دوہری شہریت رکھنے والے سندھ اسمبلی کے
6ارکان کے مستعفی ہونے کے بعد قوی اسمبلی سے بھی 4ارکان نے استعفے دے دیے
ہیں۔ سندھ اسمبلی کے مستعفی ہونے والے ارکان میں متحدہ کے وزراء بھی شامل
ہیں جن کو وزیر اعلیٰ سندھ نے مشیر بنالیا ہے اور وہ بدستور وزارت کے مزے
لیتے رہیں گے اور وہی مراعات ملیں گی۔ دوبارہ وزیر بننے والوں میں پیپلز
پارٹی کے مراد علی شاہ اور صادق میمن بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں متحدہ
کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر حیدر عباس رضوی بھی سندھ حکومت میں مشیر بنادیے گئے۔
ان کے علاوہ رضا ہارون اور ڈاکٹر محمد علی شاہ بھی مشیر کے طور پر اپنی جگہ
جمے رہیں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے خواجہ اظہارالحسن نے بھی بطور وزیر حلف
اُٹھالیا۔ محکمے کم پڑگئے ہیں چنانچہ نئے وزیر اظہار الحسن اور حیدر عباس
رضوی کے پاس فی الحال کوئی قلمدان نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے
آئین کے آرٹیکل (9) 130کے تحت حاصل ہونے والے اختیارات کو استعمال کرتے
ہوئے مستعفی ہونے والے مراد علی شاہ اور صادق میمن کو دوبارہ صوبائی وزیر
بنادیا ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کے مطابق وزیر اعلیٰ کسی بھی ایسے شخص کو وزیر
بناسکتے ہیں جو سندھ اسمبلی کا رکن بھی نہ ہو۔ البتہ اسے چھ ماہ کے اندر
منتخب ہونا پڑے گا۔ لیکن چھ ماہ کس نے دیکھے ہیں۔ حکومت کی مدت ختم ہورہی
ہے جو زیادہ سے زیادہ 3ماہ رہ گئی ہے اور جب تک یہ حکومت ہے وزارت کے مزے
لیتے رہیں گے۔ الیکشن کمیشن نے مستعفی ہونے والے ارکان اسمبلی کی جگہ ضمنی
انتخابات کرانے سے بھی اسی لیے انکار کردیا ہے کہ عام انتخابات میں دن ہی
کتنے رہ گئے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ آئین کے تحت وزیر اعلیٰ یا وزیر
اعظم کو کتنے مشیر بھرتی کرنے کی اجازت ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی وفاداری
کا حلف اٹھایا ہوا ہے کیا وہ مشیر بھی بن سکتے ہیں؟ وزیر کہیں یا مشیر، بات
تو ایک ہی ہے کہ دہری شہریت رکھنے والے صرف پاکستان کے وفادار نہیں اور یہ
طے کرنا مشکل ہے کہ جب وفاداری کی آزمائش ہوگی، یہ لوگ کس طرف جھکیں گے۔
کیا یہ بات سمجھ میں آنا مشکل ہے کہ کسی دوسرے ملک کی شہریت مخصوص مفادات
کے تحت حاصل کی جاتی ہے چنانچہ اس ملک سے وابستہ مفادات کو کون قربان کرے
گا۔ پاکستان تو ایسے لوگوں کے لیے ایک چراگاہ ہے جہاں چرنے، چُگنے کی وسیع
مواقع ہیں۔ ان لوگوں کا وطن، ان کی وابستگی اور مفادات کہیں اور ہیں۔ ایک
اہم پہلو یہ ہے کہ دہری شہریت کی وجہ سے جو ارکان اسمبلی، وزراء وغیرہ
مستعفی ہوئے ہیں وہ گزشتہ پانچ بلکہ بعض تو 10برس سے غیر آئینی طور پر قوم
پر مسلط تھے اور تمام مفادات سمیٹ رہے تھے۔ اب جو تازہ کھیپ مستعفی ہوئی ہے
وہ بھی اس حکومت میںمارچ 2008، سے تھی۔ ان کو اب مستعفی ہونے کا خیال آیا
ہے جبکہ وہ غیر قانونی طور پر تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہی
نہیں وزراء اور ارکان اسمبلی کو کروڑوں روپے فی کس کے حساب سے ترقیاتی فنڈز
بھی دیے گئے۔ یہ کہاں استعمال ہوئے، کتنے استعمال ہوئے، اب ان کے مستعفی
ہونے کے بعد کون حساب لے گا اور کون دے گا۔وزیراعلیٰ سندھ مبارکباد کے
مستحق ہیں کہ غیر قانونی کام کرنے والوںکو پھر گود لے لیا ہے۔ قانون کے
مطابق تو ایسے لوگ مشیر بھی نہیں بن سکتے لیکن ڈاکٹر عاصم حسین تو وزارت
اور سینیٹ چھوڑ کر اب تک مشیر پیٹرولیم بنے ہوئے ہیں ۔ دہری شہریت رکھنے
والے ارکان کے آخری لمحوں میں مستعفی ہونے سے یہ تو ثابت ہوگیا ہے کہ وہ
پاکستان کے وفادار نہیں ہیں ورنہ تو دوسرے ملک کی شہریت ترک کردیتے۔ کیا یہ
بات غلط ہے کہ حکومتی حلیفوں کے استعفے غیر ملکی غلامی کااعتراف اور ملک کے
وقار کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کسی اورملک سے وابستگی اس کے حلف کی
پاسداری اتنی ہی عزیز ہے تو پاکستانی قوم کے سرپرمسلط رہے اور عوام کی
نمائندگی کرنے کا کیا حق ہے۔ استعفے دینے سے یہ راز بھی کھل گیا کہ ایم کیو
ایم کے برطانوی قائددہری شہریت کے حق میں کیوں گرما گرم بیانات دے رہے تھے۔
دہری شہریت رکھی ہے تو ضرور رکھیں لیکن پھر پاکستانی عوام کی نمائندگی،
اسمبلیوں کی رکنیت اور وزارتوں کے حصول کی بات نہ کریں۔ دہری شہریت رکھنے
والے جن ارکان اسمبلی اور وزراء نے استعفے دے دیے ہیں انہیں اتنا سستا نہیں
چھوٹنا چاہیے۔ اگر وہ لاقانونیت کے مرتکب ہورہے تھے اور انہیں رکن اسمبلی
یا وزیر بننے کا استحقاق نہیں تھا تو اس عرصہ میں ملنے والی تنخواہیں اور
دیگر مراعات واپس کریں ورنہ توغاصب ہی کہلائیں گے۔ اطلاع کے مطابق ایسے
لوگوں کو 5سال کے لیے نااہلی اور 2برس قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ یہ کھلم کھلا
جعل سازی اور دھوکا دہی کا معاملہ ہے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن سیشن ججوں
کی عدالت میں ریفرنس بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔ |