دوستوں کے دوست کا انتظار ہے

صوبائی وزیر جیل خانہ جات منظور وسان نے گذشتہ چند روز قبل اعلان کیا تھا کہ قیدیوں کو صبح میں ناشتے میں انڈا دیا جائے گا۔اس اعلان کے بعد کیا ہوا یہ معلوم کرنے کے لیئے میںنے سنٹرل جیل کراچی کا دورہ کیا۔ چند قیدیوں سے ملاقات کی اور ان سے ناشتے کے حوالے سے دریافت کیا تو ایک نوجوان قیدی نے مجھے طنزاََ مسکراتے ہوئے اس انداز سے دیکھا اور سوال کرنے لگا کہ کیا آپ خوابوں پر یقین کرتے ہیں؟ ابھی میں کوئی جواب دینے کے لیئے لب کشائی کرتاکہ اس نے ایک اور سوال کرڈالا”

آپ کسی یورپی ملک سے آئے ہیں“؟نہیں بھئی میں تو آپ ہی کے شہر کا باشندہ ہوں ۔صحافت کرتا ہوں۔ اس نے لمبی اورٹھنڈی سانس لی پھر چپ ہوگیا۔بھائی میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ناشتے میں انڈے ملنے لگے ہیں ، کچھ بہتری آئی ہے؟۔اس سوال پر وہ کھل کھلاکر ہنسنے لگا اور ہنستے ہوئے اپنے دیگر ساتھی قیدیوں کو آواز دیکر بلانے لگا بھائی ان کو بتاﺅ انڈے کا فنڈا۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے میرے آس پاس پانچ چھ نوجوان جمع ہوگئے ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ جو وزیر صاحب ہیں نہ ان کا تعلق خوابوں کی دنیا سے ہے۔ وہ ہمیں بھی ایک خوشگوار خواب سناکر چلے گئے تھے ۔ ہم سب لوگوں نے تو اس بات کو ایک لطیفہ سمجھ کر سنا اور بھول گئے ۔لیکن حیرت ہوتی ہے آپ صحافیوں پر جنہوں نے منظور وسان کے اعلان کو حقیقی جانا اب روزانہ ہی کوئی نہ کوئی صحافی یہاں انڈے کی تلاش میں ایسا آتا ہے جیسے انہوںنے کبھی انڈا دیکھا ہی نہیں ہو۔ایک دوسر ے دبلے پتلے قیدی نے اپنے دوست کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ بھائی آپ یقین کریں کہ یہاں صرف ڈنڈے ملتے ہیںلیکن اس کی وجہ آج تک ہم کو سمجھ نہیں آئی کہ یہ ڈنڈے کس خوشی میں ہمیں کھانے پڑتے ہیں؟میں نے اس نوجوان کی بات سنکر اس سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے جیل حکام سے دریافت نہیں کیا کہ صوبائی وزیر کے اعلان کے مطابق انڈے کب ملیں گے؟ اس نے کہا بھائی ان سے پوچھنے کیا کیا ضرورت وہ تو پوری مرغی کھانے میں مصروف رہتے ہیں۔جس دن وزیر موصوف نے جیل کادورہ کیا تھا اسی روز جیل وارڈن سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ ” آج انڈے دینے والی مرغی آئی ہے“ ۔ یہ سنکر ہم سب بھی خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ وزیر کا وہ خواب نہیں تھا حقیقی اعلان تھا لیکن دوسرے دن پتا چلاکہ کسی بڑے گھر کا جوان گرفتا رہوکر جیل پہنچا ہے ۔ یہ لوگ امیر گھروں کے لوگوں کو انڈے دینے والی مرغی کہا کرتے ہیں۔ویسے تو ایک جیلر نے ہمیں بتایا کہ ملک کی ایک اہم ترین سیاسی شخصیت جو چند سال قبل تک جیل میں مقید رہ کر ” طویل سیاسی قیدی “کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہے کا ”دور جیل “ جیل کے عملے کے لیئے سنہرا دور تھا۔ وہ کہہ رہا تھا آپ یقین کریں کہ ہم سب کو ان سے اس قدر محبت ہوگئی تھی کہ سب یہ ہی دعا کرتے تھے کہ اللہ کرے یہ ہمیشہ اندر ہی رہیں ،لیکن کیا کیا جائے کہ وہ جلد ہی جیل سے ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔وہ تو بھلا کرے بے نظیر بھٹو مرحومہ کا جنہوں نے مرتے وقت بھی اس انسان پر احسان کیا ، اپنی جان کیا دی سب کچھ اس کے حوالے کردیا جن کا میں ذکر کررہا ہوں۔سائیں وہ بھی بڑا آدمی ہے ہم چھوٹوں کی عزت کیا کرتا تھا بس اس کا جیل سے جانا تھا کہ ہم یتیم ہوگئے ۔ بے چارہ غریب وارڈن یہ کہتے کہتے رو پڑا ۔۔۔۔۔میں نے اسے تسلی دی صبر کرو دوبارہ ان کے دن آسکتے ہیں بلکہ وہ خود ہی آسکتے ہیں یہاں ۔ یہ سن کر وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور کہنے لگا کہ سچی بتائیں ! ہمیں تو کئی دنوں سے لوگ یہ خوشخبری سنارہے ہیں لیکن یہ دن بھی نہیں آرہے اور یقین بھی نہیں آرہا۔ آپ کو پتا ہے، اس نے مجھ سے سوالیہ انداز میں کہا اور پھر کہتے گیا ۔ان کے دور میں بڑی عیاشی تھی، جیل کے عملے کو ان کی طرف سے ہی اتنا کچھ مل جاتا تھا کہ کسی اور قیدی سے کچھ مانگنے یا ملاقاتیوں سے رشوت لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔

میں نے پوچھا کہ اس دور میں عام قیدیوں کے حالات کیسے تھے ؟ کہا عام تو ہر دور میں جام رہتا ہے بھائی ہاں البتہ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے اور انکے دوستوں کے حالات بہت اچھے تھے۔اس نے کہا آپ یقین کریں کہ جیلر صاحب تو صبح شام ان کا خیال ایسا رکھتے تھے جیسے کہ وہ ان کے بہنوئی ہوں۔

میں نے کہا تو انڈا کبھی بھی قیدیوں کو نہیں ملا؟ اس نے کہا آپ بھی سائیں اب تک انڈے کے چکر میں ہو! چھوڑو اب یہ بتاﺅ کیا واقعی وہ دوبارہ ”اندر “آجائیں گے؟ سائیں مگر بی بی کی شہادت کے کے بعد وہ اب تبدیل ہوگئے ہونگے یا اب بھی ”دوستوں کے دوست “ہیں۔ پتہ نہیں کہ تبدلی ہوئے ہیں یا نہین لکین یہ مجھے معلوم ہے کہ اب بھی وہ دوستوں کے دوست ہیں، ان کے روز و شب سے تو ایسا ہی کچھ لگتا ہے۔بس دعا کرنا کہ وہ باہر نہ جانے پائیں،میں نے کہا ۔

ویسے یہ جو خواب دیکھنے والا وزیر ہے نا یہ بھی میرے علاقے کا ہے اور اس بڑی شخصیت کی طرح دوستوں کا دوست ہے ،اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔یہ بھی اپنے لوگوں کے لیئے جو کچھ کرسکتا ہے کررہا ہے سنا ہے کہ قیدیوں کے کھانے کا ٹھیکہ اس نے اپنے ایک دوست کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا پھر کیا ہوگا؟ کچھ نہیں سائیں ، اپنا کام تو کوٹہ پر چل رہا ہے ۔ میں نے پوچھا وہ کیسے ، بولا سائیں ہم وزیر کے علاقے کا ہے ، ہمارے وزیر اپنے گوٹھ کے کتوں کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ یہ کراچی کے سیاست دانوں کی طرح نہیں ہیں کہ جو اپنوںکا خیال کرنے کے بجائے ملک کو ہی چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس کا یہ جملہ سنکر میں وہاں سے چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ہمارے ملک میں” بڑے سیاست“ دان اپنوں کے لیئے فائدہ مند ہی ہوتے ہیں چاہے جیل میں ہوں یا اقتدار میں، ان کا ہر جگہ انتظار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک کے 98 فیصد غریب لوگوں کوہر جگہ ہی انڈے کا انتظار رہتا ہے چاہے گھر میں ہو ںیا جیل میں، ان کا کوئی سیاست دان بھی دوست نہیں ہوتا اگر کوئی ہوتا ہے تو سیاست میں آنے کے بعد ان کی پہنچ میں نہیں ہوتا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152700 views I'm Journalist. .. View More