شفقت تنویر مرزا۔۔۔ پنجابی ادب کا دیوتا

شفقت تنویر مرزاِ صاحب کے ساتھ میری پہلی شناسائی لاہور میں سن نوے کے درمیان میں فلیٹی ہوٹل نیں ورلڈ پنجابی کانفرنس کے ایک پروگرام میں ہوئی۔ اس پروگرام میں مرزا صاحب مہمان کے طور پر شامل تھے۔ اُن دنوں میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج گجرانوالا میں ایف اے کا طالبعلم تھا اور پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد پال کے پاس پنجابی پڑھتا تھا۔ جمیل پال صاحب نے ہی مجھے اِس پنجابی کانفرس میں شمولیت کا دعوت نامہ دیا تھا اوریہ پہلا موقعہ تھا کہ میں کسی پنجابی پروگرام میں شمولیت کر رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پروفیسرڈاکٹر جمیل پال پہلے ساہیوال اور بعدمیں گورنمنٹ ا سلامیہ کالج گوجرانوالا اور پروفیسر ڈاکٹرا رشد اقبال ا رشد گورنمنٹ زمیندا ر کالج گجرات میں طالبعلموں کے دلوں میں پنجابی پیار کا بیج بو رہے تھے اور کالج سطح پرنوجوان پنجابی ورکرز کی کھیپ تیار کر نے میں لگے تھے اور اسکے ساتھ ساتھ نال ماں بولی پنجابی کے ساتھ ہونے والی نااِنصافیوں اور پنجابی کو صوبے میں اُسکا جائز اور اصل مقام نہ ملنے کا افسوس کردے۔مجھے اِس بات کا اقرار کرتے ہوئے ہمیشہ فخر محسوس ہوتا رہے گا کہ میں اُ س دورکے پنجابی تحریک کے کاروا ں میں شمولیت کرنے والا سب پنجابیوں سے آخروالامنجابی زبان کا خدمتگار ہوں۔

فلیٹی ہوٹل کی اُس پنجابی کانفرنس کے بعد میں شفقت تنویر مرزا کُو بہت سارے پنجابی پروگراموں میں بطور مہمان شمولیت کرتے دیکھا مگر اِیک بات میرے لیے آخر تک بڑی حیرا نگی والی رہی وہ یہ کہ وہ کبھی کبھی بھی سٹیج پربیٹھنے کی بھوکھ نہیں رکھتے تھے۔ مَِیں نے کئیی پروگراموں کا چشمدید گواہ ہوں کہ اُن کومہمانِ خصوصی والی کرسی پر بیٹھنے کے لیے سٹیج پر بلایا جاتا مگروہ ہال میں عام پنجابیوں کی طرح ہال میں ہی بیٹھنے کو زیادہ اچھا سمجھتے تھے۔وہ لَمبی لمبی تقریریں جَھاڑنے سو گُنا بہتر پنجابی تحریک کے لیے کام کے اِیک جُملے کو سمجتھے تھے۔جیسے جمیل پال کہتے ہیں کہ ایک لَاکھ کا سوکھا نعرہ لگا نے سے ایِک سوروپے نَقد عنایت کردینا زیادہ بہتر ہُوتا ہے۔

مجھے یاد ہے جب مَیں بے۔اے میں پڑھتا تھا تو ہم نے طالبعلوں کی ایک تنظیم پنجابی ادبی مجلس، پروفیسر ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد کی نِگرانی میں بنائیں اور پھراُس تنظیم کی چھترزیرِاہتمام اِسلامیہ کالج گجرانوالا کی تاریخ کا پہلا پنجابی میگزین ِ،، سَدھراں ،، جو کہ طالبعلموں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا فنڈ قائم کرکے چھاپا تھا اور شفقت تنویر مرزا صاحب نے بھی بہت سراہا اوراِسکو نیک شگُون قرار دِیا اور خط لکھ کے میرے سمیت پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔

یہ سال2005 کی بات ہے جب میں گجرانوالا سے ،، پنجابی خبرناماِِ ،، نکال رہا تھا توانکا اِنٹرویو کرنے کے لیے میں نے اُنکو فُون کرکے گزارش کی جو اُنہوں قبول کر لی اورپِھرمَیں نے اُنکا ا ایکسکلوژو اِنٹرویو کیا جو بعد میں ،، خبرنامہ،، میں تفصیلاً چھپا اور قارئین نے بہت پسند بھی کیا۔ اُس اِِ نٹرویو کے دورا ن اُنھوں نے بہت ساری Off The Record باتیں بھی کی اور پنجابی تحریک کے ساتھ ہونی نا ا نصافیوں کی بنیادی اور اَصل وجہ پنجابی تحریک کےSo called لیڈ رو ں کو قرار دیتے ہوے اُ نکو پَانچ دریاوں کی دَھرتی اور پنجابی زبان کی تحریک کی ناکامی کا اَ صل مُجرم قرار دِیا۔اُنکا ٓکھنا تھا کہ پنجابی زبان کی تحریک کے نَام پر پنجابیوں سے ووٹ لے کے ا سمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور سُوکھے نعرے لگاکراپنی سیاست چمکاتے نظر آتے ہیں۔مرزا صاحب کے مطابق پنجابی کے اِن نام نہاد لیڈروں کا اصل مسئلہ پنجابی نہیں بلکہ اُنکے اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد ہیں۔ایک سوال کے جواب میں اُنکا کھنا تھا کہ لندن ،کینڈا اور دیگر ممالک میں پنجابی کے نَام پر کانفرنسوں کااانعقادکر کے ہزاروں لوگوں کو اِکٹھا کرنے سے لکشمی چوک لاہورمیں چند سو کی تعداد میں پنجابی زبان کے حق میں احتجاج ریکارڈ کرانے سے پجنابی زبان کو اُسکا جائز اور اَصل مُقام مِلنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔

پنجابی زبان کی تحریک میں پنجابی اُساتذہ کے کردار پر بھی وہ اپنے تحفطات کا اظہار کرتے تھے۔اُنکا ٓکھنا تھا کہ چند پنجابی زبانے اساتذہ سے جِن کو وہ ذَاتی طور پر جَانتے ہیں اُنکے علاوہ باقی سب کا مسئلہ پنجابی زبان نہیں بلکہ وہ تو صرف اپنی تنخواہوں کے چَکر میں رہتے ہیں۔وہ اِس بات پرسخت پریشان نظر آتے تھے۔ مرزا صاحب روٹی روزی کے لیے ایک انگریزی اخبار کے ساتھ وابسطہ تھے پروہ پنجابی زبان کی تحریک یا پنجابی زبان کی خدمت کے معاملے میں آخر تک اپنے قلم کے ذریعے اپنے اُس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے رہے۔

شفقت تنویر مرزاکے ساتھ میرا بہت بڑا رشتہ تھا۔ یہ رشتہ بہت ِسَچا،سُچا رشتہ تھا جو کہ ایِک پنجابی کا دوسرے پنجابی کا ، پنجابی زبان کی تحریک کا رِشتا، دھرتی ماںسے پیار کا رِشتہ اور مادری زبان سے عِِشق کا ایک لازوال رشتہ ہوتا ہے،وہی اُنکے ساتھ میرا رِشتہ تھا اور مُجھے فخر ہے کہ وہ نا صرف میری رَاہنمائی کرتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً خط یا پوسٹل کارڈ لکھ کے میری ہلا شیری بھی کرتے رہتے تھے۔ پنجابی زبان کی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے کئی طریقے کئی گُر کی باتیں بھی بتاتے رہتے تھے۔

شفقت تنویر مرزا پنجابی اَدب اور صحَافت کا ایک بڑا نَام رہےے گا۔وہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ د یتے تھے۔ اُنھوں نے بہت ساری غیرمُلکی کتابوں کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور بہت سارے مضامین پنجابی زبان کے حق میں لکھے جو کہ پنجابی تحریک اورپنجابی زبان کے ورکرز کو نئی راہ دکھاتے رہیں گے ۔شفقت تنویر مرزا کے دوست احباب اَج بھی اُنکو اُصولوں کا آدمی کہتے ہیں۔ پنجابی زبان کے نامور دانشور نجم حسین سیّد کے مُطابق شفقت تنویر مرزا پنجابی اَدب کا ایک دیوتا ہیں۔عطاءالحق قاسمی کہتے ہیں کہ شفقت تنویر مرزا پنجابی زبان واَدب کا ایک ایساا مجاہد تھا جس نے اپنا ساری زندگی پنجابی زبان کو اُسکا اصل مُقام دلانے کے لئے گزار دِیا۔ اُوہنوں پی ٹی وی کے لیے پچاس اقساط لوک رِیت کے نَام سے کئے اور پنجابی ادبی سنگت، پنجابی ادبی بورڈ اور پھرمجلس شاہ حُسینؒ کے بھی بانی تھے۔اُنکا وفات پا جانا پنجابی ادب کُو یتیم کر جَانے کے مترادف ہے ۔پنجابی زبان و ادب تے پنجاب کی مٹی کو ہمیشہ شفقت تنویر مرزا پر فخر رہے گا۔
Sarfraz Awan
About the Author: Sarfraz Awan Read More Articles by Sarfraz Awan: 14 Articles with 10807 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.