اللہ عزوجل کی بیش بہا نعمت
انسا نی جسم ایک بہت بڑی فیکٹری کی مانند ہے جس میں ہزار ہا مشینیں بیک وقت
اور ہمہ وقت کا م میں مصروف ہیں۔ اس کے علا وہ جسم ِ انسانی میں تین سو
ساٹھ کے لگ بھگ جوڑ ہیں ۔ یہ جو ڑ مشین کے پیچوں (Screws )کی طر ح ہیں ۔
انسانی فیکٹری میں ہر مشین کو اس کا خام مال خون مہیا کر تا ہے ۔ ایک طر ف
تو خون ہر سسٹم کو خام مال گلوکو ز اورآکسیجن کی صورت میںفراہم کر تا ہے
اور دوسری طر ف ان سے پیدا شدہ زہریلے ما دے کے اخرا ج میں مد ددیتا ہے ۔
اسی طر ح جسم کے تمام جو ڑوں کو گھسنے سے بچانے کے لیے مشین کو تیل
(Synovial Fluid )کی صورت میں مہیا کر تا ہے جو جوڑوں کو گھسنے اور رگڑ سے
محفوظ رکھتا ہے۔پس ثا بت ہواکہ انسانی فیکٹری کی کامیا بی اور فعالی کا سا
را دارومدار نظام دورانِ خون کی بہترین کا ر کر دگی پر ہے۔ اگر جسم کے کسی
بھی حصے کو خون کی (Supply )ماند پڑ جائے یا رک جا ئے تو رفتہ رفتہ وہ عضو
کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور بیکا ر ہو جا تا ہے ۔ اسکے علا وہ جسمِ انسانی
میں کچھ اعضا ءایسے ہیں جن کو ہمہ وقت خون کی (Supply )کی ضرورت رہتی ہے ۔
اس لیے کہ وہ با قی اعضا ءکی نسبت زیا دہ اہم اور ممتا ز ہیں اور تمام جسم
کی کا ر کر دگی کو کنٹرول کرتے ہیں مثلا ً دل او ر دماغ ۔ ہما ر ا جسم کشش
ثقل کی گر فت میں بھی ہے ۔ لہذا خون کا بہا ﺅ اور دباﺅ سر اور دما غ کی
نسبت ہا تھو ں او ر پاﺅ ں کی طر ف رہتا ہے ۔ لہذا جونہی دما غ کو خون کی
(Supply) میں کمی پڑ جاتی ہے انسا ن پر غنو دگی اور نقاہت چھا جا تی ہے ۔
جس طرح بوتل میں دوائی پڑے پڑے تہہ میں بیٹھ جاتی ہے اور پانی اوپر کھڑا
رہتا ہے ۔ لہذا دوائی کا صحیح فائدہ لینے کے لیے استعمال سے پہلے بو تل کو
اچھی طر ح ہلا یا جا تاہے ۔ اسی طر ح انسان کے اندر دورانِ خون کا بھی یہی
حال ہے روزمرہ کا م کاج کے دوران یعنی چلتے پھر تے ، کھڑے بیٹھے خون کا بہا
ﺅ دما غ اور دل کی بجائے کششِ ثقل مائل اعضاءیعنی ہاتھو ں ، ٹانگو ںکمر اور
پیٹ کے اعضا ءکی طرف چلا جا تاہے اور وہیں قدرے رک جا تاہے ۔ لہذا دما غ کو
آکسیجن اور گلو کو ز کی فراہمی اور فاسد مادو ں کے اخرا ج کے لیے اور ہاتھ
پا ﺅ ں کی سو جن ختم کرنے کے لیے ضرور ی ہے کہ پو رے جسم کو بوتل کی طر ح
بار بار ھلا یا جا ئے یا گھنٹہ گھنٹہ بعد قلا با زی لگائی جائے۔ لیکن ایسا
کیسے ممکن ہے؟خون کا منبع اور پمپ یعنی دل جسم اور دما غ کے وسط میں ہے
یعنی دما غ دل سے اوپر اور با قی جسم سے نیچے ہے۔ دماغ جسمیں جسم کو کنٹرول
کرنے والے سارے سینٹرز موجو دہیں ،کو آکسیجن اور گلو کو ز پہنچانے کے لیے
اور فاسد مادو ں کے اخرا ج کے لیے خون کو زیا دہ اور جلدی جلدی دما غ کی
رگو ں کا دور ہ کرنا چاہیے ۔ لیکن دما غ تک خون پہنچانے میں پہلی رکا وٹ
زمین کی کششِ ثقل ہے۔ لہذا دل کو بہت زور زور سے اور جلدی جلدی خون کو پمپ
کر نا پڑے گا ۔ جس کی وجہ سے دل پر بو جھ پڑے گا۔ دوسری طر ف ہاتھوں ، پا ﺅ
ں اور با قی جسم کی طرف خون خود بخود کشش ثقل کی وجہ سے بہتا رہتا ہے لیکن
وہاں سے واپس دل میں پہنچنا ،کشش ثقل کی مخالفت کی وجہ سے مشکل ہو تاہے۔
جیسا کہ لمبے سفر میں ہاتھ او رپا ﺅ ں سوج جاتے ہیں کیونکہ خون وہیں ٹھہر
جا تا ہے اور پوری مقد ا ر میں واپس دل میں نہیں آتا ۔
مسئلہ
خون کو ہا تھ ، پا ﺅ ں اور با قی جسم سے واپس دل میں اور دل سے دما غ میں
لا نا ایک مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ صرف نماز ہی حل کر سکتی ہے ۔ نما ز خون کے
