فلسطین:یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے (قسط اول)

ارضِ فلسطین سے آنے والی حالیہ دو خبروں کو اس دور کا مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکے گا ۔ اول تو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کی غیر رکنی مبصرانہ شرکت اور دوسرے پینتالیس سال کی طویل جلاوطنی کے بعد حماس کے رہنما خالد مشعل کی غزہ میں آمد۔ گزشتہ سال جب محمود عباس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن ملک بنانے کی کوشش کی تھی تواسے امریکہ نےویٹو کرکے ناکام بنا دیا تھا۔اس کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ دینے کی درخواست دی گئی ۔اس قرارداد کی۱۹۳ ممالک میں سے فرانس، روس، چین، جنوبی افریقہ اور بھارت سمیت ۱۳۸ ممالک نے حمایت کی اور اسرائیل کی مدد صرف امریکہ اور کینیڈا جیسے ۹ ممالک نے کی جبکہ برطانیہ سمیت۴۱ ممالک نے غیر حاضر رہ کر اپنی منافقت کا اظہار کیا، اس طرح فلسطین کو زبردست اکثریت سے ویٹیکن کی مانند غیر رکن مبصر کا درجہ مل گیا۔

اس موقع پرقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے صدرمحمود عباس نے کہا ’’۶۵ سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے فلسطین کو ۲ حصوں میں تقسیم کیا تھا اور اسرائیل کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ دیا تھا، اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کرے’’ اس قرارداد کی منظوری سےریاستِ فلسطین کو’’پیدائشی سرٹیفکیٹ‘‘ تو یقیناً مل گیا ہے لیکن فلسطینی عوام اب بھی اپنے پیدائشی حق یعنی آزاد وخودمختارریاست سے محروم ہیں۔جس بدن وہ آزادی کا سورج طلوع ہوگا فلسطین اقوام متحدہ کا رکن بن جائیگا ۔ رائے دہی سے قبل اسرائیل کے چند اتحادیوں مثلاً امریکہ اور برطانیہ نے محمود عباس پر شدید دباؤ ڈالتے ہوئے قراردادکے متن کو تبدیلی کرکے اسرائیل کےساتھ غیر مشروط گفتگو اور اسرائیلی توثیق کے بغیر اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی رکنیت کیلئے درخواست نہ دینے کا مطالبہ کیا لیکن انہیں مسترد کردینے کے باوجود فلسطین کا غیر رکن مبصر ریاست کے درجہ پر فائز ہوجانا فلسطینی عوام کی عظیم سفارتی کامیابی اور امریکہ و اسرائیل کی ذلت آمیزشکست ہے ۔ اسی لئے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اسے بدبختی قرار دیا۔
صدرمحمود عباس نے اپنی تقریر میں اسرائیل کی پیدائش کے بارے میں تو بتلایا لیکن اس آشنائی کا ذکرنہیں کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل نامی ناجائز اولاد کا جنم ہوا ۔ اتفاق سے اس کا پردہ فاش بھی کا ماہ نومبر میں ہوا تھا ۔ یہ صہیونی یہودیوں اور برطانوی مسیحیوں کی درمیان پیدا ہونے والا ناجائز رشتہ تھا جواسرائیل کی پیدائش کا سبب بناتھا۔ برطانوی سامراج کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے دونومبر؁۱۹۱۷ کو صہیونی لیڈر لارڈ روتہس چائلڈ کو ایک خط میں صہیونی یہودیوں کی (اپنے قومی وطن سے متعلق) خواہشات سے ہمدردی کا اظہار کیا تھااورسرزمینِ فلسطین پر یہودیوں کے قومی گھر (نیشنل ہوم)کے قیام کا یقین دلایا ۔ اس خط کو ’’بالفور اعلامیہ ‘‘ کہا جاتا ہے اوریہودی اسے اسرائیل کے قیام کی بنیاد بتاتے ہیں۔ حالانکہ اس اعلامیے میں فلسطین کی غیر یہودی عوام کے شہری اور مذہبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔

بالفور اعلامیے کا ایک مخصوص سیاسی پس منظر ہے جس نے ازلی دشمن عیسائیوں اور یہودیوں کو ایک دوسرے کا دوست بنا دیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں فلسطین خلافت عثمانیہ کے زیر انتظام تھا اور مصر برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا۔ جرمنی وترکی متحدہ طور پربرطانوی و امریکی اتحادسے برسرِ پیکار تھے۔ جنوری ؁۱۹۱۵ میں ترکی افواج نے مصر کے علاقے نہر سوئز اور وادیٔ سینا پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کے بعد برطانیہ کو فلسطین کی اسٹریٹجک اہمیت کا اندازہ ہوا ۔ موقع کا فائدہ اٹھاکر صہیونی رہنما سرہربرٹ سیموئیل نے برطانوی کابینہ کے سامنےفلسطین میں یہودی وطن کے قیام کی تجویز پیش کی تاکہ مشرق وسطیٰ میں برطانوی مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ بعد میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ جرمنی بھی صہیونی تحریک کو منانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے دباؤ میں آ کر برطانیہ کے صہیونیت نواز وزیر اعظم نے امریکی صدر ووڈرو ولسن کے مشورے سے آرتھر بالفور کے خط کو عام کردیا۔ اس پر بعد میں فرانس اور اٹلی کی توثیق حاصل کی گئی اور پھر ؁۱۹۲۰ کے معاہدہ سان ریمو میں اسے شامل کیا گیا ۔ جولائی ؁۱۹۲۲ میں اس وقت کی اقوام متحدہ یعنی لیگ آف نیشنز نے فلسطین مینڈیٹ کے نام پر تیس سال کیلئے فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے حوالے کیا اور امریکی ایوان (کانگریس) نے ایک قرارداد منظور کرکے فلسطین میں یہودی نیشنل ہوم (قومی گھر)کے قیام کی حمایت کی۔ اسی کے ساتھ سر ہربرٹ سیموئیل کو اپنی تجویز پرعملدرآمد کرنے کی خاطر فلسطین میں برطانیہ کا سفیر بناکر روانہ کردیا گیا۔

برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ؁۱۹۲۲میں جاری کردہ قرطاس ابیض میں اس بات کی وضاحت کی کہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر سے مراد کوئی علیحدہ مملکت نہیں بلکہ ثقافتی اعتبار سے یہودیوں کی خود مختاری ہے۔ اس طرح گویا یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی کی راہ کھولی گئی ۔؁۱۹۳۹ میں برطانوی حکومت نے ایک اور قرطاس ابیض میں یہودیوں کے ذریعہ فلسطینی زمین خریدنے پر پابندی عائد کردی ۔ بالفور اعلامیے کے وقت یہ بات یقینی تھی کہ فوری طور پر فلسطین کی عرب اکثریت پر یہودیوں کا اقتدار قائم نہیں ہو سکتا لیکن وقت کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کی اکثریت ہو جائیگی اوریہ اعلامیہ بالآخر یہودی ریاست پر منتج ہوگا گویاایک منظم سازش کے تحت مغرب نے اپنے اور صہیونیوں کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کی غرض سے فلسطین میں یہودی ریاست کا ناپاک شجر لگایا ۔ چونکہ اسرائیل کا ناپاک وجودبذاتِ خودمغربی وصہیونی استحصال کا سب سے مؤثر ہتھیار ہےاس لئے فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی کیلئے اس شجر خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہے ۔

؁۱۹۱۷ میں یہودیوں کے پاس فلسطین کی صرف ۷ء۲ فیصد اور مسلمانوں کے پاس ۵ء۹۷ فیصد زمین تھی۔ اس وقت فلسطین کی کل آبادی سات لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جن میں پانچ لاکھ چوہتر ہزار فلسطینی عرب مسلمان ، ستر ہزار عرب عیسائی اور چھپن ہزار عرب یہودی شامل تھے۔ ؁۱۹۱۷ سے لے کر ؁۱۹۴۷ تک فلسطینیوں پر قتل عام اورظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور بیدردی کے ساتھ انہیں اُن کی زمینوں سے بے دخل کر کے دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسایا گیا اس کے باوجودبرطانوی انتداب کے خاتمہ پر یہودیوں کی تعداد فلسطین کی کل آبادی کی ۳۳ فی صد سے زیادہ نہیں تھی ۔اس کے باوجود امریکہ و برطانیہ کے زیر اثر اقوام متحدہ نے فلسطین میں برطانوی انتداب( مینڈیٹ) ختم کرتے ہوئے ۶۵ برس قبل ۲ نومبر ؁۱۹۴۷ کے دن فلسطین کو اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کردیااور فلسطین میں عربوں کی غیر معمولی اکثریت کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلمانوں کو صرف ۴۴ فیصد علاقہ دیا جبکہ یہودیوں کو ۵۶ فیصد رقبہ عطا کردیا گیا ۔اقوام متحدہ کے یہودیوں کے حق میں اِس غیر منصفانہ فیصلے کو بھی اسرائیل نےقبول نہیں کیا اوربرطانوی فوجوں کی واپسی کے بعد فلسطین کے بیشتر علاقوں پر بزورِ قوت قبضہ کر لیا ۔ ؁۱۹۶۷ کی جنگ نے اس توازن کو اس طرح بگاڑا کہ ۷۸ فیصدعلاقہ اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا اور صرف ۲۲ فیصد مسلمانوں کے پاس بچا لیکن اسرائیل کی توسیع پسندی اس کے بعد بھی جاری رہی ؁۱۹۹۵ آنے تک یہ صورتحال بنی کہ یہودی ۹۰ فیصد علاقے پر قابض ہوگئے تھےاور مسلمانوں کے پاس صرف ۱۰ فیصد علاقہ رہ گیا تھا ۔ اوسلو معاہدے کے بعد ۳ فیصد واپس ہوا اس طرح مسلمانوں کے جزوی اقتدار میں فی الحال۱۳ فیصد علاقہ تک محدودہے ۔

