اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی
نظام
پختہ تراش سے ہوئے خُوئے غلام میں عوام
قلم یا پینسل ویسے تو ظاہر ہے کہ لکھنے لکھانے کے کام ہی آتا ہے ۔ اور قلم
کے لغوی معنی احاطہ کرنے کے ہی ہیں، قلم کو تصنیفی نام سے بھی یاد کیا جا
سکتا ہے ۔ عربی زبان میں (القلم ) بھی کہتے ہیں۔ اور سب سے اہمیت کا حامل
یہ قلم آج تک ہمارے قرآن شریف کے اوراق بھی لکھتا رہا ہے تو سوچیئے کہ یہ
تین لفظ ق،ل،م ،ہمارے لئے کتنا معتبر ٹھہرا ۔شہنشاہیت اور اس کے غلام کی
کارستانیاں ہر دور میں مسلّم رہی ہے ۔ مگر ابتدائے لوح و قلم کا تذکرہ ہمیں
اس کا یقین دلا رہا ہے کہ قلم، علم و آگہی و ادب کا وسیلہ رہا ہے۔ اس کی
شہادت خود قرآنِ کریم نے بھی دی ہے۔”والقلم و ما یسطرون“ جس سے اس کی عظمت
اور دوبالا ہو جاتی ہے۔ قلم کی اہمیت ہر زمانے میں سکہ ¿ رائج الوقت کی سی
رہی ہے۔ اور قلم کی ترجمانی یہ شعر بھی کرتا ہے کہ:
قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں
تب کہیں جاکر میرے قابو میں آتا ہے قلم
کبھی یہ اپنے حریفوں کے سر پر طوفان بن کر اُمڈ آتا ہے اورکبھی یہ کمزوروں
کیلئے تصفیہ کرتا نظر آتا ہے۔ جس سے دشمن کے چھکے چھوٹنے لگتے ہیں۔ کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ قلم زلزلوں اور آندھیوں کی شکل میں قصرِ سلطانی کو
مسمار کر دیتا ہے۔ یہی تو قلم ہے جو اپنے خیر خواہوں، بہی خواہوں، اور
دوستوں کی پشت پناہی اور مدد کیلئے آتا ہے تو دوسری طرف دشمن کیلئے نیزہ و
خنجر بن جاتا ہے۔ اور جب یہی قلم مدارس، یونیورسٹیوں کے اسلامک شعبہ جات
اور تمام ہی تعلیمی اداروں میں داخل ہوتا ہے تومفسرین ، ادباء کی حکیمانہ و
دانشمندانہ باتیں سناتا ہوا نظر آتا ہے۔ اور کبھی تدبر و تفکر کے بند
دریچوں کو وا کرتا ہے اور حسین و دلکش تحریروں کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔ اور
پھر جب ہمارا یہی قلم شاعروں کیلئے لکھنے کی جستجو کرتا ہے تو شاعروں اور
ادیبوں ، فنکاروں کے ہاتھوں کی زینت بن جاتا ہے۔ پھر کیا ہے یہ قلم ہی تو
ہے جو شاعر کے دماغ میں سموئے ہوئے شاعری کو اپنے نوکِ قلم سے تحریرِ قرطاس
کر دیتا ہے تو پھر تصورات و خیالات کی وادیوں سے خوش رنگ و خوشنما گل چُن
کر ان سے غزل ہار اور نظم کی مالا بناتا ہے۔ جس سے مردہ دلوں کو تقویت اور
فرحت کا احساس مل جاتا ہے۔عدالتوں میں انصاف بہم پہنچانے کیلئے یہی قلم
ہمارے ججوں کی ہاتھوں میں ہوتا ہے اب یہ اور بات ہے کہ انصاف کی دیوی اس
قلم کو کس طرح استعمال کرتی ہے۔ بہرحال زندگی کے ہر کام میں یہ قلم ہر طرح
سے تقلیدی رول پلے بیک کر رہا ہے گو کہ اس کی اہمیت صرف تین لفظوں تک ہی
محیط ہے۔
یہ قلم ہی تو ہے جو گھنگھرﺅں کی طرح الفاظوں کو جوڑ کر جملوں کی خوبصورت
پیراہن میں ڈھال کر پازیب بنا دیتا ہے۔ ایسی پازیب جس کے احساسات کی جھنکار
اور جذبات کی چھن چھن ہر پڑھنے اور لکھنے والے کے دل کو صاف سنائی دیتی
ہے۔قلم تو ویسے بھی گذرے ہوئے پل کا امین بن کر انسانیت کی خدمت کرتا ہے
اور کر رہا ہے۔ تہذیب و تمدن کی امانت یہ قلم دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ
کر اسے زندہ جاوید بناتا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قلم ہی تو ہے جس
کی ہیبت سے بڑے بڑے سلاطین، امراءو سیاست داں لرزتے ہیں کہ کسی لمحے ان سے
