راجہ زین العابدین بھٹی
کشمیر، بھارت اور پاکستان کے مابین کئی دہائیوں سے سب سے بنیادی اور اہم
مسئلہ ہے۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے دونوں پڑوسی ملکوں کے مابین تین بڑی
جنگیں ہو چکی ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان کو دہشت گردی سمیت دیگر مسائل
کا سامنا رہا۔ خاص طور پر دہشت گردی کےخلاف عالمی جنگ میں پاکستان کافی
الجھا ہوا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کو وہ توجہ نہیں دے سکا جس طرح ماضی میں
دیتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا اور خاص طور پر بھارت شاید یہ تاثر لے رہا ہے
کہ پاکستان کشمیر کو بھول چکا ہے کیونکہ پاکستان بھارت کے ساتھ امن کی طرف
بھی گامزن ہے لیکن اسے بھارت کی خام خیالی ہی کہا جائے گا کہ پاکستان کشمیر
کو بھول گیا ہے۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس مئلہ سے پاکستان اس وقت دستبردار نہیں
ہوسکتا جب تک کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق حق نہیں مل جاتا۔ اس کے لئے
پاکستان اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر یہ مسئلہ اٹھا رہا ہے اور
اقوام متحدہ عالم کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کا آزادی کا
مطالبہ ان کا حق ہے جسے پورا کیے بغیر دنیا میں امن مشکل ہے۔ حال ہی میں
پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے مقبوضہ کشمیر کی آل پارٹیز حریت
کانفرنس کی ایگزیکٹو کونسل کے 8 رکنی وفد کو پاکستان آنے کی دعوت دی جس کے
مطابق حریت کانفرنس کے رہنماء15 دسمبر سے 22 دسمبر 2012ءکے دوران پاکستان
کا دورہ کرینگے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان اور بھارت
تجارت سمیت دیگر معاملات میں آگے بڑھنے کی طرف گامزن ہیں اور 2008ءکے ممبئی
حملوں کے بعد دونوں کے مابین منقطع ہونے والے رابطے بحال ہو چکے ہیں اور
دونوں امن مذاکرات میں مصروف ہیں۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماﺅں کا
حالیہ دورہ بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کو فروغ دینے کی ہی ایک کڑی
ہے۔ اس سے مقبوضہ کشمیر کے رہنماءپاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے
ملاقاتیں کرکے سیاسی ماحول کو بہتر بنائیں گے اور کشمیر کے پُرامن حل کی
طرف کوئی لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوشش کریں گے۔ بنیادی طور پر حریت کانفرنس
کے رہنماﺅں کا دورہ بھی پاکستان اور بھارت کے مابین امن عمل کی بحالی کا ہی
ایک حصہ ہے تاکہ بھارت اور پاکستان بغیر کسی مسلح تصادم کے اس دیرینہ اور
اہم مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ دوسری طرف بھارتی
میڈیا اور بعض انتہاءپسند عناصر حریت کانفرنس کے رہنماﺅں کے دورہ پاکستان
کو منفی انداز میں پیش کررہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ
پاکستان کشمیر میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دے رہا ہے اور حریت
کانفرنس کے رہنماﺅں کا دورہ بھی اس تحریک کو مزید تقویت دےدے گا۔ یہ عناصر
پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری امن عمل کو بھی سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان اور بھارت کے مابین ایک سہولت کار
"Facilitator" کے طور پر کردار ادا کررہی ہے اور دونوں ممالک کے کرتا دھرتاﺅں
کو کشمیری مفادات اور جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی فیصلے پر پہنچنے
کے لئے تیار کررہی ہے تاکہ بھارت اور پاکستان کشمیری عوام کے مفادات کو
بالائے طاق رکھ کر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے
کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل
مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ ایک خوش آئند بیان ہے۔ قبل ازیں
ممبئی حملوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہر قسم کے مذاکرات تعطل کا شکار
ہو گئے تھے۔ کشیدگی انتہاءکو پہنچ چکی تھی۔ اب پھر بھارتی میڈیا حریت
کانفرنس کے رہنماﺅں کے دورے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے مذاکرات میں رکاوٹ
پیدا کرنا چاہتا ہے حالانکہ مذاکرات کا عمل خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا ہے
اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دونوں ملک سرکریک، سیاچن میں فوجوں کی تعداد
میں کمی یا بالکل ملٹری فری علاقہ قرار دینے پر متفق ہو جائیں گے۔ اس حوالے
سے دونوں ممالک میں اختلافات میں کمی آ رہی ہے۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ
مذاکرات میں ہونے والی حالیہ پیش رفت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اسی لئے آل
پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماﺅں کو دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی ہے۔
پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ کشمیری رہنماﺅں
کو پاکستان کے دورے کی دعوت کا مقصد ہی دونوں طرف کے رہنماﺅں کے خیالات میں
ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ مسئلہ کے کسی حل کی طرف پیش قدمی ہوسکے۔ ابھی
اس بات کا امکان ہے کہ بھارت میں بعض شرپسند عناصر حریت کانفرنس کے رہنماﺅں
کے پاکستان کے دورہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرینگے اور ممکن ہے کہ
ان رہنماﺅں کو سفری دستاویزات مہیا نہ کی جائے۔ درحقیقت اس طرح کا کوئی
اقدام پاکستان اور بھارت کے مابین بداعتمادی پیدا کرے گا اور ایک سازگار
فضاءکو دوبارہ کشیدگی طرف دھکیل دے گا اور یہی ان شرپسند عناصر کا مقصد ہے۔
بھارت کو چاہئے کہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے کشمیری رہنماﺅں کو
پاکستان کا آزادی سے دورہ کرنے دے اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے۔
پاکستان اب بھی اپنے اس موقف پر سختی سے کاربند ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو
خلوص نیت کے ساتھ کشمیریوں کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جائے اور
اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو جو حق دیا ہے۔ اس پر عملدرآمد کرائے ہوئے
استصواب رائے کرایا جائے۔ اسی صورت میں اس خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے
گا۔ پاکستان امن کے ہر عمل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ |