میں نہیں مانتا

پشاور میں خودکش حملے کے واقعہ جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما بشیر بلور سمیت نو افراد جاں بحق ہوئے اور ملک کی دیگر سیاسی اور امن وامان کی صورتحال پر لکھنے موڈ تھا۔ میں چاہ رہا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کے تازہ کھیل کے بارے میں بھی لکھوں اور کنیڈین شہریت کے حامل طاہرالقادری کی جاری جمہوری نظام کے بارے میں دی گئی تازہ دھمکی کے حوالے سے بھی رقم کروں ۔

لیکن میری نظروں کے سامنے سوشل میڈیا پر موجود ایک طالبہ کی تقریر کا ویڈیولنک آگیا میں اس معصوم لڑکی کی تقریر سننے لگا تو اس کی آواز اندازِ بیاں میں کھوگیا ۔یہ بچی کون ہے میں نہیں جانتا ،لیکن اس کی تقریر کا ہر جملہ مجھے جھنجوڑ رہا تھا۔اس کی باڈی لینگویج سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کا درد محسوس کرتی ہے ۔ اسے اپنے وطن اور اس کے لوگوں کے حالات سکون سے نہیں رہنے دیتے۔اس جذباتی کیفیت نے میرے دماغ میں یہ بات ڈالی کہ یہ ہے ” دخترِ پاکستان“۔

آئیے میں آپ کو اس دختر کی تقریر سے آپ کو قلم کی زبان میں آگاہ کروں۔اس نے بولنا کچھ اس طرح شروع کیا اور پھر بولتی گئی۔

عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں۔۔۔۔ اب تو اپنے ہی نگہبان سے ڈر لگتا ہے
ڈنکے کی چونٹ پہ ظالم کو برا کہتی ہوں ۔۔۔مجھے سولی سے نہ زندانوں سے ڈر لگتا ہے۔

جناب ِعالیٰ وطن عزیز کے حکمرانوں اور عہدیداران ہاتھ میں کشکول لیئے اغیار کے سامنے ہر وقت بھیک ملنے کے منتظر رہتے ہیں، جونہ صرف اس ملک کے تشخص کو پامال کررہے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو گداگری جیسی شرمناک لعنت سے متعارف بھی کروارہے ہیں۔تاریخ میں ایسی کئی قوموں کے قصے رقم ہیں جن قوموں نے مصلحت کے نام پراپنے سروں کو جھکا کر دست سوال بلند کیا اور بعد میں جن کا انجام بازار میں بکنے والے سفید جسموں کی مانند کمتر اور حقیر بن کر ابھارا۔ ایسا ہی کچھ حال وطن عزیز کا بھی ہے۔
جنابِ عالیٰ !پاکستان پچھلے دس سالوں میں امریکہ سے اٹھارہ بلین ڈالر کی رقم وصول کرچکا ہے۔امدا د پہ امدا لینے کی وجہ جب ان حکمرانوں سے پوچھی جاتی ہے تو جواب یہ ملتا ہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے بھوک اور افلاس انتہا کو ہے لہٰذا امداد لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔تو جنابِ عالیٰ میں نے سوچا کہ ذرا اپنے گھر سے نکل کر دیکھوں کہ امداد پر ملنے والی اس بھیک نے میرے ملک کی عوام کے حالاتِ زندگی کہاں تک بدلے ہیں تو جناب ِ عالیٰ بہت افسوس ہوا بہت افسوس ہوا کہیں میں نے بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کی آوازیں سنیں تو کہیں میں نے وزراءکے فرنگی کتوں کو سیر ہوتے ہوئے دیکھا، کہیں پہ میں نے بازار میں بکتی ہوئی آدم کی بیٹی دیکھی تو کہیں پہ میں نے وزیراعظم کے تن پر لاکھوں کا لباس دیکھا،کہیں پے میں نے اولاد برائے فروخت کے نعرے سنے تو کہیں میں نے وزیر اعظم اور حکمرانوںکے پیچھے جاتی ہوئی دس دس مرسٹیز کو دیکھا، کہیں پہ میں عافیہ صدیقی کی ماں کو اس کے انتطار میں دل مرتے ہوئے دیکھا تو کہیں پر میں نے اس ملک کے حکمرانوں کو امریکہ کی خوشامد میں دن رات ایک ایک کرتے دیکھا ۔میں کیا کیا بتاﺅں کہ میں نے کیا کیا دیکھا۔ ڈرون حملوںمیں مرنے والوں کی لاشوں کو دیکھا، کئی عورتوں کے سہاگوں کو اجڑتے دیکھا،کئی نوجوانوں کو بیروزگار ی کے باعث پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ہاتھوں میں ڈگریاں لیئے جھلستے ہوئے دیکھا۔ کئی بزرگوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پینشن نا ملنے کے باعث ہلاک ہوتے دیکھا۔جنابِ عالیٰ ! میں نے اس ملک کے ہر شہر ہر کوچے میں کربلہ کا میدان دیکھا تو بے اختیار میری زبان پر یہ الفاظ آگئے کہ
” اصول بیچ کے مسند خریدنے والوں نگاہِ اہل وفا میں بہت حقیر ہو تم
وطن کا پاس تھا نہ ہوسکے گاکبھی ، اپنے حرص کے بدلے بے ضمیر ہو تم “۔

جنابِ عالیٰ چند روپوں کے عوض اس ملک کی عزت اور توقیر کو گروی رکھنے والے ان حکمرانوں نے ہم سے ایک غیرت مند قوم کہلانے کا حق چھین لیا ہے ۔آج پاکستان اسی غلامی کی زنجیر سے بندھنے جارہا ہے جس سے آزاد کرانے کے لیئے کئی مسلمانوں نے اپنے لہو سے مقتل گاہوں کو سجایا ہے، کئی آدم کی بیٹیوں نے اپنی عصمتوں کو سرِعام نیلام کروایا تھا،کئی شہیدوں نے جس گلستان کو سجانے کے لیئے اپنا لہو بہایا تھاکیا وہی یہ پاکستان ہے؟۔میں پوچھتی ہوں یہاں بیٹھے ہر شخص سے آپ سے اپنے آپ سے کیا یہ ہی ہے وہ پاکستان؟۔۔۔نہیں! دوسروں کے ٹکروں پے پلنے والا یہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے ۔میں ، میں سلام کرتی ہوں ان تما م قربانیوں کو جو اس ملک کو بچانے کے لیئے لوگوں نے دی،مسلمانوں نے دی لیکن
” دیپ جن کے چند خواہشوں میں چلیں ،
دیپ جن کے صرف چند محلات میں جلیں
چند لوگوں کی خواہشات کو لیکر چلیںجو
کہ مصلحتوں کی خواہشوںمیں پلیں
ایسے دستور کو صبح بے نو ر کو میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا۔۔۔
میںبھی خائف ہوں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو یہ اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی رات کو جہل کی بات کو۔۔۔۔میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا“۔

اس تقریر کو نذرکالم کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اور حکمران یہ جان لیں ، یہ سمجھ لیں کہ اب بچہ بچہ بھی چیخ رہا ہے اس نظام پر جسے مفاد پرست ، بے حس اور بے شرم لوگوں نے کسی بھی طرح قبضہ کیا ہوا ہے کے خلاف آٹھ کھڑا ہونے کا وقت آگیا ہے ۔ہم سب کو سارے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر اس پاکستان کی احیاءکرنی ہے جو قائداعظم کی خواہشات اور دوقومی نظریات کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 152737 views I'm Journalist. .. View More