کارل ساگان

کائنات کی اَن دیکھی وسعتوں کا متلاشی اورکائنات میں ’’ سیاروی پڑوسیوں‘‘ کا کھوجی

20دسمبر جن کا یوم وفات ہے

خلاء کی خاموشی اور تاریک پراسراریت نے انسان کو ہمیشہ اپنے سحر میں جکڑے رکھا ہے اہرام بنانے والے عبقری دماغ ہوں یاموجودہ زمانے میں آسمان کی بلندیوں پر کمند ڈالنے والے سائنسدان سب کائنات کی تسخیر کے اسیر ہیں اور تسخیر کے اس جہدِ مسلسل سے عبارت کاروان میں ایک نہایت اہم اور منفرد نام ’’ کارل ساگان‘‘ کا ہے جس نے اپنی تمام ذہنی صلاحیتیں اور عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ سیارہ زمین سے دور کائنات میں بسنے والی اَن دیکھی ممکنہ مخلوق سے رابطہ استوار کرنے میں صرف کیا اور فکری اور سائنسی بنیادوں پر ان راستوں کا تعین کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا جن پرآج جدید علمِ فلکیات کی عمارت ایستادہ ہے۔

لا محدودکائنات کی وسعتوں میں ’’سیاروی پڑوسی‘‘ کی تلاش میں سرگرداں رہنے والا یہ نابغہ روزگار ماہرِ فلکیات ’’کارل ایڈورڈ ساگان‘‘ 9نومبر 1934 کو نیویارک کے علاقے بروکلین میں یہودی والد ’’سام ساگان‘‘اور گھریلو خاتون ’’راشیل مولے گریوبر‘‘ کے گھرانے میں پیدا ہوا اور ایک گارمنٹس فیکٹری ورکر کا بیٹا ہونے کے باوجود نہ صرف بلا مبالغہ فلکیات کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا بلکہ علمِ فلکیات کی ایک اہم شاخ Exobiology کی تخلیق کا سہرا بھی اِس کے سر جاتا ہے واضح رہے یونانی زبان کے لفظExobiology جس کے معنی ’’Outside‘‘ کے ہیں علمِ فلکیات کاایک ایساشعبہ ہے جس میں کارل ساگان نے ابتدائے کائنات کے حوالے سے اپنی تحقیق میں فلکیات(Astronomy)، حیاتیات(Biology) اور ارضیات(Geology) کو آپس میں یک جا کرکے تخلیقِ کائنات کے کئی راز طشت اَز بام کئے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے فلکیاتی تحقیق کے نئے دَر واَ کئے ہیں ۔

*ابتدائی حالات:
کارل ساگان کی اگر ہم زندگی پر نظر دوڑائیں تو علم ہوتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے کائنات میں ایک ایسی اَن دیکھی دنیا کی تلاش میں سرگرداں تھے جس کے باسی انہیں خوش آمدید کہنے کے لئے بے چین ہوں لیکن وہ سمجھتے تھے کہ سائنسی بنیاد پر دُرست رابطے کا فقدان اِس خوشگوار ملاقات کی راہ میں آڑے آیا ہوا ہے چناچہ کارل ساگان نے نیو جرسی کے Rahwayہائی اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے ہی کے دوران اس بات کا تہیہ کرلیا کہ وہ علمِ فلکیات کے پرتجسس اور پراسرار میدان میں اپنے خوابوں کی تعبیر علمی بنیاد وں پر تراشیں گے چناچہ انہوں نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پھر یونیورسٹی کے ذہین ترین طالب علم کی حیثیت سے 1955میں B.Scاور اگلے تعلیمی سیشن میں M.Sc کی سند طبیعیا ت کے شعبے میں امتیازی نمبروں سے حاصل کیں اور پھر محض پانچ سال بعد 1960 میں فلکیات اور طبعی فلکیات کے شعبے میں اَن تھک محنت کے بل بوتے پرPh.D.کی سند حاصل کر کے تحقیق وتدریس کے سمندر میں فکرا ور تدبر کے موتی چننے میں مصروف ہو گئے ۔

