مسلمانوں نے جب بھی اتفاق و
اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے وہ کامیابی وکامرانی سے ضرور ہمکنار
ہوئے ۔یوروپی ممالک میں بے پناہ اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن جب بھی ان
ممالک میں سے کسی ملک پر کوئی آنچ آتا ہے تو وہ سارے اختلافات فراموش کرکے
وہ ایک ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ڈنمارک سے شائع ہونے والا اخبار ’’جائی لینڈ
پوسٹن‘‘نے ستمبر ۲۰۰۵میں جب حضرت محمد ﷺ کے اہانت آمیز کارٹون شائع کیا تھا
اور اس وقت مسلمانوں نے زبردست احتجاج اور غم و غصہ کا اظہار کیا تھا لیکن
ڈنمارک کے وزیر اعظم اور وہاں کے اخبار کے دیدہ دلیر ی دیکھئے کہ انہوں نے
معافی مانگنے سے صاف انکا ر کر دیاتھا۔ اس کے خلاف پوری دنیا میں آواز بلند
کی گئی اور عرب ممالک نے بھی سخت رخ اپنایا تھا اور ڈنمار ک کی مصنوعات کا
بائیکاٹ کیا تھا۔ ڈنمارک کی ترقی میں ڈیری صنعت کا رول کافی نمایاں ہے اور
ڈیری مصنوعات برآمد کرنے والا بڑا ملک ہے لیکن عرب دنیا نے ڈنمارک کی ڈیری
صنعت کا بائیکاٹ کیا اور ٹرک کے ٹرک کے سامان واپس جانے لگے تو اس وقت
ڈنمارک کے وزیر اعظم نے سابق صدر جونےئر بش سے فریاد کی اور بش نے عرب
ممالک سے اس ضمن میں بات کی ۔ امریکہ کے بے زرخرید غلام عرب ممالک نے اپنے
تاجروں کو ڈنمارک کے مصنوعات کے بائیکاٹ نہ کرنے کی ہدایت دی۔ اس طرح
ڈنمارک ڈیری صنعت تباہ ہوتے ہوتے بچ گئی۔ بش کے ایک فون نے سارے عرب ممالک
کے چودہ طبق روشن کردئے۔ آدمی اسی وقت ڈرتا ہے اور گھٹنے ٹیک دیتا ہے جب ان
کا کوئی اہم راز ہو جو فاش ہونے کی صورت میں عرش سے فرش پر گرنے کا خطرہ ہو۔
کچھ ایسا ہی معاملہ عرب کے حکمرانوں اور شہزادوں کا ہے ۔ اگر اس وقت عرب
ممالک مغربی ممالک کے اسی اصول کو اپناتے کہ کون کس کا مال خریدتا ہے یا
بائیکاٹ کرتا ہے یہ شخصی آزادی کا معاملہ ہے۔ حکومت اس پر کچھ نہیں کرسکتی
ہے اور کچھ کرے گی تو یہ شخصی آزادی میں مداخلت ہوگاتو نہ صرف یہ کہ امریکہ
کو جواب مل جاتا ہے کہ آزادی کیا ہے اور اس کے حدود کیا ہیں بلکہ ڈنمارک کی
طرح کسی ملک میں کوئی ہمت نہیں کرپاتا کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ کا
کارٹون بناتا یا قرآن سوزی کی مذموم حرکت کرتا یا آنحضور صلی اللہ علیہ
وسلم پر گستاخانہ فلم بناتا۔ مسلم حکمرانوں اور مسلم قوم کا معاملہ یہ ہے
کہ وہ مسائل کے فروعات کو پکڑکر شور مچاتے ہیں مسائل کے جڑ کو کبھی بھی
اکھاڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ کسی قوم کو تباہ کرنا ہوتو سب سے پہلے ان کی
معیشت پر ضرب کاری لگانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک
مغربی ممالک سب سے سب سے زیادہ امپورٹ کرتے ہیں اور ایک طرح سے ان کی معیشت
کو مضبوط کرکے اپنے دشمنوں کو مضبوط کرتے ہیں۔سابق صدر جونیئر بش ڈنمارک کے
مصنوعات کو بائیکاٹ کرنے فوراً ڈنمارک کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس
کے بائیکاٹ کے خلاف مہم چلائی جس سے ڈنمارک معاشی مشکلات سے بچ گیااگر اسی
طرح مسلم ممالک بھی کسی مسلم ملک کے حق میں مہم چلاتے اور مضبوطی کے ساتھ
عملی طور پر ایک ساتھ کھڑے ہوجاتے تو کسی ملک کی ہمت نہیں ہوتی وہ اس ملک
کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے۔ فلسطین کے حالیہ واقعات میں اس تھوڑے سے اتحاد
کا زبردست کردار رہا ہے۔ اسی معمولی اتحاد نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر
مجبور کیا۔ تصور کریں اگر وسیع پیمانے پر مسلم ممالک اور خصوضاً عرب ممالک
کا اتحاد ہوجائے تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔مسئلہ فلسطین یا دیگر مسائل کے لئے
مغرب کے سامنے عرب ممالک کو گڑگڑانا نہیں پڑے گا۔
۲۹ نومبر کی تاریخ فلسطین کے لئے جس قدر سیاہ ہے اسی قدر روشن بھی ہے۔ اسی
تاریخ کو فلسطین نے غیرمبصررکن کا درجہ حاصل کیا ہے اورفلسطین کی کرسی
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں رکھ دی گئی۔ اسی ۲۹ نومبر کی تاریخ کو اقوام
متحدہ نے قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کرکے اسرائیل جیسے
ناجائز ملک کو پیدا کیا تھا۔ ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں ایک قرار داد منظور کرکے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم
کردیا تھا۔ پروشلم کے علاقے کے لئے اسپیشل انٹرنیشنل زون تشکیل دیا گیا۔عرب
ممالک نے اس وقت اقوام متحدہ کے اس اقدام کو قبول نہیں کیا جب کہ یہودیوں
نے اس اقدام کو قبول کیا تھا۔ اس کے بعد پھر ۱۴ مئی ۱۹۴۸ کو برطانوی فوجیوں
کے نکل جانے کے بعد اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد ہی
فوراً امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو منظور کرلیا۔ اس کے بعد اسرائیل کی
عرب ریاستوں کے ساتھ آٹھ ماہ طویل جنگ میں 400 فلسطینی دیہات جلا دیے گئے
جبکہ سات لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
یہ افراد ہمسایہ مغربی کنارے، غزہ پٹی اور عرب ملکوں میں پناہ لینے پر
مجبور ہوئے تھے۔اس حیوانیت و درندگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود اقوام متحدہ
نے ۱۱ مئی ۱۹۴۹کو اسرائیل کو ر کن ملک کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔اسرائیل
کا حوصلہ امریکہ اور برطانیہ نے اتنا بڑھایا کہ اس نے فلسطین پر حملہ کردیا
اورچھ روزہ جنگ میں بیشتر علاقوں میں پر قبضہ کرلیا ۔ سلامتی کونسل نے ۲۲
نومبر ۱۹۶۷ کو ایک قرارداد منظور کرکے اسرائیل کو ان علاقوں کو خالی کرنے
کے لئے کہا لیکن سلامتی کونسل آج تک اس قرارداد پر عمل نہیں کرواسکی ہے۔ ۲۵
ستمبر ۱۹۷۱کو سلامتی کونسل نے یروشلم کی حثیت تبدیل کرنے پر اسرائیل کی
مذمت کی۔ لیکن یہ معاملہ بھی مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کے علاوہ مختلف
مواقع پر سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور ہوتی رہی لیکن اس
پر کبھی بھی عمل نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ درجنوں بار فلسطین کے حق میں
سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی اور ہمیشہ کی طرح امریکہ نے اسے ویٹو
کردیا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ۱۹۴۸ سے ۲۰۱۲ کے درمیان قتل کیا گیا ہے ۔
بنیادی ڈھانچہ تباہ کیا گیا ہے اگر اس کا خون اسرائیل کے ساتھ کسی ملک پر
ہے تو وہ امریکہ ہے اور اسرائیل سے زیادہ وہ زیادہ سزا کا مستحق ہے ۔ ۲۰۰۸
میں غزہ اسرائیلی جارحیت اور پھر گزشتہ ماہ کی آٹھ روزہ جنگ کے دوران بھی
