پتہ نہیں کیوں؟؟

٭ عوام کی جان و ما ل کی حفاظت کرنا حکومت کا فرض نہیں ۔ ٭ کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں کے خراب حالات ریاست کی ناکامی نہیں ۔

ایسے اقوال زریں پچھلے پونے پانچ سال سے جمہور ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سن رہے ہیں جن کی تعداد جمہور کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہے مگر فی الحال قارئین ان دو اقوال پر اکتفا کریں اور اس غلطی پر سینہ جلائیں جوپونے پانچ سال پہلے پاکستانی عوام سے سر زد ہوئی۔

ویسے اقوال زریں بزرگوں کے علم ، فہم و فراست ، ذہانت و فطانت ، مشاہدہ ، عبادت و ریاضت، تجربہ ، سوچ بچار اور عمر کی حقیقتوں کا نچوڑ ہوتے ہیں جن سے ہر مذہب ، ہر خطہ اور ہر ملک کے افراد نہ صر ف مستفید ہوتے ہیں بلکہ مستقبل کے بارے میں منازل کا تعین کرنے کے لئے اور اچھے برے کی تمیز کرنے کے لئے یہ معاون ومددگارہوتے ہیں ۔

سطور کا آغاز بھی میں نے دو اقوال زرین سے کیا ہے جو جمہوری حکومت کے بزرگوں نے اپنے تجربات و مشاہدات ، سوچ بچار ، ذہانت و فطانت ، فہم و فراست اور سیاسی زندگی کے نچوڑ سے جمہور کو تحفتاً دئےے تاکہ عوام نہ صرف ان اقوال زریں سے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں بلکہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کاازالہ کر کے مستقبل کے لئے کچھ اچھا فیصلہ کرسکیں ۔

پتہ نہیں کیوں میں موجودہ حکومت کے ےہ دو اقوال ذہن میں لاتا ہوں تو مجھے اس دور کے کتوں پر رشک آتا ہے کہ جن کے بارے میں بادشاہ وقت نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ درےائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کا ذمہ دار قیامت والے دن میں ہی ہوں گا۔

میں اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بھی آج اپنی جان و مال کی اہمیت جانچتا ہو ں تو مجھے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور کے کتوں پر رشک آتا ہے اس دور کے کتے مجھے اپنی موجودہ حالت سے زیادہ بہتراور افضل دکھائی دیتے ہیں ۔

گرم تپتی دوپہر میں کہ جب سورج آسمان سے آگ برساتا ہے اور زمین تندور بن جاتی ہے چاروں اطراف سے گرم تپتی لو آگ کے تھپیڑے لگاتی ہے تب اپنے حکمرانوں کی سیکورٹی کے پیش نظر سڑک پرکھڑی گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں ، سائیکلوں اور پیدل چلتے اشرف المخلوقات کی پریشانی و اذیت کو دیکھتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں مجھے حضرت عمر بن خطابؓ کا یہ قصہ شدت سے یاد آتا ہے :
ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کسی کام سے جارہے تھے کہ ایک سیاح کو پتہ چلا کہ مسلمانوں کے امیر جارہے ہیں ۔وہ بھاگا بھاگا آپ ؓ کے پاس آیااور پوچھاکہ آپ ؓ مسلمانوں کے امیر ہیں ؟جس پرامیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ میں مسلمانوں کا امیر نہیں انکامحافظ ہوں ۔سیاح نے مزید پوچھا کہ آپ ؓ مسلمانوں کے امیر ہونے کے باوجودبھی اپنے ساتھ حفاظتی دستہ کیوں نہیں رکھتے ؟جس کے جواب میں حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ وہ میری حفاظت کریں یہ تو میرا کام ہے کہ میں انکی جان ومال کی حفاظت کروں۔

آج میں جب اپنے حکمرانوں کے ملکی دورے دیکھتا ہوں اور ساتھ ساتھ ان کا پروٹوکول دیکھتا ہوں کہ جس میں چالیس پچاس گاڑیاں میرے حکمران کو سیکورٹی فراہم کرتی ہیں تو مجھے سیکورٹی کی وجہ سے منجمد ٹریفک میں پھنسے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا مریض ، سفیدباریش بزرگوں، بلکتے بچوں اور عفت وعصمت کی شاہکار عورتوں کودیکھتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں مجھے وہ رات یاد آجاتی ہے کہ جس رات مدینہ کی وادی میں ہلچل ہوئی تو میرے آقا ، رحمت العالمین ، فخر موجودات، وجہ کائنات، سرور دو عالم حضرت محمد ﷺ تن تنہا گھوڑے پر سوار ہوکر پوری وادی کا چکر لگاتے ہیں اور اطمینان پا کر واپس آتے ہیں اور تمام وادی کوپر سکون رہنے کا کہتے ہیں ۔

جمہوریت کے پاسدار حکمرانوں کی موت سے بچنے کےلئے سیکورٹی کو ہائی الرٹ دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت خالد بن ولید ؓ کاامت مسلمہ کے لئے یہ پیغام شدت سے یاد آتا ہے :
”موت لکھی نہ ہوتو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب موت مقدر ہوتو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا۔دنیاکے بزدلوں کو میرایہ پیغام پہنچادوکہ اگر میدان جہاد میں موت ہوتی تو اس خالدبن ولیدکو موت بستر پرنہ آتی جہاد کرتے ہوئے آتی “

یہ سب میں دیکھتا ہوں تومجھے پتہ نہیں کیوں اس قوم پر رحم آتا ہے جواپنے آپ کواشرف المخلوقات نہیں سمجھتی یہی وہ قوم ہے جو انکا آلہ کار بن کر انہیں اقتدار سونپتی ہے انکے جلسوں جلوسوں کو رونق بخشتی ہے پھر انہی کی سیکورٹی کے پیش نظر گھنٹوں گھنٹو ں سڑکوںپر خوار ہوتی ہے اور یہ شان بے نیازی سے انہیں خوارہوتا دیکھ کر گزر جاتے ہیں نہ انہیں کسی مریض کااحساس ہوتا نہ کسی بچے کا نہ کسی باریش بزرگ سے شرم آتی اور نہ کسی کی ماں بہن بیٹی کی عفت و عصمت کا خیال ہوتا۔یہ پسنے والی اشرف المخلوقات اپنے رہنما کےلئے ہر فورم پر لڑنے کے لئے تیار ہوتی ہے اور پھرانہیں کیا نصیب ہوتا ہے انکی سیکورٹی کے لئے مامور اہلکاروں کے دھکے ، سڑکوں کی دھول ، پریشانی و اضطراب یا پھر ایک اندھی گولی کہ جو انکا سینہ چیر کر زمین کورنگین کر جاتی ہے اورجب یہی لاش کسی وزیر کی نظر کے سامنے سے گزرتی ہے تو وہ یہ کہہ کراپنا حق ادا کر دیتا ہے کہ تما م افراد کی جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کافرض نہیں ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.