مجلہ الاحسان

نام کتاب :مجلہ الاحسان ،الہ آباد
مدیر:حسن سعید صفوی
صفحات:۴۰۸قیمت:۲۲۵روپے
ناشر:شاہ صفی اکیڈمی،جامعہ عارفیہ خانقاہ عارفیہ،سید سراواں،الہ آباد
مبصر:نورین علی حق،دہلی

مجلہ الاحسان، الہ آباد کا تیسرا شمارہ پیش نظر ہے۔ یقین جانیں سالانہ نکلنے والے رسائل وجرائد کو عام طور پر پڑھا لکھا طبقہ بھی فراموش کرجاتا ہے۔یہ پذیرائی اور مقبولیت اس مادہ پرستانہ دور میں غالبا صرف ’الاحسان‘ کو ہی حاصل ہے کہ عوام وخواص اسے نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ اس کا شدت سے انتظار بھی کرتے ہیں۔ اور یہ خلوص وللہیت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ تصوف نام ہے خلوص کا، للہیت کا، عزیمت کا، جذبہ جان نثاری کا، اور یہ تمام خصوصیات اپنی تمام تررعنائیوں اور لطافتوں کے ساتھ داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہ میں پائی جاتی ہیں۔

دنیامیں اور بھی سخنور موجود ہیں لیکن ان کی زنبیل مذکورہ خصوصیات سے خالی ہوتی ہیں۔ مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ عام طور پر جن کا قلم اور اسلوب شیریں وجاذب نظر ہوتا ہے وہاں اخلاص کا فقدان ہوتا ہے اور مجلہ ’’الاحسان‘‘ وہ واحد رسالہ ہے جس کی دنیا مضبوط قلم، مستحکم اسلوب اور ساتھ ہی ساتھ دعائے نیم شبی اور آہ سحر گاہی سے بھی شاد کام اور آباد ہے۔

’الاحسان‘ کا ہرشمارہ پچھلے شمارہ سے زیادہ بہتر، محقق، پر اثر ہوتا جارہا ہے۔ اور اس کا حلقہ بھی روز افزوں ہے۔ آثاریہ بتاتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں مذہبی انقلاب جو آئے گا اس میں’ الاحسان‘ اور خانقاہ عارفیہ الہ آباد کا بڑا اہم کردار ہوگا۔

اس مرتبہ حضرت آسی غازی پوری، حضرت عزیر صفی پوری، حضرت اصغر گونڈوی، شیخ ابو سعید صفوی، علی ظہیر عثمانی بادہ وساغر انڈیل رہے ہیں۔ کلام کا انتخاب بہت خوب ہے۔
اپنی عیسی نفسی کی بھی تو کچھ شرم کرو
چشم بیمار کے بیمار ، ہیں بیمار ہنوز

اس شعر میں جہاں ایک جہان معانی پوشیدہ ہے وہیں اس کی شعری دنیا تکرار الفاظ سے قارئین کی دنیا کو لطف اندوز کیے دے رہی ہے۔ ’’و ہیں اس متصوفانہ رنگ کو بھی دیکھتے چلیں کہ
طریق فقر میں کافر ہے وہ خدا کی قسم
جو اپنی ہستی موہوم کو مٹانہ سکے

احوال کے تحت ابتدائیہ بھائی حسن سعید صفوی اور واردات مولانا ذیشان مصباحی نے تحریر کیا ہے ابتدائیہ میں تمام مضامین کا تعارف کرایا ہے۔ وہیں دنیائے فانی سے رخصت ہونے والوں کی تعزیت بھی کی ہے۔ بلند بانگ دعوے کے بغیرکافی اچھا اور معروضی ابتدائیہ ہے۔ ایک جگہ تحریر کیا ہے۔

’’ویسے یہ شمارہ اور بھی وقیع ہوتا اگر ہمیں وہ مقالات مل جاتے جن کو حاصل کرنے میں ہم اپنی توقع اور اصرار مسلسل کے باوجود ناکام رہے۔ ظاہر ہے قلم کاروں کی شدید مصروفیت یا ہمارے خلوص میں کمی کے سوا اس کی وجہ اور کیا ہوگی‘‘۔

دوسروں کے سلسلہ میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اپنی تساہلی راہ میں حائل ہوتی رہی اس کے باوجود میں نے ’الاحسان‘ کے لیے مضمون لکھا لیکن تاخیر کی وجہ سے میرا مضمون اس میں شائع ہونے سے رہ گیا۔ جس کا مجھے شدید قلق ہے اور غالبا نہ چھپنے کا یہ پہلا قلق ہے۔