سر زمینِ فلسطین پر صہیونی ریاست کا قیام اور خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ یہ دونوں باہم ایک دوسرے سے منسلک سانحات ہیں ۔۱۹ ویں صدی کے اواخر میں جبکہ خلافت عثمانیہ بے حد کمزور ہو چکی تھی اور ترکی مالی طور نہایت خستہ حال ومقروض ہو چکا تھا، سلطان عبدالحمیدسے یہودیوں کے ایک وفد نے ملاقات کرکے پیش کی کہ ‘‘ اگر آپ بیت المقدس اور فلسطین ہمیں دے دیں تو ہم خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا بھی دیں گے“ اس گئے گزرے دورمیں بھی خلیفہ عبدالحمید کی دینی حمیت نے اسے گوارہ نہیں کیا اورانہوں نے اپنے پاؤں کی انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’اگر اپنی ساری دولت دے کر تم لوگ بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو گے تو ہم نہیں دیں گے‘‘ اس وفد کا سربراہ ایک ترک نژاد یہودی قرہ صوہ آفندی تھا۔ اس واقعہ کے بعد خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، چناں چہ چند برسوں بعد جو شخص مصطفی کمال پاشا کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ لے کر خلیفہ عبدالحمید کے پاس گیا تھا وہ قرہ صوہ آفندی ہی تھا ۔

خلیفہ سلطان عبدالحمید یہودیوں کی فطرت اور ان کے عزائم سے پوری طرح واقف تھے اسی لئے انہوں نے دگرگوں حالات میں بھی فلسطین کے اندر یہودیوں کی بازآبادکاری کے معاملے میں نہایت غیر لچکدار رویہ اختیار کیا اور اس بابت مصالحت کرنے کے بجائے اپنے اقتدارا کو قربان کردیا ۔ا س امر کا شاہد مندرجہ ذیل مکتوب ہے جو انہوں نے اپنے مرشد شیخ آفندی کو لکھا تھا :
’’جناب والا! میں یہ بات صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ میں امت مسلمہ کی خلافت کی ذمہ داریوں سے از خود دست بردار نہیں ہوا، بلکہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یونینسٹ پارٹی نے میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کر دی تھیں۔ مجھ پر بہت زیادہ اور ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ، مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں اور سازشوں کے ذریعے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ یونینسٹ پارٹی نے پہلے تو مجھ پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا کہ میں مقدس سر زمین فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کے قیام سے اتفاق کر لوں۔ لیکن تمام دباؤ کے باوجود میں نے اس مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ میرے اس ا نکار کے بعد ان لوگوں نے مجھے ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈکا سونا دینے کی پیش کش کی۔ میں نے اس پیش کش کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ تو ایک طرف، اگر تم یہ کرہٴ ارض سونے سے بھر کر پیش کرو تو بھی میں اس گھناؤنی تجویز کو نہیں مان سکتا۔ ۳۰ سال سے زیادہ عرصے تک امت محمدیہ کی خدمت کرتا رہا ہوں۔ اس تمام عرصے میں ، میں نے کبھی اس امت کی تاریخ کو داغ دار نہیں کیا۔ میرے آباواجداد اور خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں نے بھی ملت اسلامیہ کی خدمت کی ہے ، میرے صاف انکار کرنے کے بعد مجھے خلافت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مجھے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا، کیوں کہ میں خلافت عثمانیہ او رملت اسلامیہ کے چہرے کو داغ دار نہیں کرسکتا تھا۔ دورِخلافت میں فلسطین کے اندر یہودیوں کی قومی حکومت کا قیام ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی شرم ناک حرکت ہوتی اور دائمی رسوائی کا سبب بنتی۔ خلافت ختم ہونے کے بعد جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔ میں تو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور ہمیشہ اس کا شکر بجالاتا ہوں کہ اس رسوائی کا داغ میرے ہاتھوں پر نہیں لگا۔‘‘

خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوجانےکے۲۵ سال بعد فلسطین میں یہودی مملکت اسرائیل کا قیام عمل میں آیااور جس ترکی’’ خلیفہ ‘‘ نے ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود یہودیوں کو فلسطین کی رتی بھر زمین دینے سے انکار کر دیا تھا اسی کے ہم وطن بے دین حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں سارے مسلم ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس افسوس ناک صورتحال پر مظفر رزمی کا یہ شعر ہو بہوصادق آتا ہے ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

اب ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تاریخ کا جبر دم توڑ رہا ہے اور ایک صدی پرمحیط سزا مکمل ہوا چاہتی ہے ۔ جس ملک نےا سرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی اسی نے سب سے پہلےاقوام متحدہ میں غیر رکن مبصر مملکت کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد فلسطینی صدرمحمود عباس کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس موقع پر محمود عباس نے ترکی قومی اسمبلی سے بھی خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں فلسطین کی بطور مبصر رکنیت قبول کروانے میں کی جانے والی ترکی کی کوششوں کا شکریہ ادا کیااورکہا کہ ہمارے آگے ایک طویل اور کٹھن راستہ ہے ۔ ہم ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ترکی سمیت عالمِ اسلام سے غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کے سلسلے میں مدد کی اپیل کی اورغزہ کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ترک اور فلسطینی شہدا کےلیے دعائےمغفرت بھی کی ۔ صدرعباس نے نئی یہودی بستیوں کی آباد کاری کو روکنے سمیت جیلوں میں بند فلسطینی قیدیوں کو رہائی کا مطالبہ بھی کیا ۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل اور وزیر اعظم رجب طیب ایردوان سے ملاقات کے دوران مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی نیز ترکی اور فلسطین کے مابین باہمی تعاون کے امور پر غور کیا گیا۔ اقوام متحدہ میں قرار داد کی منظوری کے بعد اسرائیل کی انتقامی کاروائیاں بھی ان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل تھیں ۔

اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو فی الحال انتخابات کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ ایسے میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس نے کہا کہ ’’اقوامِ متحدہ میں ہونے والا فیصلہ، زمینی حقائق نہیں بدلے گابلکہ اس سے فلسطینی انتظامیہ کی ترقی مزید تاخیر کا شکار ہوگی‘‘۔ ان ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سےاسرائیلی وزیر خزانہ نے اس سال فلسطینیوں کے لیے جو ٹیکس وصول کیا گيا ہے اسے واپس نہ کرنے کا فیصلہ سنا دیا جو سراسر ظلم اور بے ایمانی ہے۔ اسرائیلی حکمراں یہ بھول رہے ہیں کہ غیر رکن مبصر کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد اب فلسطین بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اس حق تلفی کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ ان معاشی جرائم کے علاوہ اوسلو معاہدے کو پامال کرتے ہوئے اسرائیل کی حکومت نے مغربی کنارے کےمقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی خاطرمزید۳۰۰۰ ہزار مکانات کی تعمیر کا اعلان کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر پہلے ہی سے الگ تھلگ پڑی ہوئی صہیونی ریاست کو اپنے حلیفوں کی لعن طعن کا شکار ہونا پڑا ۔

امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع پر احتجاج کے لیے اپنے ملک میں موجود اسرائیلی سفراء کو طلب کیا ۔لندن میں اسرائیلی سفیر کی طلبی سے قبل برطانوی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’اسرائیل کے یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع کے منصوبے کے خلاف سخت ردعمل پر غور کیا جا رہا ہے‘‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ ہم نے اسرائیلی حکومت کو بتا دیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کیا تو اس کا سخت ردعمل ہو گا‘‘۔ ساتھ ہی فرانس نے پیرس میں اسرائیلی سفیر کو طلب کر کے یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے پر احتجاج کیا ۔ یوروپی یونین کے علاوہ جرمنی کی چانسلر نے بھی اسرائیل کو اس مہم سے باز رہنے کی تلقین کی ۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے یہودی بستیوں میں توسیع کے منصوبے پر عمل درآمد کیا تو اس کے گہرے مضمرات ہوں گے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم یہود اولمرٹ نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ نئے مکانوں کی تعمیر کے اعلان نے اسرائیل کو غیر معمولی سفارتی تنہائی کا شکار کردیا ہے ۔ اولمرٹ کے مطابق جنرل اسمبلی میں زبردست تھپڑ کے بعد اس اقدام کی اسرائیلی عوام کو بہت بڑی قیمت چکانی ہو گی۔ یہود اولمرٹ کی بات ممکن ہے نتن یاہو کی سمجھ میں نہ آئے لیکن گزشتہ انتخاب میں چونکہ اولمرٹ خود اس طرح کی حماقت کرکے اس کی قیمت چکا چکے ہیں اس لئے اس کی زبان پر گویا رزمی کی اسی غزل کا مطلع ہے ؎
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریاؤں کی گہرائی
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450844 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.