خوش فہمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن؟

ایسا لگتا ہے یا خوش فہمی ہے کہ کراچی میں گذشتہ تین دہائی سے جاری قتل و غارت گری کے تسلسل کے خاتمہ کا وقت قریب ہے۔شائد مکافاتِ عمل کا آغازبھی ہوچکا ہے۔ وہ ظلم جس کے حوالے سے متحدہ کے قائد الطاف حسین چیخ چیخ کردوہائی کرتے تھے اور ظالموں کو مخاطب کرکے کہاکرتے تھے کہ یاد رکھو” ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے“کے مٹنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔

لندن میں متحدہ کے انٹر نیشنل سیکریٹریٹ پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے چند روز قبل چھاپہ مار ا تو دوسری طرف کراچی میں رینجرز اچانک مختلف علاقوں کا محاصرہ کرکے چھاپہ مار کارروائیاں کررہی ہے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں ہر علاقے سے” ایک سیاسی جماعت “کے کارکنوں اور عہدیداروں کی گرفتاری اور ان کے قبضے سے خطرناک اسلحہ برآمدہونے کی خبریں میڈیا پر آرہی ہے۔یہ سیاسی جماعت کون سی ہے اس کا نام لیتے ہوئے میڈیاکیوں خوفزدہ ہے یا خوف کی وجہ سے اس کا نام لیتے ہوئے احتیاط کررہا ہے؟ اس کی وضاحت آنے والے دنوں میں ہوجائے گی۔

خدشات کے عین مطابق چھاپہ مار کارروائیوں کے ساتھ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ساتھ ہی بھتہ وصولی سے جڑے ہوئے واقعات بھی ہونے لگے ہیں۔رینجرز کی کارروائیوں میں شدت آنے کے ساتھ مزید خدشات موجود ہیں کہ قتل یا نشانہ وار ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔جبکہ بھتہ طلبی کی شکایات بھی بڑھ جائیں گی۔ عام خیال یہ ہی ہے کہ یہ سب ردِعمل کے طور پر ہوگا؟۔ دہشت گرد جو بھی ہوں وہ اپنی طاقت کا اظہار کرنے کاکوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ انہیں کسی کے مرنے یا پریشان ہونے سے کوئی غرض نہیں ہے ۔وہ صرف اپنی پالیسی کے مطابق ری ایکشن کرتے ہیں۔ان کا خیال ہے بلکہ انہیں یقین ہے کہ طاقت کا جواب طاقت سے دینے کے نتیجے میں ہی ان کی بقاءہے۔قانونی اور غیر قانونی اقدامات اِن کا ایشو نہیں ہے۔ یہ یقین انہیں کیوں ہے؟ یہ ایک لمبی بات ہے لیکن مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تحفظ کرنے والے” بہت طاقت ور ہیں“۔تحفظ کی یہ سہولیات ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل دونوں سطح پر بیک وقت انہیںحاصل ہیں۔مقامی طور پر تحفظ کرنے والے اسمبلیوں میں موجود ہیں اور بین الاقوامی طور بات پہنچے تو سپر پاور امریکہ بھی ان کا پشت پناہ نظر آتا ہے۔ان لوگوں کو اس بات پر پختہ یقین ہے کہ کچھ بھی کرلو ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جیل ہوگئی تو پیرول پر رہا ئی تک کی سہولت ملنے کا انہیں یقین ہے۔ان کا بھرم ہے کہ ان کا لیڈر ،لیڈروں کا باپ ہے،وہ نہ جھکتا ہے نہ ڈرتا ہے اور نہ ہی بکتا ہے۔ ملکی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی اہم شخصیات بھی اس کے درپر حاضری دینے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ جسکی وجہ طاقت ہے اور اس طاقت نے انہیں ہر درد کے علاج تک رسائی دی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ غیر قانونی ،غیر انسانی اور غیراسلامی کاموں کی سہولت ایسے لوگوں کو کب تک حاصل رہے گی؟۔شیطانی صفت رکھنے اور کام کرنے والا فرعون تھا ،اس کا بھی وقت آیا اور قصہ تمام ہوا۔رہی آخرت وہ تو تباہ و برباد ہوکررہے گی۔یہ ایمان ہے ہر اس شخص کا جو ایک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تسلیم کرتا ہے۔

