ٓایک نہایت ہی تازہ رپورٹ جسے
اقوامِ متحدہ کی غذائی اور زرعی تنظیم نے جاری کیا ہے اس کے مطابق ” پانی “
دن بہ دن ایک کمیاب اور قیمتی شئے بنتا جا رہا ہے اور اس کی زیادہ مانگ اور
بڑھتی ہوئی قلت کے لئے سنگین خطرات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اس بات سے
قطع نظر کہ پانی کی کمیابی کے اسباب میں خود ترقی کا کتنا عمل دخل ہے یہ
بات تو حقیقت ہے کہ پانی کے ضائع ہونے کو اگر نہ روکا گیا تو آج بھی اس
دنیا کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ پینے کے صاف اور بے ضرر پانی سے محروم
ہیں۔ اور ہمارے ملک میں تو اب بھی کئی ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں سرکاری
پانی مہیہ ہی نہیں ہے۔ جبکہ ایسے کروڑوں لوگ بھی موجود ہیں جو نہ صرف پانی
زیادہ خرچ کرنے کے عادی ہیں بلکہ اسے ضائع بھی بے تحاشہ کرتے ہیں۔ مندرجہ
بالا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض ملکوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت
اور پانی کا غلط استعمال اور پانی کی محدود فراہمی کی وجہ سے زراعت، صنعت
اور شہروں کے درمیان مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے بعض
جگہ تصادم کی نوبت آجاتی ہے۔ اس رپورٹ کے بعض جزو اسی رویے کی غمازی کرتا
ہے۔
زندگی اور صحت کو برقرار رکھنے کیلئے ہوا کے بعد سب سے زیادہ لازمی امر
پانی ہے۔ تندرستی اور صحت کو قائم و دائم رکھنے کیلئے ہمیں پاک صاف ہوا کی
طرح خالص اور پاکیزہ پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح غلاظت کے ڈھیر کے
پاس ہوا آپ کی سانسوں کی طرف بڑھے اور آپ سانس لیتے رہیں تو یقینا آپ بیمار
پڑ جائیں گے بالکل اسی طرح گندا اور بدبودار پانی پینے سے بھی ہماری
تندرستی بگڑ جائے گی۔ معدے اور آنتوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پروان
چڑھیں گی، بدہضمی ہونا عام سی بات ہے ، دست و قے کی بیماری کے گھیرے میں
آجاتے ہیں، یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات وبائی امراض کے خطرناک
جراثیم کی آمیزش پانی میں ہو جاتی ہے جسے پینے سے انسان ٹائیفاڈ اور ہیضے
جیسے امراض میں بھی گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہماری صحت کیلئے خالص اور
پاکیزہ پانی ہماری بقائے حیات کیلئے انتہائی ضروری چیز ہے۔ ویسے تو پانی
میں خود کوئی غذائیت موجود نہیں ہوتا مگر پھر بھی یہ ہماری غذا اور خون کا
ضروری حصہ ہے۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ دنیا کے آبی ذخائر کا دو تہائی حصہ
کھیتی باڑی پر صرف ہو جاتا ہے ایک ایسا جھوٹ ہے جو صرف اس لئے بتایا جا رہا
ہے کہ اصلی مجرموں کی طرف انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ ویسے تو ہمارے یہاں بھی
پانی کے بڑے بڑے چور موجود ہیں اور وہ اتنے قد آور ہیں کہ کوئی بھی ان کے
خلاف کاروائی نہیں کرتا، جس کی وجہ سے ایسے علاقے جہاں پانی پہنچنے کا نام
و نشان بھی نہیں ہے وہ علاقہ آج بھی پانی سے محروم ہے۔ پانی کا ایک دن میں
بڑے ہوٹلوں میں کتنا خرچ ہوتا ہے اس کا شمار بھی اس رپورٹ میں کیا گیا ہے
یوں آپ اندازہ لگائیں گے پانی کا یومیہ خرچ اگر ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں
اس قدر زیادہ ہے تو عام جگہوں پر کتنا ہوگا۔ یعنی جتنا پانی شراب خانوں میں
پچاس دن چلتا ہے وہ ایک سو دیہی خاندانوں کی چار سال تک کی ضرورتوں پر محیط
ہوتی ہے! گو کہ ہمارے یہاں شراب پر پابندی ہے اس لئے اس قدر خرچ کم از کم
ہمارے یہاں تو اس مد میں نہیں ہے،
ہماری زندگی میں پانی ایسا لازمی امر ہے جسکا کام ہمارے جسم میں خون کو