بہا ﺅ کو پورے جسم میں (Uniform) رکھنے کے لیے نا گزیر ہے ، یہی وجہ ہے کہ
دن اور رات میں پچا س (50 )نما ز یں فر ض تھیں ۔ پچا س نماز و ں کے ذریعے
یہ مسئلہ بخو بی حل ہو سکتا تھا ۔ لیکن چونکہ انسان کمزورہے لہذا کم سے کم
نماز کی مقدار جس کے ذریعے خون کے اس توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے وہ
پانچ نمازیں ہیں یہی وجہ ہے کہ نما ز فر ض ہے ۔ نما ز کے بغیر ہمارا جسم
مختلفقسم کے دما غی اور جسمانی امر اض میں مبتلا ہو سکتاہے ۔ رکو ع و سجو د
میں ٹانگو ں ، ہا تھو ں کمر اور پیٹ کے عضلات تن کر کھنچ جا تے ہیں اور خون
نچڑ نچڑ کر دل کی طر ف جانا شرو ع کر دیتا ہے ۔ وہاں سے سجدے کی حالت میں
کششِ ثقل کی وجہ سے دل کا صاف خون تیزی سے دما غ کی طر ف چل پڑتا ہے اور
دما غ کو وافر مقدار میں آکسیجن اور گلو کو ز فراہم کر تا ہے اور دما غ میں
رکے ہوئے فا سد ما دے خارج کرنے میں مد د دیتا ہے اس طر ح نما ز میںبار بار
رکو ع و سجو د کے ذریعے پورے جسم میں تقریباً رکا ہو ادورانِ خون کا نظام
دوبارہ بحال ہو جاتاہے اور تمام جسم میں خون کا بہا ﺅ متوازن ہو جا تاہے ۔
نما ز کے فوا ئد
اللہ تبا رک و تعالیٰ کی نعمتو ں میں ایک بہت بڑی نعمت نما ز کا قیام ہے ۔
یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں ساری دنیا کی نعمتیں کوئی حیثیت
نہیں رکھتیں ۔
نما ز بطور ورزش
آج کل ساری دنیا کے سائنس دا ن اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی صحت کے لیے
ورزش کی با قاعدگی بہت ضروری ہے۔ بطور ورزش نما ز لا جواب ہے ۔ دنیا کی
کوئی قوم اور مذہب نما زکے مقابلے میں کوئی ورزش پیش نہیںکر سکتی ۔
(1) نماز ایک ایسی ورزش ہے جس کو بوڑھا ، بچہ ، عورت ، مر د ، جوان اور
بیمار سبھی کر سکتے ہیں
(2) تما م ورزشیں خالی پیٹ کی جا تی ہیں ۔ جبکہ نماز بھر ے پیٹ بھی پڑھی جا
سکتی ہیں ۔
(3) سخت تھکا وٹ کے بعد کو ئی ورزش نہیں کر سکتا جبکہ نماز سخت تھکا وٹ کی
حالت میں بھی پڑھی جا تی ہے اور ایک دم ساری تھکا وٹ اتا ر کر انسان کو تا
زہ دم کر تی ہے۔
(4 ) ہر ورزش کے بعد انسان تھک جا تاہے جبکہ نماز پڑھنے کے بعد انسان کی
ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور وہ دوبارہ کا م کاج کرنے کے قابل ہو جا تاہے
۔
(5) نما ز ایک بہترین (Warm Up )ورزش ہے ۔ پانچ ، چھ گھنٹے لیٹنے اور سونے
سے تما م جسم کے عضلا ت تن کر اکڑ جا تے ہیں ۔ زیا دہ دیر تک ایک پو زیشن
میں رہنے سے بھی پٹھے اکڑ جا تے ہیں ۔ نماز ان اکڑے اور تنے ہوئے پٹھوں کو
نرم کر کے واپس اپنی اصلی حالت پرلے آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی لمبی راتو
ں میں نماز تہجد کا قیام انسان کوہر قسم کی دما غی ، جسمانی اور روحانی
الجھنو ں سے نجا ت بخشتا ہے ۔
نما زاور نظا م ہضم
نظام ہضم کی بہتر کا ر کر دگی کے لیے نمازایک اہم معاون کی حیثیت رکھتی ہے
۔آج انسان بے دریغ سوڈا وا ٹر پینے کا محتا ج کیوں ہو گیا ہے ؟اس لیے کہ اس
کے نظام ہضم کی ورزش ختم ہو چکی ہے ۔ اس کا معدہ گیس سے بھرا رہتا ہے ۔
یقینا ایک بوتل پیپسی پینے سے اتنی ڈکاریں خارج نہیں ہو تیں جتنی ایک نماز
پڑھنے سے طبیعت ہلکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں تر اویح پڑھنے کے
بعد انسان دوبارہ سحری میں کھاناکھانے کے قابل رہتا ہے۔ آج کل کے دو ر میں
جہاں افطا ری بہت انہما ک سے تیا رکی جا تی ہے ۔ 20 رکعت سنت ترا ویح تو
فرض نماز کی طر ح پڑھنی چاہیے۔ |