دسمبر آتے ہی زخموں سے خون رسنا
شروع ہو جاتا ہے 2012ءکا دسمبر تو زیادہ ہی بھیانک محسوس ہو رہا ہے کیونکہ
ا ن لمحات میں جبکہ تحریر کو قرطاس پر بکھیرنے کی کوشش کررہا ہو ں اپنی
سرزمین کو ہندوستانی غنڈوں سے بچانے والے محب وطن مقدمات اور سزائے موت
سمیت قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا کررہے ہیں ان کے حق میں اٹھنے والی آواز
بھی آ ج بہت دھیمی ہے ....سقوط ڈھاکہ سے قبل کے حالات بلاشبہ دل دہلا دینے
والے ہیں لیکن آج میں اپنے ملک پاکستان پر چہار سو نظر دوڑاتا ہو ں توحالات
اس سے مختلف نظر نہیں آتے آج بھی کراچی لہو میں ڈوبا ہے ....آج بھی کردار
وہی ہیں ....اسرائیل ٬ امریکہ اور ہندوستان کی ٹرائیکانے کل مشرقی پاکستان
میں سازشوں کے بازار گرم کرنے کے ساتھ ڈھاکہ کے امن کو تاراج کیا تھا آج
مغربی پاکستان کی اکھڑتی سانسوں میں بھی اسی ٹرائیکا کا واضح ہاتھ نظر آتا
ہے ۔ محب وطن طبقات نے ڈھاکہ میں بھی البدر والشمس کی صورت اپنی جانوں کا
نذرانہ پیش کیا تھا اور آج بھی اسی اسلامی تحریک کے کارکنا ن کو کراچی میں
ذبح کیا جارہا ہے .... مشرقی پاکستان کے تحفظ کے لیے البدر “کے قیام میں
اسلامی جمعیت طلبہ کا اہم کردار تھا جس پر آج بھی اسے فخر ہے البدر والشمس
نامی محب وطن تنظیموں کے کارکنا ن نے جس انداز میں ملک کی سلامتی اور اسلام
کی سربلندی کےلئے اپنی جانیں تک قربان کیں آج بھی پاک فوج ان بہادر اور محب
وطن نوجوانوں کو سنہری حروف سے یا د کرتی ہے.... البدرو الشمس کے مجاہدین
اور غازیوں کا ذکر کرتے اور سنتے ہی ان کے سر عقیدت سے جھک جاتے ہیں ۔
البدر کے قیام اور اس کے پس منظر کے حوالے سے برادرم سلیم منصور خالد
”البدر “ کے نام سے تحقیق و حقائق پر مبنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ
”جنور ی1971ءسے رفتہ رفتہ عوامی لیگ و پیپلز پارٹی اور برسر اقتدا ر مارشل
لاءحکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش عروج پر پہنچی اور ملکی اتحاد کی
بنیادیں ہل گئیںملک آہستہ آہستہ خانہ جنگی کے دھانے پر پہنچ گیامشرقی
پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے بغاوت کے آثارحقیقت کا روپ دھارنے
لگے آخر کار یکم مارچ سے غیر بنگالیوںاور فعال محب وطن بنگالیوں کا قتل عام
شروع ہوا انتظامیہ معطل ہوگئی یا بیشتر جگہوںپر تخریب کاروں سے مل گئی
شرپسند پوری طرح فضا پر چھا گئے مارشل لاءشل ہوگیااس بارودی فضا میں سیاسی
حل تلاش کرنے کی بجائے حکومت حماقتوں پر پیپلز پارٹی شرارتوں پر اور عوامی
لیگ بغاوتوں پر تل گئی۔
اس افسوس ناک صورتحال کا جائزہ لینے کےلئے اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاتر
و شنگھو)مشرقی پاکستان نے ڈھاکہ میں صوبائی مجلس شورٰی اور ناظمین اضلاع کا
اجلاس 10مارچ1971ءکو طلب کیا جس میں صوبے کی عمومی صورتحال کا جائزہ لینے
کے بعدتین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پرغور ہوا کہ اس وقت
صرف تین ہی راستے تھے۔(۱)حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کھل کر علیحٰدگی پسندوں
کا ساتھ دیا جائے(۲)حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور غیر جانبداررہا
جائے(۳)حالات کا رخ موڑنے ٬پاکستا ن کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ
کےلئے میدان عمل میں اتر کر اپنی ذمہ داری کو ادا کیا جائے۔ان تینوں تجاویز
پر بڑی طویل بحث ہوئی صوبائی شوریٰ کے رکن مصطفٰے شوکت عمران (شہید)نے
دلائل کے ضمن میں سید ابو الاعلٰی مودودی کی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے
کہاکہ قائد تحریک نے 1965ءمیں فرمایا تھا ”ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سرزمین
