چوہے

گزشتہ ماہ راول پنڈی سے ایک سنسنی خیز خبر آئی کہ کسی شفاخانے میں ایک نو مولود بچے پر چوہے ٹو ٹ پڑے اور اس معصوم ،بے بس اور نا تواں بچے کو لہو لہان کر دیا ۔بچوں کے ساتھ چوہوں کی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہر چوہا یہ چاہتا ہے کہ وہ بچوں کو لقمہءتر بنا لے ۔ایسے آدم خور چوہوں کی موجودگی کی خبر سن کر ہر طرف خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی ۔لوہا بازاروں میں دھڑا دھڑ چوہے دان خریدے جا رہے ہیں ۔حواس باختہ خریداروں کا ایک تانتا بندھ گیاہے جوجلد از جلد کوئی چوہے دان یا شکنجہ خریدنا چاہتے ہیں تا کہ چوہا گردی سے نجات حاصل کر سکیں ۔ صنعت کاروں کی بھی بن آئی اور اب وہ دھڑا دھڑ چوہے دان بنانے میںمصروف ہیں ۔انجمن تاجران چوہے دان ،چوہا بازار عدم آباد کے ہنگامی اجلاس میں طلنب کے مطابق چوہے دان کی رسد کو یقینی بنانے پر غور کیا گیا ۔صنعت کاروں کا خیال ہے کہ آدم خور چوہے پوری دنیا میں موجود ہیں اس لیے چوہے دان بر آمد کرنے سے قیمتی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے والدین کو اپنے کم سن شیر خوار بچوں کے لیے دودھ کی اتنی فکر نہیں جتنی انھیں اپنے نو نہالوں کو چوہوں سے بچانے کی فکر ہے ۔وہ سب اس غم میں ہلکان ہو رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت یا کسی مصروفیت سے نا جائز فائدہ اٹھا کر کوئی چوہا ا ن کے جگر گوشے کے رخ روشن پر دانت گاڑ دے اور وہ دانت پیستے رہ جائیں ۔اس کے بعد جب بچہ لہو لہاں ہو جائے تو معالج کی بھاری فیس اوربچے کے علاج معالجے پر زر کثیر خرچ کرناپڑے اور وہ ہاتھ ملتے رہ جائیں ۔حال آں کہ اس میں یاس و ہراس کی کوئی وجہ نہیں ۔ہاں حیرت کی بات ضرور ہے کہ شفاخانے کی انتظامیہ اس رسوائے زمانہ بلی کی خدمات حاصل کرنے میں کیوں ناکام رہی جس نے نو سو چوہے کھانے کا ریکارڈ قائم کیا اور پھر گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔ایسی تارک الدنیا بلیاں اپنے چوہا خوری کے طویل تجربے سے انسانیت کو اس خطرے سے بچا سکتی ہیں ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چوہے اور بلی کا جو شکار دیکھنے میں آرہا ہے وہ اہل دانش کے لیے لمحہ ءفکریہ ہے ۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات اب قصہءپارینہ بن چکی ہے ۔اب تو جس کی بلی اسی کا چوہا والی کیفیت ہر طرف دیکھنے والوں کا منہ چڑا رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ گھروں کی حفاظت کے لیے کتے پالتے تھے پھر المیہ یہ ہوا کہ یہ کتے چوروں سے ساز باز کر لیتے اور اس طرح چوروں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ۔آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے ہر طرف کتوں اور چوروں کی ملی بھگت ہے اور بلی نے بھی چوہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کار قائم کر لیے ہیں ۔ بلی اور چوہے اب پر امن بقائے باہمی کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہیں۔پرانے مطلق العنان بادشا ہوں کے عدل کے بارے میں بے پر کی اڑائی جاتی تھی کہ ان کے عہد میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے ۔آج کے عہد کے ادل کے مطابق جو بات مشہور ہے وہ پر بھی رکھتی ہے اور طاقت پرواز بھی رکھتی ہے ۔ قصہ یہ ہے کہ آج بلی ،کتا اور چوہا ایک ہی کمرے میںگزر بسر کرتے ہیں ،وہیں مل کر چیزوں کا تیا پانچہ کرتے ہیں ،ان کے بخیے ادھیڑتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو گزند نہیں پہنچاتے ۔ کیسا زمانہ آگیا ہے ہر کوئی اپنی فضا میںدیوانہ وار مست پھرتا ہے ،فاختائیں اور گلچھرے اڑانا آج کے نیر وکا محبو ب مشغلہ ہے ۔چوہا بل میں سما نے سے رہا مگر دم سے چھاج باندھے ہر طرف اودھم مچانے میں مصروف ہے ۔چوہا کنی میں پلنے والے سانپ تلے کے بچھو ہر طرف ڈنک مارنے کے لیے مو جود ہیں ۔جن کے گھر میں چوہے کا بچہ بھی نہیں وہ بھی اپنے اہل و عیال کے لیے کالا دھن سمیٹنے ،مال مفت بٹورنے ،مجبوروں کے حقوق غصب کرنے اور جا ئدادیں ہتھیانے کا کوئی مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ چوہے کے ہاتھ ہلدی کیا لگی کہ اس نے خود کو پنساری سمجھنا شروع کر دیا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ چوہے کا جنا ہمیشہ بل ہی ڈھونڈتا ہے ۔ ایسے چوہوں کو فطرت کی تعز یروں سے غافل نہیںرہنا چاہیے ، سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے ،یہی غاصب چوہے جو روم کو جلتا دیکھ کر دیپک راگ الاپ کر اپنی آدم خوری پر دم ہلاتے ،دانت نکالتے اور چلاتے پھرتے ہیں کل یہ بل ڈھونڈتے پھریں گے مگر ان کو جہاں میں کہیں بھی اماں نہ مل سکے گی ۔

کسی جنگل میں ایک شیر رہتا تھا ۔اس درندے نے پورے جنگل میں جنگل کا قانون پوری مار دھارڑ کے ساتھ لاگو کررکھا تھا۔موسم گرما کی ایک دوپہر تھی شیر گرمی کی شدت سے بو کھلا کر اپنی کچھار سے نکلا اور ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سستانے لگا ۔جلد ہی اس کے خراٹوں کی آواز سن کر نزدیکی بل سے ایک بے وقوف چوہا نکلا اور شیر کے جسم پر اچھل کود کر اپنی طاقت کا مظاہر ہ کرنے لگا ۔جوں ہی اس چوہے نے شیر کی ناک کے بال نوچے شیر نے اسے پکڑ لیا او ر ”کون ہو تم ؟تمھاری یہ تاب اور مجال کہ تم جنگل کے بادشا ہ کے جسم کو روندتے ہو۔ اے نا ہنجار بے وقعت مخلوق آج تمھیں اس گستاخی کی سزا ضرور ملے گی اور تمھیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا۔ذات کی کوڑھ کرلی اور شہتیروں کو جپھے ۔“ ا س سے قبل کہ درندہ اسے اپنا ایک نوالہ بناتا چوہے نے کہا :
” میں چھوٹا سا اک چوہا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ مجھے آزاد کر دو ،ہو سکتا ہے کسی روز میں تمھارے کام آ جاﺅں اور میری رہائی تمھارے لیے اچھا شگون بن جائے ۔“

