیش کیا وہ بھی مبارک باد کے مستحق ہیں، اللہ سب کو خوش و خرم رکھے
اور شاد وآباد ۔آمین
کلیات کی ترتیب و تدوین کے دوران پیش آنے والی مشکلات اورتکالیف کا رونا نہ
روتے ہوئے مرتبین نے آغازِ سخن میں جو لکھا ہے اس سے ان کے مخلصانہ رویوں
کا پتا چلتا ہے :’ لہٰذا اپنی مجرمانہ کوتاہیوں سے کسی حد تک عہدہ بر آری
اور وقت کے تقاضے کے تحت ہم نے محض مولانا حسن رضا محقق بریلوی کی مظلوم
شخصیت کے گراں مایہ علمی و فکری اثاثہ جات کی شیرازہ بندی کاارادہ کیا اور
انھیں قارئین کے استفادے کی میز تک لے آنے کا خواب دیکھا تو پھر کیا ہوا کہ
رحمت خداوندی اور عنایت رسالت پناہی ہمارے شامل حال ہوگئی اور وہ ساراخواب
حقیقت کاروپ دھارتا چلا گیا جسے آپ کے روبرو پیش کرتے ہوئے ہمیں بھرپور
قلبی مسرت کااحساس ہورہا ہے‘۔(کلیات حسن صفحہ 7)
بہ ہرکیف ! کلیاتِ حسن کی ترتیب و تدوین اور اسی طرح علامہ حسن رضا بریلوی
کے دیگر علمی و فکری جواہرپاروں کو منصہ شہود پر لانے جو سعیِ بلیغ محترم
محمد ثاقب رضا قادری ضیائی ، مولانا محمد افروز قادری چریاکوٹی اور ان کے
احباب و اعوان نے کی ہے وہ ہر طرح سے لائق تقلید و قابل تحسین ہے ۔ بل کہ
اگر میں یہ کہوں تو کسی طرح سے بھی غیر مناسب نہ ہوگا کہ کلیات حسن کی
اشاعت ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے جو ہمارے فاضل مرتبین کو بھی ہمیشہ زندہ
رکھے گا۔
دعا ہے کہ اللہ عزوجل ان کی اس خدمت کو شرفِ قبول بخشے اور ان کے لیے توشہ
آخرت بنائے نیز یہ بھی دعاہے کہ وہ ہماری جماعت کو اِن جیسے مزید جواں عمر
، جواں حوصلہ ، جواں امنگ اور فعال و متحرک نوجوان عطافرمادے تاکہ وہ نادر
ونایاب اور قیمتی اثاثے جو الماریوںمیں بند رکھے ہوئے ہیں عوام و خواص کے
خوانِ مطالعہ کی زینت بن سکیں۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ
وصحبہ افضل الصلاۃ والتسلیم۔
11 محرم الحرام 1434ھ بمطابق 26 نومبر 2012 بروز پیر |