اردو شاعری میں اکبر کا مقام

اردو شاعری میں اکبر کو وہ مقام نہیں ملاجس کے اصل میں وہ مستحق تھے۔ اس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی شاعری کا بڑا حصہ طنزیہ و مزاحیہ ہے، دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنے وقت کی سب سے بڑی ترقی پسند تحریک اور اس زمانے کے قائد سر سیّد کو اپنے طنزومزاح اور تنقید کا نشانہ بنایا۔ مغربی تعلیم اور تہذیب کی مخالفت کی اور جدید چیزوں کا مذاق اڑایا۔

جہاں تک طنزومزاح کا تعلق ہے اس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ محض ایک خوش وقتی ہے اور دل بہلانے کا ذریعہ ہے یا طنز کر کے اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑنا ہے۔ طنزومزاح کے اسلوب میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ایک تو ان میں شدت بہت ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں شاعر حددرجہ مبالغہ سےکام لیتا ہے دوسرے بادی النظر جو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ اصل میں نہیں ہوتے بلکہ ان الفاظ ا ور پیرایۂ بیان میں اور معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ طنز و مزاح نگار کی نظر کسی فرد، کسی رویے، کسی بات کے مضحک پہلو پر جاتی ہے جس کو وہ اپنے انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ مضحک پہلو ابھر کر سامنے آ جائے۔ لوگوں پر اس کا فوری ردعمل ہو تو یہ ہو کہ وہ ہنس پڑیں مگر اس کے بعد اس پر غور کریں۔ طنز میں درد، ناکام آرزوئوں کی تلخی، غلط باتوں پر غصہ، اصلاح کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اور ظرافت میں کھلم کھلا یا اشاروں میں کسی چیز یا رویے کے بھونڈے یا بے تکے پن کو دکھایا جاتا ہے۔

طنزومزاح کا مقصد ہنسی ہنسی میں لوگوں کو معاشرے کی کمیوں اور کجیوں کو دکھانا ہے۔ اکبر کی شاعری کا مطالعہ بغور کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اکبرؔ کے طنزومزاح کا مقصد یہی تھا۔

اکبرؔ کا زمانہ وہ تھا جب معاشرہ افراتفری کا شکار تھا جس کی عکاسی اکبرؔ کا یہ قطعہ بہت خوبی سے کرتا ہے۔

قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ
تو صاف کہتے ہیں کہ رنگ ہے میلا
جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں تو
اپنی قوم مچاتی ہے ہائے واویلا
ادھر یہ ضد ہے کہ لیمونڈ بھی چھو نہیں سکتے
ادھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مئے لا
ادھر دفتر تدبیر و مصلحت ناپاک
ادھر ہے ولی، ولایت کی ڈاک کا تھیلا
جو اعتدال کی کہیے تو وہ ادھر نہ ادھر
زیادہ حد سے دیئے سب نے ہیں پھیلا

اور ان کا یہ قطعہ جس کو واقعی لوگوں نے ایک لطیفہ سمجھ کر نظرانداز کردیا ہے۔ اس میں اکبرؔ نے کس خوبی سے مسلمانوں کی بےعلمی کی تصویر کھینچی ہے۔ اس پر کم ہی لوگوں کی نظر گئی ہے۔
خدا حافظ مسلمانوں کا اے اکبرؔ
ہمیں ان کی خوشحالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاید منصور کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس
سنائوں تم کو ایک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے بی اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلادقت میں بن جائوں تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس

بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
اگر یہ شرط ٹھہری وصل لیلیٰ کی
تو استعفا مرا بہ حسرت و یاس

اکبرؔ کو اعتراض اس پر تھا اور کیا غلط تھا۔
نئی نئی لگ رہی ہیں آنچیں یہ قوم بے کس پگھل رہی ہے
نہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے عجب سانچے میں ڈھل رہی ہے
وہ تو کہتے ہیں ؎
ہوش میں رہ کے کرو دور نقائص اپنے
مغربی لوگ تو مست اپنے کمالات میں ہیں

