دستار

کبھی دستار گرتی ہے تو سر بچتا ہے اور کبھی سر گرتا ہے تو دستار بچتی ہے اور کبھی دونوں گرتے ہیں تو عزت بچتی ہے.کبھی دستار سر کو ڈھانپتی ہے تو کبھی سر دستار کوڈھانپتا ہے.زندگی کی مسافت کے پرآشوب سفر میں دستار نہ صرف سائبان آتش پنہاں ہوتی ہےبلکہ وجود بے پیرہن کو لباس رجائیت سے آراستہ کرتی ہے.دستاردستگیری بھی کرتی ہےاور دست زنی بھی کرتی ہے.کبھی دستار بحر خون میں ڈوبتی ہے تو انسانی ویران کدے میں فصل لالہ وگل کی آبیاری ہو تی ہے تو کبھی ہمت کے آتش کدوں میں جلتی ہے تو کپکپاتے ہوئے تن نازک کو آنچ کی چادر میں لپیٹتی ہے.کبھی دستار کا کپڑا اتنا کم ہوتا ہے کہ بال تو ڈھک جاتے ہیں لیکن سر ننگا رہتا ہےاور کبھی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ چشم و جبیں کو بھی چھپا لیتا ہے.سوق انسایت میں دستار کے نرخ کبھی زمیں بوس تو کبھی فلک بوس ہوتے ہیں.دستار وقت کے غربت کدے کو کبھی اس طرح ڈھانپتی ہے کہ غربت تو باقی رہ جاتی ہے لیکن غریب نہیں اور کبھی امارت کے حیراں کدے پہ اس طرح چھاتی ہے کہ امیر تو باقی رہ جاتے ہیں لیکن امارت نہیں .کبھی دستار کی گتھیاں اس طرح الجھتی ہیں کہ سرا نہیں ملتا اور دستار کو تار تار کرنا پڑتا ہے اورکبھی اتنی بکھرتی ہیں کہ باندھیں تو ریشے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں.دستار کے دھاگے سانسوں کی لڑی بھی ہیں اور اس کا آنچل موت کی چادر بھی کبھی لباس زندگی تو کبھی لباس حقیقت زندگی.کھبی انسانیت کے ماتھے کا سہرا تو کبھی حوانیت کے وجود کی بوسیدہ چادر کبھی کامل رخ زندگی تو کبھی گدائے وقت کا چھید شدہ دامن کبھی مٹی میں مل کر ثریا کی چکا چوند تو کبھی مٹی میں مل کر مٹی.اسکی رنگت کبھی اتنی رنگیں ہوتی ہے جیسے سورج کی روشنی پانی پر پڑتی ہے تو قوس قزح رنگیں ہوتی ہے اور کبھی اتنی بے رنگ جیسے گلاب کا پھول کسی غریب کی قبر پر اچانک گر پڑے-

بہت سےسر بغیردستار کےہی اتنے بلند ہوتے ہیں جیسے آسمان بغیر ستون کےاور بہت سے زیب دستار سر.اتنے ننگےہوتے ہیں جیسےدشت پرخار میں برہنہ پا طفل.دستار وہ نہیں ہوتی جو صرف سر ڈھانپے بلکہ دستار وہ ہوتی ہے.جو ہوسر پر لیکن پورا وجود ڈھانپےجیسےفصل گل میں کانٹوں کو پھول ڈھانپتے ہیں.سردستار کےبغیر تو اٹھ سکتے ہیں لیکن دستاریں سروں کے بغیر نہیں اٹھ سکتیں جیسے مسلے ہوئے پھول رونق بزم کیلیے نہیں اٹھتے.جب سر پھٹتا ہے تووجود باقی رہ جاتا ہےلیکن جب دستار پھٹتی ہے تو وجود بھی باقی نہیں رہتاجیسے.وادی خزاں میں نہ پھول کی خوشبو رہتی ہےنہ بلبل کی کو کو.سر اگر دستارسے بڑا ہو تو دستار نہیں پھٹتی بلکہ سر پھٹتا ہےاور اگر دستارسر سے بڑی ہوتو سر پہ نہیں ٹھرتی کبھی اپنے پاؤں پر گرتی ہےتو کبھی کسی غیر کے پاؤں پرجیسے بڑے مٹکے میں کم دودھ کوئی کمزور بچہ پئے.

