تئیس مارچ 1940 وہ تاریخی دن تھا کہ جب مسلمانان ہند نے اپنے لیے الگ وطن
کا باقاعدہ مطالبہ کردیا تھا۔ باقاعدہ اس لیے کہ دراصل یہ تمام مسلمانوں کی
خواہش تھی لیکن ابھی تک اس خواہش کو باقاعدہ مطالبے کی شکل نہیں دی گئی تھی۔
اگر دیکھا جائے تو یہ مطالبہ یکایک نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل
تاریخ ہے، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا
تھا جب برصغیر میں پہلے مسلمان نے قدم رکھا تھا۔اکبر کے دین الہٰی کے خلاف
مجدد الف ثانی کی تحریک، شاہ ولی اللہ کی دینی اور اصلاحی تحریک، سید احمد
شہید کی تحریک جہاد، سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ،،1906 میں مسلم لیگ
کا قیام،اور مسلم سیاست کا آغاز،میثاق لکھنؤ، تحریک خلافت، علامہ اقبال الہٰ
آباد کا خطبہ صدارت، اور ہندؤں کا مسلمانوں کے ساتھ مجموعی رویہ، یہ سب
عوامل تھے جو کہ بالآخر پاکستان کے مطالبے میں تبدیل ہوگئے اور 1940 میں یہ
مشہور قرارداد منظور ہوئی۔ جس کو قرار داد پاکستان اور قرارداد لاہور بھی
کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے پیش کرنے کے جو عوامل تھے ان کا مختصراً جائزہ
لیتے ہیں
پہلی بات تو یہ کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے وہ زندگی کے ہر شعبے کو
اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کی تعلیمات کے مطابق قائم
رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے۔اس لیے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا ایک
علیحدہ وطن ہو کہ جہاں وہ اپنے دین پر عمل کرنے میں آزاد ہوں۔ اسی سے دو
قومی نظریہ نے جنم لیا کیوں کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور
ان کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہے۔مسلمانوں کا رہن سہن ،لباس، کھانا پینا، تصور
خدا، اقدار الغرض تمام باتیں ہندوں سے الگ ہیں۔اسی لیے مسلمان ایک علیحدہ
وطن کی خواہش رکھتے تھے۔اس کے علاوہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد یعنی سندھ
میں محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ ہی ہندوں نے مسلمانوں کو اپنے اقتدار کے
لیے خطرہ سمجھ لیا تھا اور برصغیر میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت میں
مسلمان بادشاہوں کے حسن سلوک اور میانہ روی کے باوجود ہندووں نے کبھی
مسلمانوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا۔اور مسلمانوں کے زوال کے بعد
ہندوؤں نے اسی لیے انگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا تھا۔اور انہوں نے
انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو سیاسی ،معاشی، اور تعلیمی طور پر پیچھے
دھکیلنا شروع کیا۔مسلمان محسوس کرتے تھے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ایک دن
مسلمانوں کا مسلم تشخص ختم ہوجائے گا۔مسلمان یہ محسوس کرتے تھے کہ انگریز
جس طرح کا پارلیمانی نظام رائج کرنا چاہ رہے ہیں اس میں ایک فرد ایک ووٹ کا
اصول ہوتا ہے اور چونکہ برصغیر میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اس لیے اس اصول کے
تحت مسلمان کبھی بھی اپنی حکومت نہیں بنا سکتے
ہندوئوں کی انتہا پسندی۔ شدھی، سنگھٹن،اور ہندو مہا سبھا کی تحاریک:
دوسری طرف انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شدھی تحریک اور سنگھٹن تحریک نے
بھی مسلمانوں کو الگ وطن کے لیے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا۔یہاں ان
دونوں تحریکوں کا ذکر کرنا لازمی ہے،شدھی کا مقصد مسلمانوں کو زبردستی ہندو
بنانا تھا۔اور اس میں ہندؤں کے دبائو کے باعث اچھےخاصے مسلمان متاثر ہوئے
تھے۔ سنگھٹن تحریک کا مقصد ہندوؤں کو فن سپہ گری کی تعلیم دینا تھا۔ سنگھٹن
تحریک کا بانی انتہا پسند پنڈت مدہن موہن مالویہ کھلم کھلا ہندوؤں کو
مسلمانوں سے لڑنےکی ترغیب دیا کرتا تھا اور وہ ہندوؤں سے کہتا تھا کہ تمہیں
اپنے دشمن مسلمانوں سے لڑنا ہے ان سے مقابلہ کرنا ہے،اس تحریک کے باعث آئے
دن ہندو مسلم فسادات ہوتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ مہا سبھا کی تحریک بھی تھی
یہ شدھی سے ملتی جلتی تحریک تھی۔اس کا کہنا تھا کہ مسلمان غیر ملکی ہیں اور
انکا ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں ہے اگر مسلمان ہندوستان میں رہنا چاہتے