یہ سن کر شیر نے حقارت سے چوہے کو دیکھا اور دہاڑا ”شیر بھوک سے مر تو سکتا ہے مگر کبھی گھاس نہیں چرتا ۔شیر جان کی بازی ہار سکتا ہے مگر کبھی ایک حقیر چوہے سے اپنی جان بچانے کی التجا نہیں کر سکتا یا مشکل گھڑی اسے مدد کے لیے نہیں پکار سکتا ۔ایسی سوچ پر تو رونے کو جی چاہتاہے۔جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے بھاگ جا میں جنگل کا بادشا ہ ہوں ۔مجھے کسی چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں۔“یہ کہہ کر شیر نے چوہے کو زمین پر پٹخ دیا اور چوہا دم ہلاتا ،دانت نکالتا اپنے بل میں جا گھسا ۔چوہے کو یقین تھا کہ یہ خونخوار درندہ جس قدر مغرور ہے وہ ایک نہ ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا ۔جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آتا ہے تب اسے آٹے دال کے بھاﺅ کا علم ہوتا ہے ۔وقت گزرتا رہا ۔شیر اس واقعے کو بھول گیا اور چوہے نے بھی اب اپنی زندگی کے معمولات کو بد ل لیا ۔اب وہ اس جانب کا کبی رخ نہ کرتا جس جانب کسی درندے کی بھنک پڑتی ۔اس چوہے نے اپنے مہا چہوں سے یہ سن رکھا تھا کہ طاقت ور کے نہ تو آگے سے گزرو اور نہ ہی اس کے پیچھے سے گزرو۔صرف اسی طرح تم جان بچا سکتے ہو۔

ایک مرتبہ وہی شیر ایک شکاری کے تیار کیے ہوئے مضبوط رسوں کے جال میں پھنس گیا ۔شیرنے پوری قوت آزمائی مگر وہ اسے توڑنے میں بری طرح ناکام ہو گیا ۔شکاری اپنے جال میں پھنسے درندوں کو زندہ پکڑنے کے لیے ا نھیں بھوک کے عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ یہ شیر بھی جال میں پھنسا بھوک سے نڈھال دہاڑ رہا تھا مگر ہر طرف ہو کا عالم تھا کسی نے اس کی فریاد پر کان نہ دھرے ۔جنگل کے بادشاہ کو مصیبت میں دیکھ کر سب رعایا نے آنکھیں پھیر لیں ۔چڑھتے سور ج کی پوجا کرنے والے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے و الے اپنا الو سیدھا کرنے کے بعد ہمیشہ اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ کر دوسروں کی آنکھوں میں د ھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے شیر نے خاک بھی چاٹی اور گھاس بھی چبائی مگر بے سود ۔ بھوک کی وجہ سے اب تو شیر کی شیرانہ خو بھی عنقا ہونے لگی تھی ۔

سامنے درخت کی شاخوں پر بیٹھے بوم ،کرگس ،زاغ و زغن اور شپر جنگل کے بادشاہ کی اسیری پر خوش تھے ۔جنگل کے تمام جانوروں نے اس موذی درندے کو جب جال میں پھنسے دیکھا تو انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔شیر کو بھوک کی وجہ سے دن میں تارے نظر آرہے تھے ۔اس کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا ۔ساتھ ہی اس چوہے کا بل تھا۔چوہا بل سے نکلا اور شیر کو دیکھ کر اس نے چپ سادھ لی ۔اس پرانے آشنا چوہے کو دیکھ کر شیر نے ہجوم غم میں دل کو سنبھالتے ہوئے اور چوہے کے سامنے زمین پر ناک رگڑتے ہوئے کہا ”اے میرے دیرینہ رفیق اور جنگل کے عظیم اثاثے چوہے مجھے پہچانا،میں وہی شیر ہوں جس نے تمھاری جان بخشی کی تھی ۔میں تمھارے پاﺅں پڑتا ہوں او تم سے مدد کی التجا کرتا ہوں ۔آگے بڑھو اور یہ جال اپنے تیز دانتوں سے کاٹ د و میں رہا ہوتے ہی تمھیں اپنا مشیر بناﺅں گا اور میرے بعد تم میرے جانشین ہو گے ۔ تم میرے محسن بن جاﺅ اور میری جان بچاﺅ ۔مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے ۔“

” لیکن تم نے تو کہا تھا کہ شیر مر تو سکتا ہے مگر اسے کسی چوہے کی مدد کی ضرورت نہیں۔“ چوہے نے طنز یہ انداز میں کہا”اب کہا ں گئی وہ تمھاری خونخواری۔اب میرے سامنے کیوں زمین پر ناک رگڑ رہے ہو؟ اس وقت تو تم اپنی اوقات سے بڑھ کر بات کر رہے تھے ۔“

” تم سچ کہتے ہو چوہے بادشاہ ہمیں ہمیشہ اپنی اوقات ہی میں رہنا چاہیے ۔“ شیر نے روتے ہوئے کہا ” اپنی اوقات سے بڑھنے والے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے ہیں اور وہ اپنی شناخت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ مجھے تو تم کوئی فلسفی لگتے ہو ۔اب تو مجھے بھی ارسطو کا تصور المیہ یاد ہو گیا ہے ۔اب منطق اور فلسفے کو چھوڑواور جلدی سے اپنے دانتوں سے جال کی رسیاں کاٹ کر مجھے با ہر نکلنے کا راستہ بنا دو ۔میں تمھارا یہ احسان زندگی بھر نہ بھولوں گا ۔“

بے وقو ف چوہے نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ اور آگے بڑھ کر جال کی رسیا ں اپنے تیز دانتو ں سے کا ٹ دیں۔شیر جب جال سے باہر نکلا تو اس نے پھر سے درندگی کا سلسلہ شرع کر دیا ۔اب اس نے چوہوں ،چھپکلیوں ،مینڈکوں اور دوسرے حشرات کو ابھی اپنے ساتھ ملالیا ۔وہ دن اور آج کا دن چوہوں کو شیر کی سر پرستی حاصل ہے اور چوہا گردی کی ہر واردات کے پیچھے کسی نہ کسی درندے کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے ۔ ہر شخص یہ بات اچھ طرح جانتا ہے کہ درندوں کی آشیر باد کے بغیر بھلا ایک بے وقعت اور حقیر چوہا ایک انسان کو کیسے نوچ سکتا ہے ؟

ماہرین علم الحیوانات کا خیال ہے کہ چوہوں کی متعد د اقسام ہیں۔ان کی کئی انواع ،اقسام اورخاندان ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جو چوہا جس جگہ ہے وہ لا جواب ہے۔اس کا وجود ایک سراب اور پیہم عذاب ہے ۔عالمی ادب پر نظر ڈالیں تو کئی ادبی چوہے بھی مل جاتے ہیں ۔نقادوں کی رائے ہے کہ اس قماش کے چوہے چربہ سازی ،سرقہ ،جعل سازی ،نقالی اور کفن چوری میں اپنی مثال آپ ہیں ۔یہ چوہے ضخیم کلیات،تصانیف اور دیوان کتر کر اپنے پیٹ میں ٹھونس لیتے ہیں ۔خوب جگالی کر کے اسے ہضم کر لیتے ہیں اور پھر جب اگلتے ہیں تواس پر ان کا نام کندہ ہوتا ہے ۔کئی متشاعر اسی نوعیت کی واردات کرتے پکڑے گئے مگر ہر بار جال کتر کر بل میں جا گھسے ۔سچ ہے لاتوں کے چوہے باتوں سے کب مانتے ہیں ؟شاہ دولہ کے چوہے اپنی شکل و صورت کے اعتبار سے بہت معصوم مگر مظلوم دکھائی دیتے ہیں ۔انھیں بردہ فروش گداگری کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔عالمی طاقتوں کے فراعنہ غریب اقوام کے بے بس لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو شاہ دولہ کے چوہوں کے ساتھ ان کا آقا کرتا ہے ۔ ان سپر طاقتوں کے سامنے غریب ممالک کے عوام شاہ دولہ کے چوہوں کے مانند ہیں مانگ کرکماتے تو شا ہ دولہ کے چوہے ہیں مگر ان کی کمائی پر داد عیش دینے والے ان کے مالک ہیں جو کہ ان کو بہ طور آلہ ءکار استعمال کرتے ہیں اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے پھرتے ہیں ۔جنگلی چوہے صحراﺅں اور جنگلوں میں رہتے ہیں اور خود رو جڑی بو ٹیوں پر گزار کرتے ہیں۔شہر ی چوہے گنجان آ بادیوں میں رہتے ہیں ان کی پسندیدہ غذا فاسٹ فوڈ ہے ۔فصلی چوہے بھی فصلی بٹیروں کی طرح کھیتوں کی فصلوں کو کھا جاتے ہیں ۔اس میں وہ کچی یا پکی فصل کا کوئی امتیاز نہیں کرتے ۔زندگی کا کوئی شعبہ چوہوں کی غاصبانہ دستبرد سے محفوط نہیں ۔

