موضوع گو کہ پڑھنے میں عجیب ہی
احساس دلاتا ہے کہ یہ کیا مضمون ہے؟ ” بادشاہ مر گیا/بادشاہ زندہ ہے“ میں
یہاں اس موضوع کی تشریح کرتا چلوں کہ” بادشاہ مر گیا“ سے مراد ”جو دورِ
حکومت گزر گیا“ اور” بادشاہ زندہ ہے“ سے مراد جو ”دورِ حکومت چل رہا ہے“۔اس
موضوع کی تشریح کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ عوام الناس آسانی سے اس موضوع
کو سمجھ سکیں۔اس موضوع کو تحریر کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کی دل
آزاری یا دل شکنی ہو۔ حالات و واقعات کومدِّنظر رکھتے ہوئے اس اچھوتے موضوع
کو تحریر کرنے پر قلم کی نوک نے اُکسایا اوریہ تحریر رقم ہوتی چلی گئی۔
یہ بلکل حقیقت ہے کہ پاکستان بنانے کے بعد جو اسلامی ریاست قائم ہوئی اور
ہمارے ہر دل عزیز قومی لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے پہلے گورنر جنرل
کا حلف اُٹھایا۔ یہ ایسے حکمران تھے کہ ہر وقت عوام کی فلاح و بہبود اور
ترقی کیلئے راستے ہموار کرتے رہنے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے۔ ہر وقت
تعلیم کے پھیلاﺅ، عوام کی ترقی، مہنگائی پر کنٹرول، اشیائے خورد و نوش کو
سستے داموں عوام تک پہنچانے کی فکرمندی، اداروں کی مضبوطی اور لا تعداد
ایسے ہی ان گنت کاموں پر اپنے شب و روز لٹاتے رہے۔
حضورِ اکرم ، نورِ مجسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں بھی
عوام کی فلاح و بہبود کا ہر طرح خیال رکھا جاتا تھا۔ راتوں کو بھیس بدل کر
خلیفہ صاحبان اپنے رعایا کے دکھ درد کو معلوم کیا کرتے تھے کہ میری خلافت
میں میری رعایاکہیں بھوکی تو نہیں ہے۔ یا کوئی غریب کسی حاجت کی وجہ سے
پریشان تو نہیں ہے۔ اگر ہے تو اس کا مداوا خلیفہ وقت پر فرض ہے اور اس
سلسلے میں عملی قدم بھی اُٹھایا جاتا تھا تاکہ رعایا سکون سے اپنی زندگی کے
دورانیئے کو گذار سکیں۔ اس طرح رعایا/ بندہ بھی خوش اور اللہ تبارک و تعالیٰ
بھی خوش اور سب سے بڑھ کر خلیفہ وقت بھی اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کہ
انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی یا زیادتی نہیں کی اور اپنی مدتِ
سربراہی خیر و عافیت سے گذار دی۔اس وقت کے سربراہان ایسے ایسے کام سر انجام
دیا کرتے تھے کہ ان کے گذر جانے کے بعد بھی عوام الناس انہیں یاد رکھا کرتے
ہیں۔یہی نہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ خلافت آج کے
حکمرانوں کیلئے سبق آموز ہے کہ وہ راتوں کو جاگ کر اپنے رعایا کا خیال رکھا
کرتے تھے اور ہمہ وقت اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے کہ رب العزت
مجھے خلافت کے میدان میں سُرخروئی عطا فرما ۔
پاکستان کے وجود میں آجانے اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی دورِ حکمرانی
گزر جانے کے بعد بہت کم ایسے لیڈران پاکستان میں وارد ہوئے جنہیں اپنے عوام
کی فکر ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح عوام کو سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔محترم
لیاقت علی خان، محترم ایوب خان کا شمار بھی عوامی نمائندوں میں ہوتا ہے۔
انہوں نے بھی کچھ حد تک عوامی امنگوں کے مطابق کام سر انجام دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی ایسے عوامی رہنما تھے جو عوام کی بھلائی کیلئے
سر توڑ کوششیں کرتے رہتے تھے، اور ہمہ وقت عوامی جد و جہد کیلئے برسرِ
پیکار رہتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ وہی سربراہانِ مملکت کی کرسی کا حقدار ہے
جو عوامی بھلائی ، اور عوامی کاموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے۔(جلسہ
کراچی)مگر آج ایسا نہیں ہے کیونکہ آج اُس جذبے کا فقدان ہے ۔
آج بھی چند ایک لیڈران ایسے ہیں جو اس پُر آشوب دور میں یہ بیڑہ اُٹھایا
ہوا ہے جو کہ واقعی ایک عوامی رہنما ہیں، اور عوام کی فلاح و بہبود ، عوام
کی ترقی ، عوام کی اچھائی کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ کراچی کی ترقی کو دیکھا
جائے تو پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کراچی دنیا کا بڑا شہر ہونے کے