گاڑھا اور خشک ہونے سے بچاتا ہے۔ چونکہ دل کی دھڑکن کے ساتھ خون ایک خاص
مقدار میں جسم کی رَگ رَگ میں اور نس نس میں گردش کرتا ہے اس لئے اسے گاڑھا
ہونے سے بچانے کیلئے پانی کا استعمال زیادہ ہونا چاہیئے۔ ہماری زندگی کیلئے
پینے کا پانی صاف ستھرا اور ہر قسم کی ملاوٹ اور جراثیم سے پاک ہونا
چاہیئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نہانے کے دوران شاور کے ذریعے پانی کے ساتھ
جسم میں منتقل ہونے والے وائرس سے ہارٹ فیل کا خدشہ کئی گنا بڑھا جاتا ہے ۔
اس لئے نہانے کے دوران پانی میں پیدا ہونے والا انفیکشن انسانی جسم میں بھی
منتقل ہو جاتا ہے جو چھوٹے چھوٹے مسائل کے بعد دل کیلئے بڑا خطرہ پیدا کرنے
کا سبب بنتا ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی میں ایک وائرس کا بڑا چرچہ رہا جو
ناک کے ذریعے انسانی دماغ میں داخل ہوکر اسے موت کے منہ میں لے جاتا ہے ۔
جسے نگلیریا وائرس کا نام دیا گیا تھا اور کئی اموات بھی اس وائرس کی وجہ
سے ہو چکی ہیں۔ مگر واٹر بورڈ کی بروقت ہنگامی اقدام سے یہ مسئلہ ٹھیک
ہوگیا ہے اور پانی میں کلورین کی مقدار بڑھا دیا گیا ہے جس سے اس مہلک
امیبا کی پرورش رُک گئی ہے۔
انڈیا اس وقت پاکستان کے مقابلے میں باسٹھ فیصد ڈیمز تعمیر کر چکا ہے۔ اور
سنا یہ جاتا ہے کہ انڈیا اب جب چاہے پاکستان کو اس کے حصے کے پانی سے محروم
کر سکتا ہے حالانکہ ڈیموں کی تعمیر نہ صرف ناجائز ہے بلکہ سندھ طاس معاہدے
کی خلاف ورزی بھی ہے۔ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان میں ڈیموں کی تعداد
انتہائی خطرناک حد تک کم ہے ، اگر کسی حکومت نے ان کم ڈیموں کے علاوہ مزید
ڈیم بنان بھی چاہا تو وہ کرپشن اور ذاتی مفادات کے سیلاب میں بہہ کر نہ
جانے کہاں چلا گیا کہ کاغذوں میں بھی شاید اب اس کا نام و نشان نہیں ہے۔
پاکستان کی ایک بدقسمتی اور بھی ہے وہ یہ کہ جتنے بھی دریا پاکستان میں بہہ
رہے ہیں وہ سب کے سب انڈیا کے راستے سے ہوکر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کی قلت ہمیشہ سے ہی ہے اور صوبے آپس میں پانی کے مسئلے پر
الجھتے رہتے ہیں مگر مستقبل قریب میں پانی کی کمیابی کی طرف کوئی سنجیدگی
سے سوچنے والا نہیں ہے۔ پاکستان میں گِنے چُنے ڈیمز ہیں جہاں کچھ عرصے
کیلئے ہی پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے ۔ گرمیوں کے موسم میں ویسے ہی پانی کا ناغہ
شروع کر دیا جاتا ہے بلکہ سخت گرمیوں کے موسم میں تو گھروں میں بھی پانی
نہیں پہنچ پاتا۔ اس لئے ضرور ی ہے کہ متفقہ طور پر ہمارے ارباب پانی کے
مسئلے پر بیٹھیں اور اس کا سدّباب کریں ، مزید ڈیمز بنائیں چاہے چھوٹے
چھوٹے ہی سہی، تاکہ مستقبل میں ہمیں پانی کا وافر مقدار دستیاب ہو سکے۔کالا
باغ ڈیم کو ہی لے لیجئے ، اس پر سابق چیئرمین واپڈا اور آبی ماہر انجینئر
شمس الملک کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بنا کر بھارت سے زیادہ ہمارے اپنے
حکمران اور سیاست دانوں نے ملک سے زیادتی کی ہے، ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے
ہیں کہ یہ منصوبہ پنجاب کا نہیں بلکہ واپڈا کر تجویز کردہ ہے اور اسے قومی
مفاد میں ضرور بننا چاہیئے یہ بات موصوف نے لاہور چیمبر میں خطاب کے دوران
کہی تھی۔ اب واللہ اعلم کہ یہ منصوبہ سیاست کی نظر ہو رہا ہے یا واقعی اس
کی ضرورت ہے۔ راقم کے خیال میں اگر تین صوبے اس منصوبے پر لیت و لعل سے کام
لے رہے ہیں تو ضرور اس کی مستند وجوہات بھی ہونگی اس لئے اس منصوبے کو مو
¿خر کر دیا جائے مگر خاموش بیٹھنے کے بجائے مزید دوسرے ڈیمز ضرور بنائیں
جائیں کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ |