ہمارے انتہائی محترم پیرِ طریقت
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا طاہر القادری صاحب نے مینارِ
پاکستان پر عظیم الشان جلسے سے خطاب کرکے اونچے ایوانوں میںزلزلہ بپا کر
دیا ۔اُنہوں نے انتہائی کسرِ نفسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بیس
پچیس لاکھ کا مجمع ہے۔بصد عز و نیاز خدمتِ عالیہ میں عرض ہے کہ اتنی کم
تعداد بیان کرکے ہم جیسے پیروکاروں کا دل مت توڑیے ۔ہو سکتا ہے کہ اپنے
”محفوظ کیبن“ میں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے وہ درست اندازہ نہ لگا سکے ہوں
۔حقیقت یہ ہے کہ مجمع تو دریائے راوی پار کرکے شاہدرہ اور کالا شاہ کاکو
روندتا ہوا مرید کے تک جا پہنچا اور یہ بھی شنید ہے کہ دریائے راوی پر پکنک
مناتے ، کشتی رانی کرتے لوگ بھی پکنک چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے ۔دوسری طرف
چونکہ خادمِ اعلیٰ نے تخریب کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض جلسے کو ناکام
کرنے کی خاطر گردو نواح کی ساری سڑکیں توڑ پھوڑ ڈالی تھیں اس لیے مجمع مال
روڈ کو لبا لب کرتا ہوا چوبرجی تک ہی پہنچ سکا جبکہ تیسری طرف اگر درمیان
میں واہگہ بارڈر نہ پڑتا تو شاید مجمع ہندوستان تک جا پہنچتا ۔ قارئین جو
جلسے میں شرکت کی سعادتوں سے محروم رہ گئے ، وہ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ
کیا مجمع چالیس پچاس لاکھ سے کم ہو سکتا ہے ؟۔ویسے ہم بھی کسرِ نفسی سے ہی
کام لے رہے ہیں وگرنہ تعداد تو اِس سے بھی کہیں زیادہ تھی ۔حضرت مولانا نے
فرمایا ہے کہ 14 جنوری کو اس سے ڈبل تعداد اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی ۔گویا
لگ بھگ ایک کروڑ افراد اسلام آبادجانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اِس لیے
”اسلامابادیو “ ہشیار باش ۔
حسد کی آگ میں جل بھُن کے ”سیخ کباب“ ہونے والے خواہ کچھ بھی کہیں لیکن
”سانچ کو آنچ نہیں“ اور سچ یہی ہے کہ پیرِ طریقت نے پیپلز پارٹی اور نواز
لیگ کو ”پھڑکا کے“ رکھ دیا ہے ۔اسی لیے یہ دونوں جماعتیں سب سے زیادہ
واویلا کر رہی ہیں ۔لیکن ہونا تو وہی ہے جو میرے پیرِ طریقت شیخ الاسلام
پروفیسر ڈاکٹر حضرت مولانا طاہر القادری صاحب نے فرمانا ہے کیونکہ وہ کوئی
کام ”بشارت“ کے بغیر نہیں کرتے ۔اب بھی انہیں یقیناََ بشارت ہی ہوئی ہو گی
جو وہ آناََ فاناََ پاکستان آن پہنچے اور اپنے کشف و کرامات کے زور پر
انسانوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگا دیے۔میں نے یہی بات اپنی ایک جاننے والی سے کی
تو اُس ”مردود “ نے میری باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے انٹرنیٹ پر ”مولانا
کے خواب“ دیکھنے کا مشورہ دیا ۔میں عالمِ شوق میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے جھٹ
سے مولانا کا پہلا خواب دیکھنے میں محو ہو گئی ۔لیکن پہلے خواب پر ہی
”لاحول“ پڑھتے ہوئے نیٹ بند کر دیا۔یہ شر پسندی کی انتہا ہے جس میں یقینا
امریکی سی آئی اے ملوث ہے جس نے سائنسیTricks استعمال کرتے ہوئے اِن خوابوں
کو مولانا سے منسوب کر دیاہے۔اس لیے قارئین انٹرنیٹ پر خوابوں والی سائیٹ
ہر گز نہ دیکھیںاور اپنا ایمان مضبوط رکھیں کہ مولانا کبھی جھوٹ نہیں بولتے
۔اوریہ جو الیکٹرانک میڈیا پہ ”چڑیا والے“ صاحب بیٹھے ہیں ،اُن کے گُمراہ
کُن پراپیگنڈے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اُن کے
”ٹاک شوز“ ہر گز نہ دیکھے جائیں ۔ابھی کل ہی وہ اپنے پروگرام میں پُرانے
”ٹوٹے“ چلا رہے تھے جن میں پہلے ”کلپ“ میں حضرت مولانا یہ فرماتے ہیں کہ
خواہ کچھ بھی ہو جائے اُنہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔جبکہ دوسرے کلپ میں وہ
انگلش میں فرماتے ہیں کہ شاتمِ رسول کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے اور اگر
کوئی غیر مسلم حرمتِ رسول کے خلاف بات کرے تو اُسے سزا نہیں دی جا سکتی ۔تیسرا
