۔"اللہ ہر ماں کو شہزاد جیسا
بیٹا عطا کرے"۔
خالا عطیہ شہزاد بھائی کی بلائیں لیتے ہوئے بولیں۔
۔"اے بیٹا شہزاد، زرا اِس کلموہے شاہد کو بھی کبھی کچھ عقل کے دو بول ہی
کہہ دیا کرو، کم بخت سارا وقت محلے کے بیکار لڑکوں کے ساتھ آوارہ گردی میں
مصروف رہتا ہے، کالج ختم ہوئے عرصہ بیت گیا، مجال ہے کہ جو کام کاج کی طرف
اسکا دھیان بھی گیا ہو اور یاد نہیں ہے کہ بھولے سے بھی کبھی ماں کے ہاتھ
ایک ڈھیلہ ہی لاکر رکھا ہو"۔
خالہ عطیہ حسب ِمعمول بغیر رکے بس بولتیں ہی چلیں گئیں۔
شہزاد بھائی اپنی دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے:۔
۔"جی خالہ آپ بالکل فکرمند نہ ہوں اور اسے میرے پاس بھجوا دیں، میں اسے
سمجھا دونگا"۔
۔"اے ہاں دلہن، جب شاہد تمھارے ہاں آئے تو اسے شہزاد میاں کا جھوٹا پانی
ضرور پلا دینا، کیا پتہ خدا کے حکم سے اس میں بھی اس کے سے گن آجائیں اور
میں بھی اس پر اسی طرح سے فخر کرسکوں جیسے شہزاد کے امی ابو اور سارا
خاندان شہزاد پر کرتا ہے"۔
خالہ عطیہ نے شہزاد بھائی کے ساتھ ہی بیٹھیں ان کی بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے
کہا۔
نعیم نے جو کہ اس شادی ہال میں جہاں وہ سب اپنے کسی عزیز کی شادی میں شرکت
کی غرض سے آئے ہوئے تھے اور خالہ عطیہ کے آنے سے قبل کافی دیر سے بیٹھا،
اپنے سب سے فیوریٹ کزن شہزاد بھائی سے گفت و شنید میں مصروف تھا، شہزاد
بھائی کی بیگم رفعت بھابھی کی طرف دیکھا جو خالہ عطیہ کی بات سن کر گو کہ
ہلکا سا مسکرا کر سر ہلا رہیں تھیں، لیکن ان کی آنکھوں اور چہرے پر اپنے
شوہر ِنامدار کی اسقدر تعریف و تحسین سے نمایاں ہونے والے فخر و انسباط کے
گہرے سایوں کو بخوبی نوٹ کیا جاسکتا تھا۔
خالہ عطیہ تو خیر اتنا کہہ کر وہاں سے چلتیں بنیں لیکن وہ جاتے جاتے نعیم
کو سوچوں کے اتھاہ گہرے سمندر میں ڈوبو گئیں۔ محض خالہ عطیہ ہی تک کیا
موقوف تھا، خاندان کا ہر چھوٹا بڑا شہزاد بھائی کے گن گاتا اور بطور ِخاص
خاندان کی بڑی بوڑھیاں تو جیسے ان کی گرویدہ ہی تھیں، اب وہ خالہ عطیہ ہی
ہو یا عشرت پھوپھو، منجھلی ہوں یا چھوٹی ممانی سب کی ایک ہی آس اور تمنا
تھی کہ اللہ انکے بچوں کو بھی شہزاد بھائی جیسا ہی بنادے۔
اور تو اور خود نعیم نے بھی اپنے دل و دماغ میں شہزاد بھائی کو ایک آئیڈیل
کو درجہ دے رکھا تھا، اٹھتے بیٹھتے بس وہ تو شہزاد بھائی ہی کا دم بھرتا
نظر آتا اور کیوں نا ہو، آخر شہزاد بھائی کو پورے خاندان میں جسطرح سے
ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا اور جو عزت و احترام انہیں نصیب تھا بھلا وہ نعیم
