جمہوریت بمقابلہ آمریت
کالے کوٹوں اور بھاری بوٹو کی جنگ میں کالے کوٹوں کی فتح
مشرف شکست کے شرف سے فیضیاب ‘ افتخار چوہدری کو بحالی کا افتخار مل گیا
سولہ مارچ2009ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک یادگار دن کے طور پر یاد
رکھا جائے گا کیونکہ یہ پاکستان کی عوام کی فتح کا دن ہے اور اس دن ہماری
نسلوں کی قسمت کے سنورنے کا فیصلہ ہوا ۔ یہ دن قائداعظم اور اقبال کے
خوابوں کی تعبیر کا دن ہے۔اس دن ہونے والے فیصلے سے ساٹھ برسوں کے بعد پہلی
بار قائداعظم کی بے چین و بے قرار روح اور ان تمام شہیدوں کی ارواح کو بھی
قرار ملا ہوگا جنہوں نے اس وطن کی بنیادوں کو اپنے لہو سے سینچا تھا اور ان
تمام شہیدان جمہوریت کی روحوں کو بھی تسکین ہوئی ہوگی جنہوں نے جمہوریت کے
لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اس دن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی روح
بھی آسودہ ہوئی اور ان شہید وکلاء اور سیاسی کارکنوں کی روحوں کو بھی چین
نصیب ہوا جنہوں نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا خواب آنکھوں میں سجائے
اس دنیا کو چھوڑا۔
مملکت خداداد کے نصیب نے اس دن ایک ایسے آفتاب کوخوش آمدید کہا،جس کیلئے
گزشتہ دوسالوں سے جدوجہد کی جارہی تھی۔ 15مارچ کی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب
تک پوری قوم نے باوجود تشویش اور کرب میں مبتلا رہنے کے جو جدوجہد کی اسے
بالآخر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تقریرِ پرتاثیر سے آرام ملا۔ اس سچی
صبح نے ساری قوم کی خواہشات پرچھائی بدگمانی کی دبیز دھند کو لپیٹ کر مطلع
اس طرح صاف کردیا،کہ ہر مطمئن شخص پاکستان کی تقدیر اور جمہوریت کی روایت
سے پر امید ہوگیا۔ یہ دن قوم کیلئے اس افتخار کا دن ہے، جو وکلاء، سول
سوسائٹی اور سیاسی کارکنان نے قوم کے نصیب میں لکھا۔ آزاد عدلیہ کا وہ خواب
شرمندہ تعبیر ہوا، جس کیلئے ہزاروں لوگوں نے دوسال تک لگا تار احتجاج کیا۔
چند روز سے ملک جس مخدوش صورتحال کا شکار تھا 15مارچ کے غروب ہونے والے
سورج نے اس صورت حال کو اپنے ہمراہ تاریکیوں میں کھینچ لیا اور 16مارچ کے
طلوع ہونے والے آفتاب نے کیلئے انصاف کی راہ کو ہمیشہ کےلئے منور کردیا۔
اٹھارہ فروری کے بعد پاکستان جمہوریت کی کرن سے مستفید تو ضرور ہوا، لیکن
مکمل روشنی کیلئے ایک سال کا انتظار جہاں تشویشناک تھا، وہیں امید سے بھی
سرفراز رہا۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات کے اتار چڑھاؤ
سے بظاہر یوں محسوس ہوتا رہا کہ شاید اس ملک کی تقدیر میں کاتب تقدیر نے
جمہوریت کی پرداخت لکھی ہی نہیں، لیکن، صد شکر کہ طویل جدوجہد کے ثمرات سے
جمہوریت کا چہرہ منور ہوا
اور لانگ مارچ کا اونٹ فعال و پر اثر کوششوں اور مثبت فیصلوں کے باعث پر
امن انداز میں درست کروٹ بیٹھ چکا ہے اور معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی
بحالی کے بعد تصادم کی وہ فضا جو کچھ عرصہ سے ملک کے طول و عرض میں جاری
تھی ‘ کامیابیوں کے بھنگڑوں اور خوشی و مسرت کے اظہار کے روپ میں ڈھل کر
عوام و آسودہ و سرشار کرگئی اور کچھ عرصہ قبل تک اپنے مستقبل سے مایوس
دکھائی دینے والی پاکستانی قوم پھر سے پر امید اور زندہ دل دکھائی دینے لگی
‘ ایک دوسرے پر طنزیہ فقرے کسنے اور الزامات کے ذریعے ایک دوسرے کی کردار
کشی کرنے والے سیاستدان ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے لگے ‘ افتخار
چوہدری کی بحالی کو ایک دوسرے کی فتح قرار دیا گیا ‘ کہیں نفرت ‘ نہ تعصب ‘
کہیں جنگ نہ تصادم ‘ کہیں ہوس اقتدار نہ اقتدار کی رسہ کشی ۔یہ کیا ہوا ؟
کیوں ہوا ؟ کیسے ہوا کہ ” پل بھر میں جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا “ کے مصداق
وطن عزیز کی مکدر فضا وشگوار ہوگئی ہے۔ یہ سب ایک فیصلے کی وجہ سے ممکن ہوا
اور اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ ارباب اختیار کا ایک درست فیصلہ ‘ ایک مثبت
اقدام ‘ صحیح سمت ایک قدم قوم کو بحرانوں سے نکال بھی سکتا ہے ‘ بچا بھی
سکتا ہے اور بحرانوں میں مبتلا بھی کرسکتا ہے ۔ دوسال سے جاری وکلاء تحریک
‘ اس میں شامل سول سوسائٹی کی خواہش و مطالبے ‘ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر
سیاسی جماعتوں کی وکلاء تحریک میں شمولیت اور 15مارچ کو ایک نقطہء اتفاق کے
تحت لاہور میں جمع ہونے والے عوامی سمندر نے آصف زرداری سے وہ جمہوری فیصلہ
کراہی لیا جو قوم کے بہتر حال اور خوشحال مستقبل کا ضامن ثابت ہوتا ہے اور
صدر زرداری نے قوم کی خواہشات کے آگے سرتسلیم خم کر کے جہاں ایک جمہوری
حکمران ہونے کا ثبوت دیا وہیں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اتحاد و یکجہتی
اقوام کی تاریخ کو کس طرح روشن اور انتشار و افتراق کس طرح سے ظلمتوں سے
مزین کرتا ہے یہ بات بھی سمجھ آگئی کہ حالات بدلنے کے انتظار میں حالات
نہیں بدلتے البتہ وقت بدل جاتا ہے ‘ اسلئے حالات بدلنے کے لئے انتظار کی
نہیں بلکہ عزم و حوصلے ‘ جرات واظہار اور عمل و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
یہ بھی سبق ملا کہ آمریت اور جمہوریت کا فرق کیا ہوتا ہے کہ آمریت صدا ہٹ
دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو اپنے آگے جھکاتی اور جمہوریت تما تر
تاویلوں کے باوجود عوام کے فیصلوں کے آگے سرجھکانے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
آمر وقت جنرل مشرف کی خواہش اقتدار کے ہاتھوں معزول کئے جانے والے پاکستان
چیف جسٹس چوہدری افتخار کی بحالی کا وہ وعدہ جو بےنظیر بھٹو شہید نے اپنی
شہادت سے قبل چیف جسٹس بحالی تحریک کو لیڈ کرتے ہوئے چوہدری افتخار کے گھر
کے باہر کھڑے ہوکر کیا تھا کہ ”ہم چیف جسٹس چوہدری محمد افتخار کو اپنے
عہدے پر بحال کرا کر ان کے گھر پر پاکستان کا جھنڈا لہرائیں گے “ پورا