*درس و تدریس:
کائنات اور فلکیات کی طبعی ساخت(Astrophysics) کے دشوار ترین شعبے میں تحقیق کے بعد صرف26سال کی عمر میں حاصل ہونے والی ڈاکٹریٹ کی سند سے جہاں کارل ساگان کی شہرت میں چار چاند لگ گئے تودوسری جانب ان کی مقبولیت اورپرُ اعتماد اندازِفکر سے خائف ہو کر روائتی سوچ کے کئی ماہرین نے واویلا کرنا شروع کردیا کہ کارل ساگان خیال اور خواب کی دنیا میں رہنے والاایک ایسا ماہرِ فلکیات ہے جس کی سوچ کا محو ر کائنات میں ایک اَن دیکھی ذہین مخلوق کی تلاش ہے لیکن ساگان نے ان اعتراضات پر الجھنے کے بجائے اپنی تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھیں تاہم اس مایوسی کے دور کے حوالے سے کارل ساگان کا کہنا تھا کہ گریجویشن کے دوران جو عرصہ انہوں نے1946میں طب کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے مشہورامریکی ماہر جینیات ’’ایچ ۔جے میولر ‘‘کی تجربہ گاہ میں گذارا تھااُس تحقیقی کام کو اِس مایوسی کے دور میں دوبارہ نئے سرے سے سمجھنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں وہ اس امر پر کلی طور پر یکسو ہوگئے کہ کائنات میں ہمارے سیارے کے علاوہ کہیں نے کہیں حیات کسی نہ کسی شکل میں ضرور موجود ہے ، تاہم کچھ عرصے بعد مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور پی ایچ ڈی کی بنیاد پر کارل ساگان 1960 کے اوائل میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے کے شعبہ فلکیات میں بحیثیت اعزازی استاد منتخب ہوگئے تدریس کا یہ سلسلہ 1962کے وسط تک جاری رہا جس کی بعد اسی سال کے آخر میں کارل ساگان نے1890سے قائم شدہSmithsonian Astrophysical Observatory in Cambridge, میسا چیوسٹس میں تدریسی خدمات انجام دینی شروع کردیں یاد رہے SAO ایک اعلی درجے کا فلکیاتی تحقیق کا ادارہ ہے جو ’’ہارورڈ کالج آبزرویٹری‘‘ (HCO) کے ساتھ مشترکہ تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں بین الاقوامی سطح پر انجام دیتا ہے اس ادارے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ1983میں طبیعیات میں نوبل اعزازپانے والے ہندوستانی بعد ازاں امریکی شہریت اختیار کرنے والے ماہر طبیعیات ’’ سبرامینیم چندراشیکھر‘‘ کے نام سے منسوب’’ چندرا‘‘ خلائی تجربہ گاہ جو NASAکے زیر اہتمام 23جولائی 1999میں خلاء میں بھیجی گئی تھی اس کی نگرانی اورانتظامی امور SAO’’ایریزونا یونیورسٹی‘‘ کے ساتھ مل کر انجام دیتا ہے کارل ساگان کا اس بلند پایہ تحقیقی مرکز(SAO) میں درسِ و تدریس کا سلسلہ 1968تک جاری رہا جہاں انہوں نے اپنی زبردست اور منفرد صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایااور روائتی ڈگر پر قائم علمِ فلکیات کو اپنے اُن بیش بہا نئے نظریات اور انقلابی خیالات سے روشناس کرایا جن کی بنیاد پر فلکیاتی سائنس اور نظریات میں مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم پیش رفت سامنے آئیں واضح رہے SAOسے وابستگی کے دوران کارل ساگان کو یہ اعزازبھی حاصل رہا کہ انہوں نے 1636سے قائم ’’ ہارورڈ یونیورسٹی‘‘ میں سالانہ بنیاد پر علمِ فلکیات اور کائنات کے پراسرار اور خفیہ گوشوں کے بارے میں نتِ نئے تصورات اور اچھوتے نظریات پر مبنی لیکچرز دئے تاہم 1968کے اختتام پر انہیں اپنے اِن متنوع فیہ لیکچر ز کا سلسلہ بعض کم فہم ماہرین کے اعتراضات پر موخر کرنا پڑا اور وہ بہ دل نا خواستہ ’’ہارورڈ یونیورسٹی‘‘ کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے’’ہارورڈ یونیورسٹی‘‘ جیسے صفِ اول کے علمی ادارے سے مفارقت کے بعد کارل ساگان نیویارک میں قائم ’’ کورنیل یونیورسٹی‘‘سے وابستہ ہوگئے جہاں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر محض تین سال بعد 1971میں ’’ فل پروفیسر‘‘(Full Professor)کے منصب پر فائز ہوگئے اس اہم حیثیت پر خدمات انجام دینے کے دوران کارل ساگان نے ’’ کورنیل یونیورسٹی‘‘ کی ’’ تجربہ گاہ برائے سیاروی تعلیم‘‘ (Laboratory for Planetary Studies)کے سربراہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا جب کہ 1972سے 1981تک وہ Radio Physics and Space Researchسینٹر کورنیل میں بحیثیت’’ ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر‘‘ کے اہم عہدے پر بیش قدر خدمات انجام دیتے رہے اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ کارل ساگان کورنیل یونیورسٹی کے اب تک کے واحداستاد ہیں جنہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے بیک وقت تین اہم مذکورہ ذمہ داریوں کو بہ احسنِ و خوبی نبھایااس کے علاوہ کارل ساگان نے کورنیل یونیورسٹی میں دورانِ تدریس طالب علموں کو’’ تحقیقی امور میں تنقیدی رویوں سے بہترنتائج کے حصول ‘‘کے حوالے سے ایک کورس متعارف کرایا جو کارل ساگان کی زندگی کی آخری سانسوں تک جاری رہا کارل ساگان کے عام فہم انداز میں پیش کئے جانے والے لیکچرز کے باعث اس کورس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ صرف بیس نشستوں پر محدود کورس میں شمولیت کے لئے سینکڑوں طالبانِ علم یونیورسٹی میں داخلے کے خواہش مند ہوتے تھے ۔

*تحقیقی دعوے اور تکنیکی خدمات :
ایک پرُ امید اور نئی دنیا کے متلاشی نوجوان کی حیثیت سے کارل ساگان تعلیم کے حصول اور درس و تدریس کے دوران ہی امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارے (NASA)کی اہمیت سے اچھی طر ح آگاہ ہو چکے تھے چناچہ1950کی دہائی کے شروع میں بحیثیت تحقیقی طالب علم اور بعد ازاں وہ ناسا میں بطورمشیر خدمات انجام دینے لگے اس لحاظ سے کارل ساگان کا شمار امریکہ کے انسان بردار خلائی پروگرام کے بانیوں میں کیا جاتا ہے چاند پر انسانی قدم رکھنے کا یہ خلائی پروگرام جس کا خواب امریکہ کے صدر جان۔ایف کینیڈی نے دیکھا تھا اُس کی کامیاب تکمیل میں کارل ساگان کا زبردست حصہ تھا انسانی تاریخ کا یہ قابل قدر کارنامہ جب 20جو لائی 1969کو انسان بردار خلائی مشنApollo گیارہ کی شکل میں شرمندہ تعبیر ہوا تو کامیابی کے پس منظر میں خلا بازوں کو دورانِ تربیت کائنات کی بھول بھلیوں کے بارے میں دیئے گئے کارل ساگان کے علمی اور منفرد سوچ سے مزین لیکچرز خصوصی اہمیت کے حامل تھے جس کے باعث خلا بازوں کو مشن پر روانگی سے قبل ہی خلائی سفر کے حوالے سے مفید اور کارگر معلومات حاصل ہوگئیں تھیں جس کا اقرار چاند پر پہلا قدم رکھنے والے خلاء نورد ’’ نیل آرم اسٹرانگ‘‘ اور ان کے رفقاء اکثر و بیشترکرتے رہے ہیں اسی طرح اپالو مشن جو1961سے 1975تک جاری رہا اس کی کامیاب تکمیل اور بعد ازاں نظامِ شمسی کے بھید جانے کے لئے کئے جانے والے دیگر تجربات کے دوران جدید سائنسی بنیادوں پر خلاء میں بھیجے جانے والے ’’ روبوٹک خلائی جہازوں ‘‘(Robotic Spacecrafts) کی تیاری میں کارل سا گان کی مہیا کردہ تکنیکی معاونت، قابل عمل آئیڈیاز اور فلکیاتی مداروں اور راستوں کے حوالے سے کئے گئے درست پیمائشی حساب کتاب آج بھی کارل ساگان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔

کارل ساگا ن جب کسی انجانی اور اَن دیکھی خلائی مخلوق سے راہ ورسم بڑھانے کی سوچ ر ہے تھے اس دوران ان کا دماغ کائنات کی دیگر بھول بھلیوں کو سلجھانے میں بھی مصروف تھا مثلا1960کی ابتداء تک عام خیال تھا کہ’’ اندرونی نظام شمسی‘‘ میں واقع سیارہ زہرہ کی سطح نرم اور پرُ فضا ہے اور جب انسان اس پر کمند ڈالنے کے قابل ہو جائے گا تویہ سیارہ انسان کے لئے ایک خوشگوار دریافت ہوگی لیکن اس روائتی نظریے کے برعکس کارل ساگان نے تحقیق کے بعد دعوی کیا کہ سیارہ زہرہ ایک نہایت سخت سطح پر مشتمل گرم اور کثیف کرہ ہوائی پر مشتمل سیارہ ہے اس کے علاوہ کارل ساگان نے سیارے پر تیزابی تابکار گیسوں کے اخراج کا تجزیہ کرنے کے بعد اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ اِس زبردست تیزابی برسات(Acid Rain) کے باعث بننے والے’’ سبز مکانی اثر ‘‘ (Green House Effect)نے سیارے کا درجہ حرارت 500ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ کردیا ہے اور دور سے جنت کی طرح دکھائی دینے والا یہ سیارہ درحقیقت جہنم بن چکا ہے اس تناظر میں کارل ساگان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اقتصادی ترقی کی اندھا دھند دوڑ میں ایسا ہی عمل زمین کے باسی زمین کی تپش بڑھا کر کررہے ہیں جس کے نتائج دیر یا بدیر سخت خطرناک ثابت ہوں گے تاہم کارل ساگان کا سیارہ زہرہ سے متعلق یہ دعوی جب ہفتہ وار ٹائم اور لائف میگزین کے مضامین پر مشتمل کتاب’’ ٹائم ۔لائف بک‘‘ (Time-Life Book)کے Planetsایڈیشن میں شائع ہوا تو فلکیات دانوں میں اس دعوی کی قبولیت اور عدم قبو لیت کے حوالے سے زبردست بحث و مباحثہ شروع ہوگیا اور بالآخر 1962میں سیارہ زہرہ کی جانب بھیجے جانے والے خلائی مشن ’’Marinerدوئم ‘‘نے کارل ساگان کی سیارہ زہرہ کی سطح اور اس کے درجہ حرارت کے بارے میں کئے گئے تجزیوں کی تصدیق کردی یاد رہے NASAکے زیر نگرانی پیسا ڈیٹا، کیلی فورنیا میں قائم خلائی تجربہ گاہ’’ جیٹ پروپلشن لیبارٹری‘‘سے سیارہ مریخ،عطارد اور زہرہ کی جانب بھیجے جانے والے اولین کھوجی خلائی جہاز جنہیں Marinerمشن کا نام دیا گیا تھا ان کی تیاری میں کارل ساگان نے بحیثیت اعزازی سائنسدان اپنی مکمل مہارت اور تکنیکی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیاتھا-