ہیں تو انکو ان کو ہندو معاشرے میں جذب ہونا پڑے گا۔
اس کے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا
تھا۔انہیں ملیچھ یعنی ناپاک سمجھا جاتا تھا،اس کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے
مسلمانوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر بہت سازش کے تحت پیچھے کیا ہوا تھا
مسلمان تجارت اور صنعت میں داخل نہیں ہوسکتے تھے،زراعت ہر بھی ہندوؤں کی
اجارہ داری تھی۔ ہندو مہاجنوں نے سود کا نظام قائم کیا ہوا تھا۔اور مسلمان
اپنی ضرویات کے لیے ہندو مہاجنوں سے سودی قرض لینے پر مجبور تھے۔اس کے ساتھ
ساتھ 1937 میں کانگریسی وزارتوں نے متعدد مسلم دشمنی اقدامات کیے،بندے
ماترم،ترنگا جھنڈا،اور گاندھی جی کی مورتی کو قومی پیمانے پر متعارف کرایا
۔اردو کی جگہ ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور گئو کشی کو
ممنوع قرار دیا۔اس کے علاوہ کانگریس کی حکومت میں برے پیمانے پر فرقہ
وارانہ فسادات ہوئے
ان باتوں نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے لیے الگ وطن حاصل کریں کہ
جہاں وہ اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں۔اس سوچ کو عملی شکل بائیس
تا چوبیس مارچ کو لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہونے والے مسلم
لیگ کے ستائیس ویں سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور میں دی گئی۔یہ قرارداد
23 مارچ کو بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے پیش کی اور چوہدری خلیق
الزماں نے اس کی سب سے تائید کی۔انکے ساتھ ساتھ دیگر رہنمائوں نے بھی اس کی
تائید کی۔قرار داد کے مطابق اس ملک کا کوئی بھی آئینی منصوبہ اس وقت تک نہ
تو قابل عمل اور نہ ہی مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہوگا جب تک اس کی اسا اس
اصول پر نہ رکھی گئی ہو کہ جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی نشاندہی کے بعد
انہیں ضروری علاقائی ردو بدل کے بعد ایسے منطقوں میں تقسیم کیا جائے جس سے
ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے جہاں مسلمانوں کو عددی اکثریت حاصل
ہے،آزاد مملکتوں کی شکل اختیار کرلیں اور ان کی مختلف اکائیاں خود مختار
اور اقدتار اعلیٰ کی حامل ہوں۔۔۔۔مناسب اور موثر تحفظات خصوصاً ان اکائیوں
میں اقلیتوں کے لیے فراہم کئے جائیں تاکہ ان کے دینی،ثقافتی،اقتصادی،سیاسی
،انتظامی،اور دیگر حقوق اور مفادات کا تحفظ ہوسکے“
مسلمانانِ ہند نے اس قرارداد کی پر جوش حمایت کی اور اس کے بعد پاکستان کے
لیے باقاعدہ منظم جدو جہد کی گئی،جس کا نتیجہ 14 اگست 1947 کو آزاد مملکت
پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا،اس وقت مسلمانوں کے جذبہ،ولولہ،دین سے محبت
اور الگ وطن کی چاہت نے ان کو کامیاب کیا۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس وقت کے
لیڈران،راہنمایان کرام نے بھی پوری طرح مخلص ہوکر آپنے کاز کے لیے کام کیا
اور اپنے مقصد کو حاصل کیا۔
آج کم و بیش 70 سال بعد اگر ہم جائزہ لیں تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہےکہ اب
وہ جذبہ حب الوطنی ماند پڑ گیا ہے۔اور لوگوں کے دلوں میں وطن کی وہ محبت
نہیں ہے جو آغاز میں تھی۔لیکن ایسا نہیں ہے عوام آج بھی اپنے وطن سے اپنے
دین سے محبت کرتے ہیں لیکن آج وہ لیڈر وہ قیادت میسر نہیں ہے جو کہ انکو
کسی منزل تک پہنچائے،70 سال قبل لاکھوں کے بکھرے مجمع کو ایک مخلص قیادت
قاعد اعظم اور ان کے وفادار ساتھیوں نے ایک اکائی کی صورت ڈھال کر بے تحاشہ
سازشوں کے باوجود اپنی جد جہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔آج صورتحال اس کے
بر عکس ہےآج قوم میں کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن قیادت موجود نہیں ہے،
1965 کی جنگ میں عوام نے پاک فوج کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور سینوں پر بم
باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے،صرف دین اور وطن کی محبت میں،بھٹو صاحب
کےخلاف جب پی این اے کی تحریک چلی تو مفاد پرست سیاستدانوں نے اس کو نظام
مصطفیٰ کی تحریک کا نام دیا،عوام نے آگے بڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا۔اور
قربانیاں دیں لیکن ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا۔اور وہ تحریک صرف ذوالفقار علی
بھٹو صاحب کو ہٹانے تک محدود رہی۔اور عوام کا جذباتی استحصال کیا گیا۔
اس کے باوجود عوام کی جذبہ حب الوطنی میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ اسی طرح
وطن پر جان نچھاور کرنے کا عزم کیے رہی،پاکستان میں ممتاز نوبل انعام یافتہ
سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی گزرے ہیں،مشہور سائنسدان ڈاکٹر سلیم الزمان
صدیقی کا بھی اپنی جگہ ایک مقام ہے لیکن قوم نے جو محبت ڈاکٹر عبدالقدیر
خان کو دی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ عوام نے
جب یہ دیکھا کہ اس فرد نے ہمارے ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے،اور اب
دشمن ہمیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا تو تو انہوں صرف اس وطن کی محبت میں
اپنی محبت اور عقیدت کا مرکز ڈاکٹر صاحب کو بنا لیا۔اور آج بھی عوام کے
دلوں میں انکےلیے وہی قدر وہی محبت زندہ ہے۔
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی برادری نے پاکستان پر اقتصادی
پابندیاں عائد کی اور اس قت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قرض اتارو ملک
سنوارو کا نعرہ لگایا تو عوام نے یہ نہیں دیکھا کہ نعرہ کس نے لگایا ہے
عوام نے صرف یہ دیکھا کہ یہ نعرہ پاکستان کے لیے لگایا گیا ہے اور عوام نے
ایک بار پھر اس وطن کی محبت میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا،کسی نے اپنی کل
جمع پونجی دیدی،کسی نے اپنی بیٹی کا جہیز اس فنڈ میں دیدیا کسی نے اپنا
پراویڈنٹ فنڈ اس میں دیدیا،کس لئے؟؟ صرف اس ملک کے لیے اپنے وطن کے لیے
پاکستان کے لیے۔عوام کا جذبہ تو زندہ ہے،آج بھی زندہ ہے
پھر اگر ہم یہ دیکھیں کہ جب اکتوبر 1999 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے
میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا تو ابتدائی چند
سالوں تک ان کے خلاف عوام کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اس کی بڑی وجہ
انکا کارگل کا ہیرو ہونا تھا عوام یہ سمجھتے تھے کہ کارگل کی جنگ پاکستان
فوجی محاذ پر نہیں بلکہ سفارتی محاذ پر ہارا ہے اور اس جنگ کا اصل ہیرو
جنرل مشرف ہیں تو عوام نے اس کو بھی خوش آمدید کہا۔ اسے ساتھ ساتھ دوسری
وجہ یہ تھی کہ عوام اس جنرل مشرف کو نہیں بھولے تھے جو آگرہ میں مذاکرات کے
لیے گیا تھا اور پہلی بار بھارت کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا گیا۔پہلی
بار بھارت میں بیٹھ کر نظریہ پاکستان کی بات کی گئی،اس بات نے عوام کے دل
جیت لیے،اور ان کو بھی ہیرو کا درجہ دیا گیا۔لیکن افسوس کہ نائین الیون کی
آندھی کی زد میں ہمارا ایک کمنڈو ایک بہادر ہیرو بھی آگیا۔
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اکتوبر 2005 میں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ
جات میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کے بعد قوم نے ایک بار پھر یکجہتی اور حب
الوطنی اور اسلامی بھائی چارہ کا ثبوت دیا اور پوری قوم نے متحد ہوکر اس
مشکل گھڑی میں اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کی،مالی طور پر بھی جانی طور
بھی۔اپنا وقت بھی دیا کس کے لیے صرف پاکستان کے لیے اپنے بھائیوں کے لیے،
پھر اگر مجودہ لانگ مارچ کا بھی جائزہ لیا جائے تو ایک بات سامنے آتی
ہے۔سیاسی وابستگیوں کو ایک طرف رکھ دیکھا جائے تو اس لانگ مارچ میں عوام کی
دلچسپی۔ان کی جدو جہد ،چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیے نہیں تھی بلکہ
دراصل ا فرد کے لیے تھی جو ایک طویل عرصے کے بعد انصاف کی علامت بن گیا
تھا،جو بگڑے ہوئے سسٹم کے خلاف ایک مزاحمتی کردار کی صورت ظاہر ہوا،اور
عوام نے محسوس کیا کہ شائد یہی وہ فرد ہے جو اس ملک کی تقدیر بدل دے،جو اس
ملک کشتی کو پار لگا دے،جو بگڑے ہوئے سسٹم کو درست کرکے شائد وہی پاکستان
بنا دے جس کا خواب دیکھا گیا تھا۔اب یہ تحریک ناکام ہو یا کامیاب لیکن عوام
نے ایک بار پھر اس ملک کے لیے جدو جہد کی ہے
اب سب باتوں کا جائزہ لیا جائے تو بات صا ف ظاہر ہوتی ہے کہ آج بھی وہی حب
الوطنی،وہی جذبہ،اور وہی ولولہ باقی ہے لیکن آج قائد اعظم جیسا باکردار
رہنما نہیں ہے،آج قائد ملت خان لیاقت علی خان جیسا قربانی دینے والا لیڈر
نہیں ہے،آج کمی صرف ایک مخلص قیادت کی ہے عوام کا حال تو بقول شاعر ع میں
سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے |