حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
اپنی تصانیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے ایک صاحب
بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے مجھے عکبر اقصبہ کا حاکم بنایا اور عراق کے
ان دیہات میں مسلمان نہیں رہا کرتے تھے۔ مجھ سے حضرت علی ؓ نے فرمایا ظہر
کے وقت میرے پاس آنا میں آپ کی خدمت میں گیا مجھے وہاں کوئی روکنے والا
دربان نہ ملا۔ حضرت علی ؓ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس پیالہ اور پانی کا
ایک کوذہ رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے ایک چھوٹا تھیلا منگوایا۔ میں نے اپنے دل
میں کہا یہ مجھے امانتدار سمجھتے ہیں اس لیے مجھے اس تھیلے میں سے کوئی
قیمتی پتھر نکال کر دیں گے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اس تھیلے میں کیا ہے ؟ اس
تھیلے پر مہر لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے اس مہر کو توڑ اور تھیلی کو کھولا تو
اس میں ستو تھے۔ چنانچہ اس میں سے ستونکال کر پیالے میں ڈالے اور اس میں
پانی ڈالا اور خود بھی پیئے اور مجھے بھی پلائے۔ میں اتنی سادگی دیکھ کر وہ
رہ نہ سکا اور میں نے کہا اے امیر المومنین ! آپ عراق میں رہ کر یہ کھا رہے
ہیں حالانکہ عراق میں تو اس سے بہت زیادہ کھانے کی چیزیں ہیں( عراق میں رہ
کر صرف ستو کھانا بڑی حیرانگی کی بات ہے) انہوں نے کہا ہاں۔اللہ کی قسم !
میں بخل کی وجہ سے اس پر مہر نہیں لگاتا ہوں بلکہ میں اپنی ضرورت کے مطابق
ستوخریدتا ہوں ( اور مدینہ سے منگواتا ہوں) ایسے ہی کھلے رہئے دوں تو مجھے
ڈر ہے کہ (ادھر ادھر گر نہ جائیں اور اڑ نہ جائیں اور یوں) یہ ختم نہ ہو
جائیں تو مجھے عراق کے ستو بنانے پڑیں گے۔ اس وجہ سے میں ان ستوﺅں کو اتنا
سنبھال کر رکھتا ہوں اور میں اپنے پیٹ میں پاک چیز ہی ڈالنا چاہتا ہوں۔
حضرت اعمش ؒ کہتے ہیں حضرت علی ؓ لوگوں کو دوپہر کا کھانا خوب کھلایا کرتے
تھے اور خود صرف وہی چیز کھایا کرتے تھے جو ان کے پاس مدینہ منورہ سے آیا
کرتی تھی۔
قارئین آزاد کشمیر کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کے ساتھ زیادتی پر مبنی رویہ کے متعلق
ہم نے ڈاکٹرز سیریز میں دس سے زائد کالم لکھے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر ارباب
شہزاد سے لے کر سروس رولز تحریر کرنے والے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزاز نسیم
سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے ڈاکٹرز کے اندر پائے جانے والی شدید ترین بے
چینی ، اضطراب اور دکھ کی کیفیت کو بیان کیا۔ جن گریڈڈ سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور
ڈپلومہ ہولڈر ڈاکٹرز کے ساتھ زندگی کے 25سے 30سال لوگوں کی خدمت میں گزارنے
کے بعد زیادتی کی جا رہی ہے ان کی آواز کو ارباب اختیار تک پہنچانے کی کوشش
کی۔ اس تمام کاوش میں ہمیں مختلف حیرت انگیز تجربوں سے بھی گزرنا پڑا۔ ہمیں
آزاد کشمیر بھر سے سینکڑوں ڈاکٹرز نے ٹیلیفون کے ذریعے مزید بریفنگ دی
ہمارا شکریہ ادا کیا اور بیوروکریسی کے مختلف ہتھکنڈوں سے بھی ہمیں آگاہ
کیا ۔ ان تمام ڈاکٹرز کی گفتگو کے اندر اندیشے،خوف اور پریشانی کوٹ کوٹ کر
بھرے ہوئے تھے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر بیوروکریسی کو پتا چل جائے کہ
میڈیا کو کون شخص بریفنگ دے رہا ہے تو اس کے ساتھ کسی قسم کا بھی سلوک کیا
جاسکتا ہے اسے کسی بھی شہر سے ٹرانسفر کر کے آزاد کشمیر کے دوردراز ترین
علاقے میں بھیج کر اس کی خودی کو ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے، اس کے خلاف شو
کاز نوٹس جاری کر کے محکمانہ انکوائری کے نام پر تذلیل و تضحیک پر مبنی وہ
کارروائیاں کی جا سکتی ہیں کہ آئندہ وہ ڈاکٹر بھولے سے اپنا جائز حق بھی
مانگنے سے توبہ کر لے۔
قارئین آج ہم چیف سیکرٹری ارباب شہزاد اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزاز نسیم
