آج مصر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ
نہ حیرت انگیز ہے اور نہ ہی غیر متوقع ہے۔ اسلام کے خلاف طاغوتی قوتوں کی
رچائی ہوئی 1400سالہ تاریخ قدیم سازشوں کا یہ تسلسل ہے۔ ان سازشوں کا مقصد
حقیقی اسلام سے مسلمانوں کو دور رکھنا اور اسلامی ملکوں میں انتشار، نفاق
اور نراج پھیلانا ہے۔ صلیبی جنگوں میں شرمناک ناکامیوں اور بیت المقدس کے
حصول میں ناکامی کے بعد طاغوتی قوتوں خاص طور پر یورپ کے عیسائیوں نے حکمت
عملی بدلتے ہوئے بیت المقدس کا خیال ترک کرکے پورے عالم اسلام کو نشانہ
بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ عالمی صیہونی تحریک ہر دور میں اسلام کے خلاف ہر مہم
اور ہر سازش میں دامے درمے سخنے رضا کارانہ طور پر شریک رہی اور اب بھی ہیں۔
سترھویں صدی سے آج تک کی تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ
تاریخ اسلام کے ساتھ ساتھ مخالف اسلام سازشوں کی تاریخ بھی ساتھ ساتھ چلتی
ہے۔ تفصیلات کا یہاں محل نہیں ہے۔ عہد حاضر میں ہی کئی مثالیں ہمارے سامنے
ہیں۔
جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے قیام کے فوری بعد مملکت اسرائیل کا قیام ہی
مخالف مسلم ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ تھی۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے
جانے والے پاکستان کا دستور اسلامی نہ ہوکر ’’سیکولر‘‘ بنایا جاسکتا تھا
اگر مولانا ابولا علیٰ مودودی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا یوسف بنوری،
سردار عبدالرب نشتر، پیرالٰہی بخش، خان عبدالقیوم خاں، فقیر ایپی، خواجہ
ناظم الدین، پیر صاحب مانکی شریف، مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ جیسے
اکابرین پاکستان کو اسلامی کی جگہ سیکولر بنانے کی سازش نہ کی جاتی۔ مصر پر
کرنل نجیب اور ناصر سے پہلے حکمرانی کرنے والے شاہ فاروق مرحوم (جیسے بھی
کردار اور مزاج کے بادشاہ رہے ہوں، ایسے عرب حکمران تھے جن کی نوزائیدہ
اسرائیل کے خلاف ایسی فوجی کارروائی کی تھی کہ مصری افواج تل ابیب کے نزدیک
پہونچ گئی تھیں یہ جنگ رکوادی گئی اور مصر کا تخت و تاج فاروق سے چھین لیا
گیا۔ مصر پر کرنل جمال عبدالناصر کو مسلط کردیا گیا جنہوں نے اسرائیل کے
خلاف عملاً کچھ نہیں کیا بلکہ اپنی نااہلی یا غداری (بعض حلقوں کا یہی خیال
ہے) سے 1997ء کی جنگ میں اتنا کچھ کھویا کہ اسے حاصل کرنا محال ہے لیکن
بدترین المیہ بیت المقدس کے ہاتھ سے نکل جانے کا ہوا قبلہ اول یا بیت
المقدس جس کو یوروپی حکومتیں متحد ہوکر حاصل نہ کرسکیں وہ ناصر اور اردن کے
شاہ حسین اور حافظ اسد (شام) کی وجہ سے اسرائیل کے قبضہ میں چلاگیا۔ ترکی
میں مصطفےٰ کمال کے جانشین عصمت انونو اور ایران کے رضا شاہ سے امریکہ و
برطانیہ نے ترکی و ایران سے اسرائیل کو تسلیم کرواکے عالم اسلام کی پیٹھ
میں خنجر گھونپ دیا۔ ایک اہم بات کا ذکر (جو پہلے کیا جانا چاہئے تھا) یہ
ہے کہ 1920ء کی دہائی کے آغاز میں عالم اسلام کی مرکزیت کے علامتی نشانی
’’خلافت ِ عثمانیہ‘‘کا ترکی میں خاتمہ مصطفےٰ کمال نے کردیا۔ مصطفےٰ کمال
نے اپنے اسلام دشمنی کے چہرے پر اسلام دوستی کا نقاب لگاکر ترکی میں عالم
اسلام کو نقصان پہونچایا لیکن شکر کہ یہ نقاب اب خاصی حدتک اترچکی ہے۔ ترکی
ہی میں عدنان مندیز کی اسلام پسند حکومت کا خاتمہ اور ان کو سزائے موت اسی
سازش کا حصہ ہے جو اب مصر میں مرسی کے خلاف ہورہی ہے۔ اسی سازش کے تحت مصر