لغزش ہو جائے اور بظاہر ایک ننھا سا آلہ نظر آنے والا یہ قلم آتش فشاں بن
کر ان پر قہر نہ ڈھا دے۔
سائنس کے حوالے سے اگر قلم کا موازنہ کیا جائے تو آپ جانتے ہیں کہ
سائنسدانوں نے کمپیوٹر کے میدان میں ایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے
جو اپنی نوعیت کی منفر د اور انوکھی ایجاد ہے۔ یہ ایجاد ہے ڈیجیٹل پین ماﺅس
کی جس سے ماﺅس کو ماﺅس پیڈ پر گھمانے اور حرکت دینے کی بجائے براہ راست
کمپیوٹر کی اسکرین پر استعمال کیا جا سکتا ہے اس پین ماﺅس کو ڈائنامک
ڈیجیٹل پین ماﺅس کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ ڈیجیٹل ماﺅس پین مارکیٹ میں دستیاب
ہے۔ یہ بھی قلم کی اس تیز رفتار دور میں ایک نئی قسم ہے جو ہر وہ کام کر
رہا ہے جسے قلم کہتے ہیں۔ذرا اور نئی ایجاد کی بات کی جائے تو نیو یارک میں
ایک ایسا قلم بھی ایجاد ہو گیا ہے جو کینسر کے مریضوں کے لیے خوشخبری ہے کہ
کینسر کے آپریشن کے لیے ایک انقلابی ایجاد سامنے آگئی ہے ، امریکی سائنسدان
ایک ایسا الیکٹرانک قلم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کینسر کی پوشیدہ
اور چھوٹی رسولیاں بھی تلاش کر سکتا ہے یہ قلم انفراریڈ شعاعوں کی مدد سے
ایک ملی میٹر باریک رسولیوں کی نشاندہی بھی کر سکتا ہے اور یوں سرجن
باآسانی ان رسولیوں کو جسم سے نکال لیں گے۔ ابھی تک اس انہونی قلم کو
انسانی آپریشن کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے تاہم ماہرین کو توقع ہے کہ
جلد ہی اسے کینسر کے مریضوں کے آپریشن کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔فنِ
خطاطی بھی قلم سے ہی جُڑی ہے اور خطاطی مسلمانوں کا خاص فن رہا ہے۔ دراصل
اس فن کا تعلق بھی قرآن شریف سے ہے چونکہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی
زندگی کا محور قرآنِ مجید ہے اور ہر مومن اس سے قلبی لگاﺅ رکھتا ہے۔ اس لئے
مسلمانوں نے قرآنِ مجید کی بنیاد پر دو فن تخلیق کئے ، ایک فنِ قرات اور
دوسرا فنِ خطاطی اور یہ خطاطی کا فن بھی قلم کا ہی مرہونِ منت ہے۔سید فیضان
رضا فیضی صاحب کا یہ شعر بھی قلم کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔
اب قلم کو اٹھایئے
اور سوچ کو آزمایئے
نہ کہیں دُور کی بات ہے
کہ Pen Communityساتھ ہے
علوم و فنون کے ارتقاءمیں قلم کی اہمیت کا اندازہ ناقدین کو ضرور ہوگا
کیونکہ قلم ہی تو ہے جو اس کارِ خیر میں سخی کا رول پلے کرتا ہے۔ الغرض
تحریر کا سلسلہ جب سے شروع ہوا ہے اس وقت سے قلم اور تحریر کا چولی اور
دامن جیسا ساتھ ہے اور یہ ساتھ بھی بہت خوب ہے کیونکہ ہمارے تحریری ذخیرے
محفوظ کرنے میں قلم کی بڑی روایتیں ملتی ہیں۔تاریخ کے کھنڈرات میں اس کے
ایسے ایسے نشانات درج اور ایسے نقوش ثبت ملیں گے جن کو دیکھ کر عقل کو
پسینہ آجائے گا اور دماغ محوِ حیرت ہوگا اور دل کی دھڑکنیں کپکپانے لگیں
گی۔ قلم صرف ماحول کی تصویر کشی ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اندھیرے سے بھی نور
کشید کرتا ہے ۔ قلم نوائے سروش کا ترجمان ہے، قلم ہمیں بشارت دیتا ہے نئے
زمانوں کی ، قلم ہمارے لئے دریچے وا کرتا ہے نئی دنیاﺅں کی، قلم نئی زبان
بخشنے میں معاون ہوتا ہے نئی نسلوں کیلئے، قلم نئے قدموں کیلئے توانائی کا
کام انجام دیتا ہے، اور لاشعور کی گِرہیں کھولتا ہے، آج ہر قلم کار کو اپنے
اس اہم فریضہ سے عہدہ برآ ہونے میں اسی قلم نے روشنائی عطا کی ہوئی ہے ۔ |