”قیامت“ آنے والی ہے

انتظار کا وصف بہت حد تک عادت بن کر انسان کی سرشت میں رچا بسا ہوا ہے۔ ہمیں ہمیشہ کسی نہ کسی چیز کا انتظار رہتا ہے۔ کبھی کسی نجات دہندہ کی آمد کا، کبھی بُرے وجود سے جان چھوٹنے کا، کبھی اچھے زمانے کے آنے کا اور کبھی بُرے زمانے کے جانے کا۔ قیامت کا انتظار بھی ہماری ”انتظاری نفسیات“ کا بُنیادی جُز ہے!

جنوبی امریکہ کی مایا تہذیب نے ایک عجیب ہی طرح کا دُکھ اہل جہاں کو تحفے میں دیا ہے۔ مایا تہذیب کا کیلینڈر جس تاریخ پر ختم ہو رہا ہے جب ماہرین اُس کا حساب لگایا تو جولین یعنی موجودہ عیسوی کیلینڈر کی رُو سے 21 دسمبر 2012 نکلی! بس پھر کیا تھا، قیامت کا انتظار کیا جانے لگا! بات بات پر پریشان ہونے والوں کی مہربانی ہے کہ کئی عشرے مایا کیلینڈر کی رُو سے دُنیا کے خاتمے یعنی قیامت کی آمد کا انتظار کرتے گزرے ہیں!

ایک زمانے سے دُنیا کو جس کا انتظار تھا وہ شاہکار براجمان ہونے کو ہے! اِس قیامت کا انتظار بھی قیامت کا تھا۔ یاروں نے انتظار کے دوران پیدا ہونے والی بیزاری کو قتل کرنے کے لیے تحقیق کی، مضامین اور کتابیں لکھیں، سیمنارز اور مباحثوں کا اہتمام کیا، لیکچرز دیئے، ریڈیو پروگرام پیش کئے اور جب موشن پکچر ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو فلمیں بھی بنائیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ پورا ماحول بنایا گیا! اب اگر کوئی مایا تہذیب کی روایات اور پیش گوئی کی رُو سے قیامت کا انتظار کرتا بھی آیا ہے تو اُسے بیزاری کے ناگ نے ہرگز نہ ڈسا ہوگا۔

دنیا پتہ نہیں کن جھمیلوں میں پڑی ہے اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے خوش اور مصروف رہنے کے طریقے کشید کرتی رہتی ہے۔ قیامت کے بارے میں سوچنے اور اُس کا انتظار کرنے میں بھی بہتوں نے راحت پائی ہے! قیامت کیسی ہوگی، ہم پر کس طور گزرے گی اور قیامت کے گزر جانے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے، اِن تمام باتوں میں ہمیں تو کسی طرح کی جدت دکھائی نہیں دیتی۔ پاکستان جیسے معاشرے میں کون سا دن ہے جو قیامت سے کم نہیں؟ اب تو حالات ایسا انداز اور رُخ اختیار کرچکے ہیں کہ آتی جاتی سانس بھی قیامت سے کم محسوس نہیں ہوتی! دو تین عشروں سے پاکستان کو جن حالات کا سامنا رہا ہے وہ کیا قیامت بالائے قیامت نہیں؟ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہم قیامت کا شایان شان انداز سے سامنا کرنے کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں!
کِس قیامت کا انتظار کریں؟
زندگی سَر بہ سَر قیامت ہے!

ہم جب بھی مرزا تنقید بیگ کے سامنے قیامت کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک لمبی سی سرد آہ بھر کر ماضی بعید (کے چند حسینوں) کی حسین یادوں میں کھو جاتے ہیں! کبھی اچھے وقتوں میں مرزا نے بھی، اپنی ”عِلمیت“ کو دو آتشہ کرنے کی غرض سے، کالج میں داخلہ لیا تھا اور چند ”قیامتوں“ سے محض آشنا ہونے کی منزل پر نہیں رُکے تھے بلکہ راہ و رسم بھی بڑھائی تھی! پھر قیامت کی اِن ”نشانیوں“ ہی کے ہاتھوں وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر آوارہ گردی کرتے پھرے تھے! گزرے ہوئے زمانوں کو یاد کرکے مرزا اکثر فرماتے ہیں۔ ”ہم کالج میں تھے تو کئی قیامتیں ساتھ چلتی تھیں یا یوں کہہ لو کہ ہم اُن کے ساتھ ہو لیتے تھے! یہ لفظ ’قیامت‘ ہم سے الگ نہ ہوسکا۔ شادی ہوئی تو یہ سمجھو کہ ہم پر قیامت ہی گزر گئی!“ یہاں ہم وضاحت کردیں کہ مرزا کو ازواجی معاملات میں قیامت سے دوچار کرنے بلکہ زندگی بھر دوچار رکھنے کا اہتمام اُن کی بڑی بہن نے کیا۔ رشیدہ آپا نے اُن کے لیے لڑکی قصاب برادری میں تلاش کی! بُغدوں کے سائے میں پل کر بڑی ہونے والی لڑکی مرزا کے لیے کِس نوعیت کی قیامت ثابت ہوئی ہوگی، اِس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں! شادی کے بعد مرزا میں اِتنا حوصلہ اور تَپّڑ نہ رہا کہ کِسی اور قیامت کے بارے میں سوچیں!