واردات میں ذیشان مصباحی نے اہم بحثوں کو اٹھایا ہے، جہاں مخالفین تصوف کو دعوت غور وفکردی ہے وہیں تصوف پسندوں کو بھی احتساب ذات پر مجبور کیا ہے۔ یقینی طور پر یہی رویہ کامیاب رویہ کہا جاسکتا ہے خود کو بھول کر مخالفین پر حملے کرنا آسان ہوتا ہے مگر خود احتسابی جو صوفیہ کے یہاں ضروری ہے۔ اس سے آج ہم چشمہ پوشی کرتے ہیں،جو صحت بخش رویہ نہیں ہے۔ ذیشان مصباحی تحریری سطح پر تو عرصہ سے مضبوط تسلیم کیے جاتے ہیں مگر ’الاحسان‘ کے اجرا کے بعد ان کی فکری سطح بھر بلندی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

بادہ کہنہ میں اس بار شیخ ابونصر سراج، شیخ علی بن عثمان ہجویری، شیخ احمد سرہندی کی تحریروں کا
انتخاب شائع کیاگیا ہے۔ انتخاب قابل دید وداد اور قارئین کے لیے موثر ہے۔

تذکیر میں مقصد حیات انسانی، مقام احسان کا حصول ،شیخ ابو سعید صفوی، تکبر، تفاخراورعصبیت کی تباہ کاریاں، مولانا عبد المبین نعمانی، کفرسے ایمان تک، محمد ساحل /سروبجیت سنگھ، رجنی سے رابعہ: ایک ایمانی سفر، رابعہ خاتون رجنی کے مضامین ہیں۔ تمام مضامین دامن کش دل ونگاہ اور کچھ کرنے اور آخرت کو سنورارنے کی طرف انگیز کرتے ہیں۔ شیخ ابوسعید صفوی آج دلوں کو فتح کررہے ہیں اس لیے وہی فاتح زمانہ ہیں۔ نعمانی صاحب اسی طرح کے اہم موضوعات پر لکھتے ہیں۔ محمد ساحل اور رابعہ خاتون کی داستان ایمان بھی پراثر ہے۔ یہ لوگ غیبی مدد کا سبب ہیں۔ ان کے ایمان کی برکت سے نہ جانے کتنے مسلمان ’’یا ایھا الذین آمَنو آمِنو‘‘ پر عمل پیرا ہوجائیں۔

’الاحسان‘ کا سب سے مضبوط حصہ تحقیق وتنقید کا حصہ ہے۔ اس میں قلم کاروں نے خوب داد تحقیق دی ہے۔ اہم شخصیات اور موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ مولانا طفیل احمدمصباحی نے تصوف اور صوفیہ ۔علامہ ابن حجرہیتمی کی نظر میں، کوثر امام قادری نے بیعت واجازت احادیث کی روشنی میں، پروفیسر بدیع الدین صابری نے حضرت جنید بغدادی، علمی تبحر، روحانی مشاغل، ڈاکٹر ساحل شہسرامی نے حضرت سید بہاء الدین بنگلوری، ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی نے ایک اچھوتا موضوع منتخب کیا ہے۔ انہوں نے صوفی خواتین پر ایک جائزہ تحریر کیا ہے۔ عام طورپر حضرت رابعہ بصریہ کا نام ہی صوفی خاتون کے طورپر لیاجاتا ہے، انہوں نے دیگرکئی اہم صوفی خواتین کا تعارف کرایا ہے۔ مشتاق تجاروی کی یہ کوشش یاد رکھی جائے گی۔ مولانا ضیاء الرحمان علیمی نے گزشتہ دو مضامین کی طرح تیسرا مضمون بھی انتہائی غیر جانب دار اور چونکانے والا لکھا ہے۔ دنیا بدلی، لوگ بدلے ظاہر ہے کہ دیکھنے والی نظر بھی بدلنی تھی جو بدلی اور خوب بدلی۔ اب ان شجرات ممنوعہ پر بھی کھل کر بحث ہورہی ہے۔ جنہیں بغیر پڑھے اور سمجھے ہی ہم نے حاشیہ پر ڈال دیا تھا۔ اس نئی تفہیمی روش سے ایک نیا منظر نامہ سامنے آئے گا۔ کچھ کرنے کا عزم ہوتو مداحین کی مداحی اور مخالفین کی مخالفت سے خود کو الگ کرنا ہی پڑتاہے۔ جو علیمی کررہے ہیں۔ یہ اصول تحقیق جاری رہنا چاہئے۔ جو آئندہ علیمی کی شناخت بنے گا۔ مولانا ساجد رضا مصباحی نے الغزالی بین مادحیہ وناقدیہ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ اور مولانا وارث مظہری نے غزالی اور مسئلہ تکفیر پر لکھا ہے۔ کل ملا کر یہ حصہ رسالہ کی جان ہے۔

