سیاست نہیں، ریاست بچاﺅ

23دسمبر کو مینار پاکستان ،لاہور میں ہونے والے فقید المثال جلسے نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمند ر نے حکمران جماعت اور دیگر سیاسی جماعتوں پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ اب مزید خوان خرابہ،کرپشن،ڈرون حملے ،بے روزگاری، ملک کی خودمختاری وسلامتی،آئین پاکستان کے برعکس ا قدامات کی پُر زور مذمت کرتے ہیں اورسیا ست کا کھیل کھیل کر ریاست بیچنے والوں کاکٹہرا احتساب چاہتے ہیں نیز گذشتہ 65سالوں میں جو کچھ اس ملک اور عوام کے ساتھ کیا گیا ہے اس کے ازالے کے اب خواہشمند ہیں اور اس کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو ہی بدل دیا جائے جو کہ اس ابتر صورتحال کا ذمہ داری ہے۔انہی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے پانچ سال کے بعد کینیڈا سے وطن واپسی کا رخت سفر بندھا اور عوام نے تاریخی جلسے میں شرکت کر کے نہ صرف انکو وطن واپسی پر خوش آمدید کہا بلکہ ان کے ساتھ مل کر نظام بدلنے کی جہدوجہد میںشریک ہوکر ملک میں نظام بدلنے کی تحریک کا بھی آغاز کر دیا ہے ۔
 

image

بہت سے لوگ جن میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد بھی شامل ہیں ابھی تک حیران ہ پریشان ہیں کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب اس قدر پاکستان میں مقبولیت کیسے حاصل کر گئے ہیں ، جبکہ وہ پچھلے پانچ سالوں سے دیار غیر میں مقیم ہیں اور عوام سے رابطہ بھی الطاف حسین صاحب کی طرح نہیں رکھا ہوا ہے۔ پھر بھی لوگ محض انکے کہنے پر اس قدر تعداد میں آگئے ہیں کہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی سو چ میں پڑی ہوئی ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ تصویر کا ایک ہی رخ دیکھ رہے ہیں دوسری طرح نظر کرم کرنے کی ضرورت نہیںمحسوس کر رہے ہیں کہ وہ ابھی تک کیا کچھ کارنامے سرانجام دے چکے ہیں؟ کیا عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرول وسی این جی ،بجلی کی روز بروز نرخوں میں اضافے کی شرح کو بھول جائے؟ ملک کے بڑ ے شہروں میں روزانہ ہی قتل عام چاہے وہ خود کش حملوں کی صورت میں ہو یا پھر فرقہ واریت کا تسلسل ہو جاری ہے اور کھلم کھلا دہشت گردی کرنے والوں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، جبکہ حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سب میں تمام جماعتیں کہیں نہ کہیں کسی طور ملوث ہیں اور سب اپنے مفاد کی خاطر چپ ہیں کہ یہاں عوام کا کس نے سوچا ہے؟

گذشتہ پینسٹھ سالوں سے پاکستانی عوام بے شمار مسائل کا شکار ہے اور ابھی تک کسی نے بھی انکے حل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے ۔ اتنے برسوں کے سفر میں ماسوائے اٹیمی قوت کے حصول کے کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی ماسوائے چند شعبوں میں نہ تو ہمارے سیاست دانوں اور نہ ہی فوجی حکمران لا سکے۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ سماجی قدروں میں بھی بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ لوگ محض دال روٹی کے چکر میں پھنس کر ہی رہ گئے ہیں ۔ اپنے مفاد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو چکے ہیں؟ ہمارے جمہوریت کے دعوی دار سیاسی کھلاڑیوں کا نامہ اعمال تو قرضے معاف کرنے والوں اور این آر او سے مستفید ہونے کی فہرستیںدیکھ کر بخوبی لگا یا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہ قوم کی راہنما کس حد تک قوم کی خوشحالی کی بجائے روپے پیسے کے پچاری بن چکے ہیں دولت کے حصول کی خاطر جعلی ڈگری تک لے سکتے ہیں؟صرف اپنے ذاتی مفاد اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر قوم کو ذلت و رسوائی کی دلدل میںزندگی گذارنے پر مجبور کرنا انکا متاع نظربن چکا ہے؟
 

