اکبرکی نثرنگاری

اکبرؔ الٰہ آبادی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے مگر وہ ایک اچھے نثرنگار بھی ہیں۔ انھوں نے ترجمے بھی کیے ہیں گو ان کی نثر میں کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے مگر ان کے خطوط اور چھوٹے بڑے مزاحیہ اور سنجیدہ مضامین اودھ پنچ میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ جو انھوں نے اردو ادب کے مشاہیر کے نام لکھے ہیں۔ اکبرؔ کے زمانے میں اردو ہندی جھگڑا شروع ہو چکاتھا۔ یہ تنازعہ انگریزوں نے ہندو مسلمان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے کیا تھا۔ اس موضوع پر اکبرؔ نے ایک مفصل مضمون لکھا جو کسی فرضی نام سے شائع ہوا تھا کیوں کہ اکبرؔ سرکاری نوکر تھے۔ اس رسالے کا ذکر انھوں نے عبدالماجد دریابادی کے نام خطوط میں کیا ہے۔’’ میں نے بھی ایک بڑا مضمون لکھا تھا وہ ’ایک واقف کار مسلمان‘ کی رائے میں چھپا تھا۔ کیوں کہ میں اس وقت مرزا پور میں سیشن جج تھا اور سر ابیٹی میکڈانل کی گورنمنٹ حامی ہندی تھی اس سبب سے میرا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔‘‘

ولفر ڈسکاون بلنٹ کی قبوجر آف اسلام کا ترجمہ کیا ہے۔ اس کی تمہید میں اکبر نے لکھا ہے کہ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بلنٹ اپنے ہم وطنوں خاص طور پر پارلیمنٹ انگلستان کو اسلام کے حالات پر توجہ دلانے کے لئے تصنیف کی تھی لیکن اکبرؔ کا خیال تھا کہ اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ اکبرؔ نے جب یہ ترجمہ کیا تھا تو وہ علی گڑھ کے منصف تھے۔ اکبرؔ نے بلنٹ سے کلکتہ میں ملاقات کی اور اس سے ترجمہ کی اجازت لی۔ بلنٹ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ دیباچہ ثانی بھی اس کے لئے لکھا۔ اس میں اکبرؔ کے ترجمے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ’’میں نے لفظی ترجمہ کیا ہے اور مصنف کے سلسلہ خیالات کو ذرا برہم ہونے نہیں دیا۔ فقروں کی ترکیب کی پیچیدگی دور کی ہے۔ معانی کو کامل اور روشن کرنے کے لئے ایک لفظ کے ترجمے میں حسب ضرورت دو دو اور تین تین الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن خیالات پیچیدہ کا سہل کرنا میرا کام نہ تھا۔‘‘

اگرچہ شروع کے زمانے کے زیادہ تر خطوط تلف ہو گئے۔ اکبرؔ اس بات سے بہت گھبراتے تھے اور جو ذاتی باتیں اپنے دوستوں کو لکھی ہیں سیاسی معاملات میں بے تکلفی سے جس طرح اظہار خیال کیا ہے وہ برسرعام آئیں۔ اسی لئے جب لوگ ان سے یہ خیال ظاہر کرتے تو اکبرؔ ان کو مختلف وجوہات سے منع کر دیتے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ سوشل مصلحت، پولیٹیکل نزاکت، لٹریری صحت ان باتوں کا خیال نہیں رہتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خطوط چھپنے سے کیا فائدہ۔ میں اہل زبان تو ہوں نہیں اور وقت زبان خود معرض تغیر ہیں ہے۔‘‘

ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’وقت پرآشوب ہے، بدگمانیوں کا دور ہے۔ خطوط اس خیال سے نہیں لکھے گئے کہ وہ شائع ہوں۔‘‘

اس لئے اکبرؔ کے خطوط کے مجموعوں میں زیادہ تر آخر زمانے کے خطوط ہیں جب وہ بوڑھے ہو گئے تھے۔ نوعمر بیٹے کے انتقال کا صدمہ ان پر پڑا تھا۔ طرح طرح کے امراض میں گرفتار تھے۔ اس لئے ان کے خطوط میں ایک افسردہ دل زندگی سے بے زار انسان معلوم ہوتے ہیں۔

’’زندگی رہے (جس کا میں زیادہ شائق نہیں ہوں) تو ملنا ہو گا۔‘‘

’’توانائی نہیں ہے، احباب کا شدید تقاضا مجبور کرتا ہے ورنہ جی چاہتا ہے کہ مفقودالخبر ہو جائوں۔‘‘

’’سوسائٹی کا تعلق خاطرخواہ مجبور کرتا ہےاگر تندرست ہوتا تو جنگلوں اور پہاڑوں میں بھاگ جاتا۔‘‘

’’آپ خیریت پوچھتے ہیں، کوئی اپنا نہیں کہ اپنے مصائب اور تردد بیان کروں۔ ان سے مدد ملوں۔ پائوں کے نیچے آگ ہے اور آگے اندھیرا۔‘‘