ہوچکا ہے اور پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے
سوا سال اور پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے ٹھیک ایک سال بعد ایگزیکٹیو
آرڈر کے ذریعے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی نوید 16مارچ 2009
ءکی صبح 5:53 منٹ پر اپنے ایک ٹی وی خطاب کے ذریعے وزیراعظم پاکستان یوسف
رضا گیلانی قوم کو دے چکے ہیں ۔ مذکورہ خطاب میں جہاں انہوں نے اس بات کا
اعتراف کیا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی محترمہ کی خواہش ہی نہیں
عوام سے وعدہ بھی تھا جس کی آج تکمیل کی جارہی ہے وہیں انہوں نے اس بات کا
یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور صدر آصف زرداری
محترمہ کی خواہش اور انتخاب صدارت سے قبل کئے گئے اپنے وعدے کی تکمیل کےلئے
معزول چیف جسٹس کی بحالی عمل میں لانا چاہتے تھے مگر جسٹس ڈوگر کی بحیثیت
چیف جسٹس کی جانے والی تقرری اس راہ میں حائل ہوگئی کیونکہ حکومت نہیں
چاہتی تھی کہ کسی بھی جج کو اس کی مدت ملازمت کی تکمیل سے قبل ریٹائر کیا
جائے اب چونکہ وہ 21مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں اسلئے حکومت نے اس موقع کو
معزول چیف جسٹس کی بحالی کےلئے مناسب جانتے ہوئے اپنے وعدے کی تکمیل کردی
ہے اور میں افتخار چوہدری سمیت دیگر تمام معزول ججوں کی بحالی کا اعلان
کرتا ہوں “۔ وزیراعظم نے قوم سے اپنا یہ خطاب ایک ایسے موقع پر کیا جب
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی وکلا دھرنے
کی شکل میں تشدد میں ڈھلنے جارہی تھی اور اگر ایسا ہوجاتا تو اس کے نتائج
یقینا جمہوریت کے ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کے بھی مفاد کے خلاف نکلتے اس لئے
پاکستان کی سلامتی کی ضامن مسلح افواج نے پاکستان کو اندرونی خلفشار سے
بچانے کےلئے اپنا کردار ادا کیا اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز اشفاق
کیانی نے اپنی ذاتی کوششوں سے اس اَمر کو یقینی بنایا کہ صدرِ پاکستان آصف
زرداری نے مفاہمت کے عمل کو جاری رکھنے اور عوامی خواہشات کی تکمیل کےلئے
سرتسلیم خم کرتے ہوئے معزول چیف جسٹس کی بحالی کے ذریعے قوم سے کئے گئے
بےنظیر بھٹو کے وعدے کی پاسداری کا ثبوت دیا جس کا اعلان وزیراعظم یوسف رضا
گیلانی نے قوم سے اپنے ٹی وی خطاب میں کیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افتخار
چوہدری کے اپنے چیف جسٹس کے عہدے کی بحالی پوری قوم کی اُمنگ و آرزو بن چکی
تھی اور وکلا نے اس مقصد کےلئے جس تحریک کی بنیاد رکھی تھی وہ ایک قومی
تحریک کی شکل اختیار کرچکی تھی اس لئے اس تحریک کی خواہشات کو نظر انداز
کرنا یا اس کے جنوں کے راستے میں پل باندھنا ممکن نہیں تھا مگر یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف چیف جسٹس کی بحالی کا
عزم نہ کرتے اور پھر اس پر اس استقلال سے قائم نہ رہتے جس کا مظاہرہ گزشتہ
ایک سال سے قوم نے دیکھا تو پھر یقینا ابھی وکلاء کو اپنی منزل تک پہنچنے
میں مزید وقت لگ سکتا تھا جبکہ نواز شریف کے کردار کے ساتھ ساتھ اس تحریک
کی کامیابی میں تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی ‘ عوامی نیشنل پارٹی اور
بلوچستان و سندھ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں کے کردار کو بھی نہ
سراہنا یقینا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی کیونکہ ہر صوبے ‘ ہر شہر ‘ ہر علاقے
اور ہر گاؤں و ضلع سے تعقل رکھنے والے ہر طبقہ فکر کی یہی آرزو تھی کہ
معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرکے آزاد عدلیہ کے
خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے تاکہ عوام کو اس بات کا یقین ہوسکے کہ ساٹھ
سال سے ان کے ساتھ ہونے والے استحصال کا خاتمہ ہونے والا ہے اور پاکستان
میں وہ عدالتی نظام رائج ہوگا جو بروقت سستا اور دکھائی دینے والا انصاف
فراہم کرکے اس اسلامی و مشرقی معاشرے کی خوبیوں سے دنیا کو روشناس کرائے گا
اور حقدار کو اس کا حق دلانے کے تسلسل کے ذریعے وطن عزیز سے محرومیوں اور
ناانصافیوں کا خاتمہ کرکے عوام پاکستان کو وہ اعتماد ایقان بخشے گا کہ جس
کے بعد وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں پورے خلوص اور دیانتداری کے ساتھ اس خطہ
زمین کی ترقی و خوشحالی کے لئے وقف کر کے پاکستان کو مستحکم و ترقی یافتہ
ریاست کا وہ روپ دے سکیں جو بانی پاکستان کی خواہش تھی یہی وجہ تھی پاکستان
کی تمام سیاسی ‘ سماجی ‘ مذہبی اور دیگر جماعتوں سے وابستہ افراد افتخار
چوہدری کی بحالی چاہتے تھے یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس کا اعلان و اقرار کرتا
تھا اور کوئی ”پالیسی “ کا شکار ہوکر اپنی اس خواہش کو دل میں دبائے رکھنے
پر مجبور تھا مگر یہی ہر کس و ناکس کی آرزو و اُمنگ تھی اور عوام کی اس
آرزو و اُمنگ کی تکمیل کےلئے سرجھکا کر جہاں صدر زرداری نے حقیقی عوامی
رہنما ہونے کا ثبوت دیا‘ وہیں افتخار چوہدری کی بحالی کو یقینی بنانے کےلئے
وزیراعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے اندرونی و بیرونی طور پر مفاہمت اور
مذاکرات کے عمل کو ”ڈیڈ لاک “ سے بچاکر اس آرزو کی تکمیل کےلئے فضا سازگار
بنانے کا جو کردار ادا کیا اس نے ثابت کیا کہ وہ ایک محب وطن اور جمہوری
سیاستدان ہی نہیں بلکہ ایک بہت اچھے منتظم بھی ہیں اور اتفاق رائے پیدا
کرنے میں کمال مہارت رکھنے کی بنا پر پاکستان کےلئے ”موزوں ترین “ وزیر
اعظم بھی ہیں اور یہ صدر آصف زرداری کا پاکستانی قوم پر بہت بڑا احسان ہے
کہ انہوں نے انتشار میں بٹی ہوئی اس قوم کےلئے وزیراعظم کے طور پر ایک ایسے
فرد کو نامزد کےا جو اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا قائل اور قابل ہے جبکہ یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلح افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چیف
جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے عنوان پر پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں
کے درمیان پیدا ہونے والے نفاق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت کو رخصت کرنے
یا اس پر شب خون مارنے کی بجائے ان نازک حالات میں جس تدبر کے ساتھ دونوں
سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر سے قریب لاکر نہ صرف چوہدری افتخار کی بحالی
کی قوم کی آرزو کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے بلکہ جمہوریت اور وطن عزیز کو
بھی ممکنہ نقصانات سے بچاکر اس بات کا واضح ثبوت دیا ہے کہ وہ روایت پرست
نہیں بلکہ روایت شکن اور محب وطن ہی نہیں بلکہ دانا و دور اندیش بھی ہیں ۔
بہرکیف عوامی خواہشات کے بموجب اتفاق رائے ‘ صدر کے منشا و مرضی ‘ وزیراعظم
کی کوششوں ‘ آرمی چیف کی دانائی ‘ میاں نواز شریف کے استقلال ‘ سیاسی قوتوں
کے اتحاد ‘ وکلا کی انتھک واصولی جدوجہد ‘ خود چیف جسٹس افتخار چوہدری کے
شفاف کردار اور حق پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ بےنظیر بھٹو کی جمہوری جدوجہد
اور قیام جمہوریت کےلئے دی گئی قربانی کے طفیل چوہدری افتخار کی بحالی عمل
میں آچکی ہے اور 21مارچ کو وہ ایک بار پھر اپنے منصب انصاف کی مسند پر
براجمان ہوجائیں گے ۔ جو یقینا پوری قوم کی اور ہر اس فرد کی فتح ہے جو
پاکستانی قوم سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ پیپلزپارٹی ہو ‘ مسلم لیگ (ن) ہو ‘
مسلم لیگ (ق) ہو ‘ تحریک انصاف ہو ‘ جماعت اسلامی ہو ‘ عوامی نیشنل پارٹی
ہو ‘سندھ و بلوچستان کے دیگر قوم پرست جماعتیں ہوں یا وکلاءت حریک میں شامل
قائدین ‘ اکابرین اور شب و روز قربانیوں کی عظیم و لازوال داستانیں رقم
کرنے والے وکلاء ہوں یہ سب کی فتح ہے کیونکہ سب کامطالبہ ایک تھا اور ایک
ہے ”آزاد عدلیہ ‘ انصاف کےلئے ‘ استحصال سے نجات کےلئے ‘ حق کےلئے اور
خوشحالی کےلئے “۔ اور وکلاءتحریک و نوازشریف کے استقلال کے و سیاسی
دانشمندی اور عوام کے اتحاد کے نتیجے میں اب یہ نعرہ سچ ہونے جارہا ہے جس
پر ہم قوم کو جتنی بھی مبارکباد دیں کم ہے ۔
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے تاریخی خطاب میں نہ صرف تمام معزول ججوں
کو بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا،کہا بلکہ وہ دستاویز جس پرمحترمہ
بینظیر بھٹو شہید کے دستخط ثبت تھے۔ اس کے نفاذ کیلئے بھی تمام سیاسی
جماعتوں کودعوت دی، اس طرح پاکستان میں آزاد عدلیہ کی بحالی کاعمل مرحلہ
وار شروع ہوگیا۔
بلاشبہ شریف برادران نے اپنی جانوں پر کھیل کر لانگ مارچ کا آغاز کیا، جس
میں ان کی سیاسی وابستگی اور ملک کا استحکام پیش نظر رہا۔ جس دلیری سے میاں
نوازشریف نے لانگ مارچ کی قیادت وکلاء کے ساتھ مل کرشروع کی، لامحالہ اس کے
تناظر میں ایسے فیصلوں کی ہی توقع کی جارہی تھی۔ اس افراتفری کے عالم میں
بعض حلقوںسے طالع آزماؤں کی آمد کا نقارہ بھی بجایا گیا۔ لیکن آج قوم نے
افواج پاکستان کا وہ محب وطن چہرہ بھی دیکھا، جو ہمیشہ آمروں کی چیرہ
دستیوں تلے دبا رہا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جس شرافت و نجابت
سے جمہوری اقدار کی نگہبانی کی، قوم اسے کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔ آج
قوم کو احساس ہورہا ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت ان آہنی ہاتھوں میں ہے،
جو دشمن کیلئے تو سیسہ پلائی دیوار ہیں، لیکن ملک وقوم کیلئے پھول کی نازک
پتیاں ہیں۔موجودہ صورتحال میں افواج پاکستان کا یہ کردار اس سے قبل قوم نے
شاید اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ ایک پیشہ وارانہ فوج کی جو ذمہ داریاں ہوتی
ہیں،ان پر عمل درآمد کی ایسی نادر مثال پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں
پہلے کبھی دیکھنے کو نہ مل سکی۔ آج احساس ہورہا ہے کہ سابق آمروں میں اگر
ایسی ہی عقل پائی جاتی، تو شاید پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں
اچھے مقام پر ہوتا۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں میں حالیہ کشیدگی سے فوج کے جس
خوبرو امیج نے جنم لیا ہے، اس کیلئے ایک مدت سے قوم کی آنکھیں چھت کے ساتھ
لگی ہوئی تھیں۔ آج فخر و انبساط کی مئے سے جرعہ جرعہ کشید کر کے، ہر محب
وطن پاکستانی ایک عالم سرشاری کی کیفیت میں ہے۔ اس موقع پر اندرون و بیرون
ملک ان دوست دار شخصیات کو بھی ہدیہ، جنہوں نے افہام و تفہیم کیلئے
پاکستانی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ جاگ کر کوششیں کیں۔ ان دوست ممالک جن میں
امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب سمیت متعدد ممالک شامل ہیں، یہ تمام ،پاکستانی
قوم کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔ وہ عناصر جو اس پاک سر زمین اور اس پر
بسنے والوں کے حوالے سے تحفظات کا شکار تھے،اس نئی صبح اور قوم کے نئے چہرے
سے یقیناً حیران ہوں گے۔ جس شعور اور وابستگی سے پاکستان کے غیور عوام نے
آزاد عدلیہ کیلئے جدوجہد کی ہے۔ یقیناً ایسی طرح ہی قوموں کی تقدیر سنورتی
ہے۔اس دن قوم نے اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لے لی اور اب وہ وقت دور نہیں
ہے، جب اس ملک کا ہر شہری ایک آزاد فضا میں انصاف کے پرچم تلے سکھ سانس لے
گا۔ موجودہ صورتحال میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کیلئے موقع ہے کہ وہ
افہام وتفہیم کا وہ سلسلہ جو ٹوٹ چکا تھا، اسے دوبارہ وہیں سے بحال کردیں
جہاں سے ٹوٹا تھا۔ حکمران جماعت نے آزاد عدلیہ کافیصلہ کرکے اس کا آغاز کر
دیا ہے۔ اب مسلم لیگ(ن) کی طرف سے بھی لچکدار روئیے اور مفاہمت کومہمیز
ملنی چاہیے۔ لانگ مارچ اپنے مقاصد لے کر کامیابی کی تاریخ رقم کرچکا۔
