سیاستدانوں کے بدلتے تیور

ہمارے یہاں جو کچھ سیاسی میدان میں ہو رہا ہے اس کی مثال دنیا میں شاید ہی مل سکے۔ ایک مہذب معاشرے یا سماج کی تشکیل کے لئے تحفظ انسانی، اور انسانی حقوق کے قوانین کی توضیع اور اس کی پاسداری نہایت ضرور ی ہوتا ہے۔ اس کے بغیر سماجی سطح میں خاطر خواہ تبدیلی ممکن نہیں ۔ مگر ہمارے یہاں کی سیاست اور سیاستدان ہی نرالے ہیں۔ جس پارٹی کی طرف چاہے ” لوٹا “ بن کر اس کی طرف ڈھلک گئے۔ ضمیر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہا۔ انسان کا اپنا ضمیر بھی کوئی شئے ہوتا ہے جو اسے غلط کام کرنے سے روکتا ہے مگر سیاست کے کیمیا گر وں کو پتہ نہیں یہ ” ضمیر “ بھی میسر نہیں شاید۔ پارٹی بدل لینے سے آپ کے گناہ تو نہیں دُھل سکتے جو کچھ آپ نے کیا ہے اس کی جزا و سزا تو ہوگی اور وہ سزا ہے عوام کا ووٹ، جو عنقریب ہی آپ کا کچہ چٹھہ کھول دیگا۔

موجودہ معاشرے میں ہر طرف بد عنوانی، دھوکہ دہی، جعل سازی، فرقہ پرستی اور حقوق کی پامالی جیسی برائیاں عام ہیں۔ ایسی حالت میں ملک کا غریب، پسماندہ یا اقلیتی طبقہ اکثر ظلم و جبر اور استحصال کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یوں ہمارے سیاستدانوں کو ان سب چیزوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر صاحب لوگ صرف پارٹی بدلنے اور مستقبل میں اپنی اپنی سیٹ پکی کرنے کے چکر میں لگے ہیں۔ اور یوں پھر نئے وعدے ہونگے کہ ہم آگئے تو ایسا کر دیں گے ، ہم آگئے تو ویسا کر دیں گے، مگر جو آپ سب نے مل کر 65سالوں میں کیا ہے وہ عوام کے رُوبرو نہیں ہے۔ قوم اب سب کچھ سمجھ رہی ہے۔ اور جنہیں کم معلومات تھا اسے ہمارے تیز میڈیا نے سب کچھ سمجھا دیا ہے۔میری انتہائی سادہ دیہاتی، سفید ان پڑھ شخص سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ تو دل کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے‘ دل کے کان سے سُن رہا ہے‘ وہ تو صاف صاف کہہ رہا ہے کہ ” یا تو ووٹ ہی نہیں دوں گا “ اور اگر دیا تو ” بہت سوچ کر دوں گا جو ملک کو سنبھال سکے“ یہ ہیں ہمارے آج کے دیہاتی بھائی ، تو جناب شہری تو پھر شہری ہیں ان میں تو سوچ کا لاوا بہت عرصے سے پروان چڑھ رہا ہے۔

ان دنوں عام آدمی کا حال ایسا کہ اسے کھانے میں دال بھی میسر نہیں ہو رہا ۔ اس کی وجہ ہے آسمان سے باتیں کرتے دام، وہ دن ہوا ہوگئے ہیں جب عام محنت کش لوگوں کے لئے دال پروٹین کا اہم ذریعہ ہوا کرتی تھی۔مگر آج ہمارے سیاسی بساط کے لوگ صرف اپنی جمع پونجی کو ”جمع “ کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ عوام کی ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے والے حلف اٹھاتے ہی عوام کو بھول جاتے ہیں جبکہ ہونا تو اس شعر میں درج الفاظوں کی طرح سے چاہیئے۔
جس طرف رہبر معتبر چل دیئے
قافلے جتنے تھے سب اُدھر چل دیئے

مگر افسوس کہ اہلِ وطن کو ابھی تک ایسا رہبر دستیاب نہیں ہو سکا۔ جو عوام کے بارے میں فیصلہ کرے۔ دکھاوے کیلئے تو سب کچھ کیا جاتا ہے جو بظاہر عوام کی بھلائی کیلئے ہی ہوتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتا ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال روزگار کے حوالے سے یہاں دیئے دیتا ہوں کہ شہر میں آج کل پولیس میں بھرتیوں کے حوالے سے اشتہار آیا ہوا ہے۔میں ایک جگہ چند لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا کہ یہ موضوع چل نکلا۔ کسی نے ایک بے روزگار لڑکے کو کہا کہ پولیس میں جاب آئی ہے اپلائی کر دو۔ اس نے کہا کہ پہلے بھی دو مرتبہ اپلائی کر چکا ہوں مگر نتیجہ صفر ہے۔ کیونکہ وہاں پانچ سے آٹھ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔ جبکہ میں بے روزگار ہوں تو اتنے پیسے کہاں سے لاﺅں اس لئے بہتر ہے کہ فارم کے سو روپے بچا لوں۔ یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا، ہمارے اداروں کا، ہمارے نوجوان ڈگری ہاتھوں میں لیکر در بدر مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوکری ان سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے ان سیاسی چالبازوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنے اور اسے حل کرنے کی ترکیبیں تلاش کرنی چاہیئں ناکہ اپنی ساکھ کی خاطر لوٹا کریسی کو فروغ دینا چاہیئے۔

