آج کل لاہور کے شاد مان چوک کو
بھگت سنگھ سے منسوب کرنے کے حوالے سے پاکستان کے مختلف حلقوں میں ایک بحث
چھڑی ہوئی ہے۔ بھگت سنگھ تحریک آزادی کا واقعی ایک انقلابی ہیرو تھا، پنجاب
کا سپوت تھا ، فیصل آبادکے علاقے جڑانوالہ میں پیدا ہوا اور لاہور میں
فیروز پور کے مقام پر انگریزوں نے اسے قابض فوج کے خلاف عسکری سرگرمیاں
جاری رکھنے اور اس کے کئی عہدیداروں کو مارنے کی پاداش میں تختہ دار پر
چڑھا یا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں اس کا کردار ناقابل فراموش رہا ۔
تحریک آزادی کی اولین شمع کو برصغیر میں آباد مسلمانوں،ہندوﺅں اور سکھوں نے
مشترکہ طورپر روشن کیا اور سب نے تاجِ برطانیہ سے چھٹکارے کے لئے جدوجہد
شروع کی۔ آزادی اور انقلاب کے نعرے کی گونج برصغیر سے اٹھی اور لندن تک
پہنچی تو انگریز سرکار نے اسے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوﺅں کی تحریک کو مذہب
کے تناظر میں نہیں دیکھا بلکہ ہندوستان کے عوام کی آواز اور مطالبہ قراردیا۔
یہی وجہ تھی کہ ان کی گولیاں اور توپوں کا نشانہ ابتداءمیں کسی خاص مذہب سے
تعلق رکھنے والے افراد نہ تھے بلکہ مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی غرض
برصغیر سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ان کے نزدیک باغی اور دشمن تھا۔ بھگت
سنگھ کا شمار ان اولین نوجوان انقلابیوں میں ہوتاہے جنہوں نے انگریزوں کے
ناروا سلوک کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی اور پرامن احتجاج کی بجائے اینٹ
کا جواب پتھر سے دینے کا ارادہ کیا۔ اس نے اپنے ان ارادوں کو انگریز
عہدیداروں کو نشانہ بنا کر اوردہلی میں مرکزی اسمبلی کے اجلاس میں بم پھینک
کر عملی جامہ پہنایا اس طرح اس دور میں اس کی جرات ، بہادری اور انقلابی
ہونے میں کسی کو کوئی شبہ نہیںہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس وقت کے مسلمانوں،
ہندوﺅں اور سکھوں کے ایک مشترکہ ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔اس کی
گرفتاری اور پھانسی کی سزا کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں ہندوﺅں اور سکھوں
کے علاوہ مسلمان کی اکثریت بھی شامل تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ آزادی کی یہ شمع
جو برصغیر کے باسیوں نے تھامی تھی، ہندوﺅں کی ہٹ دھرمی، مکاری اور انگریزوں
کی تقسیم کروں اور حکومت کرو پالیسی کی بدولت مدھم ہوتی چلی گئی۔
ہندوﺅں نے ہر پلیٹ فارم پر مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور اس کے
لئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے سکھوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف
خوب بڑھکایا ۔ اس طرح وہ انگریزوں کے آلہ کار کے طور پر نمایاں ہونے
لگے۔قائد اعظم نے ہندوﺅں کی اسی دوغلی پالیسی کوبھانپ کرہی کانگریس سے
علیحدگی اختیار کر کے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس طرح آزادی کی
شمع دو واضح حصوں میں بٹ گئی ۔اس شمع سے نئی شمع کو جلنا ہی تھا کیونکہ
مذہب اور تہذیب کے واضح فرق سے مسلمان ، ہندوﺅں سے یکسر جداگانہ حیثیت کے
مالک تھے۔ گو کہ برصغیر میں وہ صدیوں سے رہتے چلے آئے تھے مگر مذہب، تہذیب
وتمدن کے لحاظ سے کسی بھی طرح ہندو قوم جیسے نہ تھے۔ اس طرح آزادی کی یہ
جدوجہد مسلمانوں کے لئے تحریک پاکستان قرار پائی ۔ یہ تحریک خالصتاََ