لیکن شائد ایسے لوگوں کو آخرت کی باالکل فکر نہیں ہے جو انسانوں کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں، جو جھوٹ سچ کی طرح بولتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انہیں قیامت پر اور موت کے بعد کی زندگی پر یقین بھی نہ ہو؟ ۔ دنیا میں کسی انسان کو اپنا آقا ماننے والوں کو بھلااللہ اور اس کے نظام پر کیا یقین ہوگا؟

چلیں چھوڑیں بات کرتے ہیں لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پراسکاٹ لینڈ یارڈ کی کارروائی کی ۔

ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے لیئے ایم کیو ایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ پر پولیس نے چھاپہ مارا تو سب حیران اور پریشان ہوگئے جبکہ مخالفین کی بانچیں کھل گئیں۔ بہرحال میڈیا ایسی خبر کو کس طرح چھپاسکتا تھا۔

خبر یہ نہیں ہوتی کہ کتے نے کسی انسان کو کاٹ لیا بلکہ صحافتی اصول کے تحت خبر یہ ہے کہ کوئی انسان کتے کو کاٹ لے ۔ویسے میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ایم کیوایم کے دفتر پر چھاپے کی خبر پر اتنا حیران اور پریشان ہونے یا اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ایم کیو ایم بھی تو انسانوں کی پارٹی ہے اور غلطیاں یا غیر قانونی کا م اللہ کی زمین پر انسان ہی کرتے ہیں۔ جانوروں میں ایسے کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔اگر وہ قانونی اور غیر قانونی کی تمیز رکھتے تو وہ جانور نہیں کہلاتے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے اور ایم کیو ایم سے بھی لیکن ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے کی خبر کو اس طرح چھپایا گیا جیسے کسی مقدس یا انوکھی جگہ پر چھاپہ کی خبر ہو۔پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی اکثر یت نے اس خبر کو اس قدر احتیاط سے نشر کیا یا چھاپہ جیسے اس کو خبر بنانا کسی مقدس ہستی یا جگہ کی توہین کا احتمال ہو۔اس خبر کو چھپانے اور متعلقہ افراد کی طرف سے اس کی تردید کئے جانے سے شکوک شبہات میں اضافہ ہوا ۔بعدازاں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے خود ہی وضاحت کے طور پر سارے معاملے کی تصدیق کردی اور کہا کہ اسکاٹ لینڈ ان کی اجازت سے ان کے دفاتر کی تلاشی لی ۔ بہتر ہوتا کہ یہ ہی بات پہلے متحدہ کی طرف سے آجاتی۔؟

بہرحال بی بی سی نے صحافتی تقاضوں کا خیال کیا اور اپنی ویب سائیٹ پر یہ خبر شائع کی۔خبر کے مطابق متحدہ کے لندن آفس پر چھاپے کے حوالے سے ایم کیوایم کے ترجمان مصطفی عزیزآبادی نے 8 دسمبرکو بی بی سی کے اس سوال پر کہ کیا لندن میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے بزنس ایڈریس پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے؟انہوں نے جواب دیا تھا کہ ” ایسی کوئی بات نہیں ہے“۔

مصطفی علی نے اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ” کل سے اخبار والے یہ خبر اڑاتے پھر رہے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے“۔

لیکن بی بی سی نے صحافتی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی خبر میں یہ بھی واضع کردیا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈپولیس نے جمعہ کو لندن میں واقع ایم کیو ایم کے دفاتر پر چھاپہ مارنے کی تصدیق کی ہے اور بتا یا ہے کہ پولیس نے دو روز تک تلاشی کا کام کیا ہے۔خبر کے مطابق یہ کارروائی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں کی گئی تھی۔

اس بحث میں پڑھنے اور نہ ہی اس بات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے کہ ایم کیوایم کے ترجمان نے اس واقعہ کی مکمل طور پر تردید کیوں کی تھی ؟۔بس ایم کیو ایم کے بیانات خصوصاََ کراچی کے واقعات کے حوالے سے بیانات کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