اس ملک میں ایک ایسا بھی قانون ہونا چاہیئے کہ کوئی پارٹی نہ بدل سکے۔ یہ کیا کہ جب جس کا سینگ جدھر سمایا اس طرف لڑھک گئے ، جن کو کل تک میڈیا میں بیٹھ کر لعن طعن کیا کرتے تھے لوٹا بن جانے کے بعد انہیں کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں۔ بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد اسی کو کہتے ہیں شاید۔ جو بھی موجودہ حکومت ہوتی ہے ان سے کسی ایشو کو حل کرنے کا میڈیا پر کہا جائے تو وہ پچھلی حکومت سے ورثے میں ملی ہے کا کہہ کر صاف بچ نکلتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اگر پچھلی حکومت نے کچھ غلط کیا ہے تو آپ اس کام کو سدھار لو بھائی۔ الزامات در الزامات کے چکر میں تو عوام کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور تو عوام کے حال پر رحم کی ضرورت ہے۔میں تو اس اہم موضوع کے بام پر صرف اس شعرکو ہی اپنا جانشین بنانے پراکتفا کرنا جائز سمجھتا ہوں۔
میری سنو تو نہ دیکھو انہیں نظر بھر کے
یہ سارے حسن کے سورج ہیں دوپہر بھر کے

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بدلتے نہیں ہیں مگر بدلنے کی آرزو ضرور رکھتے ہیں۔ نعمتیں چاہتے ہیں مگر شکر ادا نہیں کرتے۔ وصول کرنا جانتے ہیں مگر بانٹنا نہیں چاہتے، اور یہ سب جانتے ہوئے بھی ہم بدلنا نہیں چاہتے۔ پھر بھلا ہمارے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ ہماری دعاﺅں میں اثر کیسے پیدا ہونگے؟ ہماری دعائیں کیسے قبول ہونگی؟ یہی حال ہمارے سیاسی رفقاءبھی ہے کہ وہ بدلنے کا جذبہ ضرور رکھتے ہیں مگر باگ دوڑ دشمنوں کے دَر پہ چھوڑ آتے ہیں۔ اپنی کُنجیاں کہیں اور سے ہلانے کیلئے نہ چھوڑیے جناب ، آپ خود بہت معتبر ہیں صرف حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہے۔

وقت کی تیزی نے جہاں انسانکو پریشان کیا وہیں یہ بھی باور کروا دیا ہے کہ وہ جتنا بھی تیز دوڑ لے بہرحال سب کچھ نہیں پا سکتا۔ پھر یہ دوڑیں اور چھلانگیں کیوں لگا رہے ہیں ، کیا انہیں پتہ نہیں کہ ہم سب کی زندگی میں کوئی نا کوئی کمی موجود ہے۔ اور یہی کمی انسا ن کو جھکنا سکھاتی ہے ، تکبر سے پاک کرتی ہے، اور اپنے رب کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے۔ اب اس میں چاہے کوئی لاچار ہو یا طرحدار، امیر ہو یا غریب، انڈسٹری کا مالک ہو یا ایک معمولی ڈرائیور، سب کی زندگی میں ایسا موقع آتا ہے جب وہ اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتا ہے۔ جہاںیہ بے بسی بہت کرب دیتی ہے وہیں انسان کو اپنے بنانے والے کے آگے سجدہ ریز کر دیتی ہے۔ بے بسی کا کرب خوبصورتی سے انسان اور اس کے خالق کے بیچ فاصلے مِٹا دیتا ہے۔ فاصلے مٹ جائیں تو جو دعا دل سے نکلتی ہے وہ عرش تک کا سفر کرتی ہے۔ تو جنابِ من! ہم سب بھی اگر دل سے دعا کریں تو ہمارے پیارے ملک کے حالات ضرور بدل سکتے ہیں۔ آپ بھی دعائیں کریں اور اللہ ہمارے سیاسی ناقدین کو بھی توفیق مرحمت فرمائے کہ وہ ملک اور اہلِ وطن کے باسیوں کیلئے کچھ کر یں ۔تاکہ ہمارا ملک بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے۔ اورلازمی امر ہے کہ اگر ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا تو عوام خود بخود ترقی کے منازل کی طرف گامزن ہونگے۔
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات!
Muhammad Jawaid Iqbal Siddqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddqui: 372 Articles with 370813 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.