انتخابات کی آمد آمد ہے اور ملک
بھرکے حالات خاص کر پاکستان کی شہ رگ کراچی میں امن و امان کا مسئلہ
انتہائی نامناسب ہے۔ بجائے اس کے کہ سیاستدان حضرات امن و امان کی بگڑتی
ہوئی صورتحال پر توجہ دیتے ، ان مسائل کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے یکجا ہوکر
سوچتے ، مگر کہاں! ہمارے یہاں ارباب ایک نئے ٹرینڈ پر چلتے ہوئے ٹاک شوز
میں شرکت کرتے ہیں اور کچھ اِدھر کی اور کچھ اُدھر کی باتیں کرتے ہیں ، اِن
کو لپیٹا، اُن کو کھینچا ، لو جی ٹاک شوز کے وقت کا اختتام ہو گیا اور یوں
معاملہ جوں کا توں رہ گیا۔ لیکن کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اب عوام الناس
میں شاز و نادر ہی تعلیم کی کمی پائی جاتی ہے ، اب تو لکھنے پڑھنے والوں کا
ایک جمِ غفیر ہے اور اسی لئے لکھنے پڑھنے والوں کا ان کیلئے پیغام ہے، کہ
جنابِ من! ہم تو خوب پڑھ رہے ہیںاور ڈوب کر پڑھ رہے ہیں، غور و فکر کا عمل
بھی ساتھ ہی ساتھ جاری ہے ۔ آج کی نسل زیادہ پڑھ کر کم لکھتے ہیں، آمد کا
انتظار کرتے ہیں، عالمی ادب ، سیاست کو منحمک ہوکر پڑھتے ہیں، متوسطین و
متقدمین کا مطالعہ دل جمعی سے کرتے ہیں اور آج کے تمام صورتحال کا جائزہ
لیتے رہتے ہیں ، تب کہیں جا کر تاریخ تخلیق کی پوزیشن میں آتے ہیں، جو کہ
زندہ و تابندہ رہتی ہے۔
ہم تو قلمکار ہونے کے ناطے اور قلم کی روشنائی سے تحریر ثبت کرکے اپنے تمام
سیاسی احباب کو مشورہ ہی دے سکتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کیلئے ضروری
ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جائے۔ عوام کے معیار پر پورا اترنے
کے لیے آپ اپنا اوراپنے زبان کا معیار اعلیٰ رکھیں ناکہ ٹاک شوز پر آکر ایک
دوسرے کو بُرا بھلا کہیں ، کیونکہ یہ جو کچھ آپ لوگ کہہ رہے ہیں وہ بھی
اگلے انتخابات پر اثر انداز ہونگے کیونکہ یہ باشعور عوام سب کچھ بھی نوٹ کر
رہے ہیں۔ عوام کی خاموشی کو کمال عقل تصور کر لیا گیا ہے۔ لیکن یہ سب کی
بھول ہے کیونکہ چُپ سادھے عوام اپنا غصہ ووٹ کا حق استعمال کر کے ہی نکالیں
گے۔ آج جو صورتحال ہے اس سے تو یہی ظاہر ہو رہاہے کہ فطری چیزوں کو ختم
کرکے بمثل گملے والے پودے لگا دیئے گئے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ
راستے سے بھٹکے ہوئے معاشرے کے افراد کو زیا دہ پاور والی دوائی پلا کر ان
کی اصلاح کے بجائے ان کو چُپ کہ سمندر میں ڈھکیل دیا گیا ہے۔ آج ہمارے پاس
ہر طرف خاموشی اور صرف خاموشی ہے ، مصلحت اور ضمیر فروشی کے سوا کیا ہے؟
ہمارا وقار دنیا بھر میں بکھیر دیا گیا ہے،کسی بھی طبقہ فکر کی کسی بھی سطح
پر کوئی حیثیت باقی نہیں رہی، آپ کو ہر طرح سے آزما لیا گیا ہے اور آپ بے
اثر ہو چکے ہیں۔ اس لئے ہر طرف اسلام پر، مسلمانوں پر، ان کی مقدس کتابوں
اور مقامات پر منصوبہ بند حملے کا سلسلہ جاری ہے پھر بھی یہ عالم ہے کہ:
”اللہ رے سنّاٹا آواز نہیں آتی ۔“
وطنِ عزیز پاکستان کی اس وقت کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ایسا محسوس
ہوتا ہے جیسے ہر باشعور اور درد مند پاکستانی خون کے آنسورونے پر مجبور ہے۔
فوجی آمریت کی سیاہ رات ختم ہوئی تو جمہوریت کے بل بوتے پر جمہوری دور کی
سحر طلوع ہوئی مگر ....افسوس کہ وہ بھی اتنا مایوس کن اور درد ناک ہے کہ
میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں.... ملک
کے طول و عرض کے سبھی ہمدرد شدید پریشانی کے عالم میں دکھائی دیتے ہیں اور
یہ کہتے پھرتے ہیں کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ حقیقی سحر تو نہیں لگتا!