پاکستان کے وکلاء نے قوم کو بغیر کسی لالچ کے انصاف کے دروازے پر لاکھڑا
کیا ہے۔ تحسین ہے ان کالے کوٹ والوں پر جن کے اُجلے دل اس ملک کے روشن
مستقبل کیلئے دھڑکتے رہے۔ 2 نومبر کی عدلیہ جو3 نومبر کوایک غاصب کے بوٹوں
تلے آکر مجروح ہوچکی تھی، ایک مرتبہ پھر پورے زور سے منصہ شہود پر آنے کو
ہے، اور اس کی بحالی کسی ایک شخص کی مرہون منت نہیں،بلکہ یہ پاکستان کی
سولہ کروڑ عوام کی جدوجہد اوردعاؤں کا نتیجہ ہے، اسے آنے والی نسلوں کیلئے
تحفہ قرار دیا جارہا ہے۔ جن معاشروں میں انصاف بکتا ہو اور منصف کی قیمت
لگائی جاتی ہو، تاریخ شاہد ہے کہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ ایک عام
آدمی جس کی رسائی اس وجہ سے انصاف تک نہ ہو کہ وہ غریب ہے، یہ عمل قوموں کی
تباہی پر منتج ہوتاہے، یہ ساری جدوجہد اسی تناظر میں کی گئی تھی۔
آزاد عدلیہ کی بحالی کسی فرد یا تنظیم کی نہیں بلکہ اخلاقی اُصولوں کی فتح
ہے ‘ یہ سچ کی جھوٹ اور حق کی ناحق پر فتح ہے ‘ یہ جمہوریت کی آمریت پر فتح
ہے ‘ آزادی عدلیہ کے اس دن پاکستان کی عوام نے اپنے جذبے ‘ عزم و حوصلے ‘
جرات و استقامت اور اتحاد و اتفاق سے ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان
کو خوشحال مستقبل کی جانب گامزن کردیا ہے “۔ 16مارچ کی صبح پاکستانی عوام
نے اپنے استقلال ‘ ان تھک جدوجہد اور جرات سے تاریخ کا ایک نیا باب تحریر
کیا ہے ۔ ایسا باب جس کی پاکستانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔12سے 16مارچ
کی رات تک ملک بھر کے وکلاء‘ سول سوسائٹی کے ارکان ‘جمہوری و سیاسی کارکنان
اور عوام جس جوش و خروش کے ساتھ لانگ مارچ میں شریک ہوئے اسے جس قدر بھی
سراہا جائے کم ہے ۔ بلوچستان سے سندھ اور پنجاب سے سرحد تک کے قانونی ‘
سیاسی اور جمہوری حلقوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق عدلیہ کی آزادی کی
جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا ۔اس دن نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے
لوگ اپنی آنکھوں میں آزاد عدلیہ اور نئے جمہوری کلچر کا سپنا سجائے گھروں
سے باہر نکلے ۔ ان کے اندر ایک عجب انداز کا یقین اور امید دکھائی دے رہی
تھی ۔ شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جسے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی
بحالی کا یقین نہ ہو ۔ انہیں اندازہ تھا کہ یہ عوامی سیلاب آزاد عدلیہ کی
راہ میں حائل تمام رکاوٹیں توڑ کر بہا لے جائے گا ۔ان کا یہی یقین تھا جس
نے میاں نواز شریف کی لانگ مارچ ریلی کو ناقابل تسخیر قوت بخشی ۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وکلاء کا کردار انتہائی اہم رہا ہے ۔ سیاسی
تحریکوں میں وکلاء ہمیشہ ہر اول دستے میں شامل رہے ہیں اور جمہوری جدوجہد
وکلاء کے بناء تکمل پذیر ہوتی دکھائی نہیں دی تاہم اس قدر بڑے پیمانے پر
اتنا طویل عرصہ مسلسل تحریک چلانے کی یہ پہلی مثال ہے ۔ وکلاء کمیونٹی نے
ثابت کردیا کہ اب پاکستان میں کسی سیاسی یا غیر سیاسی ڈکٹیٹر کےلئے عدلیہ
کو آلہ کار بنانا ممکن نہیں ! جبکہ نوجوان وکلاء کے جذبوں نے اس تحریک کے
لئے مہمیز کا کردار ادا کیا ۔ ”جینا ہوگا ‘ مرنا ہوگا ‘ دھرنا ہوگا ‘ دھرنا
ہوگا “ ۔ جیسا نعرہ نوجوان وکلاء نے ہی لگایا جس نے تحریک کے ٹیمپو کو بہت
تیز کردیا اسلئے اب پاکستان کے منظر نامے سے وکلاء کمیونٹی کو الگ رکھنا
ممکن نہیں رہا ہے۔
جبکہ وکلاء کی اس تحریک نے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ
پاکستانی معاشرے اور اس کے جمہوری کلچر پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں
جس کے تحت ملک میں سول سوسائٹی کا ایک فعال کردار بھی اُبھر کر سامنے آیا
ہے پہلی بار سول سوسائٹی کے مختلف گروپس اپنے اپنے سیاسی و نظریاتی
اختلافات بالائے طاق رکھ کر اکھٹے ہوئے اور اپنے اتحاد سے وہ کر دکھایا جسے
طاغوتی قوتیں ناممکن قرار دے رہی تھیں ۔
ہیومن رائٹس ایکٹی وٹس اور سوشل یکٹر میں کام کرنے والی این جی اوز
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پوری قوت سے سینہ سپر ہوئیں اور عدلیہ کی آزادی کی
تحریک کے دران این جی اوز سے منسلک لبرل عناصر نے اپنے اوپر لگنے والے تمام
الزامات کا ازالہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنا امیج بحال کرلیا بلکہ یہ بھی ثابت
کیا کہ قومی اداروں کی مضبوطی کےلئے وہ ہر قربانی دے سکتے ہیں ۔
اس تحریک کی ایک اور خوبی یہ بھی رہی کہ دائیں بازو اور بائیں بازو کے
درمیان موجودگی نظریاتی اختلافات اور کشیدگی کے باوجود یہ دونوں عناصر یعنی
مذہبی و لبرل قوتیں پہلی بار نہ صرف ایک نقطے پر متفق ہوئیں بلکہ اس کے لئے
اشتراکی جدوجہد بھی کی اور دائیں بازو کی جماعت اسلامی ‘ جمیعت اہلحدیث اور
تحریک انصاف کے ساتھ ماڈریٹ مسلم لیگی اور لیفٹ سے وابستہ محمود خان اچکزئی
‘ لطیف آفریدی ‘ حسین نقی اور معراج محمد خان جےسے لوگ بھی ایک دوسرے کا
ہاتھ تھامے دکھائی دیئے ۔
ایسا ہی منظر قوم پرستوں کے حوالے سے دےکھنے کو ملا رسول بخش پلیجو ‘ ڈاکٹر
قادر مگسی اور ممتاز بھٹو جیسے سندھی قوم پرستوں کے ساتھ پشتون خواہ ملی
عوامی پارٹی کے پشتون جبکہ نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل گروپ کے بلوچ
قوم پرست رہنما اور کارکن افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے وکلاء تحریک اور
پنجاب سے تعلق رکھنے والے میاں نوازشریف کی قیادت تلے کھڑے ہوکر اپنی وفاق
پرستی کا ثبوت دے دیا جبکہ تینوں چھوٹے صوبوں نے ثابت کےا کہ قومی معاملات
اور وطن عزیز کے مفاد میں وہ ہمیشہ پنجاب کے ساتھ ہیں ۔
اس منظم اور بھرپور جدوجہد نے اس عام تاثر کا بھی خاتمہ کردیا کہ پاکستان
کی حکومت امریکہ اور یورپ کی مخالفت افورڈ نہیں کرسکتی اور امریکہ کبھی
افتخار چوہدری کو بحال نہیں ہونے دیگا ۔ ایسا ہی کچھ تاثر اسٹیبلشمنٹ کے
