ون پونڈ فش اور ہماری دیہاتی شاعری

ایک پاکستانی ایجر سنگر شاہد نذیر نے ’’ون پونڈ فش کم آن لیڈیز‘‘ گانا اس امید پر ریلیز کر دیا ہے کہ چارٹسس میں کرسمس میں نمبر ون پوزیشن مل جائے گی۔ٹوٹی پھوٹی انگلش میں اس کے گانے کو ریڈیو اور ٹی وی پر درجن بھر دوسرے شوز میں پلگ کیا گیا۔شاہد نذیر کا کہنا ہے کہ اس گانے نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔مجھے خوشی ہے کہ شوبز اور عوام میں ہر کوئی میرا گانا گا رہا ہے۔میں کوئی تربیت یافتہ گلوکار نہیں۔یہ گانا ریلیز ہونے کے بعد صرف ایک گھنٹے میں نصف ملین سے زائد افراد نے دیکھا۔

وطن عزیز میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہ انگلش میوزک کا دلدادہ ہے۔یہ وہ لوگ ہے جن کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں انگلش شاعری اور میوزک کی بہت سمجھ بوجھ ہو گی ۔حتی کہ وہ ’’پاپی چولو ‘‘ پر بھی یہ سر دھنتے رہے اور ہماری شائد ہی سٹیج ڈانسر ایسی ہو جس نے اس گانے پرفارم نہ کیا ہو۔بلکہ کئی مرتبہ سٹیج پر مرد فنکار رو ہانسے ہو کر یہ کہتے سنے گئے کہ ’’پاپی چولو ‘‘ کا ترجمہ ہی کر والو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب مہر خداوندی ہو تو واقعی چھپر پھاڑ کر ہی ملتا ہے۔ایک ایسا ہی مثال پاکستان کے ’’واسو‘‘ کی ہے ۔جس نے ایک ہی گانے میں اپنی ہی سازو آواز میں پاکستان کی تاریخ بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے ایک ہی’’ون پونڈ فش ‘‘جیسے گانے نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی ۔جسے بعد میں گلو کار شہزاد رائے نے ایک نجی ٹی وی پر پروگرام ’’واسو اور میں ‘‘ اس کے بھولپن کو کیش کروایا۔

ہمارا خیال تھا کہ انگلش جیسی زبان میں ایک عام بات کرنا بہت مشکل ہے ۔اس میں صرف خاص قسم کے’’ احکامات‘‘ ہی ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے انگریزی میں کی جانے والی شاعری بھی کافی مشکل ہو گی۔جیسا کہ ہم نے اپنے تعلیمی ادوار میں انگریزی کے مختلف شعراکو پڑھا ہے۔مگر شاہد نذیر کے گانے کی شاعری سن کر بے اختیار اپنے وطن عزیز کے دیہاتی شاعر وں کی شاعری نہ صرف کانوں میں رس گھولنے لگی بلکہ آنکھوں کے سامنے جھومنے لگی۔’’بھائیو! پتیسہ میرا بڑا مزیدار‘‘،’’قلفی کھوئے ملائی دی تے سب نوں کھانی چاہی دی‘‘،’’دساں دی قلفی پنجاں دی چاں ،امی نوں بلا وی امی نوں بلا‘‘اور ’’ پانی دا بلبہ ۔چار دناں دی دنیا اے کجھ کھا لے پی لے موج اڑا۔‘‘اس جیسی شاعری کے حامل سینکڑوں شاعر اور گلوکار ہمارے دیہاتی علاقوں میں موجود ہیں۔ بلکہ ان میں سے بعض نہ صرف شاعر بلکہ کمپوزر اور گلوکار بھی خود ہی ہیں۔اور ان کے یہ گیت روزانہ ہزاروں ریڑھیوں سائیکلوں اور میلے ٹھیلوں میں سجے ہوئے اسٹالوں کی رونق میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔لوگ اس اسٹال کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔جس کی آواز سب سے بلند ہوتی ہے۔

شاہد نذیر کے ’’ون پونڈ فش ‘‘کے بعداس بات کی امید بندھ چلی ہے کہ ہمارے ان نابغہ روزگار لوگوں کی سنی جائے گی ۔ان لوگوں کو دھڑا دھڑ یورپ اور امریکہ کے ویزے ملیں گے اور ہمارے ان دیہاتی شاعروں کی توانا آواز عنقریب یورپ اور امریکہ میں شور مچاتی ہوئی ملے گی۔یورپ کے ملکوں میں ٹیپ ریکاڈر پر ہمار ی دیہاتی شاعری گونجے گی ۔ایک ہی ریڑھی پر ہاٹ اینڈ کولڈ ساتھ ساتھ ہو نگے تو انگریز حیران ہو، ہو جائیں گے۔’’دساں دی قلفی ،پنجاں دی چا ،امی نوں بلا وی امی نوں بلا‘‘اور ریڑھی کے پیچھے بھاگتے ہوئے ٹمی،جونی،ایلس،لولی اس بات پر حیران ہو نگے کہ ہماری ’’امیاں ‘‘ کونسی گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں ۔ہم کہاں سے ان کو بلاتے پھریں۔اور سودا خریدنے کے لئے ’’امیاں ‘‘بلانے کی کیا ضرورت ہے۔

