محرم کا پہلا عشرہ خوف وہراس کی
کیفیت میں ختم ہوا۔ اس دس روز کے دوران ایسا کچھ انوکھا نہیں ہوا جس کے
خدشات ظاہر کیئے جارہے تھے یا جس کا واویلہ مچاکر خوف پیدا کیا گیا تھا
مطلب یہ ہے کہ وہ ہی کچھ ہوتا رہا جو گذشتہ ساڑے چار سالوں سے بلکہ اس سے
پہلے سے ہورہا ہے۔ بہت کچھ ہونے کا خوف کسی نامعلوم نے نہیں بلکہ ہماری
اپنی حکومت نے پیدا کیاتھا۔اگر کوئی انوکھی بات اس عشرے میں ہوئی تو وہ یہ
تھی کہ سات تا دس محرم تک تینوں ایام میں موبائل فونز کو بند رکھا گیا۔
حکومت کی جانب سے کئے گئے سخت انتظامات ”نمک کا گھر ثابت ہوئے“ پھر بھی
کوشش کی جارہی ہے کہ ان انتظامات اور اقدامات کودرست اور وقت کی ضرورت
قراردیا جائے۔سندھ کے گورنر نے اے آر ملک کے ان اقدامات کو مزید تنقید سے
بچانے کے لیئے علماءکا اجلاس گورنر ہاﺅ س میں طلب کیااور یہ کہنے کی کوشش
کی کہ اگر محرم میں یہ اقدامات نہ کیئے جاتے تو بہت زیادہ تباہی ہوتی۔انہوں
نے اپنی حکومتی کمپنی کی تعریف بھی کی ۔تعریف کیوں نہ کرتے گورنر صاحب نے
تو ان اقدامات کے ڈائریکٹراے آر ملک کو اس سے قبل پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری
تک دے چکے ہیں ،تعریف کرنا ان کے لیئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔لیکن نا جانے
کیوں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان اقدامات سے مطمئین ہونے کے بجائے شکوے اور
شکایتیں کرتی ہوئی نظر آئی۔خیال ہے کہ یہ اقدامات دیرپا ثمرات حاصل کرنے کے
لیئے کیئے گئے تھے لیکن بہانہ دہماکوں یا دہشت گردی کی کارروائیوں کے خدشات
کو بنایا گیا تھاان اقدامات کے ثمرات موجودہ حکومتی ٹولہ انتخابات کے قریب
حاصل کرنا چاہتا ہے۔
بعض سیاستدانوں کو خدشہ ہے کہ امن وامان کو بحال رکھنے کا جواز بناکر
الیکشن کے قریب بھی موبائل فون کی سہولت عوام سے چھیں لی جائے گی اگر ایسا
ہوا توانتخابی عمل متاثر ہوسکتا ہے ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ امن و امان کی
خراب صورتحال کا بہانہ بناکر انتخابات ملتوی کردیئے جائیں۔
اے آر ملک کے اقدامات کے نتائج سب کے سامنے آچکے ہیں سیکیورٹی کے اقدامات
تین دن کے لیئے یا دس دن کے لیئے کیئے گئے تھے اس لیئے شائد بارہ محرم کو
اسلام آباد میں صحافی حامد میر پر مبینہ حملے کا واقعہ رونماءہوا ۔ اس
واقعے کے بارے میں شکوک موجود ہیں اور اس حوالے سے سوالات بھی ہیں ۔ بعض
افراد اسے ڈرامہ قرادے رہے ہیں اور بعض اسے حکومتی چال ۔ مجھے بھی اس واقعہ
پر ابتداءہی سے شبہ تھا لیکن واقعہ کی شام حامد میر نے اپنے پروگرام میں جو
سوال اٹھایا اس سے مجھے ان پر ہونے والے مبینہ حملے کے مشکوک ہونے کو مزید
تقویت ملی جبکہ حملے کے حوالے سے شکوک و شبہات کے جنم لینے سے بحثیت صحافی
احساس شرمندگی بھی ہے۔
اپنے چینل یا اپنی ذات کی پالیسی کے باعث حامد میر نے کیپٹل ٹاک میں یہ
سوال اٹھایا کہ ”کیا پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے“ یہ
وہی سوال تھاجس نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ ڈالا تھا۔میں سوچنے لگا کہ
موجودہ حالات میں یہ سوال کیا امریکہ کو ہر طرح کی جارحیت اور دہشت گردی سے
لاتعلق کرنے کی کوشش ہے؟۔ حامد میر سمیت سب ہی یہ جانتے ہیں کہ امریکہ وطن
عزیز میں نہ صرف خفیہ بلکہ کھلی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔پھر
یہ سوال جب خود ان ہی پر حملہ کرنے کی ناکام مبینہ کوشش کی گئی ہے کے حوالے
سے کیوں کیا گیا؟حامد میر میرے ہم پیشہ ہے لیکن ہمارا شمار تو ان صحافیوں
