کنٹرول لائن پر نئی بھارتی چوکیاں اور کشمیر پر اقوام عالم کی خاموشی

بھارت نے ایک طرف تو پاکستان کی طرف آنے والے پانیوں پر قبضہ کرکے ڈیم بنانے شروع کردیے ہیں جبکہ دوسری جانب کنٹرول لائن پر6300کلو میٹر لمبی بین الاقوامی پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ لگنے والی سرحدوں پر مزید نئی 509اضافی چیک پوسٹیں قائم کرنے کا اعلان کر کے سرحدی نگرانی کے لئے درجنوں گن شپ ہیلی کاپٹرز کی مدد بھی حاصل کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے جبکہ پہلے ہی پنجاب ، راجستھان اور آسام کی بین الاقوامی سرحد پر سرحدی حفاظتی فورس کے ایک ہزار 300نگراں چوکیاں ہیں اور ان چوکیوں میں مزید وسعت دی جارہی ہے اور ہمارے حکمرانوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے ہمارا ملک دن بدن پیچھے جارہا ہے پوری قوم اور سیاستدان ابھی تک کالا باغ ڈیم پر متفق نہیں ہوسکے اور بھارتی تسلط سے کشمیر کو کیسے آزاد کروائیں گے جبکہ عالمی برادری کے دھرے معیار نے بھی کشمیریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال رکھی ہیں مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام عالم کی خاموشی افسوسناک ہے انسانی حقوق میں سب سے افضل حق خود ارادی کا ہے جسے بھارت نے 65سالوں سے دبا رکھا ہے،کشمیر کے صرف 5اضلاع سے6ہزار بے نام اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں،بھارتی فورسز عورتوں کی تذلیل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں،عالمی برادری بے نام اجتماعی قبروں اور 10ہزار لا پتہ افراد کے معاملے کی تحقیقات کرے اور بھارت ان کی اس جائز آواز کو دبانے کے لئے اپنے ملٹری مائیٹ کا بے تحاشا استعمال کر رہا ہے۔خصوصا پچھلے 20سال کے دوران میں جموں و کشمیر میں ایک لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،دس ہزار کے لگ بھگ شہریوں کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا اور اس عرصے کے دوران ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو تھرڑ ڈگری ٹارچر کے ذریعے سے جسمانی طور نا خیز بنایا گیا بھارت کی قابض فورسزجموں و کشمیر میں عورتوں کی تذ لیل کو ایک جنگی ہتھیا رکے طور پر استعمال کرتی آ رہی ہے اور پچھلی دوہائیوں کے دوران میں یہاں ساڑھے سات ہزار عورتوں کی یا تو اجتماعی عصمت دری کی گئی یا ان کو کسی نہ کسی طرح جنسی زیادتیوں کا شکار بنایا گیا۔ بھارتی قبضے کے نتیجے میں وقوع پزیر ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے نتیجہ میں جنگ زدہ کشمیر میں 50ہزار بچے یتیم ہوگئے ہیں، 30ہزار خواتین بیوائیں اور 1500کے قریب نیم بیوائیں بن گئیں ہیں ،جبکہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کشمیر کے صرف پانچ اضلاع میں 6ہزارسے زائد بے نام اور اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں ،جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کی ان میں کن لوگوں کو دفن کیا گیا ہے اور ان کا جرم کیا رہا ہے ان بے نام قبروں کے انکشاف نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو زبر دست تشویش میں مبتلا کردیا ہے اوروہ اپنے عزیزوں کی سلامتی کے بارے میں فکر مند ہوگئے ہیں ۔حقوق بشر کی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پتہ لگائے کہ بے نام قبروں اور لا پتہ افراد کے درمیان میں کہیں کوئی رابطہ تو موجود نہیں ہے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کے حوالے سے دوہرا معیار اپنا رہی ہیں اور اس تفاوت کی وجہ سے انسانی زندگیاں یہاں زبردست خطرات سے دوچار ہیں اور انسانی حقوق کی پاما لیاں برابر جاری ہیں 1990سے آج تک یہاں ہزاروں لوگوں کو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت مقدمات چلائے گئے اور انہیں سزائیں سنائی گئیں ۔آج بھی 840 کشمیری آزادی پسند فرضی کیسوں کے تحت پابند سلاسل ہیں اور ان میں سے 33کو عمر قید جب کہ پانچ کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ جڑے قیدی سیاسی قیدوں کے ذمرے میں شامل ہیں اور ان کے خلاف اس طرح کی کاروائی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کل تاریخ بارہ بارہ بار تھی جواب سو سال بعد آئے گی جب 2112ءآئے گا ۔ اس تاریخی دن کو منانے کےلئے دنیا بھر میں جوش و خروش پایا جاتا ہے اور ہزاروں جوڑوں نے شادی طے کر رکھی تھی جبکہ گذشتہ سال گیارہ گیارہ گیارہ کو بھی لاکھوں افراد نے شادیاں کی تھیں۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612447 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.