حوالے سے تھا کہ پاکستان کی نادیدہ مقتدر قوتیں افتخار چوہدری کو بحال نہیں
ہونے دیں گی کیونکہ اس میں ان کی سبکی ہے مگر 16مارچ کویہ تمام دعوے باطل
ثابت ہوئے اور عوام نے دیکھا کہ پاکستان کے تحفظ ‘ اسے اندرونی خلفشار سے
نجات دلانے ‘ سیاسی محاذآرائی سے بچانے اور جمہوریت کے تسلسل کو جاری رکھنے
کےلئے عوامی جدوجہد کو نظر انداز کرنے کی بجائے ہماری مقتدر قوت نے سالمیت
پاکستان کی خاطر جو کردار ادا کیا اور آرمی چیف جنرل پرویز اشفاق کیانی نے
سیاستدانوں سے باہم رابطوں کو مؤثر و فعال بناکر جس طرح سے جمہوری حکومت کی
رہنمائی کرتے ہوئے اسے عوامی خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی راہ
سجھائی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی ہر قوت عوامی خواہشات کا احترام
کرتی ہے اور کرسکتی ضرورت صرف عوام کو اجتماعی ‘ اتفاقی اور اتحادی طریقے
سے اپنی خواہش کے اظہار کی ہے ۔
وکلاء تحریک اور عدلیہ آزادی کی اس عوامی تحریک نے دوران سب سے اہم ‘ فعال
‘ مثبت اور موثر کردار پاکستانی میڈیا نے ادا کیا اور نوزائیدہ الیکٹرونک
میڈیا نے پاکستانی اخبارات کے ساتھ مل کر جس طرح سے اس عوامی جدوجہد کو
اپنی غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور حائق پر مبنی تجزیوں و تبصروں کے ساتھ
ساتھ جراتمندانہ انٹرویوز اور ٹاک شوز کے ذریعے نہ صر ف عوام کو سیاسی شعور
دیا بلکہ آزادی لوئر اور مڈل کلاس کی اس تحریک کو پوش علاقوں تک پہنچاکر
اسے عوام کا وہ سمندر بھی دیا جس کے زور نے نہ صرف لاہور میں لگائی گئی ہر
پابندی ‘ کنٹینر اور بیریئر کو ڈھادیا بلکہ حکمرانوں کو بھی مجبور کردیا کہ
وہ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بجائے اس کے بہاؤ کے رخ پر تیرنا سیکھ
لیں ۔
اس فیصلے کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین سے
ٹیلی فون پربات کر کے مفاہمت کے فروغ پر بات چیت کی، اس حوالے سے شریف
برادران نے وزیراعظم کو لاہور کے دورے کی دعوت دی یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ
دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کا وہ عمل جو بوجوہ تعطل کا شکار
تھا، دوبارہ بحال ہونے کو ہے۔ ججز بحالی کی سمری پر صدر پاکستان نے دستخط
کر کے سمری وزارت قانون کو بھجوا دی ہے۔ یوں 2نومبر کی عدلیہ پر جو زخم
سابق آمر مشرف نے لگائے تھے، ان پر موجودہ جمہوری حکومت نے مرہم رکھ دیا،
اور ان تمام غلطیوں کا ازالہ کر دیا جو کردہ اور ناکردہ تھیں۔ لانگ مارچ کے
بعد وکلاء برادری میں جو جوش وخروش دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بھی اس سے قبل
نایاب تھا۔ یہ کالے کوٹ والے ملک کے روشن مستقبل کی وہ ٹھوس دلیل ثابت ہوئے
جس کے لئے عوام سیاسی جماعتوں سے توقعات لگائے ہوئے تھے۔ وکلاء کی اس تحریک
کے بعد یہ امیدیں ہو چلی ہیں کہ سیاسی قائدین بھی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں
گے اور پاکستان جو معاشی طور پر بدحالی کی جانب گامزن تھا اس کی منزل
لازوال ترقی کی جانب مبذول ہو گی۔ عدلیہ بحالی کے ساتھ ہی پاکستان کی اسٹاک
ایکسچینج میں تیزی آگئی اور انڈکس میں تین سو سے زائد پوائنٹس کے اضافے نے
یہ باور کرایا کہ اگر ملک میں امن وامان، عدل وانصاف کا بول بالا ہوگا تو
ملک کی معیشت پر کیسے مثبت اثرات پڑیں گے۔
پاکستان کی سولہ کروڑ عوام کی خواہشات میں سے سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ
سیاست دان آپس میں دست وگریبان ہونے کے بجائے اتحاد ویگانگت سے مل جل کر اس
ملک کی ترقی کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ موجودہ لمحے میں
پاکستان بے شمار مسائل کا شکار ہے اور اس کے وقار کو عالمی سطح پر جو دھچکے
لگ رہے ہیں، اس کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کو پس
پشت ڈال کر ملک کی بقا اور دوام کے لئے متحد ہو جائیں۔ قوم اس وقت متحد ہے
اور جو قومیں متحد ہوں انہیں ترقی کی سیڑھی پر چڑھنے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔ حکمران جماعت اور مسلم لیگ (ن) اگر اس وقت تعطل شدہ مفاہمتی رویہ
دوبارہ بحال کرلیتی ہیں، تو اس لمحے یہ ملک کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہوگی۔
عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان کی کوئی سیاسی
جماعت ناخوش ہے یہ وہ ایجنڈا ہے جس پر سب کا اتفاق سامنے آگیا ہے۔ ایک اور
ایجنڈا بھی ہے جس پر سب کو یقین ہے کہ اگر اسے نافذ کردیا جائے تو بیشتر
مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے، اس ایجنڈے کا نام میثاق جمہوریت
ہے۔1973ءکے آئین کے بعد اگر کوئی دستاویز ہے تو وہ بلاشبہ میثاق جمہوریت
ہے، جس کے نفاذ سے نہ صرف پاکستان کا وقار بحال ہوگا، بلکہ تمام شعبوں میں
استحکام بھی آئے گا۔ وزیراعظم نے 16مارچ کی اپنی تقریر میں میثاق جمہوریت
کے نفاذ کے لئے سب جماعتوں کو دعوت دی ہے اور یہ سب سے اچھا وقت ہے کہ اس
دستاویز کے نفاذ کے سلسلے میں پیشرفت کی جائے اس وقت مسلم لیگ (ن) حکمران
جماعت کے اس مستحسن فیصلے سے اس پوزیشن میں ہے کہ وہ حکومت سے ہر طرح تعاون
کے لیے تیار ہو جائے گی۔ وزیراعظم دعوت دے چکے، اب یہ دیگر جماعتوں پر ہے
کہ وہ حکمرانوں کو اس حوالے سے کیا مثبت لائحہ عمل دیتے ہیں۔ ان خوش افروز
لمحات میں ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی قائد کی ذمہ داری ہے کہ وہ چند قدم
آگے آکر حکومت کو دست تعاون پیش کرے۔ آزاد عدلیہ جہاں عدلیہ کا لمحہ امتحان
ہے، وہیں سیاست دانوں اور قوم کے لئے بھی امتحان سے کم نہیں ہے۔ ایسے میں
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اپنے اپنے فرائض سے احسن طریقے
سے سبکدوش ہو۔حکمران طرز حکمرانی بدلیں اور پارلیمان کی طاقت کو بروئے کار