بعض لوگوں نے اس پر اظہارِ خیال کیا ہے کہ ان کے خطوط میں وہ شگفتگی نہیں جو ان کی شاعری میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کم ہی سہی مگر بےتکلف دوستوں کو خط لکھتے وقت اکبرؔ نے اپنی جودت طبع کے خوب جوہردکھائے ہیں۔مثلاً دوست نے ان کے خط کے اختصار کی شکایت کی تو اس کی کیا دلچسپ توجیہہ کرتے ہیں ’’اگر میرا خط شب وصل سے بھی زیادہ مختصر تھا تو یہ سبب کہ وصل ملاقات ہے اور ’المکتوب نصف ملاقات‘ مشہور ہے۔ لہٰذا میرا خط نصف شب وصل تھا۔‘‘

’’یونیورسٹی کا میں ایسا خیرخواہ ہوں جیسے انگریزی عملداری کا۔‘‘

’’پا بہ رکاب کیا پیارا محاورہ ہے۔ ابھی گھوڑے پر سوار ہوں گے باگ اپنے ہاتھ میں ہو گی۔ لیکن اب تو ٹکٹ بدست ہوں ۔ کتنا زیادہ صحیح ہے۔‘‘

اکبرؔ کے خطوط کی خوبی یہ ہے کہ ان میں سادگی ہے اور بے ساختگی ہے۔ تصنع کہیں نہیں ہے۔ انھیں بہت زیادہ خط لکھنے کا شوق نہیں تھا۔ نہ وہ غالبؔ کی طرح کثیرالاحباب بھی نہ تھے۔ مگر دوستوں اور گھر والوں کو خط خود بھی لکھتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے۔ کہیں کہیں انھوں نے زبان و بیان، شعر و ادب کے مسائل پر بحث کی ہے۔ اپنے خطوں میں وہ موسم، وقت اور ماحول کی عکاسی بھی بٖے فطری انداز سے کرتے ہیں۔ ایک خط میں اپنے کسی دوست کو اپنے بیٹے کی بارات میں ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’چیت کے مہینے کا آغاز ہے۔ بلکہ عین موسم بہار ہوگا۔ دل تو چاہتا ہے کہ ایک شوخ، طرار، پرکالۂ آتش یہ گاتی ہوئی سامنے آئے ؎
ہے جلوۂ تن در و دیوار بسنتی
پہنے ہے جو پوشاک مرا یار بسنتی

اکبرؔ کے خطوط کی اہمیت ان کی شاعری کے سلسلے میں ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنے خطوط، اپنے اشعار، قطعات اورنظمیں لکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے کلام کی تاریخوں کے تعین میں بڑی مدد ملتی ہے دوسرے وہ اپنے اشعار کا پس منظر علامتوں کی تشریح کرتے ہیں۔ اس سے ان کی شاعری کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ۔ ان کی شخصیت کو سمجھنے میںبھی ان کے خطوط میں معاون ہوتے ہیں۔ ایک دوست کو ان کے مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں ’’خط کا شکریہ دس بارہ دن سے نزلہ میں مبتلا ہوں۔ طبیعت صحیح ہے، پھر جواب لکھوں گا۔ اسلام اور ایمان کے بارے میں آپ نے جو لکھا ہے بعض لوگوں نے نادانی سے اس کو مذہبی بحث سمجھا ہے۔ یہ نری حماقت ہے۔ ایمان نہیں تو اسلام کیسا؟ اسلام نہیں تو ایمان کیا؟ یہ ایک لٹریچری بحث ہے۔ آپ میرے پاس ہوئے تو میں آپ کو سمجھا دیتا اور آپ کی تشفی ہو جاتی۔ اس وقت میں نہیں لکھ سکتا۔ اگر آپ سے ملاقات ہوئی تو خوب ہے ورنہ فرصت میں لکھوں گا۔ لوگ کسی ایک آیت کو دیکھ کر لے اڑتے ہیں، تمام قرآن مجید پر نظر چاہیے۔ ہر ریلسجسی سرکل میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے اور لاعلاج ہے۔‘‘

’’کاپی کلیات رجسٹری کر کے بھیج دی ہے۔ یہ ترتیب عشرت سلمہٗ نے کی ہے۔ ایک مدت دراز کا مجموعہ ہے۔ جس وقت جو ترنگ آئی موزوں ہو گئی اور سوم و دوّم و اوّل کا کچھ لحاظ زمانے کا رکھا گیا ہے۔ ظرافت اور اشعار متفرق بالکل مخلوط ہیں۔ بعض ظرافت جو بظاہر نہایت شوخ اور شدید زمانہ ہے۔ درحقیقت ایک پولیٹکل خیال کا اظہار ہے۔ لبرٹی اور سیلف گورنمنٹ کو قرار دیا ہے۔ اعلیٰ عہدوں کو وصل سمجھا اور مسلم پالیسی کو عاشق، لکھ دیا ؎
خاطر کو نہ حجت کی نہ غائب کی تلاش
کیوں وصل میں جستجو مکر کی وہ کرے

’’آگرہ اس وقت قومی تحریکوں کا مرکز ہو رہا ہے کھرے اور کھوٹے سب جمع ہیں آپ کو نقادی کا خوب موقع ہے ؎
جوں خلق بہر کرسمس بہر دیار روند
بلا کشان ترقی بہ لکچرار روند