مایا تہذیب کے کیلینڈر نے دُنیا کے خاتمے کی طرف جو اشارہ کیا ہے اُس کے حوالے سے مرزا کہتے ہیں۔ ”دُنیا کے خاتمے کی تاریخ کا اعلان جنوبی امریکہ کے خطے سے کیا گیا ہے۔ یہ اِس امر کا غمّاز ہے کہ مایا تہذیب کے لوگ واقعی آنے والے زمانوں کے بارے میں جانتے تھے۔ اُنہیں ہزاروں سال قبل اندازہ ہوگیا تھا کہ جس خطے میں وہ آباد ہیں کبھی اُس میں امریکہ نام کا مُلک بھی معرض وجود میں آئے گا جو اپنی بے لگام پالیسیوں سے دُنیا بھر میں قیامت ڈھاتا پھرے گا! اور شاید امریکی حکومت اپنے خطے کی ایک تہذیب کی پیش گوئی کو درست ثابت کرنے کے لیے طاقت کے بے محابا استعمال کے ذریعے دُنیا کو ختم کرنے پر تُلی ہوئی ہے!“

مرزا کو اِس بات پر بھی سخت اعتراض ہے کہ قیامت کا انتظار کیا جائے۔ یہ وصف بھی امریکہ اور یورپ ہی نے اپنایا اور سِکھایا ہے کہ قیامت کے وارد ہونے کا انتظار کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر قیامت ڈھادی جائے! جو کچھ یورپ کی استعماری قوتیں تین صدیوں تک کرتی رہیں اور اب جو کچھ امریکہ چھ عشروں سے کرتا آیا ہے کیا وہ کمزور ممالک پر قیامت ڈھاتے رہنے سے کچھ کم
ہے؟

سنسکرت میں دُنیا کی محبت، مال و زر، مفاد پرستی اور دوسری بہت سی عِلّتوں کے لیے صرف ایک لفظ استعمال ہوا ہے۔۔ مایا! جو لوگ ہر وقت دُنیا میں گم رہتے ہیں اور کبھی آخرت کے بارے میں نہیں سوچتے اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مایا جال میں پھنس گئے ہیں۔ مایا تہذیب نے دُنیا کے خاتمے کی جو پیش گوئی کی تھی وہ بھی مایا جال کی طرح ہے جس میں بہتوں کے ذہن پھنس کر رہ گئے اور قیامت کا انتظار شروع ہوگیا۔ نوید ہو کہ یہ انتظار اب ختم ہونے کو ہے۔ 21 دسمبر 2012 کو معلوم ہو جائے گا کہ مایا تہذیب والوں نے کوئی کام کی بات کہی تھی یا محض بڑھک ماری تھی!

ایک زمانے سے قیامت کی پیش گوئی بھی بہتوں کے پسندیدہ مشاغل میں سے ہے۔ دُنیا کے خاتمے کی ڈیڈ لائن آتی ہے اور گزر جاتی ہے! مایا تہذیب نے جس قیامت کی طرف اشارہ کیا ہے اُس سے کہیں زیادہ پریشانی تو ہمیں اِس بات سے ہے کہ آئندہ موسم بہار تک منتخب ادارے اپنی میعاد پوری کریں گے! جس موسم میں پھول کھلتے ہیں اُسی موسم میں عام انتخابات کیا گل کھلائیں گے، یہ سوچ سوچ کر دِل زیادہ پریشان ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486443 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More