ناظرین قارئین فوجی قیادت کے آٹھ
سالہ دور حکومت کے بعد جمہوریت کے دعویدارجب ہر طرف معاشی بحران کا راگ
الاپ رہے ہیں ایسے میں ہی محترمہ بے نظیر بھٹو محروم کو راولپنڈی میں پرا
سرار طور پر گولیوں سے نشانہ بنا کر اس جہان فانی سے رخصت کر دیا گیا ۔
ہائے دل مظلوم سول کے بعد عوام میں ایک بار پھر جمہوریت کا انقلاب طوفان
جاگا ۔ بڑے بڑے سر کردہ لیڈر جو فوجی دور حکومت میں چھپ کر فاقہ کش ہو گئے
تھے ۔ نئے اور جدید ہتھیاروں سے لیس جذباتی تیرکمانوں اور شرافت کے لبادوں
کو اوڑھ کر (سائیں عوام ) کے درمیان لفظی ہمدردی لیکر آن پہنچے ۔ آن کے آن
اپنی دوکانات سجا لیں ۔ جلوسوں میں بے نظیر بھٹو شہید ،بگٹی کے قاتلوں کو
گرفتار ، جلاوطنی بے ساختہ ، باچا خان مرحوم کے فلسفہ اور بے یقین امن کا
راگ سنا کر مظلوم ، بے چاری جلسہ گاہوں میں دھکے اور بھوک برداشت کرنیوالی
عوام کو خوشحالی کے باب کا نیا ساز سنانے لگے ۔ مجبور ، لاچار مفلوک الحال
، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ ، جمہوریت کے نام پر دل میں نئی امنگ ، نئی ترنگ
لیکر مزدور اپنی دیہاڑیاں توڑ کر سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ہاتھوں
استعمال ہو کر (زندہ ہے بی بی زندہ ہے )، ڈکٹیٹر مردہ باد اور شیر آیا کے
نعرے لگاتے ہوئے خوابوں اور خیالوں کی مستی میں جھومتے رہے ۔ فاقہ کش
قزاقوں نے دیکھا بھولے بھالے عوام ہمارے جذبات اور لفاظی ہمدردی کے جال میں
پھنس گئے ہیں ۔ منظم ہو کر سیاست کو عبادت نہیں برنس سمجھ کر اپنی انوسٹمنٹ
الیکشن کمپئین میں کرنے لگے ۔ آفاً فاً دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں نیا طوفان
اور بھونچال آگیا ۔ ملک میں پھر نئی حکومت کا قیام ہوگیا ۔ مٹھائیاں باٹیں
جانیں لگیں ۔ خوشی کے شاد یانے بجنے لگے ۔ مبارکبادوں کے پیغام تھے کہ رکنے
کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ ادھر عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ امید تھی
کہ شائد ملک کی بھاگ دوڑ ایماندار ، فرض شناس ، فکر انگیز ، باکردار قیادت
کے ہاتھ آگئی ہے ۔ میڈیا کے سامنے عوام کے سامنے خطابات میں کیے گئے وعدے
پورے کرنے کے لیے ٹائم فریم دیا جانے لگا ۔ ہر طرف واہ واہ قسمت مہربان کا
چرچا ہونے لگا ۔ مگر یہ کیا اچانک انگلش کے دولفظوں کے مجموعہ (سٹاپ دی
پریس ) اور بریکنگ نیوز نے معصوم عوام کے دل ودماغ پر نیا ہنگامہ برپا کر
دیا ۔ سوشل میڈیا کی یلغار نے سیاسی پارٹیوں ، ،لیڈروں ، حکمرانوں اور عوام
کے قیمتی ووٹ سے پروٹو کول اور داد عیش کرنے والے چہروں سے طلسمی نقاب اور
شرافت کا لبادہ اتار کر رکھ دیا ۔ ہر وقت سب سے تیز کرپشن ، رشوت خوری ،
اقربا پروری کے قصے زبان زد سر عام ہوگئے ۔ اور ہو یہ تو کوئی بات نہیں
ہوتا ہے ، چلتا ہے ۔ چلو وطن عزیز سکون میں تو ہے نا ۔ پاک فوج سرحدوں پر
پس رہی ہے ۔ جبکہ ہمارے روشنیوں کے شہر کراچی میں آئے روز صبح ہوتے ہی بد
نصیب ماﺅں کے لال ، اپنے گھر کے واحد کفیل ، بہنوں کی ڈولیاں سجا نے کے
خواب دیکھنے والا بھائی ، فرقہ وارانہ فسادات ، سیاسی انتقام ، سریل کلنگ ،
ٹارگٹ بم دھماکوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ وطن عزیز کرپشن ، لوٹ کھسوٹ میں
دنیا میں پہلے نمبر پر جبکہ غربت ، بے روز گاری ، معاشی بد حالی ، گیس ،
بجلی کی بندش جس کی وجہ سے ملک کے ہزار ہا فیکٹریوں سے لاکھوں مزدور، محنت
کش افراد نکال دیئے گئے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں جرائم کا گراف
بڑھتا چلا گیا جس میں پولیس بھی بری طرح ناکام رہی ۔ جس گھروں کے چولہے
چراغوں سے تیل نکال لیا گیا ۔ لوگ فاقہ کشی سے مجبور ہو کر خو د کشیاں کرنے
لگے ۔ ملک کے سرمایہ دار لوگ اپنا کاروبار دوسرے ممالک میں شفٹ ہو رہے ہیں
۔ وطن عزیز کو کرائسز کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ اور نام نہاد لیڈر
خطابات میں فخریہ بات کہتے نظر آتے ہیں ۔ الحمداللہ یہ پہلی حکومت ہے جو
پانچ سال پورے کریگی ۔ آٹا جو غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے اور
حکمران اپنے بیان میں بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پاکستان گندم برآمد کرنے والا
ملک بن چکا ہے ۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ” اب نہیں
تو کبھی نہیں “ یہ وقت سونے کا نہیں جاگنے کا ہے ۔ کبوتر کی طرح بلی کو
دیکھ کر آنکھیں بند کرنے سے اچھا ہے حکمرانوں کی عوام دشمن ناقص پالیسیوں
کا مسترد کر دیں ۔ جان لیں آپ کی طاقت یعنی آپ کے ووٹ کا درست انتخاب
دوبارہ ٹیکس چوروں کو اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیگا ۔ یہ وقت آپکا ہے ۔
یہ وقت پڑھی لکھی یوتھ کا ہے یہ گزا ہو وقت زندگی میں دوبارہ نہیں آئےگا ۔
درست سمت ووٹ کا استعمال کریں ۔ |