سمیت خاندان بھر کے کسی اور لڑکے کو میسر آ سکتا تھا؟
حتٰی کہ خاندان بھر کے بزرگ مرد حضرات تک گھریلو، کاروباری اور روپے پیسے
کے معاملات میں بھی شہزاد بھائی سے مشورہ کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔ اگر جو
خاندان کے کسی لڑکے یا لڑکی کے رشتے کا سلسلہ چل رہا ہو تو یہ ہو ہی نہیں
سکتا کہ ان کے والدین مشورے کے لیئے دو چار بار شہزاد بھائی کو موبائل فون
پر زحمت نا دے ڈالیں۔
اور صاحب اگر خاندان کا کوئی لڑکا خالہ عطیہ کے لڑکے کی طرح سے کام کا نا
کاج کا اور دشمن دس من اناج کا ہو رہا ہو اور اماں کے ہاتھ پر ڈھیلہ پیسہ
نا رکھتا ہو تو پھر اسے بھی اپنی پند و نصیحت سے راہ راست پر لانے کی پوری
پوری زمہ داری شہزاد بھائی ہی کو تو سونپی جاتی اور وہ اس زمہ داری سے ہر
ممکن طور سبقدوش ہونے کی کماحقہ کوشش کرتے۔
نعیم کو شہزاد بھائی جو کہ اسکے بڑے ماموں کے سب سے بڑے فرزند ِارجمند تھے
اور عمر میں اس سے کوئی پانچ چھے برس بڑے تھے، پر بڑا ہی رشک آتا تھا۔
دلشاد ماموں ویسے تو سارے خاندان ہی میں بڑے ہونے کے سبب خصوصی عزت و
احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے اور پھر شروع ہی سے انکا روز و شور سے
چلتا ہوا کاروبار، اور جس احسن طریقے سے انہوں نے اپنے گھر کو سنوارا اور
تمام بچوں کی تربیت کی تھی، انہی سب باتوں کے سبب وہ ویسے ہی خاندان بھر کی
نظر میں انتہائی سمجھدار شخصیت گردانے جاتے تھے اور پھر سونے پہ سہاگہ انکے
بڑے فرزند ِارجمند شہزاد جو کہ شروع ہی سے شہر کے بہترین اسکول اور کالج
میں زیر ِتعلیم رہے، ہمیشہ ہی سے نمایاں تعلیمی استعداد کا مظاہرہ کیا اور
پھر تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے ابو کے پہلے سے ہی دن دونی اور رات چوگنی
ترقی کرتے کاروبار کو تو جیسے چار چاند ہی لگا دیئے۔
خاندان کی بھلا وہ کون سی لڑکی تھی جو شہزاد بھائی کے ساتھ منسوب ہونے میں
اپنے لیئے فخر نا محسوس کرتی لیکن وہ تو شہزاد بھائی اپنی یونیورسٹی کے
زمانے کی ایک کلاس فیلو رفعت کو دل دے بیٹھے اوراب وہ شہزاد بھائی کی شریک
ِحیات ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ان کےایک عدد پیارے سے بیٹے کی ماں ہونے کا
اعزاز بھی رکھتیں تھیں۔
قصہ ِالمختصر شہزاد بھائی نعیم کے لیئے ہر پہلو سے ایک آئیڈیل انسان تھے
اور اسکی خواہش تھی کہ اے کاش اسکی زندگی بھی شہزاد بھائی ہی طرح سے آئیڈیل
ہو جائے اور وہ بھی انہی کی طرح سے خاندان بھر کی آنکھوں کا تارا بنکر رہے
اور جیسے لوگ باگ ان کی عزت اور اسقدر احترام کرتے ہیں اور انکے مشوروں اور
نصحیتوں کو معتبر جانتے ہوئے انہیں نہاہت ہی خندہ پیشانی سے سر آنکھوں پر
رکھتے ہیں، اسکے ساتھ اسیے ہی پیش آئیں۔
اس کے برعکس نعیم جسکا تعلق ایک اوسط سے قدرے نیچلے طبقہ کے خاندان سے تھا
اور اسکے ابو کی ملازمت سے حاصل ہونے والی محدود آمدنی جس میں اسکی اماں
گھر بھر کی سفید پوشی کا بھرم بمشکل تمام رکھ پاتیں تھیں۔ کیا کیا نا جتن
کرکے انہوں نے نعیم کو میٹرک تک تعلیم دلوائی اور پھر نعیم نے ایک نجی
کمپنی کے دفتر میں ملازمت اختیار کرلی اور اب ان دنوں وہ اسی شام کے کالج
میں گریجویشن کے سال ِآخر کا طالب ِ علم تھا۔
اس روز شادی کی تقریب سے واپس آکر بھی نعیم مسلسل شہزاد بھائی ہی کے بارے
میں سوچتا رہا۔
بطور ِخاص وہ بات تو بار بار اسے یاد آتی کہ جب عطیہ خالہ انہیں شادی ہال
کے اس کونے میں کرسیوں پر بیٹھا دیکھ کر ان کی طرف بڑھیں تو انہیں سب سے
پہلے میں نے ہی تو سلام کیا تھا جسکا سرسری سا جواب دیکر خالہ عطیہ تو بس
ایسے شہزاد بھائی سے متکلم ہوئیں کہ جیسے وہاں صرف شہزاد بھائی ہی تو موجود
ہوں۔ حالانکہ وہ میری سگی خالہ ہیں، لیکن بات جہاں شہزاد بھائی کی آ جائے
تو پھر مجھ جیسے ایرے غیرے نتھو خیرے کی بھلا کیا دال گلنی ہے۔
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔
یونہی دن گزرے رہے اور پھر ایک روز نعیم نے اعلیٰ نمبروں سے گریجویشن بھی
مکمل کرڈالی۔ گو کہ آج کے دور کے لحاظ سے یہ کوئی خاص تعلیمی قابلیت نہیں
گردانی جاتی، البتہ گذشتہ چار سالوں کے دوران حاصل شدہ کام کے تجربے نے بھی
اسکی بہت مدد کی اور اسے ایک اور فرم میں قدرے اچھی پوسٹ پر نئی ملازمت مل
گئی۔ نعیم کی اس ملازمت کے بعد گھر کے حالات قدرے بہتر ہوئے تو اماں کو
نعیم کی شادی کی فکر ہوئی۔
یہ خاندان سفید پوش سہی لیکن ان کی شرافت، سچائی، نیک چال چلن، اوراچھے
مزاج کی گواہی تو سارا محلہ دیتا تھا۔ انہی محلے والوں میں ایک خاتون جو کہ
نعیم کی امی کی سال ہا سال کی رازدار سہیلی تھیں کے بھائی جو کہ ایک بڑے
بنک کے منیجر تھے، کی بیٹی کا رشتہ لے آئیں۔
نعیم، اسکے سارے گھر والے اور خود اسکی اماں حیران تھے کہ یہ کہاں سےخدا نے
چھپر پھاڑ کر رشتہ بھیج دیا تھا، کیونکہ حیثت کے حساب سے تو وہ لوگ ان سے
کافی بہتر تھے، لیکن اماں کی رازدار سہیلی نےانہیں یقین دلایا کہ ان کے
بھائی کو اپنی بیٹی کے لیئے ان جیسا ہی شریف اور نیک چال چلن والا خاندان
درکار ہے۔
بحرحال سادگی کے ساتھ یہ تعلق قائم ہوا اور جب نعیم کی دلہن رخصت ہو کر
نعیم کے گھر آئی تو اسے اپنی نئی نویلی دلہن سحر اپنی اماں کی سال ہا سال