مذکورہ نظریے کے علاوہ کارل ساگان اُن ماہرِ فلکیات میں سب سے پہلے ماہر تھے جنہوں نے اس بات کا اندازہ کیا تھا کہ’’ بیرونی نظام شمسی ‘‘میں واقع سیارہ زحل کے چھپن چاندوں میں سے ایک چاند’’ ٹائٹن ‘‘(Titan)جو سیارہ عطارد سے بھی بڑا ہے اس کی سطح پر سیال مرکبات (Liquid Compounds) موجود ہیں جس کے باعث یہ نظام شمسی کا واحد چاند ہے جس پر خاطر خواہ فضائی کُرہ بھی موجود ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ کارل ساگان نے ٹائٹن کے اِطراف میں موجود سرخی مائل دھند کے پراسرار عقدے کو حل کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پیچیدہ نامیاتی ذرات کی بارش ہے جو ٹائٹن چاند کی سطح پر مستقل برستی رہتی ہے بعد ازاں کارل ساگان کے اس تجزیاتی دعوی کی تصدیق Marinerمشن کے دوسری نسل کے ایک غیر انسان بردار خلائی مشن ’’ مارک IIسیریز‘‘کے زریعے ہوگئی اس کے علاوہ سیارہ مشتری کے تریسٹھ چاندوں میں سے ایک چاند ’’یوروپا‘‘ (Europa)کے بارے میں اپنے تجزیے میں ساگان نے دعوی کیا تھا کہ ’’یوروپا‘‘ کی زیرِ سطح پانی موجود ہے اور بعض مخصوص حالات میں یہاں حیات افزائش پا سکتی ہے اور کچھ ہی عرصے بعد کارل ساگان کے اس دعوی کی تصدیق غیر انسان بردار خلائی مشن ’’ گلیلیو ‘‘(Galileo)کی تجزیاتی رپورٹ کے زریعے ہوگئی اسی طرح ساگان کا کہنا تھا کہ سیارہ مریخ پر نظر آنے والے روشن حصے آتش فشاں پہاڑ ہیں اور تاریک حصے ماضی کی خشک جھیلوں کے گڑھے ہیں جو ہمیں زمین سے روشن اور تاریک حصوں کی مانندزیرِ مشاہدہ آتے ہیں جب کہ مریخ کی سطح پر نظر آنے والے بدلتے رنگوں کی کیفیات دراصل گرد و غبار کے طوفان اور آندھیوں کا مظہر ہیں اگرچہ کارل ساگان کے ان تمام تحقیقی دعوؤں کو اُس وقت کے سکہ بندماہرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بغیر علمی دلائل کے ردَکرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن بعد میں مختلف خلائی مشن کی تحقیقات کے نتیجے میں اب تک حاصل ہونے والے شواہد نے کارل ساگان کے تمام دعوؤں اور تجزیوں کو درست ثابت کردیا ہے غالبا ایسے ہی مواقعوں کے لئے کارل ساگان نے کہا تھا کہ ’ ’ غیر معمولی دعوؤں کے لئے غیر معمولی شواہد کی ضرورت ہوتی ہے‘‘ ۔

کارل ساگان کا ایک اور نہایت اہم اور دلچسپ کارنامہ انسان کی جانب سے خلائے بسیط میں بسنے والی کسی اَنجانی ذہین مخلوق کے لئے بھیجے جانے والے برقی پیغامات کی تیاری تھی یہ پیغامات جو فلکیاتی سائنس اور خلائی حالات کو مد نظر رکھ کر تیار کئے گئے تھے کارل ساگان کے ذہن رسا کا ایسا کارنامہ تھے جس کو جہاں ایک طرف زبردست پذیرائی حاصل ہوئی تو دوسری جانب اِسے روائتی فلکیات دانوں اور محقیقین کی جانب سے تنقید کا سامنا اس لحاظ سے کرنا پڑا کہ ان سب کا خیال تھا کہ کسی اور خلائی مخلوق کا وجود محض خام خیالی اور قصے کہانیوں کا موضوع تو ہوسکتا ہے مگر عملی طور پر ایسا ہونا مشکل ہے مگر کارل ساگان کا اس ضمن میں کہنا تھا کہ ہر نئے نظریے پر تنقید ہونا ایک فطر ی اَمر ہے لیکن وہ محض تنقید کی بنیاد پر اپنی اس سوچ سے دَست بردار نہیں ہو گا چناچہ کارل ساگان نے سب سے پہلا پیغام ایلومونیم کی تختی پرسنہری برقیاتی اشکال کی مدد سے لکھایہ پیغام جسےGold-anodized Plaqueبھی کہا جاتا ہے1972میں خلائی جہاز’’ Pioneerدہم‘‘ اور دوسری مرتبہ1973میں’’پائینر یازدہم‘‘ کے انٹیناسے جوڑ کر نظامِ شمسی کی لا محدود وسعتوں کے حوالے کیا گیایاد رہے ’’پائینیر دہم ‘‘انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا سب سے پہلا غیر انسان بردارخلائی جہاز تھا جسے نظامِ شمسی کی بے کراں وسعتوں میں با مقصد آوارگی کے لئے چھوڑا گیا تھااور جس کے انٹینا سے متصل ایک راڈ پر کارل ساگان کی تخلیق کردہ برقیاتی تختی پر مرد اور عورت کے برہنہ جسمانی خدوخال کے علاوہ کئی دیگر اشاراتی (Symbolics)پیغام نقش ہیں جو انسان کے ارتقاء اور اِس خلائی جہاز سے متعلق میں ہیں جن کے بارے میں کارل ساگان کا خیال تھا کہ شاید کبھی نہ کبھی مستقبل میں کوئی ہمارا کائناتی دوست یا دشمن انہیں سمجھ کر یا پڑھ(De-code)کر ہمارے سیارے سے رابطہ کرنے کی کوشش کرے گااِن دونوں پیغامات کے علاوہ کارل ساگان نے تقریبا پانچ سال کی تحقیق کے بعد 1977میں ’’وائیجرخلائی جہاز‘‘(Voyager)کے ہمراہ ایک فونوگرافک ریکارڈ(Voyager Golden Record) جس میں مختلف آوازیں ریکارڈ ہیں اور دوسرے وائیجر خلائی جہاز میں زمین پر انسانی تہذیب اور تمدن کے ارتقائی حوالوں پر مشتمل مختلف تصاویر ی پیغامات ثبت ہیں خلاء کی اَن دیکھی دنیا کے حوالے کی ہیں واضح رہے یہ دونوں خلائی کھوجی چالیس ہزار سال کا سفر طے کرنے کے بعد سورج کے نزدیک ترین ستارےAlpha Centauriسے جو سورج سے 4.4نوری سال کی دوری پر واقع ہے اس کے قریب سے گذر کر مزید آگے کے سفر پر رواں دواں رہیں گے یاد رہے دونوں خلائی کھوجیوں (Voyagers) کو خلاء میں کسی بھی غیر متوقع حادثے یا تصادم سے بچانے کے لئے کارل ساگان نے NASAکی مشاورت سے نہایت مختصر جسامت کا بنایا ہے اور اسی مناسبت سے کارل ساگان کا کہنا تھا کہ بل خصوص اپنے طویل سفر اور مختصرجسامت کے باعث ان دونوں خلائی کھوجیوں کو ہم خلائی جہاز کے بجائے ایک ایسے Time Capsule سے تعبیر کر سکتے ہیں جو اگر کبھی مستقبل میں کسی بھی ممکنہ خلائی مخلوق کو ملا تو وہ یقیناًکرُہ ارض اور اِس کے باسیوں کے بارے میں کافی حقائق سے آگاہ توہو جائیں گے مگر افسوس یہ آگاہی صرف ہمارے ماضی ہی سے متعلق ہو گی۔