غم اور سردی کی شدت میرے غم کا کیا پوچھنا ورنہ ہم اس کے مصداق ہوتے ؎
نہیں معلوم منزل ہے کدھر کس سمت جاتے ہیں
مچا ہے قافلے میں شور ہم بھی غل مچاتے ہیں

ڈاکٹر سیّد عبداللہ خطوطِ اکبر کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’اکبرؔ الٰہ آبادی کے خطوط دلچسپ بھی ہیں اور مختصر بھی۔ اختصار کی خشکی، ظرافت اور اکثر موقعوں پر اپنے ہی اشعار سے دور کر جاتے ہیں۔‘‘

ایک اور نقاد نے ان کے خطوط کے بارے مین یوں اظہار خیال کیا ہے۔ ’’ان کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ وہ طویل علمی مباحثوں سے معمور ہیں اور نہ ہی لمبی لمبی خودکلامیوں پر مبنی ہیں۔ وہ نہایت اختصار سے مکتوب الیہ تک اپنی بات پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان کے جملے مختصر، سیدھے سادے، صاف واضح ہر قسم کی بناوٹ سے پاک ہیں۔‘‘

اکبرؔ نے مختلف لوگوں کی کتابوں پر دیباچے بھی لکھے ہیں جو مختلف کتابوں اور رسالوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً ۱۹۰۴ء میں زمانہ کے ستمبر کے شمارے میں کنور عبدالغفور خاں رئیس علی گڑھ اور بلند شہر کا سفرنامہ ’’سفر امریکہ‘ کے عنوان سے شائع ہو رکھا تھا۔ اس پر اکبرؔ نے تمہید کے طور پر سفر کی اہمیت کے عنوان سے شائع ہو رہا تھا۔ اس پر اکبرؔ نے تمہید کے طور پر سفر کی اہمیت پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھا ہے اور ’’سفر امریکہ‘‘ پر اظہار خیال کیا ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی کے سب سے پہلے مجموعۂ نثر و نظم پر اکبرؔ نے دیباچہ لکھا ہے۔ جیسے اس زمانے میں تفریظ لکھا جاتا تھا۔

اودھ پنچ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں وہ زیادہ تر مزاحیہ ہیں۔ جن میں کسی بھی سیاسی، سماجی واقعہ پر مزاحیہ یا طنزیہ انداز ہے اظہار خیال کیا گیا ہے۔اس میں نئی روشنی کے لوگوں کو بھی طنزومزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مثلاً ایک مضمون میں سوائے اونٹ کے سب سواریاں موقوف اس میں اکبرؔ نے ان قدامت پرست مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے۔ جو لکیر کے فقیر ہیں ’’تم بھی برطرف یعنی حضرت خضر‘‘اس کا موضوع سرسیّد کے مذہب کے بارے میں تاویلات ہیں۔ ’’لوگ سچ کہتے ہیں کہ حضرت خضر کی عمر بڑی ہے۔ مدت دراز سے سیّد صاحب اپنی تخلیق کی تلوار سے مذہبی چیزوں کو ملک عدم کی طرف کھٹا کھٹ بھیج رہے ہیں لیکن اب تک حضرت خضر بچے ہوئے ہیں۔‘‘

اودھ پنچ میں داغ کے ایک شعر پر بحث چلی کہ اس کے دونوں مصرعے مربوط نہیں ہیں۔ شعر یہ ہے ؎
آنسو نہ پیے جائیں گے اے ناصح ناداں
ہیرے کی کنی جان کے کھائی نہیں جاتی

اکبرؔ نے داغ اور ہیرا نام سے ایک مضمون لکھا جو ان کی تنقیدی بصیرت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اکبرؔ لکھتے ہیں ’’حسن زبان اور حسن خیال کے امتزاج سے عمدہ شعر پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نےحسن خیال سے بہت کچھ قطع نظر کی ہے اور حسن زباں کو اس قدر روندا ہے کہ غالباً زبان رہ گئی حسن جاتا رہا ۔۔۔۔۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف حسن خیال یا خیالات مفید کے طرف دار ہیں۔ ہرگز نہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ حالی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ’’ہمارے مولانا حالی بھی کسی زمانے میں اچھے شاعر تھے لیکن حضرت نے اب حسن خیال کی دھن میں حسن بیان سے قطع نظر کی ہے، اور حسن خیال کو اس قدر روندا ہے کہ حسن جاتا رہا اور خیال ہی خیال رہ گیا۔‘‘

یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو میں فورٹ ولیم کالج کی نثر وجود میں آگئی تھی۔ اودھ پنچ کے نثر نگار قدیم نثر کے دلدادہ تھے۔ اکبرؔ کی نثر کا جہاں تک تعلق ہے اس کو ان دونوں کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اکبرؔ کی نثری تصانیف بہت کم ہیں مگر جو ہیں ان میں تنوع ہے اور وہ اچھی نثر کا نمونہ ہیں۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646864 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More