کی ریاضتوں کا انعام اور اپنی زندگی میں ایک نئی صبح کا استعارہ محسوس
ہوئی۔ سحر نے آتے ہی سارے گھر والوں کا دل جیت لیا تھا اور نعیم کی اماں تو
جیسے انہیں دو جہاں کی دولت ہی مل گئی ہو۔
شادی کو ایک سال ہی گزرا تھا کہ خدا نے نعیم کو ایک عدد پیاری سی بیٹی سے
نوازا۔
ایک روز رات کے کھانے کے بعد جب نعیم سونے کے لیئے کمرے میں داخل ہوا تو اس
وقت سحر ننھی ستارہ کو تھپک تھپک کر سلانے میں مصروف تھی۔ نعیم کو دیکھتے
ہی وہ مسکرائی اور بولی:۔۔
۔"مجھے آج آپ سے بہت ضروری بات کرنا ہے"۔
۔"ہاں کہو، کیا بات ہے"۔
نعیم پلنگ پر اسکے قریب بھیٹتے ہوئے بولا۔
۔"دیکھو نعیم اب ہم ایک بچی کے والدین بن چکے ہیں، اب ہمیں اپنے بہتر
مستقبل کے لیئے کچھ سوچنا چاہئیے"۔
۔"کیا مطلب ہے تمھارا، کہنا کیا چاہتی ہو تم؟"۔
۔"میرے ابو نے کتنی بار آپ سے کہاں ہے کہ وہ آپ کو اپنے بنک سے کاروبار
شروع کرنے کے لیئے قرضہ دلواسکتے ہیں، لیکن آپ ہیں کہ سنتے ہی نہیں"۔
سحر نعیم کو سمجھاتے ہوئے ہوئے بولی۔
۔"ارے بھئی، دنیا کیا کہے گی کہ اپنے سسر کی سفارش سے قرضہ حاصل کرلیا"۔
نعیم نے سحر کو سمجانے کی کوشیش کرتے ہوئے کہا۔۔
۔"آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں، آپکو قرضہ آپکی قابلیت کے سبب ملے گا اور وہ
قرضہ تو ہم واپس ادا کردینگے اور ویسے بھی کہنے والوں کا کام تو کچھ نا کچھ
کہنا ہی ہوتا ہے، اگر سب ان کی باتیں سننے لگیں تو دنیا کے سارے کام ہی رک
جائیں"۔
سحر نے مزید کہا:۔
۔"دیکھیں، ابو نے مجھ سے کہا ہے کہ میں آپکو کل ہی ان کے پاس بنک بجھوادوں
اور ہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ وہ فیزیبلیٹی رپورٹ بھی ساتھ لے کر
آئیں جو آپ نے چند ماہ قبل بنائی تھی اور پھر اسے لے لیکر کئی بنکوں کی خاک
چھانی لیکن کسی بھی بنک نے آپکو قرضے دینے کی حامی نا بھری، حالانکہ اس وقت
بھی ابو نے کہا تھا کہ آپ ان کے بنک میں اس بزنس لون کے لیئے اپلائی کریں،
لیکن آپ نے ایک نا سنی"۔
خیر وہ بات اس وقت کی تھی جب نعیم باپ نا بنا تھا لیکن اب جبکہ وہ باپ بن
چکا تھا، وہ بھی سنجیدہ کر سوچنے پر مجبور ہو گیا اور پھر اگلی ہی صبح وہ
بنک میں اپنے سسر کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔
پھر وہ دن بھی آن پہنچا کہ جب اس نے باقاعدہ اپنے بزنس کا آغاز کردیا، لیکن
اب اس نے یہ تہیہ کرلیا تھا کہ دن رات ایک کردیگا لیکن سب سے پہلے بنک کا
قرضہ اتاریگا۔
وہ دن اور پھر اس کے بعد مسلسل پانچ سال تک کچھ ایسے دل لگا کر کام کیا کہ
دن کو دن اور نا رات کو رات سمجھا، بنک کا قرضہ تو اسنے پہلے تین سالوں ہی
میں ادا کردیا اور اگلے دو سالوں میں اس نے کاروبار کو مذید ترقی دیکر نا
صرف کاروبار کو توسیع دی بالکل ملک کے دو بڑے شہروں میں اپنے کاروبار کی
نئی شاخوں کا بھی آغاز کردیا، اب حال تو یہ تھا کہ ننھیال ہو کہ ددھیال،
دونوں اطراف میں نعیم سے زیادہ بڑا کاروبار کسی کا بھی تو نہیں تھا۔ شہر کی
مضافاتی بستی سے وہ لوگ ڈیفینس کی بڑی شاندار سی کوٹھی میں اٹھ آئے تھے اور
کل تک سکوٹروں پر دھکے کھانے والا نعیم اب ایک نہیں نئے نئے ماڈلوں والی
کئی کئی گاڑیاں رکھتا ہے ۔ان گذشتہ پانچ سالوں کے دوران نعیم صرف اور صرف
کاروبار کا ہی ہو کر رھ گیا تھا، کسی شادی بیاہ اور خوشی غمی میں شرکت کرنا
اسے یاد نہیں رہا تھا، ہاں اگر کچھ یاد تھا تو اپنا کاروبار۔
لیکن اب اس نے سحر ہی کے کہنے پر زندگی کی تیز دوڑتی ہوئی گاڑی کو بریک لگا
کرقدرے آہستہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور آج وہ کئی سالوں کے بعد اسکے
ساتھ خاندان کی ایک شادی میں شرکت کرنے جارہا تھا۔
شادی ہال پر پہنچ کر کئی سالوں بعد آج اسکی ملاقات شہزاد بھائی سے ہوئی،
ایک دوسرے سے دعا سلام ہوئی اور پھر کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ابھی وہ
دونوں گپ لگانے ایک جانب کرسیوں پر آکر بیٹھے ہی تھے کہ اچانک سامنے سے
خالہ عطیہ اپنے مخصوص لہجے میں پکارتی چلیں آئیں:۔
۔"اللہ ہر ماں کو تجھ سا بیٹا عطا کرے"۔
نعیم کو ایک بار پھر سے بے اختیار شہزاد بھائی پر رشک آنے لگا۔
لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! خالہ عطیہ تو اسکی بلائیں لیئے جارہیں
تھیں.........!!!۔
۔"اللہ ہر ماں کو نعیم جیسا بیٹا عطا کرے"۔
خالا عطیہ نعیم کی بلائیں لینے ہوئے بولیں۔
۔"اے بیٹا نعیم ، زرا اِس کلموہے شاہد کو بھی کبھی کچھ عقل کے دو بول ہی
کہہ دیا کرو، کم بخت سارا وقت اپنی بیوی کا دم چھلا ہی بنا پھرتا ہے، جو
کماتا ہے بیوی کی ہتھیلی پر دھر دیتا ہے، یاد نہیں کہ کبھی بھولے سے بھی
ماں کے ہاتھ ایک ڈھیلہ ہی لاکر رکھا ہو"۔
ایک لمحہ کے لیئے تو نعیم کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر یہ ہو کیا رہا
ہے۔
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ خالہ عطیہ کو کیا جواب دے کہ خالہ عطیہ پھر بول
پڑیں۔
۔"اے ہاں دلہن، جب شاہد تمھارے ہاں آئے تو اسے نعیم میاں کا جوٹھا پانی
ضرور پلا دینا، کیا پتہ خدا کے حکم سے اس میں بھی اس کے سے گن آجائے اور
میں بھی اسپر اسی طرح سے فخر کرسکوں جیسے نعیم کے امی ابو اور سارا خاندان
کرتا ہے"۔ |