*SETIمنصوبہ:
کارل ساگان نے جہاں ایک طرف انسان کی جانب سے ممکنہ خلائی مخلوق کو پیغامات بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو دوسری جانب وہ ’’غیر ارضی مخلوق‘‘ کی جانب سے زمین کی طرف روانہ کئے جانے والے پیغامات وصول کرنے کی تگ و دو میں بھی لگے رہے جس کے لئے انہوں نے ’’ماورائے کرُہ ارض زہانت کی تلاش‘‘ ’’ سیٹی ‘‘ Search For Extra-Terrestrial Intelligence (SETI)کا منصوبہ شروع کیا جس کے تحت کئی رصد گاہیں تعمیر کی گئیں اس غیر معمولی منصوبے کو کارل ساگان نے ممکنہ خلائی حیات کے وجود سے رابطے کی کوششوں کی ایک اہم کڑی قرار دیا تھا اور کارل ساگان کی کوششوں ہی کا نتیجہ تھا جب 1982میں 70سائنسدان جن میں سات نوبل انعام یافتہ ماہر بھی شامل تھے انہوں نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کئے تھے جس کے تحت SETIمنصوبے سے حاصل ہونے والی معلومات کو سائنسی تحقیقی جرائد اور رسائل میں شائع کرنے کی قانونی اجازت حاصل ہوئی تھی SETIمنصوبے کے تحت آج بھی کارل ساگان کے تحقیقی خطوط پر استوار کیا ہواSeti Institute سائنسی بنیادوں پر کائنات کی ابتدا ، ساخت، ابتدائے حیات اور نظامِ شمسی کے ارتقاء کے بھید جانے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے جس کے نتیجے میں سائنس کی ایک نئی شاخ’’ فلکیاتی حیاتیات‘‘ (Astrobiology)بھی وجود میں آ چکی ہے اس کے علاوہ اس ادارے میں ’’ لیزر‘‘ (Laser)اور ’’ میزر ‘‘(Maser)شعاع کے موجدنوبل انعام یافتہ ماہر Charles Townes اور ’’ہپا ٹائٹس بی ‘‘ کی ویکسین کے دریا فت کنندہ اور نوبل انعام یافتہ ماہر Baruch Blumberg جیسے سائنسدان بھی خدمات انجام دے رہے ہیں جو کارل ساگان کے ’’ خلائی حیات‘‘ کے نظریے کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر ماہرین کے ہمراہ ہمارے نظامِ شمسی اور اربوں نوری سال کی دوری پر واقع ’’ماورائے نظامِ شمسی‘‘میں سیاروں اور کہکشاؤں کی تلاش اور ان پر کسی بھی قسم کی حیات کی تلاش میں برسرِ پیکارہیں جب کہ Seti Institute میں کارل ساگان کی جانب سے شروع کیا جانے والا ہفتہ وارسائنسی پروگرام Are We Alone?بھی تشنگانِ علم کی پیاس بجھا رہا ہے واضح رہے اس ادارے کو ’’ہبل ٹیلی اسکوپ ،ایلین ٹیلی اسکوپ، اسپٹزر ٹیلی اسکوپ اور ’’پوریٹو ریکو‘‘میں’’آرسیبو ‘‘کے مقام پر ایک ہزار فٹ کے قطر پر محیط (Arecibo Radio Telescope Observatory)کی معاونت بھی حاصل ہے پچیس ہزار نوری سال کی دوری سے سگنل وصول کرنے والی Areciboریڈیوٹیلی اسکوپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے زریعے 16نومبر 1974 میں کارل ساگان اورمشہور امریکی ماہرِ فلکیات’’ ڈاکٹر فرینک ڈونالڈ‘‘ نے پہلی مرتبہ خلاء کی وسعتوں میں زمین سے متعلق معلومات پر مشتمل ریڈیائی سگنل کسی ممکنہ خلائی مخلوق کے لئے روانہ کئے تھے جنہیں Arecibo Messageبھی کہا جاتا ہے تاہم ماہرین کوکسی بھی نوعیت کی خلائی مخلوق کی جانب سے اس پیغام کے جواب کا شدت سے انتظار ہے ۔