میں 65-60سال سے اخوان المسلمین کے خلاف جبر و قہر کا سلسلہ شروع ہوا تھا
ناصر نے سید قطب کو شہید کیا گیا تھا۔ اسلامی اتحاد کے عظیم قائد شاہ فیصل
کو شہید کیا گیا۔ ضیاء الحق اور بنگلہ دیش کے ضیاء الرحمن کی شہادت ان کی
اسلام پسندی کا ہی نتیجہ تھیں۔ 1996ء کی دہائی میں ترکی ہی میں نجم الدین
اربکان کی حکومت کا خاتمہ ان کی اسلام پسندی کا نتیجہ تھا غرض کہ اسلام
دشمن عناصر کہیں بھی اسلام پسندوں کو قدم جمانے کا موقع دینا نہیں چاہتی
ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے گزشتہ 35-30 سال سے اور ترکی
کی طبیب اردگان کے خلاف حال ہی میں ترکی کے نام نہاد سیکولر لیکن دراصل دین
اسلام سے بیزار عناصر اپنی سی سازشیں کرکرکے تھک گئے تب جاکر طیب اردگان
حکومت کو استحکام حاصل ہوا۔ اسلام دشمن عناصر یہ سازشیں اپنے ہی مہروں سے
کرواتے ہیں۔ ترکی، ایران اور ہمارے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور پاکستان میں
یہی ہوتا رہا تھا۔ اور ہورہا ہے!
آپ جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں اہم ذرائع ابلاغ زیادہ تر مغربی دنیا کے
اسلام دشمنی عناصر (زیادہ تر صیہونیوں) کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہمارے ملک میں
سنگھ پریوار کا میڈیا پر کنٹرول خاصہ زیادہ ہے اور سنگھ پریوار کی سرپرستی
اسرائیل و یہودی کرتے ہیں۔ اس لیے ہم وہی دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں جو
اسلام دشمن عناصر دکھانا، سنانا اور پڑھوانا چاہتے ہیں۔ اس لیے عالم اسلام
کے بارے میں صحیح خبروں سے محروم رہتے ہیں ۔اس قسم کی حرکتوں سے ملت میں
مایوسی، بددلی اور انتشار پیدا کرنا بھی ذرائع ابلاغ کا مقصد ہے بعض اردو
اخبارات بھی نادانستگی یا اپنی مرعوب ذہنیت کے سبب اپنے کالموں میں اکثر
منفی خبروں کو ہی نمایاں کرتے رہتے ہیں۔ مصر اور صدر مرسی کے بارے میں بھی
یہی صورت حال ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر اور قابل توجہ ہے کہ
ایشیائی و آفریقی ملکوں میں انگریزوں اور دوسری یوروپی قوموں کے دورِ حکومت
میں اور اس کے بعد لادین اور اسلام بیزار حکمرانوں کے دور میں سیکولرازم،
لبرل یا معتدل اسلام اور ترقی یافتہ دور کے ترقی پسند نظریات کو اسلام سے
ہم آہنگ کرنے کے چکر میں اسلام پسند سیدھے سادھے عوام بھی گمراہی کے شکار
ہوتے رہے ہیں اور اسلام کے دشمن ان کو اسلام ہی کے خلاف اس طرح استعمال
کرتے رہے ہیں کہ ان کو احساس تک نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں؟
مصر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اسلام پسند جماعتیں اسلام کے دشمنوں کی راہ
کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کی جاتی رہی ہیں۔ تحریک اسلام کی علمبردار جماعتوں
میں مصر کی اخوان المسلمین سب سے آگے رہے اسی لیے ساری مغربی دنیا لیکن خاص
طور پر امریکہ و اسرائیل کو اخوان کا مصر میں برسراقتدار آنا انتہائی
ناپسند ہے۔
صدر مرسی کا اخوان سے تعلق ہی نہیں بلکہ اسرائیل سے ان کا سخت رویہ اور
حماس کی حمایت کے سبب اسرائیل کی سازشوں کا وہ شکار ہیں۔ حسنی مبارک کے
وفادار (جو آج بھی مصر کی زندگی کے ہر شعبہ بہ شمول فوج انتظامیہ و عدلیہ
میں موجود ہیں اور سیدھے سادھے عوام میں نہ صرف لادین اور اسلام بیزاروں کی
بھی خاصی تعداد ہے بلکہ صدر مرسی کے خلاف جھوٹے اور پروپگنڈے کا شکار ہوکر
صدر مرسی کو آمر بلکہ فرعون وقت تک کہہ رہے ہیں!