امریکہ کا رویہ اسرائیل کے حق میں رہا۔امریکہ آج تک اسرائیل کے ہر ناجائز
اقدامات کی حمایت کرتا چلا آرہاہے۔ وہاں حکومت ڈیموکریٹک پارٹی کی ہو یا ری
پبلکن پارٹی کی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اسرائیل کی حمایت میں
کوئی کمی آتی ہے اس لئے اسرائیل اقو ام متحدہ سمیت دنیا کے کسی قانون کو
تسلیم نہیں کرتا۔ اس لئے اسے اگر صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے تو کسی ملک کو
کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
فلسطینی آزاد ریاست کے لئے اپنی جدوجہد میں مصروف رہے اور یاسر عرفات کی
سربراہی میں فلسطینی اپنی جان و مال کی قربانی پیش کرتے رہے۔ اس آزادی کی
تحریک کے لئے خوش کن موڑ اس وقت آیا جب اقوام متحدہ میں ۱۳ نومبر ۱۹۷۴ کو
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن‘ (پی ایل او) کو اقوام متحدہ میں ایک مبصر کی
حیثیت حاصل ہوئی۔اس کے بعد ۱۲ مارچ ۲۰۰۲ کو سلامتی کونسل میں ایک قراراداد
پیش کی گئی جس میں فلسطینی ریاست کا ذکر کیا گیا۔ پھر اگلے سال ۲۰۰۳ کو
سلامتی کونسل میں امن منصوبے کے لئے ایک روڈ میپ ’’اسرائیل، فلسطین تنازعے
کے دو ریاستی حل‘‘ کی توثیق کی گئی۔ ۱۶ دسمبر۲۰۰۸ کو سلامتی کونسل میں پانچ
برس کے وقفے کے بعد مشرق وسطیٰ امن عمل کی حمایت میں پیش کردہ قرار داد کو
منظور کیا گیا۔پھر ۱۸ فروری ۲۰۱۱ کو پہلی مرتبہ امریکہ نے ایک ایسی قرار
داد کے حق میں ووٹ دیا گیا، جس میں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا
گیا۔ورنہ ہمیشہ امریکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قرار دادوں کو ویٹو
کرتا آیا ہے۔۲۳ ستمبر ۲۰۱۱ کو اسرائیل فلسطین تنازعے کے تناظر میں پہلی
مرتبہ محمود عباس کی طرف سے اقوام متحدہ میں یہ درخواست پیش کی گئی تھی کہ
فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے لیکن یہ
درخواست ابھی تک سلامتی کونسل میں اس لئے نہیں لائی گئی کیوں کہ امریکہ اس
قراداد پر کو ویٹو کردے گا۔فلسطین کے ایک خوشگوار لمحہ اس وقت آیا جب ۱۳
اکتوبر ۲۰۱۱ کو پیرس میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی طرف سے
فلسطین کو مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ جس پراسرائیل اور
امریکہ آگ بگولہ ہوگیا ہے اس نے یونیسکو کی امداد بند کردی۔ پھر 29 نومبر
2012 کو اسرائیل کے قیام کے 65 برس مکمل ہو نے کے موقع پر اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی میں فلسطین کو ’نان ممبر آبزور اسٹیٹ ‘کا درجہ حاصل دیا گیا ۔
اس قراداد کے حق میں ۱۳۸ ووٹ پڑے جب کہ مخالفت میں نو (۹) اور ۴۱ ارکان نے
ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مخالفت کرنے والوں میں امریکہ، اسرائیل ، کناڈا
اور دیگر ممالک تھے۔ امریکہ وہی پرانا راگ الاپتا رہا کہ یہ کام مذاکرات کے
ذریعہ کیا جانا چاہئے۔ لیکن مذاکرات کس سے کیا جاتا ہے شاید امریکہ کو ابھی
تک اتنی سمجھ نہیں ہے یا شاید حالات نے زوال پذیر عالمی طاقت کو سوچنے اور
سمجھنے کے لائق نہیں چھوڑا ہے کیوں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی
طرف بھاگتا ہے یہی حال امریکہ کا ہے ۔ پوری دنیامیں اس کے خلاف نفرت کی لہر
چل رہی ہے سوائے ہندوستان اور اسرائیل کے۔ اس کے باوجود وہ اسرائیل کے لئے