لندن کی دس ڈوئنگ سٹریٹ ہو ایک گنے کا رس نکالنے والی ریڑھی پرگھنگروؤں کے شور کے ساتھ صوفیانہ کلام ’’پھس گئی جان شکنجے اندر ،جیویں رہو دی مشین وچ گنا ‘‘سن کر ڈیوڈ کیمرون باہر آئیں ۔نہ صرف گنے کے رس کا بڑا ڈونگا منہ کے ساتھ لگا کر غٹا غٹ پی جائیں ۔باچھوں کے ساتھ بنی ہوئی مونچھوں پر آستین پھیر کر انہیں صاف کریں ۔ایک پونڈ کا کڑکتا نوٹ ہاتھ میں پکڑا کر فرمائیں۔تمہاری اپنی تو جان جو پھنسی ہوئی ہے وہ تو ہے ہی۔مشین میں پھنسے ہوئے گنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۔ہمارا حال تمہارے اس گنے سے بھی بد تر ہے ۔بس بھائی چپ ہی بھلی۔

بر سلز میں یورپی یونین کا ہید کوارٹر ہو ہمارا ’’بلبلا‘‘ریڑھی پر چارسو قسم کی مختلف پاکستانی رنگ برنگی آئٹمیز سجائے ایک بھونپو میں اپنی ہی آواز اور موسیقی میں گا رہا ہو۔’’پانی دا بلبلہ ،چار دناں دی دنیا اے کج کھا لے پی لے موج اڑا،آہاہا پانی دا بلبہ‘‘ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کو چھوڑ کر بہت سی نامور شخصیات باہر تشریف لائیں ۔اور ’’بلبلا‘‘ کا الاپ بند کروا کر فرمائیں۔ہم کونسا تمہاری شاعری میں چھپے جذبات سے الگ کوئی بات کہہ رہے ہیں ۔ہم بھی تو وہی کہہ رہے ہیں جو تم کہہ رہے ہو۔کھاؤ ،پیو ،موج اڑاؤ ۔نہ ہمیں روکواور نہ ہمارے ڈرون روکو۔اور پھر ’’بلبلا ‘‘ کو چپ کرا کے کورس کی شکل میں گائیں۔کج کھا لے پی لے موج اڑا ۔آ ہا ہا ہا ہا۔پانی دا بلبلہ۔واہ واہ پانی دا بلبلہ۔

وہ کیا سماں ہو گا جب امریکہ کے وایٹ ہاوس کے آس پاس ایک سائیکل اور قلفیوں والی ریڑھی پر پر پرانے دور کی ٹیپ ریکارڈر میں سے تیز آوازیں نکل کر آپس میں گڈ مڈ ہو رہی گی’’بھائیو! پتیسہ میرا بڑا مزیدار‘‘،’’ قلفی کھوئے ملائی دی تے سب نوں کھانی چائی دی‘‘ اور حضرت اوباما کی قوت سماعت جب اس آواز کی لے اور پچ سے متاثر ہو جائے تو وائٹ ہاوس سے باہر آ کر ان کو روکیں اور فرمائیں ’’پتسیہ ‘‘ تو میرا مزیدار ہے ۔میرے ’’پتیسے‘‘ کی تو چہار عالم میں گونج ہے۔اس کی ’’چاٹ‘‘جب کسی کو لگ جاتی ہے توپھر وہ کسی اور کے پتیسے کی طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھتا ۔تمہارے پتسے میں تو سوائے شور اور واویلا کے کچھ اور ہے ہی نہیں۔اور’’ قلفی کھوئے ملائی دی‘‘ تمہارے نہیں،میرے پاس ہے۔اور ہاں تمہارے اس شعر میں وزن ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے سب کو ہی کھانی چائیے ۔بلکہ کوئی شور شرابا اور کسی کو دکھائے بغیر سب کو کھانی چایئے۔اور ہاں جو ہماری ’’قلفی‘‘نہیں کھاتا پھر اس کو ’’گولہ گنڈا ‘‘ کھلانا پڑتا ہے۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35294 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.