باوجود ترقی کے اعتبار سے بہت پیچھے تھا۔ کراچی آج جس مقام پر ہے اور یہاں
کے عوام اپنے پیارے کراچی کو دیکھ کر جس طرح رشک کررہے ہیں، کہ کیا یہ
ہمارا ہی کراچی ہے۔ یہ سب اُنہی رہنماﺅں کے سر جاتا ہے کہ جن کی بدولت
کراچی کے عوام کو آج یہ دن دکھایا۔ ثابت ہوا کہ اگرکلّی اختیارات کے ساتھ
کسی کو کام کرنے کا موقع دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ترقی کے سفر میں ہم
پیچھے رہ جائیں۔اور آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ کل کراچی کیسا تھا اور آج
کراچی میں کس قدر ترقی کا طوفان نازل ہوا ہے۔کمی ہے تو یہاں پر امن و امان
کا، کاش کہ یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے اور کراچی میں تمام قومیتوں کے لوگ پہلے
کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہ سکیں۔ ائے کاش ! وہ دن آجائے تو
کراچی کے باسیوں کے وارے نیارے ہو جائیں۔
پچھلے چند ادوار میں عوام کی فلاح کیلئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے
عوام مہنگائی کی چکی میں اس طرح پِس رہے ہیں کہ جیسے آٹا چکی میں پِسا جاتا
ہے۔ آٹے سے یاد آیا کہ اگر آٹے کی قیمت بڑھانی مقصود ہے تو آٹا مارکیٹ سے
غائب کر دو ۔ آج ہماری عوام آٹا Rs.38/= فی کلو خریدنے پر مجبور ہے۔ چینی
کا بحران آیا تو چینی ناپید ہوگئی اور آج چینی ہمارے پیارے پیارے اور معصوم
عوام مہنگی خریدنے پر مجبور ہیں۔پیٹرول کو ہی لے لیں ، پاکستان کے باشعور
عوام اب اتنا تو جان ہی گئے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو تو ہر اس
چیز کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے جس کا تعلق عوام الناس کی بھلائی، ترقی، اور
روز مرہ کے استعمال کی چیزوں سے ہوتا ہے۔غریب عوام اس دور میں اپنا کمر بھی
سیدھا کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی آمدنی اتنی نہیں ہے۔ وہ مثال
نہایت اثر انگیز ہے کہ ” آمدنی اَٹھنّی اور خرچہ روپییّہ “ بلکہ اب تو
آمدنی اٹھنّی ہے اور خرچہ دو روپیہ ہے۔ سرکاری ملازمین اس دور میں سب سے
زیادہ پریشان ہیں بلکہ اب تو سرکاری ملازمین بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان
میں سرکاری ملازمین میں بھی درجہ بندی ہے۔
سرکاری ملازم چاہے فوجی ہو یا سویلین تنخواہوں میں اضافہ برابری کی بنیاد
پر ہونا چاہیئے۔ گو کہ ہمارے فوجی بھائیوں نے سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری
نہایت خوش اسلوبی سے سنبھال رکھا ہے اور بہت جانفشانی سے وطنِ عزیز کی
دفاعی سرحد کی نگرانی میں مصروفِ عمل ہیں۔ مگر بقیہ تمام سرکاری ملازمین
بھی اپنے اپنے شعبے میں ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتے ہیں۔لہٰذا تنخواہوں
میں اضافہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری افراد کا برابر ہونا چاہیئے تاکہ سب
ہی اپنی اپنی خواہشات کو خوش اسلوبی سے پورا کر سکیں اور اپنی اپنی گھریلو
زندگی خوشی خوشی گذار سکیں۔اسی طرح پرائیوٹ اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں
میں بھی خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیئے تاکہ وہ بھی زندگی کی خوشیوںکی دوڑمیں
شامل ہو سکیں۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہمارے وطنِ عزیز کی افسر شاہی عوامی بہتری کی جانب
توجہ نہیں دیتاجبکہ وہ ہر ادوار میں عوام کے ہی ووٹوں سے منتخب ہوکر
اسمبلیاں آباد کرتے ہیںاور یوں اسمبلی، سینیٹ تو آباد ہو جاتی ہیں مگر عوام
اپنے انہی پُرانے مسائل میں گھرے ہوئے رہتے ہیں اور یوں ہی کاروبارِ گلشن
چل رہا ہوتاہے۔
وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوامی مسائل کو حل کیا جائے۔ مہنگائی کو کم کیا
جائے، پیٹرول سستا کیا جائے، روز مرّہ کی اشیاءخورد و نوش کے ریٹس مناسب
نرخوں پر لایا جائے، ترقیاتی کام زیادہ سے زیادہ کرایا جائے اور سب سے بڑھ
کر امن و امان، دہشت گردی، فرقہ پرستی ، ٹارگٹ کلنگ کا مستقل سدِّباب کیا
جائے تاکہ ہمارا پیارا پاکستان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کے مراحل طے
کرتا رہے اور دشمنوں کا منہ کالا ہوتا رہے۔ |