*انتباہی حقائق:
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سرد جنگ کے زمانے میں جوہر ی ہتھیاروں کی تیاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی سخت مذمت کرتے ہوئے کارل ساگان نے ایک مشترکہ تحقیقی مقالے میں جسے دیگر شریک مصنفین کے ناموں کی رعایت سےTTAPS رپورٹ کہا جاتا ہے (Sسے مراد ساگان ہے)میں اس بات کا عندیہ دیا تھاکہ اگر جوہر ی جنگ جسے وہ Nuclear Holocaustسے تعبیر کرتے تھے پوری شدت سےِ چھڑ گئی تودنیا ایک ایسے جوہری گرد و غبار سے اَٹ جائے گی جس کا سب سے بڑا نقصان سورج کی روشنی کا زمین تک نہ پہنچنے کی صورت میں ہوگاجس سے زمین کا درجہ حرارت انتہائی کم ہو جا ئے گا اور’’ضیا ر خیت ‘‘ (Phototropism) یا ضیائی تالیف کا عمل سست ہوجانے کے باعث نباتات کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا جب کہ مجموعی طور پر ہمارا جیتا جاگتاسیارہ زمین سسک سسک کر موت کے منہ میں چلا جائے گاکارل ساگان نے اس تمام عمل کے لئے ’’ جوہری خزاں‘‘ (Nuclear Winter)کی اصطلاح استعمال کی تھی جب کہ جوہری خزاں کے باعث پیدا ہونے والے تمام خطرات اور نقصانات کی منظر کشی دیگر مصنفین کے ہمراہ تجزیاتی کتاب A Path Where No Man Thoughtمیں کی ہے اسی طرح کارل ساگان نے 1991میں عراق اور کویت کے مابین لڑی جانے والی جنگ میں کویت کے526 نذر آتش کئے جانے والے تیل کے کنوؤں سے اٹھنے والے دھویں کے مضمرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان دھوئیں کے بادلوں کے نتیجے میں خلیجِ فارس اور جنوب ایشیا کے موسمی حالات میں تغیر پیدا ہو جائے گا ساگان کے اس تجزیے کی تصدیق خلیجی مما لک میں چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کم ہونے سے ہو گئی ہے اسی طرح 1992میں کارل ساگان نے زمین سے قریب خلاء میں گردش کرتے خطرناک شہابیوں یا اجسام (Near Earth Objects)کو واپس خلاء میں دھکیلنے کے حوالے سے مروجہ طریقوں کو مزید بہتر بنانے کے لئے تکنیکی بحث کاسلسلہ شروع کیا اس تناظر میں دنیا کے اس نامور ماہرِ فلکیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماہرینِ فلکیات کو سیارچوں کا راستہ تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی صرف انتہائی اشد اور فوری (Emergency)ضرورت کی صورت ہی میں استعمال کرنی چاہیے کیوں کہ ہمارا نظامِ شمسی ایک ایسے گنجلنگ اور پیچیدہ نظامِ توازن پر قائم ہے جس میں پیدا ہونے والا رتیَ برابر فرق ناقابلِ تلافی نقصان میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

*سماجی امن اور احتجاج :
کارل ساگان بنیادی طور پر پرُامن مقاصد رکھنے والے ایک ایسے ذہین ماہرِ فلکیات تھے جو خلاء کی وسعتوں کو جنگی جارحیت سے بھی پاک رکھنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے مارچ 1983میں اعلان کردہ ملٹی بلین ڈالر کے دفاعی میزائل پروگرام کی بھرپور مخالفت کی ’’ اسٹار وارز‘‘کے نام سے مقبول ہونے والے اس پروجیکٹ کے بارے میں کارل ساگان کا خیا ل تھا کہ دشمن کو زیر کرنے کا یہ ایک نہا یت مہنگا اور غیر محفوظ طریقہ ہے ا ور اس کے علاوہ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ اس پروجیکٹ کے مکمل ہوجانے کے بعد امریکہ اور سابقہ سوویت یونین میں ایٹمی ہتھیاروں کے درمیان عدم توازن پیدا ہو جائے گا جو دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کی تحریک کے لئے بھی دھچکے کا باعث بنے گا چناچہ جب سابقہ سوویت یونین کے صدر میخائل گوربا چوف نے ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی چالیسویں سالگرہ کے موقع پر 6اگست 1985کو اپنے ملک میں کئے جانے والے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کو جذبہ خیر سگالی کے تحت منسوخ کردیا تو ان کے اس فیصلے کو عالمی سطح پر زبردست پذیرائی ملی لیکن جب امریکہ نے سوویت یونین کے برعکس جوہری ہتھیاروں کے تجربات جاری رکھنے کا اعلان کیا تو کارل ساگان نے امن پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر 1986سے 1987تک’’ صحرائے نیواڈا‘‘ میں واقع امریکہ کے جوہری تجربہ گاہ کے علاقے (Nevada Test Site)میں زبردست احتجاج جاری رکھا جس کے دوران دو مرتبہ کارل ساگان کو ٹیسٹ سائٹ کے حفاظتی جنگلے کو عبور کرنے پر گرفتار کیا گیا یاد رہے اس سے قبل کارل ساگان کو ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر بھی گرفتار کر کے پابند سلا سل کیا جا چکا تھا۔