نو سو چوہے کھا کر تارک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہونے والی ایک بھیگی بلی نے ایسا سوانگ رچایا کہ کئی آزمودہ کار اورسرد گرم چشیدہ چوہے بھی اس کے دام فریب میں آکر اس کے عقیدت مند بن گئے ۔وہ بلی اب بیماری ،بڑھاپے اور کمزوری کے باعث ،جھپٹنے ،پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے کی تاب سے یکسر محروم ہو چکی تھی ۔اپنے حواری چوہوں پر ہی اس کی گزر بسر ہوتی تھی۔اس مسکین گربہ نے گرگ آشتی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا تھا ۔جب بھی کوئی چوہا دم بھر کے لیے غافل ہو کر اپنی حفاظت کے اولین کام سے غفلت کا مرتکب ہوتا تو بلی اس چوہے کا اسی وقت کام تمام کر دیتی ۔ایک مر تبہ اس بلی نے کوڑے کے ڈھیر کو سونگھنے ،وہاں سے اپنے مفادات کے استخواں چننے اور اپنے نزدیک دم ہلانے والے ایک چوہے کو دبوچا مگر چوہا تیز نکلا وہ دم دبا کر بھاگا مگر بلی نے اس کی دم کاٹ لی تھی ۔اب چوہا بل میں جا گھسا وہاں سے دم کٹے چوہے نے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے باہر جھانکا تو اس کھسیانی بلی نے کھمبا نوچتے ہوئے کہا :
” اے میرے پیارے چوہے !یہ تمھاری دم میرے پاس امانت ہے ۔یہ تو میں پیار سے تمھاری دم کو چوم رہی تھی کہ تم بلاوجہ ڈر کے بھاگ نکلے اور دم میرے ہونٹوں میں رہ گئی اور تم لنڈورے ہو گئے ہو ۔اب دیر نہ کرو جلدی میری آغوش میں سمٹ آﺅ تاکہ میں اس دم کو پیوند کاری کے ذریعے پھر سے تمھارے جسم کا حصہ بنا دوں ۔اس طرح تم پہلے کی طرح دل ربا ، خوب صور ت اور حسین نظر آ نے لگو گے ۔“

وہ چوہا بھی اس سازش اور مکر کی چال کو سمجھ گیا اس نے بلی کی شرم ناک حرکت کے جواب میں اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا :“بخشو بی بلی ،چوہا لنڈورا ہی بھلا “

کسی گاﺅں میں چوہوں کی اس قدر فراوانی تھی کی جس طرف بھی آنکھ اٹھتی چوہے ہی چوہے دکھائی دیتے ۔چوہے پل بھر میں اناج کے گوداموں کا صفایا کر دیتے ۔چوہوں کی اس خطرناک چوہا گردی نے کئی بل اجاڑ دئیے ۔سانپ ،بچھو، نیولے ،مینڈک اور کئی حشرات وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے ۔وہ جو نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں وہ ہر طرف دندناتے پھرتے تھے۔جو بھی تین پانچ کرتا اسے بارہ پتھر کر دیا جاتا۔ایک تاجر کے پاس سو من لو ہا تھا اس نے اپنے ایک پڑوسی کے پاس وہ سو من لوہا امانت رکھااور خود قسمت آزمائی کرنے کے لیے ایک دور دراز ملک کی جانب سدھار گیا ۔دس سال کے بعد واپس آیا تو اس نے اپنے پڑوسی سے اپنی امانت سو من لوہا طلب کیا ۔پڑوسی نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا کہ وہ تمام لوہا تو چوہے کھا گئے ہیں ۔تم تو اچھی طرح جانتے ہو یہاں کے چوہے تو ریل کی پٹڑیاں تک ہضم کر گئے ہیں ۔تاجر چپ ہو گیا اور جب با ہر نکلا تو اس نے پڑوسی کا چھ سالہ بچہ اٹھایا اوراسے اپنے گھرکے کمرے میں بند کر دیا ۔ شام ہوتے ہی جب بچہ گھر نہ پہنچا تو اس کی تلاش شروع ہ وگئی ۔اس عیار پڑوسی نے تاجر سے اپنے بچے کی گم شدگی کے بارے میں پوچھا تو تا جر نے کہا ”میں نے بچے کو دیکھا تھا اسے تو آج سہ پہر ایک چیل اٹھا کر اڑی جا رہی تھی “

یہ کیسے ہو وسکتا ہے ؟“پڑوسی نے آ گ بگولا ہو کر کہا ”بارہ کلو کے بچے کو ایک کلو کی چیل کیسے اٹھا کر ہوا میں اونچی اڑان بھر سکتی ہے ؟میاں ہوش کے ناخن لو ۔لگتا ہے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے بعد تمھاری مثال بھی دھوبی کے ا س کتے کی ہو چکی ہے جو نہ تو گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا ۔“

”میں نے تمھاری بات کا اعتبارکر لیا مگر تم میری بات کو ماننے سے انکار کر رہے ہو “تاجر نے تحمل سے کہا”جس بد قسمت گاﺅں کے خونخوار چوہے سو من لوہا کھا سکتے ہیں وہاں کی چیلیں تو ہاتھی کو بھی اٹھا کر ماﺅنٹ ایورسٹ پر اپنے گھونسلے میں لے جا سکتی ہیں اور اس کی تکا بوٹی کر سکتی ہیں ۔“

اس عیار پڑوسی کو جلد ہی اپنی بے ضمیری،بے غیرتی ،بے حسی اور شقاوت آمیز نا انصافی کا احساس ہو گیا اس نے تاجر کو سو من لوہا واپس کر دیا اور اپنا بچہ گھر لے آیا۔اب وہ کہہ رہا تھا کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہ سمجھا جائے ۔اس گاﺅں میں چوہے اب بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر وہ عارض کو نوچتے ہیں اور ان کی زندگانی محض عارضی ہو کر رہ گئی ہے ۔

