سیاسی جماعتوں کے اہداف؟

میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ بعض بلکہ سیاست دانوں کی اکثریت ملک اور قوم کو کہاں لے جانا چاہتی ہے؟ ان کے اصل اہداف کیا ہیں؟جھوٹی اور منافقانہ باتوں سے وہ آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟کسی ایک پارٹی کی بات کی جائے تو فوراََ یہ مﺅقف اختیار کیا جاتاہے کہ ساری جماعتیں ہی ایسی ہی ہیں۔ کسی ایک سمت کو درست کرنے کی کوشش کسی جانب سے ہو تو کہا جاتا ہے کہ نہیں ساری سمیتں ایک ساتھ درست کی جائیں۔غیر قانونی اسلحہ کے خلاف لمبی لمبی تقاریر کرنے والے اسلحہ کی برآمدگی کے فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں کہ پورے ملک میں غیر قانونی اسلحہ کے خلاف کارروائی کی جائے۔نئی حلقہ بندیوں کی بات کی جائے تو کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں نئی حلقہ بندیاں کی جائیں ۔ناجانے ایسی سیاسی جماعتیں اس طرح کے بے تکے مﺅقف کے ساتھ کب تک سیاست کرتی رہیں گی؟

یہ سیاست دان سیاست کو عبادت سے بھی جوڑ دیتے ہیں اور سیاست میں سب جائز ہے کی بانسری بھی بجاتے ہیں۔یہ لوگ تو ان معصوم بچوں سے بھی کہیں زیادہ ” بچے “ ہیں جو جھوٹی بات کہنے کے انجام سے ڈر کر خاموش ہوجایا کرتے ہیں اور اس جاہل سے بھی بڑے جاہل ہیں جو جھوٹ بولنے کے بعد مزید اسی پر اڑ جاتے ہیں۔

کراچی میں بدامنی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات آئی ہے کہ کراچی میں ایک ایسا بھی 120مربع گز کا مکان ہے جس میں 620 ووٹرز ہیں۔ عدالت نے یہ انکشاف سنکر ریمارکس دئیے کہ ” کیا یہ جن کا گھر ہے“؟اسی طرح کے شواہد کی بنیاد پر عدالت نے پورے کراچی میں نئے حلقہ بندیوں اور گھر گھر جاکر ووٹرز کی تصدیق کرنے کا حکم دیا تو اس کی مخالفت کردی گئی اور کہا گیا ہے کہ پورے ملک میں نئی حلقہ بندیاں کرائی جائے۔ عدالت پر مبینہ طور پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ یہ اقدام جمہوریت کے خلاف ہے۔عدالت کے حکم پر الیکشن کمیشن نے اس بارے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی ،سب نے عدالت کے حکم کی تائید کی اس طرح جمہوریت کے تقاضے بھی پورے کرلیئے گئے ۔لیکن اس کے باوجود بھی اس فیصلے پر کسی پارٹی کو اعتراض ہوتو کیا کہا جائے؟

میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ اپنے آپ کو پورے ملک کی جماعت کہنے والی ایم کیوایم صرف کراچی کی نئی حلقہ بندیوں پر کیوں معترض ہے؟کیا پورے ملک میں موجود اس کے ووٹر ز کی اسے کوئی فکر نہیں ہے یاپھر کراچی کے ووٹرز سے وہ زیادہ دلچسپی رکھتی ؟متحدہ عدالت کے نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے سے کس حد تک پریشان اور بے چین ہے اس کا اندازہ اتوار ۲ دسمبر کو الطاف حسین کے سخت لہجے میں کی جانے والی دھواں دھار تقریر سے کیا جاسکتا ہے۔ الطاف حسین کی تقریر کا ہر جملہ عدلیہ پر تنقید سے بھر پور تھاانہوں نے نام لیئے بغیر عدلیہ پر یہ بھی الزام لگانے کی کوشش کی کہ وہ متعصب فیصلے سنا رہی ہے۔ الطاف حسین کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ عدلیہ کے اقدامات سے بہت عرصے سے دل میں بہت کچھ دبائے ہوئے تھے۔الطاف حسین نے لگے ہاتھوں سندھی ،مہاجر، مہاجر پٹھان، اور دیگر جھگڑوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے سازش قرار دیدیا ۔مگر اس بات کا وہ جواب نہیں دے پائیں گے کہ آخر ان سب واقعات میں متحدہ کیوں فریق بنی رہتی ہے؟متحدہ کی تشویش اور الطاف حسین کی تقریر کے نتیجے میں اس بات کے خدشات خدشات واضع ہوگئے تھے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی ۔ ان خدشات کے عین مطابق پیر ۳ دسمبر کی صبح ابوالحسن اصفہانی روڈ پرمولانامحمد اسمٰعیل نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شہید ہوگئے۔جس کے بعد شہر کی صورتحال کشیدہ ہوگئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس خونی کارروائی میں کون دہشت گرد ملوث ہیں لیکن میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ متحدہ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت آئندہ بھی ایسے خطرناک واقعات کو روکنے میں نہ صرف ناکام ہوجائے گی بلکہ روکنے کی کوشش بھی نہیں کرے گی۔کراچی میں حالات خراب ہوتے ہیں تو پورے ملک پر اس کا اثر پڑتا ہے ۔انتخابات کے قریب حالات خراب ہونے سے ملک کے سیاسی حالات بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔ممکن ہے کہ امن و امان کی خراب صورتحال کا بہانہ بناکر الیکشن بھی ملتوی کردیئے جائیں اگر ایسا ہوا تو پورا جمہوری نظام ہی متاثر ہوسکتا ہے۔

اس موقف کی ہر کوئی حمایت کرے گا کہ پورے پاکستان میں نئی حلقہ بندیوں اور ووٹرز کی تصدیق کا کام ہونا چاہئے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ یہ کام منی پاکستان کہلانے والے کراچی سے شروع کرادیا جائے؟ہر معاملے میں کراچی کو اہمیت دی جانی چاہئے۔نہ کہ صرف کسی ایک پارٹی کے مطالبات پر ،اس کی خواہشات پر ہی عمل درآمد کیا جائے؟۔

ووٹرز کی تصدیق اورنئی حلقہ بندیوں پر اگرچہ متحدہ کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کو ئی اعتراض نہیں ہے بلکہ تمام نے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کی ہے جبکہ حکومتی جماعت پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تائید کی اور کہا کہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے سندھ میں غیر منصفانہ حلقہ بندیاں نہیں ہونی چاہئے۔بعض سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں کے اندر فوج کی موجودگی کا بھی مطالبہ کیااور یہ مﺅقف بھی اختیار کیا کہ فوج کی موجودگی میں ہی الیکشن شفاف اور منصفانہ ہوپائیں گے۔

متحدہ یاایم کیوایم کا ووٹرز لسٹ کی گھر گھر جاکر تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے کی مخالفت نے اسے سیاست کے میدان میں تنہا کردیا ہے۔ باالکل اسی طرح جیسے غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیئے آپریشن کے مطالبے پر ایم کیو ایم تنہا ہوگئی تھی ۔حالانکہ وہ ملک بڑی منظم جماعت ہونے کی دعویدار ہے ۔لگتا یہ ہے کہ وہ اپنے دعوے کے برعکس صرف کراچی کی جماعت ہے؟۔

اس میں شک نہیں کہ ایم کیوایم پڑھے لکھے نمائندوں کی جماعت ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ ایک منظم جماعت ہے لیکن اس بات سے بھی کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ متحدہ خود اپنے کارکنوں ، چہیتوں اور حمایتیوں کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر پارہی۔ جو سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کی حفاظت میں ناکام ہوجائے وہ اپنے لاکھوں ووٹرز کو کیسے تحفظ فراہم کرسکتی ہے ؟ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے موجودہ یا سابقہ کارکن نامعلوم قاتلوں کا نشانہ بنے ۔پرسرار طور پر غائب ہوجانے والوں کی تعداد الگ ہے۔ایم کیوایم ملک کی وہ واحد جماعت ہے جسے اس کے ہزاروں ہمدردوں اور ساتھیوں نے اپنی جانیں تک دیں لیکن دیگر ساتھیوں ، ہمدردوں اور حمایتوں کو بدلے میں سکون تک نہیں ملا۔

ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایم کیوایم اندر سے کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی ہے ،کارکنوں میں انجانا خوف اور بے چینی نمایاں طور پر ہے۔اپنے وجود سے آج تک ایم کیوایم نے اپنے کارکنوں ، اپنے لوگوں ، اور خود اپنے لیئے کیا کچھ حاصل کیا یا اپنی سیا ست کے ذریعے کراچی کے لوگوں کو کیادیا ؟، اس کی وضاحت تو اس کے لیڈر ہی کرسکتے ہیں۔

لوگ ایم کیوایم یا اس کے لیڈروں سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ بات صرف منصفانہ ، شفاف اور بلا خوف وخطر ہونے والے انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوگی۔لیکن انتخابی فہرستوں کی چھان بین اور انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیوں کے خبروں سے ایم کیوایم کو ہونے والی تشویش سے اس بات کا خدشہ ہے کہ ایم
کیوایم عین وقت پر ان انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی۔ایم کیوایم اگر انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے تو اسے یہ کہنے کا موقعہ مل جائے گاکہ انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کی نمائندہ سیاسی جماعت نے حصہ نہیں لیا تھا اس لیئے اسکی نمائندگی کے بغیرہونے والے انتخابات کے نتائج کو ایم کیو ایم تسلیم نہیں کرتی۔

یہ موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ عام انتخابات کے لیئے ایسا ماحول پیدا کیا جائے جو ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے لیئے قابلِ قبول ہو۔چاہے اس کے لیئے فوج کی نگرانی میں ہی الیکشن کرانا پڑیں۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152703 views I'm Journalist. .. View More