سپریم کورٹ نے عدلیہ کے خلاف
تقریر کرنے کے الزام میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کو توہین عدالت
کا نوٹس جاری کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تحریری نوٹس میں کہا ہے کہ وہ 7
جنوری کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے سیکرٹری خارجہ اور متحدہ
قومی موومنٹ کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کی معرفت الطاف حسین کو نوٹس
بھیجنے کی ہدایت کی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں جلسے سے
ٹیلفونک خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی و قانونی ماہرین سے مشورے کے بعد
نوٹس کا جواب دوں گا لیکن اس معاملے پر احتجاج کریں گے نہ شور کریں گے۔
جمعے کے روز ایم کیو ایم کے جلسے کے بعد شہر بھر میں نامعلوم افراد نے
ہوائی فائرنگ کرکے تجارتی مراکز اور دکانیں بند کروادیں جس سے خوف و ہراس
میں اضافہ ہوگیا،شہر کے تقریباً تمام پیٹرول پمپ بند ہوگئے جس کے باعث پورے
شہر میں ٹریفک جام اور ہزاروں افراد پیٹرول کے لیے در بدر پھرتے رہے۔ کراچی
کے بعد حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص اور نواب شاہ سمیت مختلف شہروں
میںکشیدگی پھیل گئی، نامعلوم مسلح افراد نے کاروبار بند کردیا جب کہ کراچی
کے مختلف علاقوںمیں 3 گاڑیاں بھی جلادی گئیں۔ ہفتے کے روز بھی کراچی سمیت
اندرون سندھ کے شہری علاقوں میں غیر اعلانیہ ہڑتال کی صورت حال رہی۔
کاروباری مراکز بند اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
الطاف حسین کو عدالتی نوٹس جاری ہونے کی خبروں کے بعد ہفتے کے روز سٹی زن
کمیٹی کی جانب سے کراچی کے بیشتر علاقوں میں ایم کیو ایم کے قائد کے حق میں
احتجاجی مظاہرے کیے گئے جس میں شرکاءنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور الطاف حسین
سے اظہار یکجہتی کیا۔
آئینی و قانونی ماہرین نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے
احکام کی عدم تعمیل کی صورت میں الطاف حسین کے ریڈوارنٹ جاری کرنے کاحکم دے
سکتی ہے جب کہ عدالت الطاف حسین کی برطانیہ سے نشر ہونے والی تقریروں پر
بھی پابندی عاید کرنے کا حکم صادر کرسکتی ہے۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عدالتی احکام پر عمل درآمد
کرنے میں حیل و حجت سے کام لیا تو نااہلی ان کا مقدر بنی، اب وزیراعظم بننا
تو دور کی بات ہے وہ آنے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کے بھی اہل نہیں
رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو اپنے وقت میں عوام میں انتہائی مقبول لیڈر تھے،
عوام کی اکثریت انہیں پسند کرتی تھی، وہ جب عدالت میں پیش ہوتے تو طویل
طویل تقریریں کرتے تھے، بعض مخلص لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ عدالت کے
ساتھ نرمی سے پیش آئیں، لیکن وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو پھانسی ان کا
مقدر بنی۔ سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان جو اپنی ہر پریس کانفرنس میں
عدلیہ کا مذاق اڑاتے اور ججوں کو دھمکیاں دیتے تھے، جب عدالت عظمیٰ نے نوٹس
لے لیا، تو انہیں اپنے روزگار کے لالے پڑگئے، اب وہ ہر پیشی پر عدالت سے
معافی مانگتے ہیں لیکن توہین عدالت کیس سے اب تک ان کی جان خلاصی نہیں ہوئی....
ملک ریاض نے اپنے پیسے اور کچھ طاقت ور افراد کی شہ پر سپریم کورٹ کے خلاف
دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی، عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا تو پھر معافی
مانگ کر ہی انہوں نے اپنی جان چھڑائی.... مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف
پر توہین عدالت کا کیس ہوا تو انہوں نے بھی سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے
عدالت رو برو حاضر ہوکر معافی مانگی تھی۔
الغرض عدالت طاقت ور ہوتی ہے، اس کے پاس اختیارات ہوتے ہیں، عدالتی فیصلوں
کے دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں، توہین عدالت پر عدلیہ کسی کو نااہل بھی قرار
دے سکتی ہے جس کے بعد متاثرہ شخص کا سیاسی کیریئر داﺅ پر لگ جاتا ہے،
موجودہ عدلیہ نے متعدد ایسے فیصلے دیے جن سے عوام کی داد رسی ہوئی۔ یہی وجہ
ہے کہ قوم کی اکثریت اب عدلیہ کو نجات دہندہ سمجھتی ہے اور اپنی تمام تر
امیدیں اور توقعات عدلیہ سے وابستہ کرلی ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کی لوٹ مار
اور کرپشن کے آگے عدلیہ نے ہی کسی حد تک بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔ عدالت
نے متعدد ایسے فیصلے دیے جن سے حکمرانوں کے کمیشن وصولی کے منصوبے ناکام
ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے سی این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نوٹس لے کر عوام
کو ریلیف دینے کی کوشش کی، جس کے بعد پمپ مالکان نے سی این جی اسٹیشن بند
کرکے عوام کو دہرے عذاب میں مبتلا کردیا۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کے خلاف کمیشن قائم کردیا ہے جسے
45 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے کراچی
میں انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں کے تعین، ووٹر لسٹیں شفاف بنانے اور
دھاندلی کے منصوبے ناکام بنانے کے لیے فوج کی مدد سے گھر گھر جاکر ووٹروں
کی تصدیق کا حکم دیا، عدالت کے اس اقدام سے بعض سیاسی جماعتوں کو فائدہ
ہونے کا امکان اور بعض کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کے اثرات سے قطع نظر
مجموعی طور پر سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل اطمینان ہے، اگر الیکشن کمیشن
انتخابات سے قبل یہ عمل مکمل کرلے تو یہ ایک کارنامہ ہوگا اور شفاف
انتخابات کی سمت مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں نئی صورت حال کا ادراک نہیں
کررہیں یا وہ کرنا نہیں چاہتیں، انہیں اب اس بات کا ادراک کرلینا چاہیے کہ
موجودہ عدلیہ آزاد اور طاقت ور ہے۔ کسی بھی معاملے پر عوامی مفاد کو زک
پہنچنے یا حکمرانوں کے مفاد عامہ کے خلاف فیصلوں کی صورت میں عدلیہ ایکشن
لے سکتی ہے، عدلیہ کے اس نئے کردار پر قوم کی اکثریت خوش ہے، اسی لیے عدلیہ
کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ
حکمرانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں بھی عدلیہ کے کاندھوں پر ڈال دی جائیں،
خود ہماری سیاسی جماعتوں کے بعض رہنما ہر معاملے پر عدالت پہنچ جاتے ہیں،ہر
مسئلے کا حل سپریم کورٹ نے دینا ہے تو پھر حکمرانوں کو گھر چلے جانا چاہیے،
سپریم کورٹ پر اتنا بوجھ ڈالنا چاہیے جو وہ اٹھانے کی متحمل بھی ہو....
موجودہ عدلیہ اسی طرح عوامی مفادات کا تحفظ کرتی رہی تو پھر مایوس ہونے کی
ضرورت نہیں، قوم کا مستقبل روشن ہے۔ |