ایم کیوایم کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ پر لندن پولیس کی کارروائی کی خبروں کے دوران پاکستان کے وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا بیان آیا جو کہ نہ صرف حیرت انگیز بلکہ شرمناک بھی ہے۔ حیرت انگیز اس لیئے کہ وزارت خارجہ کا بیان عمواََ بین الاقوامی امور کے خارجی تعلقات کے حوالے سے سامنے آتا ہے ۔لیکن اس بار لندن پولیس کی ،مقامی قتل کے سلسلے میں کی جانے والی کارروائی کے باعث آیا ہے۔ اپنے اس بیان میں ترجمان نے کہا کہ ایم کیوایم حکومت کی اہم اتحادی ہونے کے ساتھ ملک کی بڑی سیکولر جماعت بھی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ ترجمان نے ایم کیوایم کی اس شناخت کو اس مرحلے پر کیوں واضع کیا جب لندن میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔ممکن ہے کہ غیر مسلم عالمی قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہو کہ ایم کیوایم امریکہ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت ہے جیسے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت۔میرے خیال میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس طرح کا بیان جاری کرکے ایم کیوایم اور اس کے قائد کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے؟۔ کیونکہ ایم کیو ایم کے قائد و بانی کے بارے میں اس کے لاکھوں کا کارکن اور حمایتی یہ ہی سمجھتے ہیں کہ وہ دین ِاسلام کے داعی ہیں ۔ کیونکہ الطاف حسین کا اندازِ تلاوت بھی منفرد ہوتا ہے اور وہ اکثر خطاب میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ایسی صورت میں کوئی انہیں یا ان کی پارٹی کو سیکولر یا لادین کیوں کر سمجھے گا؟یقینا وزارتِ خارجہ کا یہ بیان انہیں ”بلا وجہ بدنام“ کرنے کی کوشش بلکہ سازش ہے۔لیکن نا جانے کیوں ایم کیوایم یا متحدہ نے اس بیان کی کوئی تردید یا مذمت نہیں کی ۔بس ایک یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں ماننا پڑرہا ہے کہ ایم کیوایم کو لادین قرار دینا کوئی سازش نہیں ہے بلکہ سب کو خصوصاََ امریکہ کو یہ یاد دہانی کرانا مقصود ہے کہ ایم کیو ایم ایک سیکولر جماعت ہے۔

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے دور کے خاتمے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولرزم، سوشلزم اور جمہوری لبرلزم نظریات کی سیاسی جماعتوں کی حکومت امریکہ کی آشیربادکے باعث ہی قائم ہوسکی ۔ اسی وجہ سے میاں نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ کواس حکومت سے دور کردیا گیا تھا ،کیونکہ امریکہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ بھی حکومت کی اتحادی ہو۔میں یہ بات اس قدر یقین سے اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں 2008 کے انتخابات کے چند ماہ بعد ہی امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہمارے ملک کی صورتحال کے بارے میں غور کیا گیا تھا اس اجلاس میں اس وقت کی امریکن سینیٹر شیلا لی جیکسن نے بتایا تھا کہ” میری جنرل مشرف سے بات ہوئی ہے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے پر تیار ہیں ، ہمیں پیپلز پارٹی کو سراہانا چاہئے لیکن میاں نواز شریف پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے“۔

حالات و واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کا پورا اسکرپٹ اور حکومتی کرداروں کا فیصلہ بھی امریکہ کی مرضی و منشاءکے مطابق ہو ا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ تینوں اتحادیوں کے درمیان شدید قسم کے اختلافات اور تحفظات کے باوجود ایم کیوایم ،اے این پی اور پیپلز پارٹی کا یہ اتحاد چل رہا ہے ۔اس اتحاد کی مانیٹرنگ ایک وفاقی وزیر کررہے ہیں جو اپنی ذات میں ”انجمن“ ہیںبعض افراد یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل میں وہ امریکہ کی ڈیوٹی کررہے ہیں دکھاوے کے لیئے انہیں وفاقی وزیر داخلہ بنایا ہوا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ بنیاد پرست یا قدامت پسند نظریات پر یقین رکھتے ہیں تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں سورة اخلاص بھی پڑھنا نہیں آتی ۔

خیر بات ہورہی تھی ایم کیوایم کے دفتر پر لندن پولیس کی چھاپہ مار کارروائی کی ۔اس ایکشن کے نتیجے میں لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ لندن سے کوئی بڑی خبر آئے گی اور اس خبر کے ساتھ ہی ملک کی سیاست میں ہلچل مچ جائے گی۔ کراچی میں سب کچھ بدل جائے گا یا تبدیلی کی ابتداءہوجائے گی۔