علمی دستار کی دستار بندی خاص سروں پر نہیں ہونی چاہے بلکہ اسے بھکاری کے کشکول کی طرح ہونا چاہےجوہر وقت دوسروں کی نظر کا محتاج ہوتاہے .اگر علمی دستار کی گرہیں تعصب,حسد,اور نفرت کے ہاتھوں باندھیں گے تو دستار اپنے سر سے سرکتے سرکتے کسی اور کے سر کیلیے سراپا وقار بن جائے گی جس کا سر محبت کی حرارت سے پگھل رہا ہواور ہمارا ننگا سر وقت کی گدھوں کی آماج گاہ ہو گا.علمی دستار کا سایا پوری انسانیت پر ہوتا ہے کسی خاص مذھب یا گروہ پر نہیں جیسے سورج کی کرنیں بلا امتیاز سب کے آنگن کو منور کرتی ہیں.علمی دستار جتنی کھینچتے جائیں گے اتنی بڑھتی جائے گی اور جہالت کا دوپٹا کھیچنے سے سر سمیت ریزہ ریزہ ہو جائے گا جیسے بیری کے درخت سےکوئی ریشمی کپڑ ا کھینچا جائے.علمی دستار انسانیت کے سر کا فخر ہوتی ہے چاہے اس کا کپڑا کسی غیر نے ہی کیوں نہ بنا ہو.علمی دستار سے جب سر اٹھتا ہے تو آسمان بھی زمیں بوس ہو جاتا ہے اور جب سر جھکتا ہے تو پوری کائنات سر نگوں ہو جاتی ہے.علمی دستار مرنے کے بعد صاحب سر کا کفن نہیں بنتی بلکہ موت کو بھی زندگی کے لباس میں جلوہ گر کر دیتی ہے.علمی دستار گردش ایام کا لباس ہوتی ہے اگر زیب تن رہے تو زمانہ آپ کے گرد رقص گنا رہتا ہے اور اگر اتر جائے تو فلک کے ماتھے سے مہر وماہ اتر جاتے ہیں.

قومی دستار ایک سائبان کی طرح ہوتی ہوتی ہے جو پورے قومی گلشن کو آتش روزگار سے اس طرح بچاتی ہے جیسے اجڑتی ہوئی کھیتی کو بارش کاپانی.قومی دستار اگر قوم کو ڈھانپےتو لباس زندگی ہے اور اگر قومیت کو ڈھانپے تو کفن ہے.قومی دستار قوم کے ہر فرد کیلیے عزت کی چار دیواری ہوتی ہے اور اگر یہ اتر جاںے تو گھر راحت خانہ نہیں بلکہ بالا خانہ بن جاتا ہے.قومی دستار اگر گلزار وطن میں صرف پھولوں پرتو سایہ کرے لیکن کانٹوں کو برہنہ چھوڑ دے تو ایک وقت آتا ہے جب وہی کانٹے دستار کو تار تار کر دیتے ہیں.قومی سر قومی دستار کی حفاظت ایسے کرتے ہیں جیسےموت کا فانوس زندگی کے شعلے کی حفاظت کرتا ہے.قومی دستار اگر سر پر رہے تو دست پرور ہوتی ہے سر سے اترے تو دست فروش بن جاتی ہے.قومی دستار رنگ محبت میں شرابور ہو کر خیابان وطن میں لالہ وگل کی نمو داری کرتی ہے.قومی دستار اگر دست گیری کرے تو دست شفا ہے اور اگر دست درازی کرے تو دست تطاول.قومی دستار اگر قوم کیلے دست گریباں بن جائے تو ایسی دستار سے ننگا سر ہی بہتر ہے اگر دستار نہیں تو نہ سہی سر تو باقی رہتا ہے-
rabnawaz
About the Author: rabnawaz Read More Articles by rabnawaz: 12 Articles with 12058 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.