زمینی حقائق کی سنگینی کی طرف جائیں تو لگتا ہے کہ نہایت سنگین ہیں ، یوں
محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا کردار اس قابل نہیں ہے ، یہ تو صرف اللہ رب العزت
کی ذات ہے جو آج بھی ہمیں تباہی سے بچانے پر قادر ہے۔
ہمارے زندگی کے چراغ کا ، یہ مزاج کوئی نیا نہیں
کبھی روشنی کبھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
شیخ سعدی ؒ نے کہا تھا کہ ” میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا کے بعد اس شخص سے
ڈرتا ہوں جو خدا سے نہیں ڈرتا“ اسی بات کو شیکسپیئر نے اپنے انداز میں اس
طرح کہا ہے کہ ” انسان ہی ایک ایسا جانور ہے جس سے میں بزدل کی طرح ڈرتا
ہوں۔ “بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جس کے عمل کا
کوئی اصول، کوئی قاعدہ، کوئی روش اور کوئی طریقہ ہمارے یہاں لاگو نہیں
ہوتا، وہ مکمل طور پر آزاد ہے اور وہ جس وقت جو چاہے کر سکتا ہے۔ آپ خاموشی
کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوں اور محض ذاتی قابلیت اور محنت کی بنیاد پر
ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہوں تب بھی آپ محفوظ نہیں کہ دوسروں کے اندر حسد
کا جذبہ بیدار ہونا ناگزیر ہے۔ انسان لا محدود طور پر اپنی خواہشیں پوری
کرنا چاہتاہے اور بے حساب حد تک دوسروں کو تباہ و برباد کرکے اس کی بربادی
کا تماشا دیکھنا چاہتاہے چاہے دوسروں کی بربادی میں اس کو رتی برابر بھی
فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو۔ اور یہی سب کچھ آج ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ ہمارے
ارباب ان عناصر کا قلع قمع کب تک کریں گے اس کا شاید آپ کو بھی علم نہیں ،
آپ کو علم ہوگا کہ کب بجلی بند ہوگی، کب گیس بند ہوگا، کب حالات خراب ہو
جائیں گے،کب موبائل سگنل بند کر دیا جائے گا، کب موٹر بائیک چلانے پر
پابندی لگ جائے گی، بجائے اس کے ہم ترقی کے منازل طے کریں ہم سب پستی کی
طرف بڑھ رہے ہیں۔
میری صدا پہ کوئی جاگتا بھی کیسے کہ میں!
بلال تھا، نہ اثر ہی میری، اذان میںتھا
آج ہم سب دشمن قوتوں کے چنگل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں یہ سب کچھ ہم سب کی
بد اعمالیوں کی وجہ سے ہے ۔ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری اب صرف اس
بات کی متقاضی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے
بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرے اور اپنے ملک میں ہونے والے روز افزوں دہشت گردی
کا قصہ تمام کرے۔ دنیا میں تمام ہی ملک کے حکمران اپنے عوام کا پہلے خیال
رکھتی ہیں اور بعد میں دوسرے تمام ایشوز پر توجہ دیا جاتا ہے۔ راقم الحروف
کی کیا اوقات مگر اتنا ضرور ہے کہ ہم سب مل کر ملک کے پڑھے لکھے دانشور،
عوام، حضرات سے التجا کر سکتے ہیں کہ خدارا سوچیئے کہ حقیقت کیا ہے اور اس
کی درِ پردہ محرکات کیا ہیں جس کی وجہ سے ہم امن و امان کو ترس گئے ہیں۔
فرینڈز آف پاکستان بھی اس مسئلے کو سوچے سمجھے اور پھر فیصلہ کرے کہ عوام
کی کہاں تک تحریری ترجمانی کی گئی ہے ، اور کہاں خامیاں باقی ہیں۔
ہم سب کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم پورے خلوص کے ساتھ دعاوﺅں کا دامن
تھامیں رکھیں، اجتماعی توبہ کا راستہ اختیار کیا جائے ، اللہ رب العزت اور
اس کے حبیب حضرت محمد ﷺ اور اس کے دین کے سچے وفادار بن جائیں تاکہ ہماری
دعائیں بھی قبول ہو سکیں۔ بصورتِ دیگر نوشتہ دیوار پڑھنا اب کہیں سے بھی
مشکل نظر نہیں آ رہا ہے۔ |