شہید محترمہ بےنظیر بھٹو کی پانچویں برسی۔۔۔

ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی سیاست میں قد آور شخصیت کی آمد ہوئی جو نہایت نڈر، بہادر،فطین،قابل، ذہین اور عوامی ہمدردی سے سرشار نئے خوابوں کی تکمیل کا رہبرتھا ۔جس نے اپنے دور حکومت میں دنیا کی طاقتور ممالک کے آگے سر کو خم نہ کیا اور پاکستان کوبا عزت و باوقار ملک کے طور پر پیش کیا ، اُس نے یونائیٹڈ نیشن میں اپنے تقریر کے دوران ان کے دباﺅ کو قبول نہ کرتے ہوئے انتہائی نارضگی کرتے ہوئے اُن کے مسودوں کو تار تار کرڈالا۔ وہ اس وطن عزیز کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا تھا اِسی لیئے اُس نے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کا ارادہ کیا اور اپنے دور حکومت میں ایٹمی طاقت کے حصول کیلئے کوششیں تیز کردیں پھر بہت جلدایٹم بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی اس مد میں سیٹھ عابد اور ڈاکٹر قدیر احمد خان پیش پیش رہے اور ان کے طفیل پاکستان ایٹمی طاقت بنے میں شامل ہوگیا ۔ پاکستان ایٹمی طاقت بنے کیلئے سیف حیدر کی نشانی رکھنے والے سیاسی لیڈر نے اپنے جیسے بہادروں کے ساتھ ایٹمی طاقت کو حاصل کرلیا یہ تاریخ کا سنہرا سہرہ ہمیشہ ان کے حق میں رہیگا ۔یہ الگ بات ہے کہ اس طاقت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے دنیا کے سامنے ظاہر کردیا ۔اُس بہادر سیاسی لیڈر کی چہیتی بیٹی جسے وہ پیار میں پنکی پکارتا تھا اور اپنے اولادوں میں سب سے زیادہ چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ اگر میری صلاحیت کی جانشین ہے تو وہ یہی پنکی ہے۔ یہ بہادر جانفشاں عوامی سیاسی لیڈر کوئی اور نہیں ذوالفقار علی بھٹو تھا اور اس کی چہیتی بیٹی پنکی محترمہ بے نظیر بھٹو تھی ، محترمہ ایک نرم دل کی ملکہ تھیں اور وہ اپنے باپ کے مشن روٹی ، کپڑا اور مکان کو پائے تکمیل کرنا چاہتی تھیں مگر کئی ایسے محرکات و اسباب رہے کہ ان کے نیک کاموں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے مسلسل رکاوٹ کا باعث بنے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جن اپنے قریبی سیاسی مشیروں پر بھروسہ کیا تھا انھوں نے ہی ڈوبانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، یہ حقیقت ہے کہ عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے کثیر تعداد میں مخلص و مہربان لوگ تھے مگر ان ہی میں چند مفاد پرست ، خود غرض اور منافق بھی تھے ،ایسے منافقوں کی بناءپر ذوالفقار علی بھٹو کے عزائم کو خاک میں ملانے کی کوششیں کی گئی، آخر ایسا کیوں ہوا۔۔۔۔؟؟ ذوالفقار علی بھٹو ،قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کے بعد اس قوم کیلئے مسیحا بنکر آئے تھے لیکن امریکہ ، بھارت، سرائیل ، برطانیہ ور دیگر دشمنان پاکستان کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ پاکستان اور سندھ کی دھرتی سے کوئی ایسا لیڈر ابھرے جو بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے آہنی دیوار ثابت ہو گویا ذوالفقار علی بھٹو کے پر عزم ارادوں کو بھاپنے کے بعد دشمنان پاکستان نے اپنی سازشوں کا جال بڑھا دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے اطراف بسنے والے قریبی ساتھیوں کو مراعات و دیگر لالچ دیکر توڑنا شروع کردیا۔ دنیا اور تاریخ جانتی ہے کہ کس کس نے آخر وقت شہید و جرا ¿ت مندسیاسی لیڈر کا ساتھ دیا بحرحال بھٹو سے دھوکہ دینے والوں نے بے نظیر کو بہتر سبق دیا لیکن حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ محترمہ جس بات سے احتیاط برتی تھیں بل آخر وہی دھوکہ محترمہ کی شہادت کا سبب بنا۔ محترمہ میں اپنے باپ کی طرح غریب پروری دل کھول کر تھی اور قوم سے ولولہ انگریز رغبت و پیار اور اس ملک کی بہتری کیلئے مسلسل جدوجہد ان کے مضبوط اور مخلص عزم کو اظہار کرتی تھی۔ کچھ پاکستانی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پہلے وہ خط جاننا چاہتی ہیں جو انھوںنے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف کو اپنی جان کے خطرہ کے متعلق لکھا تھا جو آج تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا ، محترمہ سے انتہائی پیار و عقیدت رکھنے والے جاننا چاہتے ہیں کہ محترمہ نے کن لوگوں کی طرف اشارہ کیا دوسری جانب عوام محترمہ بےنیظیر بھٹو کو دوبارہ گاڑی سے باہر نکل کر الوداع کہنے کے معاملہ کو جاننا چاہتی ہے کہ جب محترمہ اپنے پیاروں ، عقیدتمندوں اور سیاسی کارکنوں سے مکمل خطاب کرچکی تھیں بعد ہاتھ ہلاکر گاڑی میں بیٹھ گئیں تھیں تو پھر کیوں دوبارہ باہر آئیں کس نے دوبارہ باہر نکلنے پر مجبور کیا ۔۔۔؟؟ ایک عوامی گروہ کہتا ہے کہ قاتل کو اگر مارنا ہی تھا تو خطاب کے دوران کیوں نہیں گولی ماری اور خود کش حملہ کیا گیا ۔۔۔۔؟؟ یہ وہ عوام میں زیر بحث سوالات ہیں جو آج بھی عوام کے کئی گروہوں میں گفتگو کا موضوع بنتے ہیں پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ با اختیار حکومت ہونے کے باوجود محترمہ کے قاتل کیوں نہیں پکڑے گئے اگر اس ملک میں وزیراعظم اور عوام کے پسندیدہ لیڈر کے قاتل پکڑے نہیں جاسکتے تو عام عوام کس طرح اس ریاست پاکستان میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں جبکہ جمہوریت کا عین مقصد بھی عوام کا تحفظ اور بنیادی حقوق کی فراہمی ہوتا ہے ۔ محترمہ کی شہادت کے ان پانچ سالوں میں حمایت یافتہ اور مخالف سیاسی لیڈران بھی خراج تحسین تو ضرور پیش کریں گے مگر قاتلوں کی گرفتاری کیلئے کبھی بھی حکومت کا بڑھ چڑھ کر ساتھ نہیں دیں گے شائد اس ریاست پاکستان کی یہی روایت ہے بحرحال بےنیظیر بھٹو علامہ اقبال کے اس شعر پر پوری اترتی ہیں جو انھوں نے کہا تھا :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی : 310 Articles with 247899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.