لائیں، غیر جمہوری عناصر کی مکمل بیخ کنی کریں، اس حوالے سے عوام ان کی پشت
پر ہوگی۔ لانگ مارچ نے یہ بھی ثابت کیا کہ غیر جمہوری فیصلوں کی پشت پناہی
کے لئے کوئی نہیں بلکہ جمہوری فیصلوں کے لئے عوامی طاقت کا سیلاب اُمڈ آتا
ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ کا لائحہ عمل سوچ سمجھ کر طے کیا جائے اور
تمام فریقین کو ایک دوسرے کا ، ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے
تاکہ دنیا کو یہ بات باور ہو کہ اس ملک کا مقدر صرف اور صرف جمہوریت ہے۔
عدلیہ کی آزادی اور معزول ججز کی بحالی کا فریضہ پایہ تکمےل تک پہنچ چکا
مگر اب میزان عدل لگانا باقی ہے اور یہ کام بھی سید یوسف رضا گیلانی کے
کرنے کا ہے۔ ان تمام لوگوں سے حساب لیا جائے جو حکومت کو ٹکراﺅ کی سیاست کی
طرف لے جارہے تھے۔ وہ سب چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں جو حکومت کو گمراہ کرتے
رہے اور یہ کہہ کر ڈراتے رہے کہ اگر افتخار محمد چوہدری بحال ہوگئے تو کوئی
قیامت آجائے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اپنی ذات کے اسیر ہیں اور انہیں ملک
اور قوم کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔ حکومت کی بھلائی اسی میں
ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو خود سے الگ کر دے ورنہ یہ آئندہ بھی اپنے گمراہ
کن مشوروں کے ذریعے ملک اور قوم کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس کے
دوران کھرے اور کھوٹے الگ ہوگئے۔ حق اور باطل کی اس لڑائی میں سیاست اور
صحافت سے تعلق رکھنے والے وہ تمام چہرے بھی بے نقاب ہوگئے۔ جو ملک و ملت پر
اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب یہ لوگ کچھ بھی کرلیں کوئی ان پر
اعتبار نہیں کرے گا۔ درحقیقت ایسے لوگ بندوں کی پکڑ میں نہیں خدا کی گرفت
میں آچکے ہیں۔
یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ 2 نومبر 2007ءکی عدلیہ کی بحالی کا فیصلہ کرکے
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دے دیا ہے گو وقتی
طورپر ہی سہی۔ بہرحال اس فیصلے کو روبعمل لانے میں وزیراعظم جناب یوسف رضا
گیلانی کا کردار قابل تحسین ہے۔ دوسری طرف امریکا‘ برطانیہ اور جی ایچ کیو
کے دباؤ نے بھی کام دکھایا۔ عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ جوں توں کر کے حل
ہوگیا ہے۔ اس کی تفصیلات طے ہوتی رہیں گی۔ جلد ہی یہ بھی معلوم ہوجائے گا
کہ کیا قوم کو ایک آزاد عدلیہ کا تحفہ مل گیا ہے یا ابھی اس کے لیے ایک
طویل شاہراہ پر سفر کا آغاز ہوا ہے۔ میثاق جمہوریت میں ججوں کے تقرر کے
بارے میں بڑی وضاحت اور تفصیل موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ ”نامزد جج کی اہلیت کی
مزید تصدیق کے لیے رائے عامہ بھی حاصل کی جائے گی۔ اگر کوئی شہری ججوں کے
تقرر کے لیے مجوزہ کمیشن کے ذریعہ شکایت پیش کرتا ہے تو جج کی بدعملی
روکنی‘ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانے اورعہدے سے ہٹانے کے لیے انتظامی
طریق کار وضع کیا جائے گا“ میثاق جمہوریت کی ان شقوں کی یاد دہانی اس لیے
ضروری ہے کہ حزب اختلاف کی شکایت یہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں سیاسی بنیادوں
پرکچھ ججوں کا تقرر کیا گیا ہے اور ان میں ایسے بھی ہیں جو پیپلزپارٹی کے
ٹکٹ پر الیکشن لڑ چکے ہیں یا پارٹی کے کارکن رہے ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور کے
ایک جج صاحب کے بارے میں اخبارات میں ایسی باتیں آچکی ہیں جو بہت قابل
اعتراض ہیں۔ لیکن عدالت کی سطح پر یا وزارت قانون کی طرف سے کوئی ایسا قدم
نہیں اٹھایا گیا جس کے نتیجے میں یا تو الزامات غلط ثابت ہوتے یا مذکورہ جج
کے بارے میں کوئی انتظامی کارروائی ہوتی۔ نتیجہ یہ کہ عوام کے ذہنوں میں
شکوک وشبہات موجود ہیں جبکہ میثاق جمہوریت کی مذکورہ بالاشق بہت واضح ہے۔
اس میثاق پردونوں بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن نے دستخط کیے ہیں
اور اب بھی دونوں طرف سے یہی اصرار ہے کہ اس پرعمل کیا جائے گا۔ اب جبکہ وہ
جج حضرات بحال ہوگئے ہیں جن کو ایک فوجی سربراہ نے اپنے خوف کو چھپانے کے
لیے غیر آئینی طور پر برطرف کردیا تھا توان ججوں کی بات بھی صاف ہوجانی
چاہیے جن کے بارے میں شکوک وشبہات سامنے آچکے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے
صدر جناب رشید اے رضوی نے واضح کیاہے کہ سفارشی ججوں کے خلاف وکلاءکی
جدوجہد جاری رہے گی۔لیکن اس کے ساتھ ہی صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی
اسلام آباد میں ایک صحافی سے گفتگو بھی سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے کہا
ہے کہ ”میں تو کبھی جسٹس افتخار کے خلاف نہیں رہا ‘ بس جسٹس ڈوگر کی
ریٹائرمنٹ کا انتظارکررہاتھا۔ 9 مارچ 2008ءکو مری اعلامیہ پر دستخط کرتے
ہوئے یہ واضح کردیا تھا کہ کسی موجودہ جج کو پریشان نہیں کیا جائے گا اور
یہ سب کچھ میڈیا اور نوازشریف کی موجودگی میں کہا تھا“۔ ممکن ہے کہ
صدرپاکستان صحیح کہہ رہے ہوں لیکن ایسا ہے تو یہ سوال ضرور سامنے آتا ہے کہ
9 مارچ 2008ءسے 16 مارچ 2009ءتک یہ موقف پہلے کیوں سامنے نہیں آیا جبکہ
باربار ان پر 9 مارچ سے اگست تک تین تین معاہدے کر کے ان سے پھر جانے کے
الزامات لگائے جاتے رہے۔ اس وقت انہوں نے کیوں نہ کہا کہ یہ شرط لگائی گئی
تھی جو پوری ہونے پر جسٹس افتخار چوہدری بحال ہوں گے۔ وہ تو 6 مارچ 2009ءکے
اخبارات کے مطابق اس عزم پر قائم تھے کہ جسٹس افتخارچوہدری بحال نہیں ہوں
گے۔ صدر محترم کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ میڈیا اور نواز شریف کے
سامنے کہا تھا۔ یہ تو گمان کیا جاسکتا ہے کہ نوازشریف نے اس پر پردہ ڈالے
رکھا لیکن ذرائع ابلاغ میں بھی یہ بات نہیں آئی حالانکہ سرکاری ذرائع ابلاغ