ہمارا نہیں اسلام کا گھر ہے ہمیں صدیوں کے بعد موقع ملاہے کہ خدا کے دین کو
اس کی اصلی صورت میں قائم کریں اور دنیا کے سامنے اس کی صداقت کی عملی
شہادت پیش کریںہمارے لئے یہ سب سے بڑ ی نعمت ہے اور ہم ہر قیمت پراس کی
حفاظت کےلئے تیار ہیںہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر مسلمان میںاس نعمت کی
قدر کا جذبہ پیدا کریںاور اس کے قلب وروح میںیہ خیال جاگزیں کردیں کہ اس
نعمت کی حفاظت میںکوئی قربانی بھی گراں نہیں ہے یاد رکھیے خدا اور اس کے
دین کی خاطر جان دینے کا مرتبہ اپنے گھر بار اپنے مال ودولت کی خاطر جان
دینے سے بدجہازیادہ بلند ہے اور اس جذبے کے ساتھ جو شہادت میسر ہو وہ بہت
اونچے درجے کی شہادت ہے “ جب ہندو ستان نے ستمبر65ءمیں پاکستان پر کھلی
جارحیت کی تو مولانا مودودی نے کہاتھا کہ ”پاکستان کا ہر مسلمان اس ملک کو
جو اس براعظم میں اسلام کا قلعہ ہے اور اس کی پوری سرزمین ہمارے لئے مسجد
کا حکم رکھتی ہے بچانے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کےلئے تیارہو جائے “
مجوز نے تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس پس منظر میں باوجودیکہ پاکستان کے
حکمران طبقے نے اپنی غلط پالیسیوں اور انتہا پسند سیاسی پارٹیوں نے منافرت
کو ہوا دے کرعلیحدگی کی فضا پیدا کردی ہے ہمیں اس خطہ پاکستان کا تحفظ کرنا
ہے بالکل اسی طرح جس طر ح مسجد کا تحفظ کیا جاتاہے۔ایک دوسرے رکن شورٰی نے
بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ” مغربی پاکستان سے برسر اقتدار قیادت
نے پہلے بھی اور آج بھی اپنے تئیں مشرقی پاکستان کو الگ کردینے میں کوئی
کسر اٹھا نہیں رکھی اس لئے ملک کو توڑنے اور بچانے کی آخری ذمہ داری ملک کی
سیاسی فوجی اورانتظامی مشینری پر آتی ہے ان حالات میں غیر جانبدار رہنا
چاہیے“اس ہنگامہ خیز اجلاس میںکسی ایک ممبر نے بھی علیحدگی پسند تحریک کا
ساتھ دینے کی تجویزپیش نہیں کی گویا متحدہ پاکستان کے بارے میںتمام شرکائے
اجلاس یک سو تھے آخرکار چار دن کی بحث وتمحیص کے بعدجمعیت کے اہم اجلاس نے
فیصلہ کیا”اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان سا لمیت پاکستان اور شہریوں کے
جان ومال اور تحفظ کےلئے آگے بڑھے گی مشرقی پاکستان کے شہری دو طاقتوں کے
درمیان پس رہے ہیںجن میں ایک جانب دشمن گماشتے ٬انتہاپسند ہندوایجنٹ اور
خونی انقلاب کے علمبردارکیمونسٹ ہیں جو ملک کی آزادی کو پارہ پارہ کرکے اسے
ہندوستان کا زیر نگیں بنانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی سول اور
فوجی انتظامیہ میں کئی قسم کے غلط عناصربھی ہیں ان دونوں طبقوں کے خلاف بہ
یک وقت سرگرم عمل ہونے کےلئے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیںہے کہ ہم
ایک جانب اسلامی جذبے کے ساتھ دشمن کی طاقت سے میدان میں ٹکر لیں اور دوسری
جانب طاقت کے قریب پہنچ کر اس کی اصلاح کرنے کی اپنی سی کوشش کریںہمارا یہ
فیصلہ پاکستان کے بے گناہ شہریوں کے جان وآبرو بچانے کا فیصلہ ہے“یہ فیصلہ
یقینابڑاجرات مندانہ اقدام تھاخصوصا ایسی صورتحال میں جبکہ عمامے کھل چکے
تھے تحریک پاکستان کی کئی یادگاریں بنگلہ دیشی قومیت کی چوکھٹ پر سرنگوں ہو
چکی تھیںچاروں طرف دھوئیںاور لہو کی فضامیں یہ اعلان کرناکہ ہم اس کے ساجھی
نہیںعزیمت کی تابندہ روایت تھی ۔
امن کمیٹیوں اور رضا کارفورس کے بعض جگہوں پر ناخوشگوار تجربات سے جمعیت کے
محب وطن اور بے لوث نوجوان پریشان تھے چنانچہ15مئی1971ءکو ڈھاکہ میں منعقدہ
اجلاس میں صوبائی مجلس شورٰی نے جمعیت کے کارکنان پر مشتمل ایک الگ رضاکار