سر میں سودا آخرت کا ہو یہی مقصود ہے
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ

عزم کر تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لطف کیا ہے لدیے موٹر پہ زر کے زور سے
غیرملکوں میں ہنر کو سیکھ تکلیفیں اٹھا
روکتے ہیں وہ اگر اپنے ہنر کے زور سے
کون کہتا ہے کہ تو علم نہ پڑھ عقل نہ سیکھ
کون سنتا ہے کہ نہ کر حسرتِ لندن پیدا
بس یہ کہتا ہوں کہ ملت کے معنی کو نہ بھول

اکبرؔ جدید تصورات زندگی کو اس لیے قبول کرنے کے مخالف تھے کہ حاکم قوم کا علم ہے بلکہ غوروفکر کے بعد جو چیزیں ہماری قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ان کو قبول کرنا چاہیے۔ وہ سیاسی غلامی سے زیادہ ذہنی غلامی کے خلاف تھے۔ جس کی طرف ہندوستانی قوم بغیر جانے بوجھے جا رہی تھی۔ وہ اس بات کے خلاف تھے کہ ہم اپنے ماضی، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور مذہب کو فراموش کرکے مغرب کی تقلید کریں کہ مہذب بننے کا یہی طریقہ سکھایا جا رہا تھا۔ جو تعلیم دی جا رہی تھی وہ سرکاری تھی ؎
انجن آیا نکل گیا زن سے
سن لیا نام آگ پانی کا
علم پورا ہمیں لکھائیں اگر
تب کریں شکر مہربانی کا

اکبرؔ نے صرف ایک ہی شعر میں اس وقت کے تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہےمیں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پینشن ملی اور مر گئے

یہ صحیح نہیں ہے کہ اکبرؔ نے طنزومزاح کو اس لئے اپنایا کہ وہ حکومت سے ڈرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اصل میں طنزومزاح سے انھیں فطری مناسبت تھی اور ان کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے اعلیٰ درجے کے طنزومزاح سے روشناس کرایا۔ اکبرؔ نے ایک خط میں کسی کو لکھا ہے۔ ’’ایسی ظرافت جو نری ظرافت ہو اور اس کے اندر کوئی اخلاقی نصیحت نہ ہو یا کوئی مذہبی و سوشل و فلسفیانہ نکتہ پیدا نہ ہو اچھی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ طنزیہ اور مزاحیہ ادب کی اہمیت کسی طرح سنجیدہ ادب سے کم نہیں ہے۔ ادب کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے اور انسانی زندگی مجموعی طور پر دکھوں، ناکامیوں اور پریشانیوں سے عبارت ہے۔ اس میں طنز ومزاح کی چاشنی لطف پیدا کرتی ہے۔ ہنسنا ہنسانا انسانی جبلت ہے اور اس کے سہارے انسان اپنی زندگی کی دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس پر اور کیوں ہنسا جا رہا ہے۔ ہنسی کسی فرد یا جماعت کی دل آزاری کا سبب بھی بن سکتی ہے اور فرحت وانبساط کا بھی۔ اسی طرح طنز، عیب جوئی، طعن اور اعتراض بھی ہوسکتا ہے اور سماج کے غیرمعتدل رویوں، ریاکاری اور سماجی برائیوں کی طرف ہوتو وہ بامقصد ہوجاتا ہے۔ عام طور پر منفی بات اتنی آسانی سے اثر نہیں کرتی جتنی طنزیہ۔

اکبرؔ نے اپنے طنزومزاح سے معاشرے کی اصلاح کا کام کیا اور ہر قسم کے سیاسی، سماجی اور ادبی نظریات کی کمیوں کو نشانہ تمسخر بنایا۔ ان کو جہاں بھی بےاعتدالی یا کجی نظر آئی انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اس کی طرف متوجہ کیا۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ جلتا ہے آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے

چھوڑ کر لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ختم کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا

ان شعروں کو سرسری انداز سے پڑھ کر یہ رائے قائم کر لی جاتی کہ اکبرؔ ہوٹل، اسپتال، ٹائپ، پائپ، اسکول، ڈبل روٹی، کلرکی ہر چیز کے خلاف تھے۔ اس اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف سیدھے سادے الفاظ نہیں ہیں، اکبرؔ نے ان کو علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کو اسکول جانے پر اعتراض نہیں ہے مگر وہاں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس میں نہ اپنی زبان و ادب کی جگہ ہے نہ تعلیم کی۔

مہذب ہونے کا مطلب ہوٹلوں میں رہنا اور اسپتال جا کر مرنا سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا مطلب ڈبل روٹی کھانا اور زندگی کی معراج کلرکی بن گئی ہے۔ اس میں بھی وہ اس پر معترض ہیں کہ لوگ غزالی اور رومی کو کیوں نہیں سنتے
غزالی و رومی کو بھلا کون سنے گا
محفل میں چھڑا نغمہ اسپنئرمل ہے

اپنی ایک نظم ’’چاہا جو میں نے ان سے طریق عمل پہ وعظ‘‘ میں اس زمانے میں کس قسم کی طرزِزندگی کو اپنایا جا رہا ہے اس کا نقشہ بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

چاہا جو میں نے ان سے طریقِ عمل پہ وعظ
بولے کہ نظم ذیل کو ارقام کیجئے
پیدا ہوئے ہیں ہند میں اس عہد میں جو آپ
خالق کا شکر کیجئے آرام کیجئے
بے انتہا مفید ہیں یہ مغربی علوم
تحصیل ان کی بھی سحر و شام کیجئے
ہو جائیے طریقہ مغرب پہ مطمئن
خاطر سے محو خطرہ انجام کیجئے
رکھیے نمود و شہرت و اعزاز پہ نظر
دولت کو صرف کیجئے آرام کیجئے
سامان جمع کیجئے کوٹھی بنائیے
باصد خلوص دعوت حکام کیجئے
قومی ترقیوں کے مشاغل بھی ضرور
اس مد میں بھی ضرور کوئی کام کیجئے
جو چاہیے وہ کیجئے بس یہ ضرور ہے
ہر انجمن میں دعویٔ اسلام کیجئے
لیکن نہ بن پڑیں جو یہ باتیں حضور سے
مردوں کے ساتھ قبر میں آرام کیجئے
اکبرؔ نے خود اپنا بھی مذاق اڑایا ہے
مدخولۂ گورنمنٹ اکبرؔ اگر نہ ہوتا
تو اس کو پاتے گاندھی کی گوپیوں میں

اکبرؔ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں مغربی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں مگر خود اپنے بیٹے کو انگلستان بھیجا۔ اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ہے کہ اکبرؔ مغربی تعلیم کے خلاف تھے نہ جدید تہذیب کے مگر اس تعلیم کے خلاف تھے جو انگریز غلام بنانے کے لئے ہندوستانیوں کو دے رہے تھے۔ وہ اس مغربی مغربی تہذیب کا نمونہ پیش کر رہے تھے جو اصل میں مغربی تہذیب نہیں تھی اس کا مقصد ایسے ہندوستانی پیدا کرنا تھا جو صرف زنگ میں ہندوستانی ہوں اور ان میں کوئی چیز ہندوستانی نہ ہو۔ جو ہمیشہ انگریزوں سے مرعوب بھی رہیں اور اس کی نظر کرم کے محتاج بھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اکبرؔ بھی اس زمانے کا حصہ اور جانتے تھے کہ اگر زمانے کے موافق اپنے بیٹے کو تعلیم نہیں دی تو اس پر ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس لئے انھوں نے اپنے بیٹے عشرت حسین کو لندن بھیجا، اور اس نے بھی وہی کیا جو عام طور پر وہاں جا کر لڑکے کرتے تھے۔ ایک انگریز لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا اور سات سال لندن میں لگا دیئے۔ اس موضوع پر اکبرؔ الہ آبادی نے جو اشعار اور نظمیں کہی ہیں وہ بہت دلسوز ہیں اور یہ ان کا ذاتی المیہ نہیں اس زمانے کے اکثر ماں باپ کا المیہ تھا۔
ہند میں، میں ہوں مرا نورِ نظر لندن میں ہے
سینہ پر غم ہے یاں لخت جگر لندن میں ہے
دفتر تدبیر کو کھول گیا ہے ہند میں
فیصلہ قسمت کا اے اکبرؔ مگر لندن میں ہے
عشریت گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سایۂ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں میں ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جودوعطا بھول گئے
نقل مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
لندن کو چھوڑ لڑکے اب ہند کی خبر لے
بنتی رہیں گی باتیں آباد گھر تو کر لے
انگلش کر کے کاپی دنیا کی راہ ناپی
اپنی ترقی میں بھی اپنے قدم کو دھر لے
ٹیچر پکارتا ہے، ہے اصل نسل تیری
کہتی ہے ہسٹری بھی بس جا اور اپنا گھر لے
مغرب کے مرشدوں سے تو پڑھ حکایت کچھ
پیرانِ مشرقی سے اب فیض کی نظر لے
میں بھی ہوں اک سخن ور آ سن کلام اکبرؔ
ان موتیوں سے آ کر دامن کو اپنے بھر لے

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکبرؔ کی شاعری کا سلسلہ اقبال کی شاعری سے ملتا ہے۔ اقبالؔ نے اکبرؔ کو اپنا استاد معنوی کہا ہے۔ اپنے اشعار میں اکبرؔ کا ذکر کیا ہے اور ان سے متاثر ہو کر ان کے رنگ میں مزاحیہ شاعری بھی کی ہے۔ اور چوں کہ اقبالؔ اور اکبرؔ کے موضوعات میں بھی مماثلت ہے اکثر لوگ اقبالؔ کے مزاحیہ اشعار کو اکبرؔ سے منسوب کر دیتے ہیں۔ خاص طور سے ان کے تعلیم نسواں کے موضوعات پر جو شعر ہیں، جیسے
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

مگر اقبالؔ کو طنزومزاح سے فطری مناسبت نہیں تھی اس لیے انھوں نے طنزیہ مزاحیہ اسلوب کو ترک کر دیا۔ مگر ان کے ظریفانہ کلام کو اکبری اقبال کہا جا سکتا ہے۔

اکبرؔ کو بھی اقبالؔ دل سے پسند تھے وہ ان کو اپنا ہم خیال سمجھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
امانت عشق کی بعد اپنے کیا جانے ملے کس کو
نہیں جائے کسی کے سر یہ دردِ سر اپنا

مدت کا پرانا شعر ہے۔ دیکھا جو بارِ غم میرے پر مستولی تھا آپ نے اٹھا لیا۔ ایک شعر میں اقبالؔ کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں۔
دعویٔ علم و خرد میں جوش تھا اکبرؔ کو
ہو گیا ساکت مگر جب ذکر اقبالؔ آ گیا

اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیبی اقدار سے محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ اس زمانے کے سیاست کے اتار چڑھائو کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ انگریزی حکومت کی سیاسی چالوں، ہندوستانیوں میں انگریزوں کے مخالف و موافق تحریکوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ’’اردو ادب میں طنزوظرافت کا سلیقہ و صحیفہ غالبؔ اور اکبرؔ کا دیا ہوا ہے۔‘‘

اکبرؔ نے اپنی شاعری میں اس پر زور دیا ہے کہ وقت کے ساتھ چلنے کی دھن میں ہم اپنا ماضی اپنی تہذیب نہ فراموش کر بیٹھیں بلکہ اپنا مستقبل ان کی بنیادوں پر تعمیر کریں۔ اکبرؔ کی آواز اپنے زمانے کی مخالف آواز ہے جس کی افادیت ہم پر وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوگی۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646837 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More