بھی ہیں اور سرکار کے بیانات بھی ہر ذریعہ سے آتے ہیں۔ اب صدر صاحب ایک نئی
بات لائے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ وہ افتخارچوہدری کی بحالی کے لیے جسٹس
ڈوگرکی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہے تھے‘ کیا یہ عجیب بات نہیں ؟ علاوہ ازیں
وہ کہتے ہیں کہ یہ طے ہوا تھا کہ کسی موجودہ جج کو پریشان نہیں کیاجائے گا
تو اس کا اطلاق اب بھی ہوگا اور جن ججوں کے بارے میں یہ شکایت ہے کہ وہ پی
پی کے جیالے رہے ہیں‘ ان کو بھی پریشان نہیں کیا جائے گا۔جناب جسٹس ڈوگر کی
ریٹائرمنٹ کے انتظار کا واضح مطلب ہے کہ صدر مملکت 3 نومبر2007ءکے آرمی چیف
کے غیر آئینی اقدامات کوتسلیم کرچکے ہیں اور ممکن ہے کہ این آر او میں یہ
شرط بھی شامل ہو۔ اب عدلیہ کی بحالی کے فیصلے میں یقیناً یہ شرط بھی شامل
ہوگی کہ چیف جسٹس این آر او کا مسئلہ نہیں اٹھائیں گے۔ اس کے ضامن بھی بہت
مضبوط ہوں گے۔ ریٹائرڈ جسٹس وجیہہ الدین زرداری صاحب کو اطمینان دلارہے ہیں
کہ وہ نہ ڈریں‘ این آر او کوئی ایشو نہیں۔ جناب اعتزاز احسن اس یقین کا
اظہار کر رہے ہیں کہ جسٹس افتخار این آر او کا کیس خود نہیں سنیں گے۔ گمان
غالب ہے کہ یہ باب بند ہوگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی خوف کے حصارسے باہر
نکل آنا چاہیے۔ اب توقع ہے کہ اہلیت کیس کا فیصلہ بھی”اطمینان بخش“ ہوگا
اور سب معاملات پہلے کی طرح ہوجائیں گے۔ بس اب گورنر راج کا معاملہ رہ گیا۔
اس کا فیصلہ بھی جلد ہی ہوجائے گا۔ گورنر راج تو ختم ہونا ہی ہے تاہم گورنر
کے مستقبل کا مسئلہ اٹکا ہوا ہے۔ حکومت ان کی خدمات سے اچانک تو نظریں نہیں
پھیرسکتی۔ وہ پنجاب میں پی پی کی حکومت بنوانے میں ناکام رہے لیکن انہوں نے
کوشش تو کی۔ بہرحال اب جلدازجلد پنجاب میں حکومت سازی کا مرحلہ بھی طے
ہوجانا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کو جوڑتوڑ میں کامیابی نہیں ہوئی تو اب اسمبلی کا
اجلاس بلواکر ایوان ہی میں فیصلہ ہونے دیاجائے اور جو اکثریت ثابت کردے اس
کے سر پر تاج سجا دیا جائے۔ایک بڑے بحران سے نمٹ کر دوسرا بحران پیدا کرنے
کی کوشش عقل مندی نہیں ہوگی۔
پیپلز پارٹی حسب سابق پنجاب میں شریک اقتدار رہنا چاہتی ہے تو اسے گورنر
راج کے خاتمے کیساتھ ہی صوبے میں ایسا گورنر لانا چاہئے جو مسلم لیگ (ن)
اور شریف برادران سے ذاتی رنجشوں کا مارا نہ ہو اور جمہوری نظام کو خوش
اسلوبی سے چلانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ آئندہ کسی قسم کی بدمزگی سے بچنے
اور میثاق جمہوریت پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیلئے مسلم لیگ (ن) کو
وفاقی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے اور اس ضمن میں 18 فروری کے بعد
طے پانے والے فارمولے پر عمل کیا جائے۔ اس طرح دونوں جماعتیں مل کر قومی
مسائل حل کرنے کیلئے ایک دوسرے کی مدد کر سکتی ہیں اور ایک مضبوط وفاقی
حکومت یکسو ہو کر بیرونی دباﺅ اور اندرونی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل
ہو گی۔
اس بحران نے ثابت کیا ہے کہ سترھویں ترمیم کا خاتمہ ازبس ضروری ہے کیونکہ
صدر اور وزیراعظم کے مابین توازن اختیارات کے نام پر طاقت کے جو مختلف
مراکز وجود میں آچکے ہیں اور جس کا فائدہ عموماً مفاد پرست اور غیرمنتخب
شرارتی مشیر اٹھاتے ہیں‘ وہ نہ صرف پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو بائی پاس کرتے
ہیں بلکہ جمہوری قوتوں کے مابین بھی غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں لہٰذا تمام
جمہوری قوتوں کے تعاون سے ایک متفقہ اٹھارھویں ترمیم منظور کرکے ان تمام
آئینی قباحتوں کا خاتمہ کیا جائے جس سے جمہوری ادارے استحکام حاصل نہیں
کرپاتے۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرکے ہی پیپلز پارٹی مرکز میں اور
مسلم لیگ (ن) پنجاب میں ایک ایسی عوام دوست اور مضبوط حکومت قائم رکھ سکتی
ہے‘ جو پانچ سال پورے کرے۔ حکومتوں کا مقصد ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور
سیاسی فوائد سمیٹنا نہیں‘ بلکہ عوام اور ملک کی خدمت کرنا اور پاکستان کو
حقیقی معنوں میں اقبال اور قائداعظم کے تصورات کی روشنی میں جدید اسلامی
جمہوری پارلیمانی فلاحی ریاست بنانے کا ہونا چاہئے۔
یہ حقیقت بھی محسوس کی جائے کہ مولا نا فضل الرحمان اور چوہدری شجاعت جیسے
مفاد پرست سیاستدان اور شیر افگن اور ملک قیوم جیسے لوگ کبھی بھی ملک اور
ملت کے محسن نہیں ہو سکتے۔آئین کا شہرہ بگاڑنے اور اسکے جمہوری اعضاء کی
قطع و برد کرنے والے قصابوں سے مرہم کی توقع صاحب ہوش و دانش کو ہر گز روا
نہیں۔ مفاہمت اورقومی یکجہتی کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ آستین میں سانپ پالے
اور انہیں دودھ پلایا جائے جبکہ لانگ مارچ کے دوران سندھ کے خلاف لگائے
جانے والے نعروں کا نوٹس لےکر اس کے ذمہ داران کی گوشمالی بھی ضروری ہے تو
دوسری جانب اس بات کو وجہ تنازعہ بناکر متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے حکومت
سے علیحدگی کا عندیہ بھی کسی طور سیاسی بالغ نظری نہیں کہلایا جاسکتا اسلئے
بدلتے وقت اور حالات کے تناظر میں قومی سیاست میں شمولیت کےلئے متحدہ قومی
موومنٹ کو اس قسم کے اعلانات سے بھی اجتناب کرنا ہوگا کیونکہ کوئی پاکستانی
کبھی بھی لسانی وصوبائی عصبیت کا شعوری اور لاشعوری طور پر ہرگز روا نہیں۔
بھائیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے بدتمیزی ہوجاتی ہے۔ان کے تمام
اقدامات کسی کو نہیں خود کو نقصان پہنچانے کا سبب ہوتے ہیں۔ان کی گالی کسی
کو نہیں خود کو پہنچتی ہے۔ دھرتی ماں پاکستان اور اسکے جگر کے ٹکڑے یہ
چاروں ہیں۔ان کو جو بھی اور جہاں سے بھی گالی دے گا وہ سب پاکستانیوں کیلئے
مشترکہ ہوگی۔ دھرتی ماں پاکستان کے تقدس کو مدنظر رکھ کر ہی اچھے بھائیوں
کی طرح متحد اور مطمئن ہو کر ماں کی گود میں رہ سکتے ہیں۔ متحدہ قومی
