سقوط ڈھاکہ اور موجودہ پاکستان

1968 میں مشرقی و مغربی پاکستان ایک ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود تھے۔ اس وقت پاکستان کے صدر ایوب تھے۔ وہ طبعی طور پر امریکی حکومت کے مکمل فرمانبردار اور بھارت سرکار سے کسی حد تک مرغوب تھے۔ موجودہ صدر پاکستان کی طرح اس وقت صدر ایوب اور ان کا حکومتی ٹولہ اپنی کھوکھلی جمہوریت اور صدارت کو بچانے کی کوششوں میں شب و روز کوشاں تھا۔ موجودہ دور کی طرح اس وقت بھی پاکستان بہت سے بحرانوں میں گھرا ہو ا تھا۔ کرسی اور اقتدار کے حصول کے لئے اندرونی سطح پر حکمران اپنی سازشوں میں مصروف تھے، جبکہ بیرونی سطح پر پاکستان دشمن عناصر اسے توڑنے کے لئے تدبیریں کر رہے تھے۔ جنوری 1968 ءمیں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے والی ایک سازش کو باقاعدہ بے نقاب کیا گیا اور اس کو اگرتلہ سازش کا نام دیا گیا۔ اگرتلہ بھارت میں ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں ہندوستان کے خفیہ ایجنسیوں اور سرکاری عناصر نے ایک مرکز قائم کیا تھا۔ جس کا مقصد مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کی ایک تحریک پیدا کرنا اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان نفرت اور دوریاں ڈالنے کے لئے لوگوں کی ذہن سازی اور تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنا اور مقا می افراد کے ذریعہ انہیں پائیہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ حکومتی علم میں آنے کے باوجود اگرتلہ میں ہونے والی سازشوں کا تدارک دور اندیش اور فہم و فراست سے کرنے کے بجائے پاکستانی حکومت کی غلط پالیسیوں اور لاپرواہی نے بالآخر اس کو ایک ناسور بنادیا جو بگڑ کر پورے مشرقی پاکستان میں پھیل گیا۔ بھارت نے ایسی چالیں چلیں کہ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان نفرت کی ایک دیوار چین کھڑی ہوگئی اور 16 دسمبر 1971ءکو پاکستان کا مشرقی بازو بڑی تکلیف اور اذیت کے ساتھ کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ سقوط پاکستان کے واقعات میری پیدائش سے قبل کے ہیں جو میں نے صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہیں لیکن نہ جانے کیوں آج کے موجودہ دور کو جب بھی میں دیکھتا ہوں تو ماضی کی اس تاریخ کا عکس موجودہ حالات میں بھی مجھ کو نظر آنے لگتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہر حکمران نے امریکی دوستی کا دم بھرا ہے۔ لیکن پاک بھارت جنگیں ہو یا کوئی بھی عالمی معاملہ یا معاہدہ، امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ لیکن پاکستان کا ہر نیا آنے والا حکمران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ایک بار پھر اپنا ہاتھ امریکہ کی جانب بڑھا دیتا ہے اور وہ بچھو کی طرح اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اسے ڈسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

افغانستان میں پاکستان کے توسط سے بھرپور مفادات کے بعد امریکا اپنے مفادات کے لیے پاکستان کو بھارت سے دوستی پر مجبور کررہا ہے۔ اور تمام تنازعات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو بھارت سے تعلقات بڑھانے اور تجارت سمیت دیگر معاہدے کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔

آج پاکستانی عوام کے دلوں میں بھارت کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لیے امن کی آشا کی باتیں کی جارہی ہیں۔ لیکن بھارت ہمارا پسندیدہ ملک کیسے ہوسکتا ہے۔ جس نے ہمیں دولخت کیا، جو لاکھوں مسلمانوں کا قاتل ہے۔ بھارت جس نے آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگرتلہ سازش کی طرح بلوچستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ دوستی برابری کی سطح پر ہوتی ہے لیکن بھارت اور پاکستان کے نظریات میں تضاد ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کو پسندیدہ ترین قرار دے رہا ہے۔ جس نے آج تک اس کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کا کبھی بھی دوست نہیں ہوسکتا وہ آج بھی پاکستان کو دشمن سمجھتا ہے دوستی کی باتیں تو صرف بھارتی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک دھوکہ اور فریب ہیں۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا مطلب ملک کو مکمل طور پر معاشی و ذہنی لحاظ سے اس کا محتاج بنا دینے کے مترادف ہوگا۔

ابھی وقت ہے کہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھ کر پاکستان بھارت کے لیے فدویانہ رویہ ترک کرے اور پاکستان کے لیے جاری بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کا اسی انداز میں جواب دیا جائے اور چند وقتی مفادات کے لیے ملک کو داﺅ پر نہ لگایا جائے۔
Muhammad Naeem
About the Author: Muhammad Naeem Read More Articles by Muhammad Naeem : 20 Articles with 17036 views Member of KUJ | Sub-Editor/Reporter at Weekly Jarrar & KARACHIUPDATES |Columnist | http://www.facebook.com/Tabssumnaeem
.. View More