ہم میں سے ایسے کم ہی افراد
ہونگے جنہوں نے اچھے بھلے ،کاروباری ،تعلیم یافتہ گھر بار رکھنے والے
معاشرے میں عزت و مقام اور مال و زر رکھنے والے انسان کو آہ و بکاہ کرتے
سُنا ہو گا۔ایسے ہی چند روز قبل پاکستان کے دریا دل شہر جس نے اپنے دامن
میں ہر مذہب ،فرقے ،اقلیت ،زبان رنگ و نسل رکھنے والے کو جگہ دی ہے کے باسی
سے جب اُس کے شہر کی صورتحال دریافت کی تو صاحب نے حالات ِ شہر کی صورتحال
کی بجائے مرثیہِ شہر سنانا شروع کر دیا ۔اُس کی آواز سے جو خوف و ہراس کی
حالت تھی وُہ میں سمجھ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ اُس شخص نے قیامت دیکھ
لی ہو اوراُس کا عندلیہ دے رہا ہو ظاہر ہو ر ہا تھاکہ یہ اور اِس کے ساتھ
باقی شہری جنگ کے میدان میں بغیر اسلحہ کے اور بغیر جنگی تربیت کھڑے ہوں
اور دُشمن پوری آب و تاب کے ساتھ اِن کی طرف بڑھ رہا ہو۔اور یہ لوگ رحم کے
لیے آہ و بکا کر رہے ہوں۔یہ شہرِ کراچی ہے جہاں کے بادل اب سرخ رنگ اور
زمین بکھرے انسانی عضاءکا منظر پیش کر رہی ہے۔پاکستان تو عرصہ سے اِس دہشت
گردی کی مصیبت بھگت رہا ہے مگر کراچی کو تو نظر بد لگ گئی ہے۔جہاں کم از کم
روزانہ درجنوں لوگ ابدی نیند سو جاتے ہیں۔اِن معصوم لوگوں کو بغیر کسی جرم
کے موت کی گود میں ڈال دیا جاتا ہے۔اِس شہر کے کونے کونے بھڑکتی آگ نظرآتی
ہے اور اِس کو تباہ کرنے کی ٹھاننے والے دجال صفت انسانوں کی حوص پوری نہیں
ہو رہی ہاں مگر انسانیت ضرور ختم ہوتی جارہی ہے۔اِن گزشتہ پانچ سالوں میں
1800افراد لقمہ اُجل بن گئے ہیں۔اسطرح کی کئی گنتیاں ہیں جو گنواتے گنواتے
تھک جائیں گے ۔کراچی نا صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ معیشت کی ہب
بھی ہے ۔کہتے ہیں جس ملک کےساتھ جنگ کرنا ہو اُسے معاشی طور پر غیر مستحکم
کر دو ۔ہمارا معاشی نظام تو کیا اُسے چلانے والے ہی نہیں بچ رہے تو معیشت
کیسے چلے گی۔روشنیوں کے مرکز کے ہاں اندھیروں نے ڈھیرے ڈال لیے ہیں ۔عوام
کے آنسو پونچنے والا کوئی نہیں بس سرد دعوں اور وعدوں سے عوامی دلوں کو
بہلایا جاتا ہے۔ملک کے ہر حصے میں قتل و غارت گری کی موجیں آسمان کو چھو
رہی ہیں ۔بلوچستان کیا ،خیبر پختوخواہ کیا ،پنجاب کیا، سندھ کیا آج ملک
پاکستان کا ہر کونا لہو لہو ہے۔سوال یہ ہے کہ شہر قائدمیں خون کی ہولی اِس
لیے کھیلی جا رہی ہے کہ یہاں عظیم قائد کی ولادت ہوئی اور آپ اِسی شہر کی
مٹی میں دفن ہوئے ؟کیا اِس لیے خون بہایا جا رہا ہے کہ قائد عظیم کی روح
بھی کانپ اٹھے ؟وُہ عظیم انسان ایسا پاکستان تو نہ چھوڑ کے گئے تھے جیسا
بنا دیا گیا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ قاتلانِ انسانیت کا پتا ہونے کے باوجود
بھی اُن ہاتھوں میں طاقت نہیں جو قانون کے محافظ ہیں کہ ایسوں کو نشان ِ
عبرت ہی بنا دیا جائے۔کراچی شہر میں امن قائم کرنے والے ادارے اِس بدامنی
کو کنٹرول کرنے میں ناکام دیکھائی دیتے ہیں ۔بس عوام کو میڈیا چینلزپر یہ
بتاتے سُنائی دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو پکڑ لیا پھر یہ کہتے ہیں کہ عدلیہ
نے اُن افراد کو بری بھی کر دیا ہے اور وجہ شہادتوں کا نہ ہونا گواہان کا