دوقومی نظریے کی بنیاد پر تھی۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہجرت کے
دوران جو فسادات ہوئے اس میں ہندوﺅں اور سکھوں نے مل کر مسلمان مہاجرین کا
قتل عام کیا اورپاکستان ہجرت کرنے والے قافلے لوٹ لئے۔ اس قتل عام پر بہت
سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ بات کو مختصر کرتے
ہیں کہ قیام پاکستان میں بھگت سنگھ کا کوئی کردار نہیں ہے البتہ اسے
انگریزوں کے خلاف اولین مزاحمت کار کہا جاسکتا ہے۔ اس نے اس مقصد کے لئے
”نوجوان بھارت سبھا“ بنائی تھی ۔ اس لحاظ سے اس کی جرات اور بہادری کا
اعتراف کیا جاتا ہے مگر اسے پاکستان کا ہیرو قراردینا معیوب سا معلوم ہوتا
ہے کیونکہ بہت سے مسلمان نوجوان بھی اس وقت انگریزوں کے خلاف مزاحمت پر
اپنے سرقلم کروا چکے تھے اور انہوں نے بھی اس کے خلاف مسلح مزاحمت میں حصہ
لیا۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو بھگت سنگھ چوک کے حوالے سے مہم اور لابی کے
پیچھے مسلمانوں اور سکھوں کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش بھی کارفرما
ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کچھ عناصر شادمان چوک کو بھگت سنگھ بنانے پر تل گئے تو
چند آوازیں ان کے خلاف بھی اٹھیں گی اور اس طرح ایک شور برپا پیدا کرکے اسے
عالمی میڈیا پرلے جانے کی کوشش کی جائے گی اور پھر بات انسانی حقوق کی خلاف
ورزی اور اقلیتوں کے حقوق تک چلے جائے گی۔اس بحث میں اس خبر کو بھی فراموش
نہیں کرنا چاہئے جس کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ نے اپنی وزارت خارجہ
کے خصوصی سیل کے ذریعے بھارتی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے دفاع کی ایک ٹاپ
سیکرٹ رپورٹ میںانکشاف کیا ہے کہ بھارتی فلم سازوں، فنکاروں، دانشوروں اور
صحافیوں کے علاوہ مختلف مذاہب کے گروپوں نے پاکستان میں اپنے دوروں کے
دوران فلمی، ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں بھارت نواز لابی قائم کرنے میں
نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی ثقافتی یلغار پاکستان
میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا موثر اور مضبوط ہتھیار ثابت ہوا ہے۔ اس چیز
کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم حالات کا جائزہ لیں تو بھارت کے حوالے سے مختلف
طبقوں میں واضح طورپر لچک سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے بعض دانشوروں اور
لکھاریوں میں بھارت مخالف جذبات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھارتی
فلمیں آچکی ہیں۔ میڈیا میں بھارتی لچڑ پن بڑے ذوق وشوق سے دکھایا جارہا ہے
اور ہماری نوجوان نسل اس سے کافی متاثر نظر آتی ہے۔ ہمارے اخبارات بھارتی
ڈراموں کی کوریج اور اداکاروں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس بھارت نواز
لابی نے پاکستان نے وہ خاموش انقلاب برپا کررکھا ہے کہ ہماری ہر چیز اب اس
سے متاثر نظر آتی ہے۔اس طرح پاکستان کوایک سازش کے تحت’ انڈین نائز‘ کیا
جارہا ہے۔ شادمان چوک کانام بدل کر بھگت سنگھ سے منسوب کرنا بھی اسی سلسلے
کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا وجود دوقومی
نظریے پر قائم ہے۔ اگر ہم اسی طرح بھارتی لابی کے زیر اثر پاکستان کو’
انڈین نائز‘ کرتے رہے تو ایک دن اپنا وجود اور شناخت کھو بیٹھیں گے۔ |