عالمی ادب میں چوہوں کو ہمیشہ اہم مقام حاصل رہا ہے ۔چوہوں کے بارے میں بچوں کا ادب بڑی توجہ سے پڑھا جاتا ہے ۔صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے لیے جو نظمیں لکھی ہیں ان میں کئی نظمیں چوہوں کے موضوع پرہیں۔ان میں سے ایک نظم تو بہت پرلطف ہے جس میںپانچ چوہے شکارکی غرض سے بل سے باہر نکل کر روانہ ہو تے ہیں ۔ایک چوہا پیچھے رہ جاتا ہے اور باقی چار بین بجانے لگتے ہیں۔شاید ان چوہوں نے بھینس کے آگے بین بجائی ہو گی کہ ان میںسے ایک کو کھانسی کا جان لیوا دورہ پڑا اور وہ چل بسا ۔ظاہر ہے بھینس کے آگے بین بجانا اور اندھے کے آگے رونا اپنی بصارت اور جان کا زیان ہے ۔اب باقی تین اس قدر دل برداشتہ ہو گئے کہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب شکارتوہونے سے رہا ۔اجل کے ہاتھوں وہ خود شکار ہو رہے تھے اس لیے گھر کو بھاگ جانا ہی مصلحت تھی ۔ان تین چوہوں میں سے ایک نے اس تجویز سے اتفاق نہ کیا۔اس کی مثال ا س پسر کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باپ نہ ماری پدی اور بیٹا تیر انداز ۔ وہ اپنے زعم میں پیشہ ور شکاری بن کر اکیلا شکار کو چل نکلا اور کسی حادثے کا شکارہو گیا ۔اب پانچ میں سے صرف د وچوہے باقی رہ گئے تھے یہ دونوں چوہے بہت نیک تھے ۔ان نیک چوہوں کی نیکی اور سادگی کو دیکھ کر ایک فربہ چوہے کو بلی نے اپنے طعام کے لیے منتخب کر لیا اور اب ان پانچ شکاری چوہوں میں سے صرف ایک زندہ باقی بچ گیا۔اس ایک چوہے کے سر میں محبت کا خناس سما گیا اور اس نے پیار کی شادی کر لی ۔اس کی شادی ایک جھگڑالو چوہیا سے ہو گئی اور اس طرح وہ بھی تباہ ہو گیا ۔سچ ہے جب کسی کی بد قسمتی اسے دبوچ لیتی ہے تو خواہ وہ اونٹ کی پشت پر بھی سوار ہو اسے باﺅلا کتا کاٹ لیتا ہے ۔تقدیر کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ان پانچ شکاری چوہوں نے اپنی موت کا سامان خود کر لیا تھا۔اس نظم میں صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم نے بچوں کویہی سبق سمجھایا ہے کہ عاقبت نااندیش چوہوں نے اپنی تباہی کے تابوت میں خود د ہی کیل ٹھو نک دی تھی ۔

ایک مرتبہ چوہوں نے بلی کی دہشت گردی اور چوہا دشمنی سے تنگ آکر ایک بین الجنگلاتی چوہا کانفرنس طلب کی ۔دور ویرانے میں ایک کھنڈر میں بڑے بڑے چوہے مل بیٹھے اور بلی کی خونریزی سے بچنے کے لیے ایک فارمولے پر سب متفق ہو گئے ۔یہ طے ہو ا کے بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ دی جائے تا کہ جو ں ہی بلی چلتی ہوئی آئے گھنٹی کی آوازسن کر سب چوہے اپنے اپنے بل میں دبک جائیں۔ایک فربہ چوہا بھیجا گیاجو ایک کھیت میں لیٹے ہوئے بیل کے گلے میں بندھی گھنٹی اپنے تیز دانتوں سے کاٹ لایا۔اس گھنٹی کے ساتھ ایک دھاگہ بھی تھا جو کہ بلی کے گلے میں باندھنے کے لیے درکارتھا۔اب چوہوں کے سردار نے کہا کہ تم میں سے کون سورما چوہا ہے جو بلی کے گلے میں یہ گھنٹی باندھے گا ۔یہ سننا تھا کہ سب چوہوں کی گھگھی بندھ گئی اور وہ سب وہاں سے رفو چکر ہو گئے ۔

جب سے چوہوں نے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہیں اہل درد قبروں میں پاﺅں لتکائے بیٹھے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہوں نے اپنے بالوں میں پسو ہی نہیں انسانی عقوبت کے تمام سامان سمیٹ رکھے ہیں ۔پسو تو طاعون پھیلانے کے ذمہ دار ہیں مگر چوہے تو اب انسانی خون سے ہو لی کھیل رہے ہیں ۔جس طرح زمیں چوہوں سے بھرتی جا رہی ہے ایسا رنگ آسماںاب دیکھنے کو کہاں سے جگر آئے ۔اب تو چوہوں نے اس قدر قریب بستیا ں بسا لی ہیں کہ ہر گلی کوچے میں چوہوں کے انبوہ مو جود ہیں ۔گلیاں ،نالیاں ،گھر، محلے،چوپال ،ہسپتال ،مدرسے ،کھیت کھلیان ،دفاتراور شاہراہیں جدھر دیکھو چوہوں نے نظام تلپٹ کر کے لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔رنگیلے مغل حکم ران کو جب دلی پر نادر شاہ کی چڑھائی کی اطلاع ملی اور کابل سے افواج کے کوچ کا علم ہو اتو اس شاہ بے خبر نے عالم خواب میں کہا کہ ہنوز دلی دور است۔آج کے دور میں ا س نعرہءمستانہ کو تمام چوہوں نے اپنا دستورالعمل بنا رکھا ہے ۔یہ چوہے بلی کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے یہی کہتے ہیں کہ ہنوز بلی دور است ۔پھر سانحہ یہ ہوتا ہے کہ بلی ان چوہوں کو نگل جاتی ہے ۔حالات سے شپرانہ چشم پوشی کرنے والے چوہوں نے پورے معاشرتی نظام کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔ چوہوں کی ایذا رسانی کی وجہ سے زندگی ایک جبر مسلسل کا روپ دھار گئی ہے ۔

محکمہ صحت کا خیال ہے کہ جس طر ح کتا مار مہم کے خاطر خواہ نتائج بر آمد نہیں ہوئے اسی طرح چوہے ما ر مہم کی صورت حال بھی غیر امید افزا دکھائی دیتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چوہوںنے اپنی محرمانہ چالوں سے اپنے انسداد کی ہر تدبیر کو نا کام بنا نے کی ٹھان لی ہے ۔چوہے اور بلی کی ملی بھگت سے حالات روز بہ روز ابتر ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔آج کا انسان صحت ،سلامتی اور سکون قلب کی تلاش میں سر گرداں ہے لیکن چوہوں نے اسے سکوت کے صحرا اور سرابوں کے عذابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔آج چوہو ں کے بل کے کنارے کھڑے ہو کر لوگ اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیر جہاں کا حاصل ما سوائے حسرت و حیرت کچھ بھی تو نہیں ۔کل شام ایک دیوانہ ایک چوہے کے بل کے سامنے کھڑا پکار رہا تھا کہ یہاں کوئی ہے کہ نہیں ہے ۔شاید وہ موج طلاطم سے گھبرا کر اہنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا ۔دریا کی روانی اور چوہوں کی ایذا رسانی کے آگے بند با ندھنا بہت کٹھن مر حلہ ہے ۔چوہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہت منصو بے بنائے جاتے ہیں ۔ہر بار امید تو بندھ جاتی ہے لیکن یقین نہیں آتا ۔یہی خو ف دل میں گھر کر جاتا ہے کہ کہیں نہ کہیں گھر کے بھیدی ہی چوہوں کی افزائش میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔چوہوں کے پیچ و تاب کو دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہو جاتے ہیں ۔معاشرتی زندگی اور سماجی معا ملات میں چوہوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے التفات نے زندگی کو طو مار اغلاط بنا دیا ہے ۔باغباں اگر برق و شرر سے ساز باز کر لیں تو باغ کی ہر شاخ پر بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیرا ہوتا ہے ۔جہاں پہلے سر و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں حنظل اور زقوم سر اٹھانے لگتے ہیں۔اسی طرح اگر انسانوں کی رہائشی بستیوں میںاگر چوہے اور دوسرے حشرات کثرت سے گھس آئیں تو یہ زندگی کے لیے بہت برا شگون ہے ۔یہ بے حسی کی نشانی ہے کہ رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ،زندگیاں پر خطر ،آہیں بے اثر اور آبادیاں خوں میںتر کر دی گئی ہیں ۔ان سب آلا م کے پس پردہ خون آشام اور آدم خور چوہے ہیں جو خونریزی کے بعد اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چوہوں اور ان کے تمام بلوں کو نیست و نابو د کر دیا جائے ۔
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 679908 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.