عمران خان ہیرو سے زیرو کیسے ۔۔۔۔؟

گزشتہ کچھ یوم سے اخبارات میں میرا پردہ چاک کالم نہ ملنے کی صورت میں کالم میں دیئے گئے میرے ای میل ایڈریس پراس کی وجو ہات پوچھنے والے میرے تمام تر معزز قارئین کے تمام تر سوالات اور ان کے جوا بات کا تفصیلاً ذکر تو ناممکن ہے اس لئے ان تمام تر کا جواب یہی ہے کہ میں بالکل خیریت سے ہوں کالم نہ لکھ سکنے کی وجہ صرف اور صرف میری کچھ ذاتی مصروفیات ہونے کے علاوہ کچھ نہیںجن سے فرصت ملتے ہی جب ملکی سیاسی حالات وواقعات پر نظر دوڑائی تو بہت سے سیاسی قائدین ،سیاسی وڈیروں اور لٹیروںکو بڑی بڑی بڑھکیں مارتے ہوئے دیکھامگرجب عمران خان کی باری آئی تو ان پر نظریں جم گئیںاور بہت حیرانی ہوئی کہ یہ تو بہت بڑے ہیرو تھے مگر جنوبی پنجاب کے ضلع پاکپتن میں جا کر زیروکیوں دکھائی دے رہے ہیںجب میں نے خان صاحب کے ہیرو سے اچانک زیرو ہوجانے کی اصل وجوہات جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ واقع ہی یہ علاقہ (ن) لیگی گھڑ ہے اور یہاں پی ٹی آئی کے لوگوں کی کار کردگی زیرو سے بھی کسی نچلے درجے کی ہے جبکہ وہاں سے موصول ہونے والی اطلاعات و معلومات کے مطابق پہلی بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ امید واروں کی ثہرت ٹھیک نہیں دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی کے لوگ خود کوکوئی عرشی مخلوق جبکہ قوم کواپنے در کی بھیکاری سمجھتے ہیںاور لوگوں کے کام کرنے کو اپنی ہتک جبکہ کچھ کو تو ڈھونڈنا ہی سمندر سے سوئی تلاش کرنے کے برابر ہے جس کے سبب لوگ ان سے انتہائی متنفر دکھائی دیتے ہیں ،اب رہی بات خان صاحب کی ذاتی مقبولیت کی توان کے یہاں آنے سے کم از کم چوبیس گھنٹے پہلے ہی ان کی آمد کی تشہیر شروع کر دی جانے کے باوجود کسی نے خان صاحب کے استقبال کی بھی جب زحمت نہ کی تو پی ٹی آئی کے کارکنان کو مجبوراً اجرت پہ لوگ بلانا پڑے اور جب خان بابا یہاں تشریف لے آئے تو ان کے عوام یا مقامی میڈیا میں گھل مل جانے کی بجائے تکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے کئی جگہوں کے انتظامات دھرے کے دھرے چھوڑ جانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے نعروں کا جواب دینا بھی گوارہ نہ کرنے کے سبب یہ بات عام طور پر کہی جا رہی ہے کہ گیند بلے والے کی گردن میں تو اقتدار حاصل کرنے سے پہلے ہی لوہے کی سلاخ آچکی اقتدار میں آنے کے بعد کیا ہوگا لہذا ہمیں تو ہمارے پرانے لیگی لیڈر ہی بہتر ہیں کم از کم اِن میں اتنی اکڑ تو نہیںجتنی گیند بلے والوں میں دیکھنے کو ملی کام ہو یا نہ ہو وہ بات تو سن لیتے ہیں،جس سے خان بھائی کی جو تھوڑی بہت پہلے مقبولیت تھی اب وہ بھی ختم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اب خان صاحب سوچ رہے ہونگے کہ مجھے تووہاں جلسہ گاہ میں اتنا بڑا ہجوم دیکھا ئی دے رہا تھا لہذا اس کالم نگار نے کوئی اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر یہ سب لکھا ہے،مگر حقیقت یہ نہیں حقیقت تو یہ ہے کہ میری کسی کے ساتھ کوئی بھی ذاتی رنجش نہیں ،میری قلم محض عوامی امنگوں ،عوامی حقوق اور عوامی رائے کی ترجمانی کرتی ہے اور کرتی رہے گی ،اب رہی بات خان صاحب کے دیکھے گئے ہجوم کی تو اس کے پس پردہ حقائق کچھ یوں ہیں کہ اس جلسہ گاہ میں ٹوٹل تین سے چار سو کے قریب لوگ تھے جن میں سے 25فیصد دوسرے اضلاع سے بلائے گئے تھے،جبکہ 25فیصداجرت پر بلائے گئے تھے جنہیںاس جلسہ میں شرکت کا 300سو روپیہ فی کس کے حساب سے دیا گیاجبکہ25فیصد ہجوم وہاں ٹریفک جام ہو جانے کی وجہ سے تھااور 25فیصد مقامی کارکن تھے ،خان بھائی کے اس عظیم کارنامے پر وہاں کے مسلم لیگ نواز گروپ سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین کا کہنا ہے کہ ہمارا ایک سب سے چھوٹا کارکن اس سے کئی گنابڑا جلسہ کر سکتا ہے اور اس جلسہ میں سینکروں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میںلوگ بلانے کی صلاحیت رکھتا ہے ،جہاں میںلیگی رہنماﺅں کے اس بیان سے اتفاق کرتا ہوں وہاں خان بھائی کے ساتھ کئے جانے والے اس سلوک پر بھی رونا آتا ہے کہ وہ اتنی بڑی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی اتنی بڑی مقبول ترین جماعت کے چئیر مین بھی تو ہیں مگراس علاقہ کے لوگوں نے ان سے یہ سلوک کرکے اچھا نہیں کیاان کی کار کردگی یا مقبولیت کا اگر پول کھولنا ہی تھا تو کسی اور طریقہ سے کھول دیتے خیر جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا میرا شرمندہ ہونا کس کام کا جب تک انہیں خود شرم نا آئے اب رہی بات لیگی رہنماﺅں کے بیان کی تو یہ بیان پی ٹی آئی کو شکست کے خوف سے دوچار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اسی ہی لئے تواب وہ جہاں جو ملتا ہے اُسی ہی سے جلسہ میں نا آنے کے شکوے کے ساتھ ساتھ اظہار ناراضگی بھی ظاہر کرتے ہیںاور جب الیکشن ہوگا توخود کو تسلی دینے یا پھر اپنی ناکامی چھپانے کیلئے کہا جائے گا کہ(ن)لیگ والوں نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی اس لئے ہم الیکشن ہارے ،جس کا کوئی فائدہ نہیںلہذا یہ دھاندلی کی بات کرنے یا پھرمجھ یا میری قلم پہ شک کرنے کی بجائے انہیںاپنے اندر موجود خامیوں کی اصلاح کرنی چاہئے اگر میڈیا اور عوام سے یہی رویہ رکھا گیاتو انہیںووٹ30فیصد ملنا بھی ناممکن ہوجائیں گے اور (ن) لیگ پھر سے پنجاب میںحکومت بناجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔؟
Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38174 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.