بحث ونظر میں مفتی نظام الدین رضوی، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی نے عصر حاضر میں احیائے تصوف کا کام کن اصولوں کے تحت ممکن ہے؟ پر تشفی بخش گفتگو کی ہے۔ تینوں دانش وران کی گفتگو کا لب لباب ان چند اقتباسات میں ہے ،جو تصوف کے احیا میں تعاون ومدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔
’’مدارس کو چاہیے کہ اپنے نصاب میں تصوف کی کتابیں بھی شامل کریں اور ساتھ ہی طلبہ کی عملی تربیت بھی ہو اور خانقاہوں کو چاہیے کہ مکمل طور پر اپنی اصلاح کریں، خود علم شریعت سے آراستہ ہوں اور وابستگان کو علم شریعت دیں‘‘ مفتی محمد نظام الدین رضوی۔

’’خانقاہ نہ بنیے کی دکان تھی اور نہ علمائے سو کی حویلی، یہاں جبر نہیں، صبر سے کام لیاجاتا، مایوسی ان کے یہاں کفرتھی، آج بھی یہی وہ سوچ ، طریقہ اور عمل ہے، جو خانقاہوں سے لوگوں کو جوڑ سکتا ہے۔ ‘‘ پروفیسر اخترالواسع
’’ جن اصول وصفات سے آراستہ ہونے کی وجہ سے متقدمین حضرات ’’صوفی‘‘ کہلائے اور پوری دنیا میں ایک روحانی انقلاب برپا کیا، انہی اصول وصفات کو اپنا کر ہم عصر حاضر میں بھی تصوف کا احیا کرسکتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی

اس مرتبہ خانقاہ رشیدیہ، جون پور اور وہاں کے سجادہ نشیں مفتی عبید الرحمن رشیدی صاحب سے شناسائی کرائی گئی ہے۔ انٹرویو حسن سعید صفوی نے کیا ہے اور خانقاہ کی عظمت رفتہ سے مولانا مجیب الرحمن علیمی نے متعارف کرایا ہے۔ ایک اور خانقاہ کی دینی و ملی خدمات کو پڑھنے کا موقع ملا۔

رسالہ کا کمزور ترین حصہ ’صوفی ادب‘ ہے۔ اس میں صرف تین مضامین ہیں ۔ پروفیسر عبد الحمید اکبر کا تعلیمات تصوف اور مثنوی مولانا روم، ضیا الرحمن علیمی کاا میر خسرو کی عربی نثر نگاری، مولانا ارشاد عالم نعمانی کا امیر خسرو کی فارسی نعتیہ شاعری، گو کہ مجموعی اعتبار سے صوفی ادب کا حصہ کمزور ہے۔ البتہ اس میں شامل تینوں مضامین اچھے اور محنت سے لکھے گئے ہیں تینوں ہی مضامین لائق مطالعہ اور قابل ستائش ہیں۔ زاویہ کے لیے اس بار حضرت مجدد الف ثانی کا انتخاب کیاگیا ہے۔ پروفیسر اخترالواسع، رفعت رضا نوری، ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی، ڈاکٹر قمرالہدیٰ فریدی، پروفیسر یسین مظہر صدیقی، مولانا ابرار رضا مصباحی نے حضرت مجدد کی حیات وخدمات اور کارناموںکا احاطہ کیا ہے، حضرت مجدد کی شخصیت ہرزمانہ میں موثر اور راہ نما کی رہی ہے اور ان کے افکارو آرا اور مکتوبات تشنگان راہ محبوبی کی سیرابی اور سخت ترین لمحات میں اسلام وایمان کے احیا کا سبب بنتے رہے ہیں۔

تبصرے کے لیے اچھی کتابوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہاں اختصار میں ایجاز ہے۔ شمس الرحمان فاروقی اور سید علیم اشرف جائسی کے خطوط سند افتخار کی حیثیت رکھتے ہیں، ان دونوں خطوط سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ’الاحسان‘ واقعی دانش ور طبقہ میں مقبول ہورہا ہے۔ اور یہ بڑے نام بھی ’الاحسان‘ سے بڑی توقعات لگا بیٹھے ہیں۔ اس لیے ادارتی ٹیم کے سامنے چیلنجز بھی بڑے ہیں۔ کمپوزنگ، کاغذ، ٹائٹل وغیرہ بھی عمدہ اور جاذب نظر ہیں۔
noorain ali haque
About the Author: noorain ali haque Read More Articles by noorain ali haque: 6 Articles with 8825 views apne andar ki talkhian bikherna aur kaghaz siyah karne ka shaoq hai.. View More