متحدہ ماضی میں جماعت اسلامی کو ملک کے لیئے سیکورٹی رسک بھی قرار دیتی رہی لیکن اب خود لندن پولیس کے لیئے مشکوک جماعت بنی ہوئی ہے۔جبکہ وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان کے بعد وہ واضع طور پر ایک” لادین “جماعت قرارپائی ہے۔متحدہ نے وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان پر کسی قسم کاردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس لیئے یقین کرلینا چاہئے کہ متحدہ ملک کی لادین جماعت ہے۔لیکن کیامتحدہ کے جلسوں میں شرکت کرنے والے ہزاروں افراد کو بھی یہ علم ہے کہ متحدہ لادین جماعت ہے؟لادین کا مطلب واضع ہے کہ کسی دین کو ناماننے والا۔ کیا ان جلسوں میں نظر آنے والے متعدد نامور علماءبھی یہ بات جانتے ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہے ۔لیکن ایم کیوایم ہر اجتماع کے بعد یہ ہی تاثر دیتی ہے کہ تمام مذاہب کے لوگ نہ صرف اس کی پالیسی سے متفق ہیں بلکہ ان جلسوں میں شریک تمام ہی ان کے حمایتی بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس تاثر سے متعدد دین دار لوگوں کی ساکھ متاثر ہورہی ہے ۔ایم کیوایم دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے اجتماعات کی تصاویر سے دنیابھر میں یہ ظاہر کرتی کہ لوگ اس سے انتہائی محبت کرتے ہیں اور وہ ان لوگوں کو جب چاہے اکھٹا کرسکتی ہے۔

الطاف حسین وہ شخصیت ہیں جو تین تک گنتی مکمل ہونے تک ہزاروں کے مجمے کو خاموش کروادیتے ہیں۔وہ اور ان کی پارٹی اپنے مطالبات حکومت سے منوانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی پارٹی اپنے قیام سے آج تک اپنے کارکنوں، شہر کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کی جانوں کا تحفظ نہیں کرپائی ؟۔سب کو یاد ہوگا کہ ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں الطاف حسین کی شبیہ پتوں اور پتھروں پر نظر آیا کرتی تھی۔ایسا تاثر ملتا تھا جیسے وہ کوئی کرشماتی شخصیت ہیں انہیں اس دور میں ان کے چاہنے والے ” پیر صاحب “ کہا کرتے تھے ۔اچھا ہوتا کہ پیر صاحب آج بھی کرشمے دکھاتے اور اپنے کرشماتی علم کے ذریعے شہر کو دوبارہ امن کا گہوارہ بناسکتے، شہریوں اور اپنے کارکنوں کا سکون واپس لوٹا دیتے ، کاش وہ بھتہ کی وصولی رکواسکتے یا بھتہ مافیا کو گرفتار کرواسکتے ؟کاش کہ الطاف بھائی طالبان کی ان کارروائیوں کو رکواسکتے جن کا ذکر وہ چند روز قبل تک زور شور سے کیا کرتے تھے ؟کاش وہ اپنے سینکڑوں لاپتہ کارکنوں کا جن کے بارے میں پرویز مشرف کی حکومت سے قبل تک بہت شور تھا پتا لگواسکتے اور کاش اپنے کرشمے سے لندن پولیس کو یہ کہنے پر مجبور کرسکتے کہ ان کے قریبی ساتھی کے قتل کا ان سے اور ان کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے؟ قتل ،قاتل یا اس کے بارے میں کسی قسم کے شواہد کاایم کیوایم سے دور کا واسطہ نہیں ہے ۔وہ اور ان کے ساتھی تو خود اپنے عزیز رہنماڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں کو تلاش کررہے ہیں۔اس لیئے ایم کیوایم کے دفاتر اور اس کے لوگوں پر شک نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرچکی ہے ، اس کے ردِعمل میں کراچی ، حیدرآباد میں جو کچھ ہوا وہ صرف طاقت کا اظہار تھا۔ جی ہاں وہ ہی طاقت جس کا ذکر اس کالم کے آغاز میں کیا گیاہے ۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165933 views I'm Journalist. .. View More