کلپ اُردو میں ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ کوئی شاتمِ رسول ، خواہ وہ مسلم
ہو یا غیر مسلم، قابلِ گردن زنی ہے ۔اگلے انگریزی کلپ میں فرمایا کہ حُرمتِ
رسول کے قانون کا اُن سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کبھی اُنہوں نے ایسا
قانون بنوانے کی تگ و دو کی جبکہ آخری اُردو کلپ میں فرمایا کہ حُرمتِ رسول
کا قانون صرف میں نے بنوایا اور اِس میں کوئی عالمِ دین میرے ساتھ نہیں تھا
۔فیصلہ خود ہی کر لیجئے کہ کیا مولانا جیسی برگزیدہ ہستی ایسے متضاد بیانات
دے سکتی ہے ؟۔یقیناََیہ بھی امریکی سازش ہی ہے کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ
بھلے پیپلز پارٹی کی بجائے نواز لیگ ہی اقتدار کیوں نہ سنبھال لے لیکن شیخ
الاسلام نہیں ۔۔۔۔ ہر گز نہیں ۔لیکن یہ تو اب نوشتہ دیوار ہے کہ مولانا
”آوے ای آوے“ ۔طیور کی زبانی اُڑتی سی خبر یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم اور
تحریکِ انصاف والے بھی ڈر سہم کر مولانا کے سایہ عاطفت میں پناہ لینے کے
لیے بیتاب ہیں ۔اگر حضرت مولانا نے کمال شفقتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں
اپنے ساتھ ملا لیا اور ساتھ ہی فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید احمد کا ”تڑکا“
بھی لگ گیا تو گجرات کے چوہدری پیپپلز پارٹی کو داغِ مفارقت دینے میں ایک
لمحے کی تاخیر بھی نہیں کریں گے ۔ویسے بھی وہ ”روٹی شوٹی “ کی دعوت تو دے
ہی چکے ہیںاور کامیاب ترین جلسے کی مبارک باد بھی ۔اگر ایسا ہو گیا اور
یقیناََ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے تو پھر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا ”مکّو
ٹھپ ہووے ای ہووے“۔
کچھ بکاؤ اور بقول سینئر لکھاری ”بھاڑے کے ٹٹو“ کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے
آئین کی کتاب لہرا لہرا کر خلافِ آئین باتیں کیں اور اُن کا خطاب تضادات کا
مجموعہ ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو مولانا آئین کے بغیر لُقمہ توڑنے کو
تیار نہیں جبکہ دوسری طرف وہ آئینی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے لیے عوام
کو اُکسا رہے ہیں جو غیر آئینی ہے ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا آئین کی
مقرر کردہ مدّت (90دن) کے ختم ہونے کے بعد بھی انتخابات کے انعقادمیں کوئی
ہرج نہیں سمجھتے جس کے لیے وہ آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ دیتے ہیں جبکہ
آئین کی تشریح کرنے کا حق رکھنے والے چیف جسٹس صاحب کا فرمان ہے کہ سوائے
خانہ جنگی کے انتخابات میں ایک لمحے کی تاخیر بھی نہیں ہو سکتی اور ملک میں
خانہ جنگی کا ماحول ہر گز نہیں ہے ۔مولانا فرماتے ہیں کہ اگر فوج نے قبضہ
کرنے کی کوشش کی تو وہ مزاحمت کاروں کی صفِ اوّل میں ہونگے جبکہ عدلیہ اور
فوج کی شمولیت کے بغیر وہ کسی نگران حکومت کو تسلیم کرنے کو ہر گز تیار
نہیںجو سراسر غیر آئینی ہے ۔تضادات تو یہ لوگ اور بھی بہت سے بیان کرتے ہیں
اور اِنہیں بیان کرنے بھی چاہییں کہ اسی میں اُن کی روزی روٹی مضمر ہے لیکن
عقل و شعور سے عاری یہ لوگ اگر پیرِ طریقت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر حضرت
مولانا طاہر القادری صاحب کے ”اسرار و رموز“ تک پہنچ پاتے تو پھر وہ بھی
”مولانا“ ہوتے ، یوں دھکے نہ کھاتے پھرتے ۔
باتیں تو اور بھی بہت ہیں اور نچھاور کرنے کے لیے عقیدت کے پھول بھی ۔ہم
سمجھتے ہیں کہ ”حق ِ مریدی “ ادا کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے
لیکن اِس خوف کے پیشِ نظر نہیں لکھا جا رہا کہ کہیں اخبار والے میرے کالم
کی قطع و برید نہ کر دیں ۔کوئی اور کالم ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن
عقیدتوں بھرے اِس کالم کے ایک جملے کی بھی کمی منظور نہیں ۔اس لیے قارئین
اسے عقیدتوں کے نذرانے کی پہلی قسط سمجھیں۔۔۔۔۔ |