*ادبی اور بصری خدمات:
نئی نسل کو کائنات کے سربستہ رازوں سے غیر روائتی طریقوں سے آشنا کرنے والے اس دانشور ماہرِ فلکیات کارل ساگان کی اہمیت اور قابلیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور برطانوی سائنسدان ’’ اسٹیفن ہاکنگ ’’ نے اپنی شہر آفاق کتاب ’’ بریف ہسٹری آف ٹائم ‘‘ کا پیش لفظ کارل ساگان سے تحریر کروایاتھااس کے علاوہ لندن میں واقع’’ رائل انسٹی ٹیوٹ‘‘ میں جہاں 1825سے کرسمس کے موقع پر سائنسی موضوعات پر مبنی ’’کرسمس لیکچرز‘‘ منعقد کئے جارہے ہیں وہاں کارل ساگان نے1977میں ’’ سیارے‘‘(The Planets)کے موضوع پر نوجوانوں سے خطاب کیا جسے دنیا بھر کے فلکیات دانوں نے فلکیات کے موضوع پر پچھلی صدی کا سب سے عمدہ اور پرُ اثر لیکچر قرار دیا تھایاد رہے یہ لیکچرز BBC، چینل فور اور چینل فائیو سے بھی دنیا بھر میں نشر کئے جاتے ہیں، بارہ برس تک سیاروں سے متعلق بین الا قوامی تحقیقی جریدے ’’ اکارس‘‘کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کارل ساگان کا ایک اور زبردست کارنامہ کائنات کی گھتیوں کو سلجھانے کے لئے تیرہ اقساط پر مبنی معرکتہ لآرا پروگرام ’’ کاسموس ‘‘ (Cosmos)تھا جس کی تحریر اور پیش کش میں انہیں اپنی تیسری ناول نگار بیوی’’ این ڈریو آن‘‘ کا تعاون حاصل تھا’’کائنات کی ابتدا ‘‘ اور کائناتی امور سے متعلق پرُ مغز بحث و مباحثے پر مشتمل اس پروگرام کو دنیا بھر میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی جس کا اندازہ NASAکے ایک عہدے دار کے اس بیان سے ہوتاہے جس کے مطابق اس پروگرام کو ساٹھ ممالک کے 55کروڑ ناظرین نہایت ذوق و شوق سے دیکھتے تھے یاد رہے 1980میں ’’پبلک براڈ کاسٹنگ سروسز‘‘(PBS)کے زیرِ اہتمام پیش کئے جانے والے اس پروگرام کوEmmyاور Peabodyجیسے مستند ایوارڈ زسے بھی نوازا گیا ہے جب کہ پروگرام کی افادیت کے پیش نظر بعد میں اسے کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا جس نے اشاعت کے پہلے سال انگریزی زبان میں سائنسی موضوع پر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کااعزاز بھی حاصل کیااس کتاب سے قبل کارل ساگان نے The Dragons of Edenتحریر کی جس نے1978میںPulitzerانعام حاصل کیاعلاوہ ازیں ان کے 1985میں شائع ہونے والے سائنسی فکشن پر مبنی ناول ’’ کانٹیکٹ‘‘نے بھی عالمگیر شہرت حاصل کی یاد رہے مشہور اشاعتی ادارے Simon & Schuster نے ناول کا مرکزی خیال سننے کے بعد کارل ساگان کو ناول تحریر کرنے کے لئے 2ملین ڈالر پیشگی دیئے تھے جو اُس وقت تک کسی بھی ایسی کتاب کا جو مستقبل میں تحریر کی جانی ہو سب سے زیادہ پیشگی معاوضہ تھا 1997میں اس ناول پر SETIپروجیکٹ کے پس منظر میں فلم بنائی گئی جس میں آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ ’’ جوڈی فوسٹر‘‘ کو عمدہ کردار نگاری پر 1997کے بین الااقوامی ’’Saturn Award‘‘ سے نوازا گیاتھا اور ایک شہاب ثاقب کا نام ان کے اعزازمیں ’’جوڈی فوسٹر 17744 ‘‘رکھا گیا جب کہ فلم کو بہترین تمثیل نگاری پر ’’ ہیو گو ‘‘ ایوارڈ دیا گیا تھاتاہم کارل ساگان فلم کے ریلیز ہونے سے قبل دنیا سے رخصت ہو گئے تھے چناچہ فلم کا اختتام کارل ساگان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ’’For Carl‘‘کے الفاظ پر کیا گیا ہے، ساگان نے ایک کتاب’’ خلاء میں انسان کے مستقبل پر ایک نظر‘‘ کے موضوع پر بھی لکھی جس کا عنوان Pale Blue Dot تھا جسے نیویارک ٹائمز نے1995کی بہترین اور یادگار سائنسی کتاب قرار دیاتھا۔

*کارل ساگان۔ عمومی معلومات
کارل ساگان نے اپنی زندگی میں تقریبا600مقالے اور 20 کتابیں مختلف حیثیتوں میں تحریر کیں انہوں نے تین شادیاں کیں جس میں پہلی شادی 1957میں ماہر حیاتیات Lynn Margulis سے کی جس سے ان کے دو بچے ’’ڈورین ساگان‘‘ اور ’’جرمی ساگان‘‘ ہیں دوسری شادی1968میں اداکارہ Linda Salzmanسے کی جن سے ایک بیٹا Nick Saganہے جو ایک عمدہ لکھاری بھی ہے تیسری شادی جو ان کے مرتے دم تک قائم رہی 1981میں ناول نگار اور کاسموس سیریز کی مشترکہ مصنفہ Ann Druyan سے ہوئی جن سے ان کے دو بچے بیٹی Alexandra Rachelاور بیٹا Samuel Democritusہیں۔

کارل ساگان نے ارضیات کے مشہور پروفیسر’’بروس مری‘‘اورپی ایچ ڈی ڈاکٹر ’’ لوئیس فرآئیڈمین ‘‘کے ہمراہ1980میں Planetary Societyکی داغ بیل ڈالی جس کے اِس وقت 149ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریبا دس لاکھ ممبرز ہیں جودنیا بھر میں کائنات سے متعلق ہمہ گیر علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے جڑے ہوئے ہیں نجی حیثیت میں قائم اس سوسائٹی کو فلکیات کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے معتبر تنظیم ہونے کامرتبہ بھی حاصل ہے اس کے علاوہ کارل ساگان نے ’’ امریکی سوسائٹی برائے فلکیات‘‘ (American Astronomical Society) کے ’’سیاروی سائنس‘‘ کے شعبے میں چیئرمین اور ’’ امریکی ارضی طبیعیات یونین ‘‘(American Geophysical Union)کے’’ سیاروی ٹیکنالوجی‘‘ کے شعبے میں صدر اور’’امریکی ایسوسی ایشن برائے Advancement of Science‘‘کے فلکیات کے شعبے میں بہ طورچیئر مین خدمات انجام دیں جس کے دوران ان کی سربراہی میں سینکڑوں قابلِ قدر مقالات اورتحقیقی مواد دنیا بھر کے سائنسی جرنلز میں شائع ہوئے ۔