فورس کے قیام کی تجویز پیش کی۔ پا ک فوج میں موجو د بعض محب وطن افراد بھی
امن کمیٹیوں اور رضا کار فورس کی کارکردگی کے پیش نظر اپنی جگہ متبادل
صورتوں پر غور کررہے تھے31۔بلوچ رجمنٹ کے جواں سالہ میجرریاض حسین ملک انہی
میں ایک تھے سب سے پہلے انھوں نے ہی اس سمت میں مثبت قدم اٹھایاڈیڑھ ماہ تک
میدان جنگ میں عملا سرگرم رہ کرانھیں یقین ہو چکا تھا اب زیادہ دیر تک
”رضاکار“ پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتاانھوں نے ایک انٹرویو میں”البدر“
کی تاسیس کا پس منظر ان الفاظ میں بیان کیا۔”دشمن تعداد میں بہت زیادہ
تھاتخریبی عناصربھی کچھ کم نہ تھے ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر
اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے ہمارے جوان بنگلہ زبان اور بنگال کی طبعی
فضاسے قطعی ناواقف تھے کیونکہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس صورت کے امکان
پر سوچا بھی نہ گیا تھا ان حالات میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دینا مشکل ہو
گیا تھاہمیں ایک مخلص ٬قابل اعتماد اورمحب وطن بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو
سا لمیت پاکستان کے لئے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہوابتدائی ڈیڑھ ماہ
میں رضا کارفورس کا تجربہ ناکام ہو چکا تھاتاہم میں نے یہ دیکھا میرے علاقے
(سیکٹر)میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی طلباءبڑے اخلاص کے ساتھ دفاع
٬رہنمائی اور حفظ راز کی ذمہ داری ادا کرہے تھے اس لئے میں نے ہائی کمان سے
کوئی باقاعدہ اجازت لئے بغیرقدرے جھجکتے ہوئے ان طلبہ کو الگ کیایہ تعداد
میں47تھے اور سب اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تھے 16مئی1971ءکو شیر پور کے
مقام پرانھیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیاگیا۔ان کارکنان کی لگن محنت
اور تکنیک کو سمجھنے میں کما ل ذہانت کو دیکھ کرمیں نے 16مئی کو صبح ان سے
خطاب کیا تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ سے یہ بات نکلی کہ آپ جیسے سیرت
وکرداراور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندان اسلام کو ”البدر“کے نام سے
پکارا جانا چاہیے فوری طور پر ذہن میںبرق کی مانند یہ خیال کونداکہ کیوں نہ
اس تنظیم کو ”البدر “ کا نام دے دیا جائے چنانچہ یہ نام اور جمعیت کے
کارکنوں کی الگ تنظیم کا یہ تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ دوتین ماہ کے
اندراندر پورے مشرقی پاکستان میں اسی نام سے جمعیت سے وابستہ نوجوانوں کو
منظم کرلیا گیا البدر کے پہلے کمانڈر کا نام کامران تھااور وہ اس وقت انٹر
سائنس کے طالب علم تھے“۔
محترم قارئین ! قربانیوں کی تاریخ سے عبارت” البدر“ کا اصل روپ یہ ہے ۔ 16
دسمبر1971ءکو پاک فوج تو ہتھیار ڈال کرانڈین فوج کی پناہ گاہوں میں محفوظ
ہوگئی تھی لیکن آخری دم تک ہتھیار نہ ڈالنے والے ان مجاہدین اسلام اور ان
کے اہل خانہ کو ہندو فوج اور مکتی باہنی کے درندے چیرتے پھاڑتے رہے لیکن
صبر کے پیکرفرشتوں نے اف تک نہ کی اور تمام مظالم اپنے اوپر جھیلے لیکن ملک
کی سلامتی کا کوئی رازان کی زبانوں سے فاش نہ ہوا آج مفاد پرست اور ملک کا
سودا کرنے والے سیاستدان ایک بار پھر ملک کے ٹکڑے کرنے کے ایجنڈے پر عمل
پیرا ہیں انھیں خوف ہے کہ یہ محب وطن طبقہ ان کے مذموم عزائم میں رکاوٹ
ہوگا ۔وہ اسلامی تحریک (جماعت اسلامی )کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتے لیکن اللہ کے شیروں او ر محمد ﷺکے غلاموں کا عزم ہے کہ
اسلام اور پاکستان کے دفاع کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں
گے ۔ |