کراچی اور حیدرآباد ان دونوں
شہروں کو ِ۔1986۔سے ۔ 2012۔تک اپنے اسلحہ بردار دہشت گردوں کے بل بوتے پر
یر غمال رکھنے والے مفرور لیڈرالطاف حسین نے ان دونوں شہروں پر اس طرح سے
قبضہ کیا ہوا ہے جس کی مثال کادنیا کے کسی بھی مہذہب اور جمہوری ملک میں
ملنا کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے۔ایک طرف اپنے تربیت یافتہ دہشت گردوں کے
زریعہ معصوم شہریوں پر اپنا ایسا خوف بٹھایا ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام اپنے
خلاف ہونے والے کسی بھی ظلم اور ذیادتی کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکتے ہیں
اور نہ ہی انصاف کے حصول کے لئے کسی عدالت میں جا سکتے ہیں اس کے با وجو د
عوام کے بجائے متحدہ اور ان کا لندن میں بیٹھا لیڈر انٹرنیشنل مظلوم ہیں ۔خاص
طور پر کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ کسی کے بھی گھر کے کسی بھی فرد کو گلی
محلہ میں ہر وقت اسلحہ لے کر گھومنے والے دہشت گرد کسی بھی وقت اٹھا کر
اپنے سیکڑ یا یونٹ آفس لے جا تے ہیں اور پھر یا تو وہ شخص ان درندوں کے
انسانیت سوز اور بہیمانہ تشدد کے بعد اپنے گھر اس حالت میں پہونچے گا کہ اس
کے زندہ بچنے کے چانسس بہت کم ہونگے یا پھر وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو
بیٹھے گا ایسے مظالم کے شکار کسی فرد یا افراد کے لئے سب سے بڑا جرم یہ
ہوتا ہے کہ یہ انکی کوئی ڈیمانڈ پوری نہ کرسکے یا پھر انہوں نے دانستگی یا
نہ دانستگی میں اں کے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔یا پھر وہ کسی اور سیاسی
جماعت سے تعلق رکھتا ہو ۔غرض یہ ہے کہ متحدہ نے ہمیشہ اقتدار اور اسلحہ
بردار اپنے دہشت گردوں کے زریعہ کراچی شہر میں تمام سیاسی اور مذہبی
جماعتوں کو خوف ذدہ کرکے اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے اورتما م سیاسی اور
مذہبی جماعتوں نے ایک طرح سے متحدہ کی غیر اعلانیہ اطاعت اور برتری تسلیم
کرلی ہے اس طرح ان شہروں کی عوام پرمسلط تنظیم جو 1986سے ہی ان دونوں شہروں
کے بلدیاتی اداروں پر بھی اپنی مکمل گِرپ رکھتی ہے ۔اور1988سے 2012یعنی کہ
آج تک جب میں یہ کالم لکھ رہا ۔ بتاریخ01-12-2012تک ہر سول اور فوجی حکومت
کا حصہ رہی ہے یعنی اپنے قیام کے پہلے سال سے ہی اقتدار کے مزے لوٹنے والی
پا کستان کی واحد تنظیم متحدہ ہے ۔ کیا پورے پاکستان میں ایسی اور کوئی
جماعت موجود ہے جس نے متحدہ جتنا طویل عرصہ اقتدار کے ایوانوں میں گزارہ ہے
یقینا نہیں اس پر مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر انکا رونا یہ ہوتا ہے کہ جی
ہمیں مظالم کا شکار بنایا گیا ہے -
لیکن جب آپ کراچی کے حالات کا جائزہ دو حصوں میں لینگے تو ایک حصہ قیام
پاکستان سے لے کر 1985-84تک اور دوسراحصہ الطافی طرز سیاست کا یعنی کہ
1986سے آج تک کا تو یہ حقیقت بالکل واضع ہوجائے گی 1986سے پہلے کا کراچی
ایک جیتا جاگتا روشنیوں کا شہر تھا اور 1986سے آج جبکہ الطافی طرز سیاست
تیسری دھائی مکمل کررہی ہے تو میرا پیارا شہر زخموں سے چور چور ہے اوراس
شہر کے یرغمال شہری جو متحدہ کے ڈر سے حق بات نہیں کہہ سکتے ہیں وہ توبس
اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے چندے کے نام پر بھتہ دینے اوراور الطاف کا
سیاسی قد بڑھانے کےلئے اک استعمال ہونے والے ٹشو پیپر کی طرح ہیں اوراپنے
گلی محلوں میں موجود اسلحہ بردار دہشت گردوں کے خوف سے اپنے روز وشب خوف کے
سایوں میں گزارنے پر مجبور ہیں ۔
مظلوم تو اصل میںیہی عوام ہیں ۔کیونکہ اک طرف متحدہ کی سیاست جو ہمیشہ اس
شہر کے درجہ حرارت کو ہمیشہ ہائی ٹیمپریچر پر رکھ کرٹینشن کی صورتحال کو
کسی نہ کسی صورت قائم رکھنے کو ہی اپنی بقا،دھونس اور بلیک میلنگ کے لئے
ایک ہتھیار کے طور پر بہت ضروری سمجھتی ہے۔
دوسری طرف ریاستی ادارے ہیں جو الطاف کے دہشت گردوں کو اپنی گرفت میں لینے
کے بجائے عام شہریوں کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں کیونکہ متحدہ طویل عرصہ
سے اقتدار میں حصہ دار ہے اس لئے پولیس رینجرز سمیت تمام ادارو ں کو اپنے
زیر اثر رکھتی ہے ۔
اسلئے یہ توممکن ہی نہیں ہے کہ یہ ادارے غیر جانبداری سے اپنے فرائض
اداکریں اور اس طر ح وہ شہری جو اپنے روزگار اور دیگر دوسرے مسائل کے حل کے
سلسلے میںپہلے ہی سے بہت سی پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔یہی عام شہری ان
اداروں کے عتاب کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سب متحدہ کے مفادات اور الطاف گروپ
کے مظلومیت کے پروپیگنڈے کے لئے بہت زبردست مواد فراہم کرنے کاذریعہ بنتاہے
اور اسطرح عام شہری کے مسائل مزید بڑھتے چلے جاتے ہیں مگر الطاف گروپ اپنے
مفادات کے حصول میں اور کامیابیاں حاصل کرتا چلاجاتاہے۔
اس طر ح اس شہر کاعام شہری حقیقت میں ایک دو نہیں بلکہ کئی پاٹوں کے درمیا
ن میں آکر بری طرح سے پس رہا ہے ۔جیسے کہ اس شہر میں موجود بہت سارے چھوٹے
چھوٹے کرمنل گروپ جو اسٹرائٹ کرائم میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں دوسرے
لینڈمافیا جو تمام سیاسی پارٹیوں کا لازمی حصہ ہیں ۔کیونکہ اس شہر کی قیمتی
زمینیں لاکھوں کروڑوں سے لے کر اربوں روپے تک کی مالیت کی ہونے کی وجہ سے
تما م پولیٹیکل جماعتیں اس لینڈ مافیا کی سر پرستی کرتی ہیں کیونکہ یہ بہت
زیادہ دولت بہت کم وقت میں فراہم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ، پی پی پی،متحدہ
،اے این پی،اور تمام قوم پرست جماعتیں اس لینڈمافیا کی بڑی سپوٹر ہیں ۔
اور جب ایک گروپ کہیں پر قبضہ کرچکا ہوتا ہے تو دوسرا گروپ یہ چاہتا ہے کہ
مال مفت میں کیوں نہ لوٹوں پھر یہ دونوں گروپ آپس میں اسلحہ کا کھلا
استعمال کرتے ہیںاس کے بعد انکی سرپرست پارٹیاں اس لڑائی کو بڑھا کر گروہی
اور لسانی رنگ دے کر ایک دوسرے کی مخالف زبان بولنے والے عام شہری کواپنا
شکار بناتے ہیں اور بے دریغ قتل عام شروع کردیا جاتا ہے ۔اسطرح لینڈمافیا
اور اسکی سرپرست سیاسی جماعتیں بڑی چالاکی کے ساتھ ان لینڈمافیا کو
گروہی اور لسانی رنگ دے کر ایک تیر سے کئی شکار کر نے میں کامیاب ہو جاتے
ہیں ۔ اس وقت بھی اس شہر کا عام شہری ہی عتا ب کا شکار ہوتاہے اور سیاسی
جماعتیں معصوم شہریوں کی مزید لاشیں وصول کرکے اپنے سیاسی رنگ کو اور گہرا
کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں ۔
لینڈ ما فیا کی طرح بھتہ مافیا بھی اسی طرح اس شہرپرراج کرنے والی جماعتوں
کی ذیلی شاخیں ہوتی ہیں انکی لڑائی بھی لینڈ مافیا کے طرح ہی علاقوں پر
اپنی گرفت اور بھتہ وصولی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے ہی شروع
ہوتی ہے ۔اور اسی طرح سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں عام معصوم شہریوں کی ،چاہے
وہ کسی بھی زباں کا بولنے والا ہو۔
یہ کراچی کی صورتحال کی یہ ایک بہت چھوٹی سی جھلک ہے۔ اس شہر پر اند ھا راج
کرنے والی جماعتیں اور انکے لیڈر جو اپنی محفوظ پناگاہوں اور پولیس رینجرز
کی سیکورٹی میں بڑے سکوں اور آرام سے رہ رہے ہیں ۔سب سے ذیادہ مظلوم بھی
یہی جماعتیں اور انکے سر براہ ہوتے ہیں ،۔
اور ایک صاحب کو تو بیس برسوں سے بھی ذیادہ ہوگئے ہیں اس ملک کو اپنی جاں
کے تحفظ کی خاطر چھوڑے ہوئے اسکے باوجود وہ سب سے زیادہ مظلوم ہیں ۔ |