5جولائی 1997میں سیارہ مریخ کی سطح پر اترنے والے مشن ’’ پاتھ فائنڈر ‘‘ سے منسلک پہلی متحرک گاڑی’’سوجرنر‘جس نے مریخ کی سطح پر چہل قدمی کی اس مقام کو ناسا نے’’ کارل ساگان میموریل اسٹیشن‘‘ سے معنون کر دیا ہے اسی طرح ناسا نے خلاء کی وسعتوں میں آوارہ پھرنے والے ایک شہاب ثاقب کا نام بھی 2709 Saganرکھ دیا ہے جب کہ کارل ساگان کی خدمات کے اعتراف میںNASAکے Amesتحقیقی مرکز نے ان کی 67ویں سالگرہ کے موقع پر 9نومبر 2001میں ’’کارل ساگان مطالعاتی مرکز برائے کائناتی حیات‘‘ بنانے کا اعلان کیا جس کا افتتاح 22اکتوبر2006کو ان کی بیوہ ’’ این ڈریوآن‘‘ نے کیا۔1994میں ایپل کمپیوٹر کمپنی نے اپنے کمپیو ٹر’’پاور میکنٹوش 7100’’ کے پروسیسر کے اندرونی کوڈ کا نام اعزازی طور پر ’’ کارل ساگان‘‘ رکھا تھا لیکن کارل ساگان کی جانب سے نامعلوم وجوہات اور اعتراض کے بعد کمپنی نے یہ نام تبدیل کردیا تھا ۔

کارل ساگان کے نام پر تین ایوارڈ دئے جاتے ہیں جن میں امریکن Astronauticalسوسائٹی اورPlanetaryسوسائٹی کا مشترکہ ایوارڈ ’’ کارل ساگان میموریل ایوارڈ‘‘ ہے دوسرا انعام تمغے کی شکل میں ہے جو امریکنAstronomicalسوسائٹی دیتی ہے عوامی سطح پرخلائی تعلیم کے بارے میں آگاہی پھیلانے پر دئے جانے والے اس تمغے کو ’’ کارل ساگان تمغہ برائے ایکسی لینس‘‘ کہا جاتا ہے جب کہ تیسرا ایوارڈ ’’ کونسل آف سائنٹفک سوسائٹی ‘‘ عوام میں عمومی سائنس کا رجحان بڑھانے والے ماہرین کو دیتی ہے جسے ’’ کارل ساگان ایوارڈ‘‘ کہا جاتا ہے ۔

*حرفِ آخر:
حسنِ اتفاق سے 9نومبر کارل ساگاں کی طرح فلسفی اورشاعر بے بدل ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یو م پیدائش بھی ہے علامہ اقبال نے مسلمانوں کی سائنس سے بے رغبتی اور بے حسی کے باوجود دنیا فتح کرنے کی خواہش بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ ؂
چاہتے سب ہیں ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا پیدا تو کرے کوئی قلب سلیم

شاعر مشرق علامہ اقبال کی صدا پر لبیک کہنے والا کارل ساگان جو ساری زندگی انسانیت اورجمہوری رویوں کی سربلندی کے لئے مصروف رہا جس نے جنگ و جدل کے خلاف عملی جہاد کیا اور جس کے نت نئے انقلابی خیالات اور اندازِ بیان کی شگفتگی کی بدولت فلکیاتی اور خلائی سائنس کے خشک موضوع کو نہ صرف عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی بل کہ اُس کی خلاء کے بارے میں مثبت خیالی کے باعث وائیجر،وائی کنگ، اپالو ، پائنیئر، میریئنر اور ان گنت چھوٹے چھوٹے خلائی مشن پایہ تکمیل تک پہنچے، قدرت کی تخلیق کردہ بے حساب کہکشاؤں اور نامعلوم زندگیوں اور ان کی سچائیوں کی تلاش میں ساری زندگی مصروف رہنے والا یہ منفرد اور یکتا انسان باسٹھ سال کی عمرمیں کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں 20دسمبر1996کو دنیا سے رخصت ہوکر آسمان پرستاروں سے سجی اورجگمگاتی کہکشاؤں میں جا بسا۔

کارل ساگان یا اس قسم کے دیگر ذہین لوگوں کے غور و فکر،تدبر، مشاہدے، کاوشوں اور کوششوں کے
مقابلے میں جب ہم خود پر نظر دوڑاتے ہیں توبہ حیثیت مسلم امہ ہم مسلمان جو اسلام جیسے آفاقی مذہب سے محبت کے دعوے دار ہیں اور جو قران مجید سے عقیدت کو اپنی زندگی کا محور قرار دیتے ہیں ابھی تک قران مجید کو صرف ثواب کمانے کی کتاب پر ہی قیاس کرتے ہیں حالاں کہ اگر ہم قران کریم میں تحقیق ،غور و فکر،تدبر اور مشاہدے کی دعوت اور ترغیب کے حوالے سے آیتوں کے موتی چنیں تو واضح ہوتا ہے کے اس الہامی کتاب یعنی قران حکیم میں خدا نے اپنی کبر یائی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تقریبا ساڑھے سات سو آیات میں چھان پھٹک،تحقیق ، غور و فکر،تدبر، تفکر اور مشاہدے کی دعوت دی ہے لیکن صد حیف مسلم امہ کے کچھ گروہ ابھی تک شاندار عالمانہ ماضی کے سحر سے نکلنے پر راضی نہیں ہیں اور تحقیق جیسی لازمی ضرورت سے نگاہیں چرانے میں مصروف ہیںیہی وجہہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت علمی پسماندگی کی ذلت سے باہر نہیں نکل پارہی ہے شاعر مشرق نے اِسی دکھ کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا
کس طرح ہوا کُند ترا نشترِ تحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
ATEEQ AHMED AZMI
About the Author: ATEEQ AHMED AZMI Read More Articles by ATEEQ AHMED AZMI: 26 Articles with 116530 views I'm freelance feature essayist and self-employed translator... View More