نہ ہونا بتاتے ہیں ۔عدل تو شہادتوں پر مبنی ہوتا ہے نہ تو پھر جب ثبوت نہ
ہوں تو عدلیہ کیا کرے ۔مگر جب ایسے افراد جو موقع سے گرفتار ہوں یا ویسے
چھاپے کے دوران گرفتار ہوں اوراِن سے اسلحہءبم یا اور کوئی بارودی مواد
برآمد ہو تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شر پسند عناصر ہیں وگرنہ کوئی شریف
انسان تو ایسی چیزیں نہیں رکھتا ۔ اس متعلق اعلی عدلیہ کو غور کرنا چاہیے
اور ایسے افراد کو بری نہیں بلکہ سزا دینی چاہیے جو برپور عوامی مطالبہ
ہے۔یہاں حالات لمحات کی بنیاد پر خراب ہوتے جا رہے ہیں۔آج ایسے افراد کو با
عزت چھوڑنا حالات کو اور خراب اور ایسے افراد کاحوصلہ اور بلند کرنے کے
برابر ہوگا۔اِس سلسلے میں عدلیہ کو ایک ضابطہ ِ کار ترتیب دینا چاہیے کہ
اگر پولیس و امن قائم کرنے والے ادارے بھول چوُک کے عدلیہ کے روبرو پیش کر
دیں تو اِن افراد کی برپور چھانٹ ہونی چایئے اور جرائم پیشہ افراد کو تخت ِدار
پہ لِٹکانا چاہیے۔اِس کے علاوہ ملک میں اِس دہشت گردی کی وجہ سے موبائل فون
سروس کا بند کرنا ،عام تعطیل کرنا اِس کا باضابطہ حل نہیں ہے بلکہ یہ تو
اُن کے سامنے ہتھیار ڈالنااور ناکامی کا ثبوت ہے اور عوامی حقوق کے خلاف ہے
اس کے لیے حکومت کو اپنے ادارے فعال کرنے چاہئیں اپنا انٹیلی جنس سسٹم اچھا
کرنا چاہیے۔آج کل ملک کا ہر شہر ی کراچی کے متعلق پریشان ہے۔اور عوامی ڈھرے
حکومت و اعلی عدلیہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ خدارا کراچی میں آپریشن کریں
تاکہ ہر طرح کے جرائم کی بیخ کنی ہو پائے ۔اور شر پسند عناصر کو بھی اگلا
منہ دیکھایا جائے ۔کیونکہ بہت رینجر بھی آزما لی پولیس و سی آئی ڈی و دیگر
ادارے بھی آزما لیے گئے مگر وُہ کامےابی نہ ملی جو ملنی چاہیے تھی ۔ادروں
نے کام بھی کیا ہے جو فراموش نہیں کیا جا سکتا مگر ضرورت حالات کے مطابق
فوج کا آنا لازم ہو گیا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے ہمیں اول اپنی عوام کی
زندگیوں کو رکھنا ہے ۔کیونکہ اِس وقت کراچی کئی خون خوار عناصر کے قبضے میں
مکمل طور پر آچکا ہے ۔کوئی ٹارگٹ کلنگ کر رہا ہے تو کوئی بھتہ خوری اور
کوئی یہ دونوں اور جہاں کسر رہ جاتی ہے وُہ خود کش یا رموٹ کنٹرول دھماکے
پوری کر دےتے ہیں۔اِس وقت بھائی چارے کی ضرورت ہے اتحاد کی امن کی ضرورت ہے۔
اسلام نے قتل و غارت گری سے منع فرمایا ہے اور یہ جو امام بارگاہوں پراور
عزاداران پر حملہ کر رہے ہیں یہ نہ تو مسلمان ہیں نہ ہی انسان ۔اسلام ظلم
وجبر کے ساتھ اسلام کی طرف لانے کی ترغیب نہیں دیتا اور نہ ہی یہ اسلام کا
شعار ہے۔اِس بدامنی نے نہ صرف عوام بلکہ تاجر اور امن وامان قائم کرنے
والوں کی کمر توڑ دی ہے ۔سکیورٹی ادارے بھی بوکھلائے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہاں
اگر حالات زندگی درست کرنا ، ڈر خوف کا خاتمہ کرنا اور امن لانا ہے تو فوج
کو کراچی کا کنڑول دینا ہو گا جو کہ اُن عناصر کے لیے خون کے گھونٹ پینا ہے
جو اِس آپریشن کے خلاف ہیں۔بہت عرصہ اپنی عوام کو سولی پر چڑھا لیا ۔ہاں
مگراب کراچی کو کندھے کی ضرورت ہے اوراس کے پاس اور ستم سہنے کی گنجائش
نہیں ہے ۔ |