image

تاریخ ساز جلسے کی کامیابی ناقدین سے ہضم نہیں ہو پا رہی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پر اب تنقید کی بارش بھی ہونا شروع ہو گئی ہے کہ وہ ملک سے باہر کیوں گئے تھے اب کس کے کہنے پر واپسی ہوئی ہے؟جلسے کی تشہیر پر اس قدر رقوم کیوں خرچ کی گئی ہیں اور کس نے اسقدر روپیہ انکو فراہم کیا ہوگا؟جبکہ ایم کیو ایم کے چیئر مین الطاف حسین کی انکو مبارک باداور انکے ارکان کی جلسے میں آمد بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک وشہبات پیدا کر رہی ہے کہ درپردہ کون کھیل رہا ہے؟جب انکے خلاف پروپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے انہوں نے اسلامی تعلیمات کی درست تشریح نہیں کی ہے اور انکے بیانات کو توڑ مروڑ کر بھی پیش کیا جاتھا رہا ہے اور ابھی بھی ایسا ہی مکروہ فعل جاری ہے تاکہ انکی مقبو لیت کی شرح میں کمی لائی جا سکے اور انکے سیاست نہیں ،ریاست بچاﺅ کے نعرے کو ناکام اورتبدیلی نطام کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جائے تاکہ مفاد پرستوں کی دکانداری چلتی رہے۔مگر نااقدین کو یہ بات پتا ہونی چاہیے کہ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو پھر ختم ہو جاتا ہے یا پھر کوئی مسیحا آتا ہے جو سب کو ٹھیک کر دیتا ہے اور ڈاکٹر صاحب ایک مسیحا کی مانند اس ملک کے عوام کی مسیحائی کرنے آئے ہیں جو آزمائے ہوئے لیڈران کو آزما آزما کر اور حالات سے تنگ آچکے ہیں اور اب ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے ظاہر القادری صاحب جیسے انسان یا عمران خان جیسے شخص کو اپنی آخری امید کے طو ر پر دیکھ رہے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی جس کو وہ پہلے آزما چکے ہیں سے کوئی مزید انقلاب کی توقع نہیں رکھ رہے ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے حلفیہ بیان کے بھی بھی لوگ ان پر تنقید کرنے سے باز نہیں آئے ہیں جن میں بڑے بڑے نامی گرامی شخصیتیں سیاست و دیگر شعبہ ہائے زندگی کی شامل ہیں اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ تنقید کرنا ،تعریف کرنے سے زیادہ آسان عمل ہے اور تنقید کرنے والے اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کرنے سے گریز کر رہے ہیں انکو سوچنا چاہیے کہ جب تبدیلی یا انقلاب آتا ہے تووہ خاموشی سے آتا ہے اور سب کچھ بدل دیتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کا جلسہ ہر لحاط سے متظم تھا اور ان سے اب اسی نظم وضبط کے ساتھ ملک میں نظام کے بدلنے کی توقع ملک کے طول وعرض میں مقیم پاکستانیوں کی خواہش ہے۔راقم الحروف کو اس جلسے میں شرکت کا موقعہ ملا ہے اگرچہ راقم الحروف کا تعلق کسی سیاسی و سماجی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہے مگر پھر بھی محض ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی صاف گوئی نے گروید ہ بنا لیا اور شرکت کے لئے بلا زور وجبر جلسے میں دیگر افراد کی مانند شرکت کی،وہاں تمام شرکاءاپنی مرضی سے گئے کہ وہ سب اب تبدیلی کے خواہاں تھے اور جلسے کے مقررہ وقت سے قبل جلسہ گاہ پہنچ جانا بذات خود ایک انقلابی سوچ ہے کہ وہ سب اپنے قائد کے ساتھ مل کر تبدیلی نظام چاہ رہے ہیں ۔راقم الحروف بحیثیت ایک پاکستانی شہری کے اس بات کا خواہاں ہے کہ نظام میں تبدیلی اور آئین کی پاسداری کی بات کرنے والے کی بات کو توجہ سے سن کر اور دل کی آواز پر عمل کرنا چاہیے اور ملک سے ہر طرح کی انصافی ختم کرنے والے ہر شخص کا ساتھ دینا چاہیے اور ایسے شخص کو جو ملک کی وفاداری کی بات کرے ،حلف لے کر بات کہے تو اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے کہ ایسے شخص پر بے بنیاد الزامات کی بارش کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا چاہے کہ ہم خود کتنے پانی میں ہیں؟جہاں اتنے نااہل لوگوں کو آزما کر کچھ نہیں پا سکے تو ڈاکٹر صاحب جیسے محب وطن شہری اورلیڈرکو ملک سنوارنے کا کم ازکم ایک موقعہ تو دینا چاہیے؟

لیکن اب یہ سب کچھ عوام پر منحصر ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنی ووٹ کی طاقت سے کس کو اقتدار میں لاتے ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم عوام ہیں کہ ہر وقت ان کو ہی آزماتے رہتے ہیںجو ہمارا خون تک رگوں سے چوس جاتے ہیں۔ کبھی نئے آنے والے اچھے اور مخلص سیاست دانوں کی قدر نہیں کرتے ہیں ؟کیا ہمارے مقدر میں بدکردار اوربددیانت لوگ ہی رہنمائی کے قابل رہ گئے ہیں؟کیا ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور عمران خان جیسے لوگ جو ابھی پاکستان میں موجود ہیں جو حق اور سچ پر مبنی بات کرتے ہیں اور ملک وقوم سے وفاداری پر کسی کو شک وشبہ نہیں ہے ، کو موقع دے کر اقتدار میں لانا ملک سے غداری ہے اگر نہیں تو پھر بات صرف انکو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لائیں اور ملک کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیں تاکہ خاندانی سیاست کا اثرو رسوخ کا خاتمہ ہو سکے اورہمیں مخلص قائد مل سکیں اور ملک بھی استحکام و خوشحالی کی راہ پر گامز ن ہو سکے اورہمیںقائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا موقعہ مل سکے۔ہمیں اب اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس انداز حکمرانی کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ہماری آنے والی نسلیں بلکہ ہمارے ملک کو بھی خوشحالی اور استحکام مل سکے۔ ہمیں مل کر اپنی اور اپنے ملک کی تقدیر بدلنی ہوگی اور اسکے لئے نظام بدلنے کی ضرورت ہوگی اور اگر نظام بدلنا ہے تو پھر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ساتھ پاکستان کو بچانے کے لئے دینا ہوگا اور ووٹ ایسے لوگوں کو دینا ہوگا جو ملک کو بچا یا نظام کو بدل سکے، بات صرف تعاون اور فیصلہ کرنے کی ہے ؟ سوچئے اور فیصلہ کیجئے ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اورہم ہاتھ ملتے رہ جائیں؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482109 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More