اپنی قوم کو تباہی کے دہانے پرپہنچانے پر لگا ہوا ہے۔ بارک اوبامہ نے جب
اقتدار سنبھالا تھا تو امید کی جارہی تھی کہ اب شاید مسئلہ فلسطین حل
ہوجائے لیکن بارک اوبامہ کے جامعہ ازہر میں وعدے کے باوجود کوئی اس میں پیش
رفت نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے ہر موقع پر اسرائیل کی پشت پناہی ہی کی ہے۔
دوسری میعاد کیسی ہوگی کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر باراک اوبامہ کوامریکیوں کا
تحفظ عزیز ہے تو ان کارویہ گزشتہ چار برسوں کے برعکس ہوگا ورنہ امریکہ
تباہی کی دہلیز کو سرعت کے ساتھ پار کرے گا۔
فلسطین کے آٹھ روزہ جنگ میں اسرائیل کو اپنی اوقات کا پتہ چل گیا اس میں
اگر چہ ان کا جانی نقصان کم ہوا ہے لیکن خوف کا یہ عالم تھا کہ عام آدمی تو
کیا فوج کو بھی دہشت زدہ دیکھا گیا اور معمولی راکٹ کو بھی دیکھ کر اس طرح
بھاگ رہے تھے جیسے یہ راکٹ ان پر ہی گرنے والا ہے۔ اس آٹھ روزہ جنگ میں
فلسطین کی طرف ہزاروں راکٹ فائر کئے گئے اور درجنوں میزائل داغے گئے جو بہت
اسرائیلی نشانے پر لگے اور اسرائیل کی تباہی بھی ہوئی جو میڈیا کے سامنے
نہیں آئی کیوں کہ ان علاقوں میں میڈیا اہلکاروں کو جانے کی اجازت نہیں تھی
لیکن جو کچھ بھی چھن کر سامنے آیا وہ دہشت زدہ اسرائیل کی تصویر پیش کرنے
کے لئے کافی تھا۔ جو دوسروں کی جان کی کوئی قیمت نہیں سمجھتااور نہ ہی کسی
حقوق کے تحفظ میں یقین رکھتا ہے۔ اسرائیل تمام جدید ترین ہتھیاروں سے لیس
ہے ۔ جدید ترین رڈار ہیں، وہ دشمنوں کی ایک ایک لمحے کی نقل و حمل کی
جانکاری رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جس قدر خوف زدہ دیکھا گیا وہ اس کے
مستقبل کا عکاس ہے۔ اسرائیل اور فلسطین میں یہی فرق ہے کہ وہ فلسطینی موت
سے نہیں ڈرتے جب کہ اسرائیل موت کا نام سن کر ہی کانپ جاتا ہے۔فلسطین پر
بمباری یا حملہ فلسطینیوں کے لئے عام بات ہے۔ انہوں نے اسے روز کے معمول کا
حصہ بنا لیا ہے۔ گزشتہ ۶۵ برسوں سے یہ سب برداشت کرتے آرہے ہیں اس لئے ان
میں مصائب برداشت کرنے کی قومت دیگر اقوام مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ یہی
بات فلسطینی کے حق میں جاتی ہے اور اسرائیل کے خلاف۔
فلسطین کے معاملے میں مصر ،ترکی، تیونس، ایران اور دیگر عرب ممالک کا رویہ
اس بار بہت اچھا رہا اور یہ ممالک کھل کر میدان میں آئے جس کا اثر اسرائیل
پر پڑا۔ ورنہ اسرائیل نے تو غزہ کو ایک جیل میں تبدیل کردیا تھا۔ مصری صدر
محمد مرسی اور ترکی کے وزیر اعظم طیب ایردوآن کابیان اور رویہ بہت ہی قابل
تعریف رہا ۔انہوں نے نہ صرف غزہ کی مدد کی بلکہ اسرائیل کو للکارا بھی۔
ترکی کے وزیر اعظم طیب ایردوآن نے اس موقع پر کہا تھا کہ غزہ میں بے گناہ
نونہالوں کے قتل عام پر اسرائیل کا محاسبہ لازمی کیا جانا چاہئے اورغزہ میں
غیر انسانی طریقے سے شہید کئے جانے والے فلسطینی بچوں کے قاتلوں سے جلد یا
بدیر حساب ضرور لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ "فلسطینیوں نے کبھی اپنا سر
نہیں جھکایا اور نہ ہی وہ کبھی آئندہ ایسا کریں گے۔مصری صدر نے غزہ کے
مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اپنا دورہ پاکستان منسوخ کردیا تھا ۔
پاکستان میں ڈی سمٹ میں انہیں حصہ لینا تھا ۔ مصر ڈی سمٹ کا اہم ملک ہے۔
تیونس اور ایران نے جس طرح اخلاقی اور دیگر طرح کا تعاون دیا ہے اگر اسی
طرح عرب ممالک نے بھی اپنی امداد کا دروازہ فلسطین پر کھول دیا تو پھر
اسرائیل پلیٹ میں سجاکر مقبوضہ علاقہ فلسطین کے حوالے کردے گا اور امریکہ
بھی اپنی اوقات میں آجائے گا اور امریکی مداخلت بھی عرب خطہ سے ختم ہوجائے
گی۔ مسئلہ فلسطین اور ایران کی وجہ سے امریکہ عرب ممالک کو بلیک کرتا
ہے۔عرب ممالک کو یہ مسئلہ خود حل کرنا ہوگا فلسطینی عوام کو مکمل طور پر
مسلح کرنا ہوگا اور وہ تمام ہتھیار دینے ہوں گے جو اسرائیل کی شکست کے لئے
ضرور ی ہیں۔ امریکہ شیعہ سنی کا ہوا کھڑا کرکے عرب ممالک کو آپس میں
لڑاکراپنا خزانہ بھر رہاہے اور اسی خزانے سے اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور
اسرائیل اس پیسہ کو فلسطین کے قتل عام میں استعمال کرتا ہے۔ ایک طرح سے عرب
ممالک کے پیسہ سے ہی عربوں کا خون بہایا جارہا ہے۔
فلسطین کے غیر رکن مبصر کا درجہ حاصل ہونے کے بعد کئی امکانات روشن ہوگئے
ہیں جس سے آئندہ اسرائیل کے لئے پریشانیاں کھڑی ہوسکتی ہیں ۔ یہ درجہ وہی
ہے جو اقوام متحدہ میں ویٹیکن کو حاصل ہے۔ اس سے قبل فلسطین کو صرف ’مستقل
مبصر‘ کا درجہ حاصل تھا۔ اس کے بعد فلسطینی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی
بحث میں حصہ لے سکیں گے۔ اس کے علاوہ فلسطین کے اقوام متحدہ کی دیگر
ایجنسیوں کا ممبر بننے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں اور اسے بین الاقوامی
عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کا ممبر بھی بنا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے
فلسطینیوں کو جدوجہد کرنی پڑے گی اگر ایسا ہوجاتا ہے تو فلسطینی اسرائیلی
جارحیت کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائر کرسکیں گے اور اسرائیل
کے خلاف اس عدالت میں قانونی چارہ جوئی کر سکیں گے۔۱۹۸۸ میں پی ایل او کے
سابق سربراہ یاسر عرفات نے یکطرفہ طور پر فلسطین ریاست کا اعلان کردیا تھا
اوراس کے بعد ایک سو سے زائد ممالک نے اس کو تسلیم کرلیا۔ ان ممالک میں عرب
ممالک، کمیونسٹ اور غیر وابستہ ممالک اور لاطینی امریکہ کے چند ممالک شامل
تھے۔ ۱۹۹۳میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی لیبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل
او اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو تسلیم کیا تھا لیکن دو ہائیوں سے جاری
مذاکرات کے بعد اس کا کوئی حل نہیں نکلا کیوں کہ اسرائیل کا رویہ ہمیشہ
اڑیل رہا۔ حالانکہ امریکی صدر جونئیر بش نے یہ اعلان کیا تھا کہ ۲۰۰۵ میں
فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آجائے گا لیکن یہ محض اعلان ہی ثابت ہوا۔ اس
کے دوران مسلم ملک سے علاحدہ ہوکر دو عیسائی ریاستیں وجود میںآچکی ہیں۔ یہ
سب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعہ ہوا لیکن جب مسئلہ فلسطین آتا ہے
امریکہ اپنا حق استرداد استعمال کرکے مسلم ملکوں کو چھرا گھونپ دیتا ہے۔
مسلمانوں کو بھی وہی رویہ اپنانا چاہئے جو اسرائیل اور امریکہ اپناتا چلا
آرہاہے کیوں کہ امریکہ اور اسرائیل اصول و ضابطے کی زبان نہیں سمجھتا اور
اسے صرف اور صرف وحشی انداز میں ہی سمجھایا جاسکتا ہے۔ |