میں ہوتا ہے جو درست نتائج کے لیئے اپنے سگے بھائی پر بھی شک کرسکتے ہیں۔اس
لیئے میں یہ کہنے میں کیوں ہچکچاہٹ سے کام لوں کہ ” یہ سوال اور پروگرام اس
اسکرپٹ کا حصہ تو نہیں تھا جس کے تحت حامد کی گاڑی کے نیچے سے بم برآمد کیا
گیا ہے“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حامد میر غیر معمولی تعلقات رکھنے والے مشہورصحافی
ہیں اپنے تعلقات اور صلاحیتوں کے باعث وہ ایک ریجنل اخبار اوصاف سے منسلک
ہونے کے دوران اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کی
بعدازاں جیو نیوز جوائن کرکے بحیثیت اینکر پرسن اپنی صلاحیتوں کو مزید
اجاگر کیا۔ انہوں نے صحافی سے زیادہ ایک اینکر کی حیثیت میںاپنی شناخت
بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کا شمار طالبان سے بھی اچھے روابط رکھنے
اورالقائدہ تک رسائی حاصل کرنے والے بین الاقوامی صحافیوں میں ہوتا ہے تو
دوسری طرف غیرملکی سفارتی حلقوں میں بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا
ہے۔
حامد میر کو چند گھنٹوں کے اندر ہی ملالہ کا فون لندن کے ہسپتال جہاں وہ
زیر علاج ہیں موصول ہوجانا بھی اہمیت کا حامل ہے ۔جی ہاں وہ ملالہ جس پرچند
روز قبل سوات میں طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد اسے تشویشناک
حالت میں لندن منتقل کرکے مبینہ طور پر دماغ کا آپریشن کیا گیا لیکن پورے
سرپر گولی یا زخم کا نشان نظر نہیں آتا۔وہ ہی ملالہ جو اپنی قوم کی بچیوں
کی تعلیم کے لیئے جدوجہد کررہی تھی لیکن اب وہ وطن واپس نہیں آئے گی اس کے
والد کو لندن سفارتخانے میں ملازمت مل جائے گی ۔ مجھے ڈر ہے کہ آنے والے
دنوں میں کوئی نذر صحافی بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو خیر باد
نہ کہہ دے۔؟
حامد میر کو کسی نے مارنے یا ڈرانے کی کوشش کی ہے تو اس کیا وجوہات ہوسکتی
ہیں؟صرف خوف پھیلانا یا پھر حکومت کو پیغام دینا کہ وہ اسلام آباد میں ان
کے چہیتے لوگوں کے قریب ہیں ؟ لیکن اس سے زیادہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ
اس واقعہ کی سچائی کس حد تک ہے ؟سوال یہ بھی ہے کہ حامد میر کے ڈرائیور کی
غفلت کتنی ہے اورخود حامد میر نے کس حد تک اچھے شہری ہونے کی ذمہ داری ادا
کی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومتی اداروں کی غفلت سے زیادہ خود حامد میر
یا ان کا ڈرائیور کسی حد تک غفلت و لاپرواہی کامرتکب ہواہوکہ کو ئی نامعلوم
ان کی گاڑی کے قریب آیا اور بم لگاکر اطمینان سے چلاگیا۔اور کیا کسی نے بھی
نامعلوم کو اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں کار کے نیچے کارروائی کرتے ہوئے
نہیں دیکھا؟۔
یہ وہ اہم سوالات ہیں جو حامد میر ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے تحفظ سے متعلق
ہیں۔اس کے جوابات کسی اورکو نہیں وفاقی وزیرداخلہ ، پولیس اور سیکیورٹی سے
متعلق اداروں کے افسران کو دینا چاہئے ۔ان ہی پر یہ ذمہ دار عائد ہوتی ہے
کہ وہ اپنی تنخواہ و مراعات کے عوض اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔ وہ ان ذمہ
داریوں کی ادائیگی میں غفلت و لاپرواہی کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کے خلاف
بھی قانون کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے۔جب تک ان لوگوں کا احتساب نہیں
کیا جائے گا اس وقت تک صحافیوں سمیت کسی کو بھی تحفظ نہیں مل سکتا۔صرف تحفظ
کی یقین دہانیاں مل سکتی ہیں۔جیسے اے آر ملک نے حامد میر کو دی ہیں۔ |