22 نومبر کو صدر مرسی نے اس اندیشے کے تحت کے کہیں مصر کے نئے دستور کو
نافذ العمل ہونے سے روکنے کے لیے عدلیہ کے ذریعہ پارلیمان یا مجلس دستور
ساز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جاسکے انہوں نے وسیع اختیارات حاصل کرتے
ہوئے عدالتوں کے دائرہ اختیار کو محدود کردیا اور نئے دستور کی منظوری کے
لیے عوامی ریفرنڈم (استصواب عامی کروانے کا اعلان کردیا ان باتوں کو بہانہ
بناتے ہوئے شرپسند اور مخالف اسلام عناصر صدر مرسی اور اخوان سے نجات پانے
کے لیے اپنے سازشی منصوبے پر عمل شروع کردیا مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا
اس سازش کے اصل کردار محمد البرادعی، عمر و موسیٰ اور حمدین صباحی ہیں یہ
افراد صدر مرسی کی حکومت ختم کرنے مخالف حکومت مظاہروں اور صدارتی محل پر
حملے کی کارروائیوں کو منظم کیا۔ عمر وموسیٰ نے اسرائیل سابق وزیر خارجہ
زیپی لیونی سے ملاقات کی تھی مصر کے ممتاز قانون داں حامس صادق نے دعویٰ
کیا ہے کہ صدر مرسی کے احتجاج اور تحریک چلانے کا منصوبہ اسرائیل نے تیار
کیا ہے۔ اس سلسلے میں شاہ فاروق کے دور کے انگریز نواز سیاست داں اور وزیر
اعظم نجاس پاشاہ مرحوم کی وفد پارٹی کے دفتر میں یہ سازش تیار کی گئی تھی۔
وفد پارٹی کے صدر السعید البدوی اور ججوں کے کلب کے صدر احمد الزندبھی اس
بغاوت کی صیہونی سازش میں شریک ہیں تاکہ حسنی مبارک کے تاریک دور کو واپس
لایا جائے اور مصر اسرائیل کا غلامی کی حدتک وفادار بن جائے۔
مصر کا نیا دستور ہر لحاظ سے جمہوری و حقوق انسانی کے تمام تقاضوں کو پورا
کرتا ہے لیکن اس دستور کو بہانہ بناکر اخوان اور مرسی کو ہٹانے کی سازش
کرنے والے صدر اصل اس بات پر بہت ناراض ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ
قانون سازی کا اصل ماخذ اسلامی شریعت ہوگی بھلا یہ بات اسرائیل و مغرب نواز
لادین گروہوں عناصر کو کیسے برداشت کرتی؟ اس لیے حکومت کی جانب سے دستور کا
اصل سودہ عوام کے سامنے لانے سے قبل ہی ان سیکولر شرپسندوں نے ایسی لا
تعداد جعلی اور قابل اعتراض کاپیاں عوام میں تقسیم کردیں جس دستور کی اہم
دفعات کو مسخ کردیا گیا ہے اور یہ خیال پیش کیا جارہا ہے نیا دستور اس طرح
تیار کیا گیا ہے جو کسی آزاد خیال معتدل مزاج مصری کے لیے قابل قبول نہیں
ہے۔ اس دستور میں آزادیاں اور حقوق سلب کرلیے گئے ہیں۔
مصر کی آئین ساز کمیٹی کے معتمد عمومی (جنرل سکریٹری) عمرودران نے العربیہ
ٹی وی کو اصلی و نقلی دستور کی کاپیاں بتاتے ہوئے کہا کہ مسخ شدہ دستور کی
کاپیوں میں بڑے پیمانے پر جعل سازی کی گئی ہے۔ مسودہ جگہ جگہ بدلاگیا ہے
دستور کا اصلی چہرہ بگاڑ کر صدر مرسی کے خلاف بھڑکانے کی بھر پور کوشش کی
گئی ہے۔ اس مذموم سازش میں عدلیہ کے چند جج بھی شامل ہیں۔ امریکہ اور
اسرائیل نے اس مہم کے لیے جی کھول کر پیسہ خرچ کیا ہے۔ متنازع صدارتی فرمان
واپس لینے کے باوجود دستور کو ریفرنڈم کے عوامی و جمہوری طریقے کی مخالفت
جاری ہے یہ دراصل صدر مرسی، اخوان اور اسلام کے خلاف سازش ہے۔ |