موومنٹ اچھی صفات اور قابل داد صفات کی حامل ایک ایسی جماعت ہے جس نے
پاکستان میں پہلی بار متوسط طبقے کی نمائندگی کا اعزاز ہی حاصل نہیں کیا
بلکہ نتوسط طبقے کے افراد کو ایوانوں تک پہنچانے کا کارنامہ بھی انجام دیا
ہے اسلئے پاکستان کے عوام کی یہ خواہش ہے کہ جاگیرداروں کی سازشوں کا شکار
ہوکر کسی بھی وجہ تعصب کے تحت سیاست میں اپنی راہیں مسدود کرنے کی بجائے
متحدہ قومی موومنٹ قومی سیاست میں سامل ہوکر متوسط طبقے کی نمائندگی کا علم
بلند رکھے اور متوسط طبقے کا رہنما جاگیرداوں کے جلو میں چلنے کی بجائے ان
کے ساتھ ہو۔
کیونکہ اداروں کو سنوارنے کیلئے رہنماؤں کا کردار اب بہت اہم ہو چکا ہے۔
محسوس کر لیا جائے کہ اب عوام کا شعور اور احساس بیدار ہو چکا ہے۔ عوام
اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے اچانک سونامی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔آئین میں
انسانی حقوق کا بند باب اب کھل جانا چاہیے۔آئین کو غلام بنانے اور پارلیمنٹ
اور اسمبلی کو ربڑ سٹمپ کے کردار کی بجائے عوامی حقوق کی ترجمانی اور تحفظ
کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسمبلیوں کے ممبران کسی سیاسی رہنما کے غلام اسکے
وفادار اور مفادات کے نگہبان بننے کی بجائے جن کے ووٹوں کے محتاج ہیں ان کی
حالت زار کی طرف نظر کریں۔ جمہوریت کے اس جھونکے کے اثرات اب معاشرے پر
اپلائی کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔جمہوریت کی ترویج و تحفظ
کیلئے آمریت کے پرزوں کو جمہوریت کی گاڑی سے نکال باہر کیا جائے۔ملک میں
عدلیہ کے نظام کو بھرپور آزادی اور پوری سپورٹ دی جائے۔آزاد عدلیہ کے ثرات
سے غریب پاکستانی مستفید ہو گا تو اس لانگ مارچ اورعدلیہ کی آزادی کی تحریک
میں دی جانے والی قربانیاں اپنی معراج حاصل کریں گی۔
جمہوریت کے لیے قربانی ایثار کا جذبہ رکھنے والے سیاسی راہنماؤں کا احترام
کیا جائے۔ اسلئے ہم وزیر اعظم سے درخواست کریں گے کہ وہ محترمہ شیری رحمان
کو کابینہ میں شامل کرکے اپنی وزارت کا قلم دان سپرد کریں۔ صحافی برادری کو
ان پر فخر ہے۔ محترم رضا ربانی کو ابھی ان کے قائد ایوان کے منصب پر واپس
لایا جائے کہ آمریت کے سامنے بولنے والا اپنوں کے ہاتھوں مجروح ہوتا اور
گنگ ہوتا اچھا نہیں لگا۔ نقارچیوں کی بجائے کابینہ میں اہل افراد کو شامل
کیا جائے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے بھی اب خلاصی ہی بہتر ہوگی کہ انکی
وجہ سے سیاسی فضاء میں آلودگی کا انتہائی خطرہ ہے۔ جھوٹ اور فریب کی سیاست
کی بجائے حق اور حقائق کی سیاست ہی سیاستدانوں کا سرمایہ افتخار ہوتی ہے۔
دوسری جانب سفید پوش طبقہ کے جرائم کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔سوائے اسکے لکیر
پیٹنے سے سانپ کو تو کوئی تکلیف نہیں البتہ ملک اور قوم کا وقت اور سرمایہ
ہی ضائع ہوتا ہے اسلئے اگر ایسے معاملات کے ثبوت و شواہد موجود ہیں تو
انہیں عدالت میں لایا جائے ورنہ ڈھنڈورے کی سیاست اب ترک کی جائے۔اس شور
میں نہ تو چور کی سمجھ آتی ہے اور نہ ہی کوتوال کا چہرہ پہچانا جاتا ہے۔
عوام کی پیش قدمی اور حکمرانوں کی پسپائی سے اب بہتری کی توقع رکھی جا رہی
ہے۔عدلیہ کو اس کا منصب مبارک لیکن کیا اب عوام کیلئے بھی نوید سحر ہوگی یا
پھر کوئی نیا لانگ مارچ منتظر ہے ۔
عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے دوران جہاں افواج پاکستان نے بہت سمجھ داری سے
کام لیا وہیں سیاستدانوں کو بھی تجربہ حاصل ہوا ہے کہ کس طرح عوامی خواہشات
کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے جبکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اقتصادی پسماندگی
کی وجہ سے سیاسی شعور پختہ نہیں ہوا ‘ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں
جمہوریت کو مستحکم ہونے میں ابھی مزید وقت لگے گا‘ جیسے زمینیں‘ جائیدادیں
اور جاگیریں بڑے بڑے خاندانوں میں ہیں اسی طرح سے اگر اقتدار بھی انہی
خاندانوں میں رہے گا تو کبھی بھی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ اب عدلیہ کو
چاہئے کہ وہ ملک کی بے لگام بےوروکریسی کو لگام ڈالے جو سیاستدانوں کو
کرپشن کی نئی نئی راہیں دکھاتے ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ ہماری ہر حکومت وقت
نے عوام سے ٹیکسز تو لئے لیکن عوام کو کسی بھی شعبے میں ریلیف نہیں دیا
بلکہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو بڑھادیا اور کبھی بھی سنجیدگی سے روٹی‘
کپڑا‘ مکان‘ تعلیم‘ معاشی خوشحالی اور سستا انصاف کی فراہمی کے وعدہ کو
ایفا نہ کیاجس کی وجہ سیاسی انتشار اور افتراق کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے
اور نظریہ ضرورت کے عدالتی فیصلوں کو بھی اسلئے اب عدلیہ کی بحالی کے بعد
عوام امید کرتی ہے کہ جسٹس صاحبان اسلامی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے
فیصلے کریں گے جس سے معاشرے میں امن‘ سکون اور عدل اجتماعی کا دوردورہ
ہوگا۔اگر عدلیہ کی بحالی سے پاکستان میں زندگی کے ہر شعبہ میں عدل اجتماعی
قائم ہوجاتا ہے تو نہ صرف خوشحالی ہوگی بلکہ ایک مثالی اور فلاحی معاشرہ
تشکیل پائے گاجبکہ عدلیہ کا یہ بھی فریضہ ہے کہ پاکستان سے دہشتگردی کو ختم
کرنے کیلئے دہشتگردوں کو بھی فوری اور قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مہذب
دنیا کو پتہ چل جائے کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد فیصلے کرتی ہے۔ اس حوالے سے
بحال ہونے والی عدلیہ اور چیف جسٹس افتخار چوہدری پر بہت بھاری ذمہ داری
عائد ہوچکی ہے اور عوام کو توقع ہی نہیں بلکہ یقین محکم ہے کہ وہ اپنی ان
ذمہ داریوں سے بہ احسن و خوبی عہدہ برآ ہوں گے اور عوامی خواہشات کی تکمےل
‘ آسودگی عوام اور ترقی پاکستان کے ضامن بن جائیں گے ۔ |