بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہر سال
سرد موسم کی نوید لیکر آتا ہے مگر اس بار سرد ہواﺅں اور سرد موسم تو ہے مگر
ملک میں چونکہ انتخابی موسم کی آہٹ بھی ساتھ ساتھ ہے اس لئے سرد موسم کا
اثر کچھ زیادہ نہیں ہو رہاہے اس کی بایں وجہ تو یہی نظر آتا ہے کہ سیاسی
گرمی نے سرد موسم کو بھی گرما رکھا ہے۔ انتخابی آہٹ کے ساتھ ہی تمام سیاسی
پارٹیوں کی ترجیحات بھی بدلنے لگ جاتی ہیں۔ ایسے مسائل جنہیں دل کے نہاں
خانوں میں بھی جگہ نہیں مل رہا تھا ، موضوعِ بحث بن جاتے ہیں۔ ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ اب اس سے بڑا اور کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ دن رات، صبح و شام اس
کی گردان ہونے لگتی ہے۔ ہم قلمرو حضرات کے ساتھ ساتھ عوام بھی اسے دیر آید
درست آید نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اتنی دیر میں آتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ
نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی اسے صبح کا بُھولا شام کو آئے کے مصداق والا
معاملہ کہہ سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آپ نے ضرور توجہ دیا ہوگا کہ جب بھی انتخابی معرکے کا موسم
آتا ہے تو وعدے وعید کی فصل اُگانے کے لیے چرب زبانی کی بے شمار کھاد ڈالی
جاتی ہے اور حتی المقدور یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مظلوموں ،
غریبوں، کسانوں، کا ان سے بڑا کوئی ہمدرد اور ہے ہی نہیں۔ اور یہ بھی باور
کرایا جاتا ہے کہ ان کے مفادات اگر محفوظ ہیں تو صرف ان کے سائے میں ہی ہے۔
اس سیاسی سرکس کا سب سے بڑا نشانہ ظاہر ہے کہ اس ملک کے عوام ہی ہیں۔یہ بھی
ایک کھلا راز ہی ہے کہ جب بھی عوام کے ووٹوں سے سیاسی پارٹیاں منتخب ہوئیں
اور انہیں اقتدار ملاتب بھی نشانے پر عوام ہی ٹھہرے اور عوام الناس کے
مسائل کے جنگل کا رقہ دراز ہی ہوتا رہا۔ مطالب کی طرف دیکھا جائے تو عوام
کے ووٹوں کو حاصل کیا اور پھر عوام کو ٹِشو پیپر سمجھ کر ان کی حیثیت پسِ
پشت ڈال دی گئی۔انگریزی کا ایک بہت پرانا مقولہ ہے کہ:
You never know how strong you are!
Until being strong is your only choice!
ویسے بھی آپ نے سُن رکھا ہوگا کہ جب زخموں سے ٹیس اُٹھتی ہے تو آہ نکل ہی
جاتی ہے اور جب ان پر ہلکا سا بھی مرہم رکھا جاتا ہے تو اس کی ٹھنڈک اندر
تک اُتر جاتی ہے۔ یہی حال عوام کا ہے کیونکہ زخم تو ہَرے ہی ہیں مگر اس پر
نئے انتخابات کے موسم میں پھر سے مرہم لگائے جاتے ہیں اور بے چارے عوام کو
وعدوں کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور پھر سے بیوقوفی ہو جاتی ہے۔اب جبکہ
انتخابی دنگل شروع ہونے کو ہی ہے ایسے میں میڈیا سمیت عوامی سوچ کا دائرہ
بھی سمٹ رہا ہے اور تیزی سے نقطہ انجماد کی جانب رواں دواں ہے اور ہر کوئی
یہی سوچ رہا ہے کہ ملکی مسائل کے جمّ غفیر کا وحد اور اکلوتا حل منصفانہ ‘
غیر جانبدار ‘ اور شفاف انتخابات ہی ہیں۔ اس میں کوئی شق نہیں کہ چیف
الیکشن کمشنر صاحب نے زندگی کے طویل سفر میں اتنا کچھ دیکھ رکھا ہے اور
ہرمعاملات کا اتنے قریب سے مشاہدہ کر چکے ہیں کہ خود پر جانبداری کا مہر
ثُبت نہیں ہونے دیں گے اور اسی مناسبت سے ہم سب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں
کہ انتخابات میں موصوف غیر جانبدار ہی رہیں گے۔
ہمارے یہاں تو یہ بھی دیکھنے ‘ سننے ‘سمجھنے ‘ اور یقین کرنے کی حد تک یہ
بات موجود ہے اور اس کی زندہ مثال پچھلے الیکشن تاریخ میں موجود بھی ہیں کہ
کم از کم ایک کروڑ یا اس کے لگ بھگ لگا کر امیدوار ایم این اے یا ایم پی اے
بنتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پھر ہمارا ملک
ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ جو اتنا پیسہ لگا کر اسمبلی میں پہنچے گا وہ تو
ظاہر ہے کہ پھر وہ تمام رقم سود سمیت واپس بھی حاصل کرے گا ۔ اب یہ کیسے
ہوگا تو ظاہر ہے کہ اتنی بڑی رقم ان کی تنخواہ سے واپس ملنے سے رہی ، لازمی
امر ہے کہ پھر کرپشن کا بازار گرم ہوگا ، نئے نئے ترقیاتی اسکیم کے نام پر
اسکینڈلز منظرِ عام پر آئیں گے اور پھر سے ہماری عوام گُو مگو کی کیفیت سے
دو چار ہوتے ہوئے اگلے الیکشن کا انتظار کریں گے اور یہی کچھ ہوتا رہا تو
عوام کی قسمت تو کبھی بھی بدلنے والی نہیں!اور ایسے میں بڑے کھلاڑی بھی بے
بس ہی ہونگے کیونکہ اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد یہ بات بھی ثابت ہو گئی
ہے کہ سیاستدانوں کو نوٹوں سے بھرا بریف کیس بھی دیا جاتا رہا ہے، کہنا
مقصود یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہم تو ڈگمگا رہے ہیں اور کسی بھی وقت
ایسی صورتحال میں ہمارا دھرن تختہ ہو نے کو ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہمارے حالات
پر رحم کرے)۔
دہشت گردی کی عفریت نے ہمارا ایک دہائی سے زائد عرصہ سے ناطقہ بند کر رکھا
ہے۔ سماج میں ایک نوکری بھی دستیاب نہیں ہے ، ماسٹر کی ڈگری لیکر نوجوان
چپڑاسی کی نوکری کرنے پر مجبور ہے (اور یہ مشاہدہ تو میرے اپنے تجربے میں
ہے۔)شاید اس عوامی درد و کرب کو کوئی جماعت سمجھ لے اور ان کا ضمیر انہیں
دستک دے جائے تب ہی ہم سنورنا شروع کر دیں گے۔ مگر ایسااس گھٹن زدہ ماحول
میں ہوتا ہو ا نظر کم ہی آ رہا ہے کیونکہ ماضی کے تجربات ہمیں زیادہ خوش
فہمی پالنے کی اجازت نہیں دیتے پھر بھی ہماری عوام وعدوں کو ہنوز شرمندہ
تعبیر ہونے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
دن میں کب سوچا کرتے تھے، سوئیں گے ہم رات کہاں
اب ایسے آوارہ گُھومیں ، اپنے وہ حالات کہاں
اب بھی ایک سسٹم چل رہا ہے اور آنے والی نئی حکومت بھی اپنا سسٹم لے کر آئے
گی ،اور جیسا کہ بلند و بانگ دعوے کا شور ہم سب کے کانوں سے ٹکرا رہا ہے اس
پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پُل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے اور اب شاید
حالات تبدیل ہو جائیں ، مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ صرف کردار بدل جائیں گے ،
حالات و واقعات ، کرپشن، بے روزگاری کی نوعیت ویسا ہی رہ جائے گا ، پہلے
ملک کے شہروں کو فسادات کے ذریعہ تباہ و بربادکرنے کا کھیل کھیلا جاتا رہا
،اور اب دہشت گردی مہم میں ہتھیاروں سے ذبح کیا جا رہا ہے۔ (خدا خیر کرے ہم
سب پر )
ہم کتنے بھولے ہیں، کتنے فراخ دل ہیں، ہماری یادداشت کتنی کمزور ہے ، بازار
میں یوسف کے خریدار بہت ہیں، برادران یوسف کی بھی کمی نہیں، ہماری سادہ
لوحی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ انتخابی حکمتِ عملی سے کوسوں دور ووٹوں کی
سیاست کے کھیل کی باریکیوں سے عدم آگہی یا پھر جوٹوں کی کثرت اور شدت نے
درد کا احساس ہی مٹا دیا ہے۔ کوئی ذرا سا مسکرا کر دیکھ لے تو ہم سب لوگ
اپنا غم بھول کر اس کی دل جوئی میں لگ جاتے ہیں۔ ہم یہ کیوں نہیں جانتے کہ
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس سے رحم کی امید کرنا حماقت ہے۔ ہم لوگ
جس دن اس راز کو جان جائیں گے ، وعدوں، خود فریبیوں اور خوش فہمیوں کے جال
کو کاٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یوں مشن 2013کے سفر کا مثبت آغاز ہو
جائے گا۔ |