صبح سویرے اپنے گھر سے پانی کی
دو بوند پیئے بغیر وہ سوزوکی میں سوار مختلف علاقوں کی جانب روان دواں ہوتی
ہیں ۔ آج شہر کا کون سا حصّہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔ آج کہاں زندگی کی دو
بوند معصوم بچوں کو پلانی ہے۔
سفر شروع ہوا ۔ مخصوص مقام پر پہنچ کر خواتین کی ٹولیاں شہر کراچی کی مختلف
بستیوں میں پہنچنے لگیں۔ فقط 250روپوں کی یومیہ اُجرت کے عوض یہ خواتین صبح
آٹھ بجے سے لے کر رات کی سیاہی پھیلنے تک اپنے کام میں مگن رہتی ہیں۔ اتنی
دہاڑی پہ تو کوئی اور کام بھی کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں وقت نہ لگے اور شاید
پیسے بھی زیادہ مل جائیں ۔ لیکن یہ خواتین ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے سر
گرداں ہیں۔
دو بوند پولیو کے قطرے پلانے پر معمور یہ خواتین اس بات کو جانتی ہیں کہ یہ
صرف ان کا کام نہیں ایک قومی فریضہ ہے جس کی ذمہ داری انہیں دی گئی ہے۔
یہ ورکرز پاکستان کی آئیندہ نسلوں کو پولیو جیسی موروثی بیماری سے ہمیشہ کے
لئے نجات دلانے کی غرض سے گرمی سردی ذاتی اُلجھنوں کوطاق میں رکھے گھر سے
نکلتی ہیں۔ پاکستان افغانستان اور نائجیریا ایسے تین ممالک ہیں جو پولیو پر
قابو پانے میں ناکام رہے ہیں اور اس وقت دنیا بھر سے ستر فیصد سے زائد
مریضوں کا تعلق پاکستان سے ہی ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے
جہاں ڈونرز ایجنسیاں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں تاکہ اس مرض کا خاتمہ کیا
جاسکے لیکن پاکستان میں پولیو پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا۔
پاکستان میں گزشتہ سترہ سالوں سے جاری پولیو مہمات کے باوجود پاکستان میں
پولیو وائرس رپورٹ ہو رہا ہے ۔ ملک کے قبائلی علاقوں سمیت سب سے بڑے شہر
کراچی کی مضافاتی آبادی گڈاپ ٹاﺅن میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں
کے بعد رواں برس چلائی جانے والی مہمات کے دوران ساڑھے تین لاکھ سے زائد
بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پینے سے محروم رہے۔
لیکن رواں برس کراچی کے علاقوں گڈاپ اور بلدیہ ٹاﺅن میں تقریباً چار 4ماہ
کے وقفے کے بعد سیوریج کے پانی کے نمونوں میں پولیووائرس کی تصدیق کی گئی ۔
بلدیہ ٹاﺅن سے سیوریج کے پانی سے پہلی بار 12نمونے حاصل کےے گئے ۔ جن میں
پولیو پی تھری کی تصدیق ہوئی۔ اس صورتحال کے باعث دھمکیوں کی فکر نہ کرتے
ہوئے یہ ورکرز ان علاقوں میں زندگی کے خوشیوں کے دو بوند پلانے پہنچ گئیں ۔
لیکن شر پسند عناصر نے ان کے جذبے اور خلوص کو پیروں تلے روند ڈالا اور
سفاکی سے ان سادہ دل غریب عورتوں سے اُن کی زندگی چھین لی ۔ کیسے دکھ کا
مقام ہے۔ ممتا کے فطری جذبے سے سرشار معصوم بچوں کو گود میں لے کر زندگی کے
دو بوند دینے کی خواہش رکھنے والی ان عظیم خواتین کو ہی زندگی سے دور کر
دیا گیا۔
17دسمبر سے 19دسمبر تک چلائی جانے والی رواں برس کی اس آخری انسداد پولیو
مہم کے دوران سندھ بھر سے 44لاکھ 33ہزار 680بچے پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے
کے لئے 6ہزار 455ٹیمیں فرائض انجام دے رہی تھیں۔ پولیو کے خلاف گھر گھر
جاکر معصوم بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانا قومی مشن ہے۔ لیکن چند
فرسودہ اور جاہلانہ سوچ کے حامل افراد کی جانب سے ورکرز کو نشانہ بنایا گیا
جس کی وجہ سے اس مہم کو فوری طور پر روکنا پڑا۔
یہ نہایت افسوس ناک عمل ہے ۔ یہ معصوم جانوں کے نقصان کے ساتھ ہی ایک قومی
مسئلہ ہے ۔ نجانے کتنے ہی بچے اب پولیو ویکسینیشن کے دو قطرے پینے سے محروم
ہو جائینگے ۔ وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز جو اس قوم کے بچوں کو اپاہج ہونے سے
بچارہی ہیں ان کی زندگی نہایت قیمتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان
رضا کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرے ۔ اور ان عظیم خواتین کے لئے جنھوں نے
اپنی جانوں کی قربانی دی ہے معاوضے کا اعلان کیا جائے ۔ ساتھ ہی لیڈی ہیلتھ
ورکرز کی یومیہ اُجرت میں بھی اضافہ کیا جائے ۔ پولیو جیسی خطرناک بیماری
جو ہماری نسلوں کو تباہ کر رہی ہے ہمیں اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔ شرپسند
عناصر ہمارے قوم کے مستقبل سے ہر گز نہیں کھیل سکتے۔ انسداد پولیو مہم کے
رضا کاروں کے ساتھ آج پوری قوم کھڑی ہے ۔ یہ من حیثیت القوم ہم سب کا مسئلہ
ہے اور ہم سب کو مل کر ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرنا ہے ۔ |