اخبار اٹھایا تو پہلی نظر ایک
چھوٹی سی خبر پر پڑی۔ اٹارنی جنرل کا بیان تھا ”سپریم کورٹ کو بھی چھٹی
کرنی چاہیے تھی “۔ مجھے لگا کہ شاید حکومت کی چھٹی ہو گئی ہے اور ازراہ
ہمدردی اٹارنی جنرل کی خواہش ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی ڈوبنا
چاہیے۔مگر خبر پڑھ کر تمام غلط فہمی دور ہو گئی۔ پتہ چلا کہ اسلام آباد میں
تعطیل کے حوالے سے یہ خبر تھی۔ یہ قوم اس قدر خوش قسمت کہاں کہ حکومت کی
چھٹی ہو جائے۔ خوش قسمت تو حکومت ہے کہ ہزاروں ستائے ہوئے لوگ دن رات ہاتھ
اٹھائے پھرتے ہیں مگر اُن کی دُعاﺅں کے باوجود یہ لوگ قائم و دائم ہیں۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ پڑھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں اور ذہن کچھ اور
مطلب نکال رہا ہوتا ہے ۔ مگر کیا کیا جائے سوائے معذرت کے وہ بھی اُن لوگوں
سے جن کی غلط مطلب نکالنے سے دل آزاری ہوتی ہے۔ میں کالم لکھنا چاہتا ہوں
مگر سمجھ نہیں آتی کہ کسی موضوع پر لکھوں۔ خبریں ایسی ہیں کہ اُن پر لکھنے
کو دل نہیں چاہتا ۔ پورا ملک لہو لہو ہے مسلمان مسلمان کا دشمن، بھائی
بھائی کا دشمن۔ ہر سو لاشے گر رہے ہیں۔ ہم ہر جگہ نفرت بو رہے ہیں۔ نفرت
کاٹ رہے ہیں۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ آج بھی وہاں دس سے زیادہ لوگ ٹارگٹ کلنگ
کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حقیقت میں پورا پاکستان ہے یہاں اس ملک کے ہر گوشے سے
آکر لوگ آباد ہیں۔ مگر اب یہاں نفرتیں پلتی ہیں۔ یہاں شعیوں کو سنیوں سے
نفرت ہے۔، سنیوں کو وہابیوں سے نفرت ہے۔ وہابیوں کو اہل حدیث سے نفرت ہے۔
اہل حدیث کو سیاسی گروپوں سے نفرت ہے۔کسی سیاسی گروپ کو مہاجروں سے نفرت
ہے۔ مہاجروں کو بلوچوں سے نفرت ہے۔ بلوچوں کو پٹھانوں سے نفرت ہے۔ پٹھانوں
کو سندھیوں سے نفرت ہے۔ سندھیوں کو پنچابیوں سے نفرت ہے۔ یہاں ایک علاقے کو
دوسرے علاقے سے نفرت ہے۔ ایک محلے کو دوسرے محلے سے نفرت ہے۔ ایک ہمسائے کو
دوسرے ہمسائے سے نفرت ہے۔ نفرت کا یہ سیلاب سب کو بہا کر لے جا رہا ہے اور
اب کراچی کے ہر اُس کونے میں پہنچ رہا ہے جہاں اس کی دسترس کا سوچا بھی
نہیں جاتا تھا ۔ نفرت کا کیا علاج ہے کچھ سمجھ نہیں آتا۔ فوج کے لوگ لوگ
خود کو نفرت کا بہترین معالج سمجھتے ہیں۔ گو جنرل کیانی کا تازہ بیان ہے کہ
کراچی میں فوجی آپریشن کی کوئی ضرورت نہیں مگر لاشے اسی طرح گرتے رہے تو
فوج کو کون روکے گا۔ ویسے بھی جب جرنیل نہ آنے کے بیانات دینے لگیں تو اُن
کے آنے کے لمحات بہت قریب ہوتے ہیں۔ صورتحال جس طرح بگڑ رہی ہے۔ کراچی کیا
پورے ملک کو فوج کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔ لوگ کہتے ہیں الیکشن قریب ہیں
مگر لاشوں کی صورتحال یہی رہی تو الیکشن کی نسبت فوج زیادہ قریب دکھائی
دیتی ہے۔
دعائے مغفرت کی ایک تقریب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے جیالے محترم
آصف ہاشمی اور جیالے پن کا تازہ تازہ تاج پہنننے والے حضرت منظور وٹو آپس
میں الجھ پڑے ۔ گو یہ جھگڑا ذاتی سا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ 2012ءمیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے ایک بہت بڑی ڈکیتی ہوئی ہے۔ ڈکیتی صرف مال
و اسباب لٹ جانے کا نام ہی نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سوچ اور نظریات لٹ گئے ۔
افکار اور نظریات چھین لیے گئے۔ اساس اور روایات پر ایسے لوگ قابض ہو گئے
جو اُس اساس اور اُن روایات کے کبھی دشمن ہوتے تھے۔ اس سے بڑی ڈکیتی اور
کیا ہو سکتی ہے اور اس پر حد یہ کہ جیالے احتجاج بھی نہیں کر سکتے۔ کسی کو
فریاد بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں مجبوراً حالات سے سمجھوتہ کرنا ہے ۔ لیکن وہ
لوگ اور ورکر جن کی تربیت بھٹو نے کی۔ جنہوں نے ایک طویل عرصے تک بے نظیر
بھٹو کے ساتھ کٹھن حالات میں وقت گزارا۔ آج پریشان اور بے چین ہیں۔ پارٹی
میں اےک نیا مزاج غالب آرہا ہے جو پارٹی کے پرانے مزاج سے مطابقت نہیں
رکھتا۔ پارٹی کے جیالے جن کا جینا مرنا پارٹی کے لیے ہے اور جو سالوں سے
فقط قربانیاں دیتے آرہے ہیں وہ خون دینے والے مجنوں اب نئے آنے والے دودھ
پی کر پلنے والے مجنوﺅں کو کیسے برداشت کریں گے۔ آصف ہاشمی اور منظور وٹو
کا یہ اختلاف پارٹی کے پرانے نظریاتی کارکنوں اور پارٹی میں نئے آنے والے
پارٹی کلچر سے بہت حد تک ناواقف ، ابن الوقت لیڈروں کا اختلاف ہے۔ جسے
سمجھنا پارٹی کے ذمہ داروں کا کام ہے۔ وگرنہ پارٹی کی نئی قیادت پارٹی کو
جہاں لے آئی ہے اس سے بھی بد تر حالات پارٹی کا مقدر ہوں گے۔ ایک کام کرنے
والا اور محنتی کارکن تو ایسے حالات میں پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔
اقتدار میں بیٹھے لوگ چیزوں کو خوشامدیوں کی نظر سے دیکھ کر نہ تو صحیح
اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی زمینی حقائق جان سکتے ہیں۔ انتخاب قریب ہے
اور حالات انتہائی کٹھن۔ نئے آنے والے تو فنکار ہوتے ہیں۔ انہیں پارٹیوں سے
زیادہ ذات ، عزیز ہوتی ہے۔ کام نکلے تو خوب ، نہ نکلے تو انہیں پھر بھی
نقصان نہیں ہوتا وہ راستہ بدلنا جانتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے۔ اُدھر
ڈوبے ادھر نکلے۔ |