سے چند سیدھے سادے سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ اعزاز نسیم نے کمال مہربانی کرتے
ہوئے ہمارے ساتھ متعدد بار اس ایشو پر کھل کر بات کی اعزاز نسیم نے اس بات
پر زور دیا کہ اگر ہم بین الاقوامی معیار کے مطابق طبی سہولتیں کشمیری عوام
کو فراہم کرنا چاہتے ہیں ، آزاد کشمیر کے ہیلتھ سٹرکچر کو اپ گریڈ کرنا
چاہتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر سے کسی بھی مریض کو
پاکستان کے کسی صوبے میں ریفر کرنے کی بجائے یہیں پر تمام علاج کیا جائے تو
ہمیں ہائر ایجوکیشن پر کوئی بھی کمپرومائز کرنے سے گریز کرنا ہو گا اور اس
کے لیے ضروری ہے کہ مختلف گریڈز میں ترقی دینے کے لیے فیلو شپ کو ترجیح دی
جائے۔ ہم نے اعزاز نسیم سے سوال کیا کہ جناب ہمیں یہ بتائیں کہ یہ تمام
رولز تمام ڈاکٹرز اور تمام گریڈ ز پر اپلائی ہوتے ہیں تو ان کا جواب اثبات
میں تھا۔ ہم یہاں پر چند بے ضرر قسم کی باتیں پوچھنا چاہتے ہیں۔
۱۔ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت عامہ نے ڈپلومہ ہولڈر ڈینٹل سرجن ڈاکٹر شوکت
تنویر کو 20ویں گریڈ میں ترقی دی وہ گریڈ 20میں ترقیات ہونے کے بعد اپنی
مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوئے۔ ارباب شہزاد صاحب اور اعزاز نسیم صاحب
ہمیں اس بات کا جواب دیں کہ اگر ایک ڈپلومہ ہولڈر ڈاکٹر کوگریڈ 20میں ترقی
دینے کی آپ نے خود ایک مثال قائم کی ہے تو باقی ڈپلومہ ہولڈر ڈاکٹرز کا کیا
قصور ہے کہ انہیں ترقی دینے سے آپ گریز کر رہے ہیں۔
۲۔ آزاد کشمیر کے محکمہ صحت عامہ میں متعدد مثالیں موجود ہیں کہ گریڈڈ
سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور ڈپلومہ ہولڈر ڈاکٹرز سے کم تعلیم یافتہ صرف ایم بی بی
ایس کیے ہوئے میڈیکل آفیسرز کو گریڈ 20میں ترقیاب کیا گیا بہت حیرت کی بات
ہے کہ اس سے زیادہ پڑھے لکھے ڈاکٹر کو گریڈ 20میں ترقی نہیں دی جا رہی کیا
یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
۳۔ گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کے مختلف سپیشلسٹ کیڈر اور ایڈمنسٹریٹو کیڈر کے
ڈاکٹر کو گریڈ 18سے گریڈ 19میں ترقیاب کیا گیا جبکہ آپ ہی کے بنائے ہوئے
سروس رولز کے مطابق یہ ڈاکٹرز ڈپلومہ ہولڈرز، گریڈڈ سپیشلسٹ اور ایک سالہ
ایڈمنسٹریٹو ڈگری یا ڈپلومہ رکھتے تھے اور انہیں ترقی نہیں دی جا سکتی تھی
یہ کس قسم کی دو عملی ہے؟
۴۔ آخر کیا وجہ ہے کہ گریڈڈ سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور ڈپلومہ ہولڈر سپیشلسٹ
ڈاکٹرز جو ایڈمنسٹریٹو پوسٹوں پر تعینات ڈاکٹرز سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں
وہ تو گریڈ 20میں نہیں جا سکتے جبکہ ان سے کئی گنا کم پڑھے لکھے انتظامی
پوسٹوں پر موجود یہ ڈاکٹرز محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل تک بن سکتے ہیں۔
۵۔ چیف سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور آزاد کشمیر کے تمام محکموں کے
سیکرٹری صاحبان پر بھی اعلیٰ تعلیم کا یہ زبردست فارمولا اپلائی کیوں نہیں
کیا جاتا کہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے شخص کو چیف سیکرٹری لگا دیا جائے اور
تمام محض گریجویٹ سیکرٹری صاحبان کو ان کی پوسٹوں سے ہٹا کر پی ایچ ڈی اور
پوسٹ ڈاکٹریٹ کیے ہوئے ماہرین کو ہر متعلقہ شعبے کے اندر سربراہی دے دی
جائے(ہماری گزارش ہے کہ اس تنقیدی بات کو کوئی بھی معزز شخصیت اپنی ذات پر
حملہ مت گردانے، منطق کی رو سے کی جانے والی اس گفتگو اور بحث کو اس کے اصل
تناظر میں پڑھا اور سمجھا جائے)
قارئین یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور سب سے لائق طبقے
کے رولز بناتے ہوئے ان لوگوں کی کوئی مناسب نمائندگی سروس رولز بنانے والی
کمیٹی میں موجودنہیں ہے۔ گویا جن کی تقدیروں کے فیصلے کیے جا رہے ہیں ان سے
نہیں پوچھا جا رہا ۔
”بتا تیری رضا کیا ہے ؟“
اسی منافقت ،دوعملی اور بغیر سوچے سمجھے لوگوں کا حق مارنے کی وجہ سے لوگوں
کے اندر احساس محرومی جنم لیتا ہے جس سے نہ صرف معاشرے میں انتشار پھیلتا
ہے بلکہ عام لوگوں کا اعتماد اداروں ، شخصیات اور حتی ٰ کہ آخری مرحلے میں
جا کر ریاست سے بھی اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت آزاد کشمیر کے تقریباً ہر شعبے کے
سیکرٹری صاحبان کے انڈر ان سے کئی گنا زیادہ تعلیم یافتہ لوگ سروس کر رہے
ہیں ہم جائز طور پر سمجھتے ہیں کہ ان سیکرٹری صاحبان نے جس دور میں ملازمت
شروع کی تھی یہ درجہ بہ درجہ ترقی کرتے ہوئے بہت محنت کرنے کے بعد اس اعلیٰ
مقام پر پہنچے ہم یہاں ان سے بھی یہ پوچھتے ہیں کہ جناب آپ ہی بتائیے کہ
اگر آج آپ کو یہ ”خوشخبری “سنائی جاتی ہے کہ آپ کو آپ کی سیٹ سے ہٹا کر نئے
سروس رولز کے مطابق آپ سے زیادہ پڑھے لکھے بندے کو یہ پوسٹ دی جاتی ہے تو
حضور آپ کے دل پر کیا گزرے گی اور پوری زندگی جو آپ نے جائز طریقے سے لوگوں
کی خدمت کرتے ہوئے گزاری اس کا یہ پھل جب آپ کو دیا جائے گا تو اس کی
کڑواہٹ کیا آپ کی رو ح سے لے کر دل تک نہ پھیل جائے گی ہم آپ سے گزارش کرتے
ہیں کہ ان ڈاکٹرز کے حال پر رحم فرمائیں جنہوں نے آپ سے آج سے 25سال پہلے
جب فیلو شپ اور سپیشلائزیشن کی اجازت مانگی تو آپ نے یہ کہہ کر اجازت دینے
سے انکار کیا کہ ڈاکٹرز کی کمی ہے اس لیے آپ گریڈنگ کرلیں یا ڈپلومہ کر لیں
یہ لوگ اپنے جذبات کو قربان کر کے لوگوں کی خدمت کرتے رہے اور ڈپلومہ حاصل
کرنے یا گریڈنگ کرنے کے بعد آپ ہی کی طرف سے سپیشلسٹ کہلائے گئے آج جب ان
کی مدت ملازمت ختم ہونے کے قریب ہے اور ان کا حق بنتا ہے کہ ان کو گریڈ
20دیا جائے تو آپ نے یہ حکم صادر فرما دیا کہ اب نئے رولز چلیں گے اور
گریڈنگ یا ڈپلومہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے سوچیے تو سہی آپ یہ کیا کر رہے ہیں
یہ کس درجے کا ظلم ہے اسے محسوس کیا جائے کہ یہ کس درجے کاظلم ہے۔
بقول غالب اگر ہم ڈاکٹرز کے جذبات بیان کریں تو وہ کچھ یوں ہو ں گے۔
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگر چہ اشارے ہوا کیے
دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا
میں ،اور جاﺅں درسے ترے بن صدا کیے!
رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجادہ رہن ِ مے
مدت ہوئی ہے دعوت آب و ہوا کیے
بے صرفہ ہی گزرتی ہے ہو گر چہ عمر خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیاِ کیے
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اولئیم!
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے
ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
غالب تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا؟
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے
قارئین ہم سمجھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی بیوروکریسی اور ان کے سربراہ چیف
سیکرٹری ارباب شہزاد اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری اعزاز نسیم یہ سب انتہائی
قابل ،دیانت دار اور ملک و قوم سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ البتہ چند لوگوں
نے اپنے ذاتی مقاصد کی خاطر غلط بریفنگ دیتے ہوئے جو غلطیاں ان سے کروائی
ہیں وہ درست کرنا وقت کی آواز ہے۔ اگر اس آواز کو سن لیا جائے ، سمجھا لیا
جائے اور رجوع کر لیا جائے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
تھکا ماندہ ڈاکٹر سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈاکٹر
نے بڑی مشکل سے بستر سے اٹھ کر پوچھا کون ہے باہر سے آواز آئی ڈاکٹر صاحب
دروازہ کھولیں مجھے کتے نے کاٹ لیا ہے
ڈاکٹر نے انتہائی غصے سے پوچھا کہ تمہیں یہ پتا نہیں کہ یہ میرے آرام کا
وقت ہے
جواب ملا ”جی مجھے تو اچھی طرح معلوم ہے لیکن کتے کو معلوم نہیں تھا“
قارئین 25سے 30سال لوگوں کی خدمت کرنے کے بعد اب یہ ڈاکٹرز کے آرام کرنے کا
وقت ہے بمہربانی انہیں عزت و آبرو کے ساتھ گریڈ 20دے کر آرام کرنے کا موقع
دیا جائے۔ |